وزارت پانی وبجلی کا انکشاف

بجلی کے واجبات کی مد میں سرکاری اداروں کے ذمے57 ارب15کروڑ اور نجی سیکٹر کے ذمے3 ارب 91کروڑ سے زائد کے بقایاجات ہیں۔

حکومتی و نجی اداروں اور بااثر شخصیات کے ذمے 61ارب ساڑھے 10کروڑ روپے سے زائد کے بجلی کے واجبات ہیں۔ فوٹو: فائل

قومی اسمبلی میں وزارت پانی وبجلی نے انکشاف کیا ہے کہ حکومتی و نجی اداروں اور بااثر شخصیات کے ذمے 61ارب ساڑھے 10کروڑ روپے سے زائد کے بقایاجات ہیں۔یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان جلد پانی کی شدید قلت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی چوہدری احمد مختار کی جانب سے ایوان کو تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ26500 سرکاری اور 5500 نجی ادارے نادہندہ ہیں۔

سرکاری اداروں کے ذمے57 ارب15کروڑ اور پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے3 ارب 91کروڑ سے زائد کے بقایاجات ہیں۔ ایوان کو یہ بھی بتایا گیا کہ ملک میں فی کس دستیاب پانی کی شرح میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے جو سالانہ ایک ہزار مکعب فٹ تک پہنچ چکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سالانہ فی کس دستیاب پانی 5 ہزار 260 مکعب فٹ تھا، تربیلا ، منگلا اور چشمہ ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہو گئی۔ جہاں تک سرکاری اداروں کی طرف سے سرکاری واجبات کی نادہندگی کا معاملہ ہے تو اس کو اس بنا پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دو یا دو سے زیادہ سرکاری اداروں کا آپس کا معاملہ ہے۔ یعنی یہ وہ رقم ہے جو سرکار نے اپنے ایک جیب سے نکال کر اپنے ہی دوسرے جیب میں ڈالنی ہے۔

لیکن اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی اس بنا پر بھی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ سرکاری اداروں کی دیکھا دیکھی ہی نجی اداروں اور با اثر شخصیات کو نادہندگی کی شہ ملتی ہے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ سرکاری خدمات پیش کرنے والے ادارے عمومی حالات میں تو صرف ایک مہینے کی نادہندگی پر ہی اس سہولت کا کنکشن کاٹ دیتے ہیں خواہ صارف کے ذمے محض چند سو یا چند ہزار کی معمولی سی رقم ہی کیوں نہ نکلتی ہوتوآخر وصولی کرنے والے سرکاری محکمے نے اربوں روپے کی رقم کس طرح نادہندہ نجی صارفوں کی طرف چھوڑ دی؟


بجلی کی فراہمی کرنے والا محکمہ ویسے تو سرکاری اداروں کی نادہندگی بھی برداشت نہیں کرتا اور اسپتالوں تک کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے، ایسی صورت میں سرکاری محکموں کے ذمے 61 ارب سے زاید کی خطیر رقم کس بنیاد پر چھوڑ دی گئی؟ تاہم لین دین کے اس سرکاری جھگڑے سے کہیں زیادہ اہم پانی کی قلت کا مسئلہ ہے جس سے ہمارا وطن عزیز دوچار ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ تربیلا' منگلا اور چشمہ کے ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی بتائی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں انیس کروڑ کی آبادی کے لیے فی کس پانی کی مقدار میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے اور خطرہ ہے کہ پاکستان جلد ہی پانی کی شدید قلت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

یہ انتباہ انتہائی بروقت ہے اور ارباب اختیار پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلہ کے حل کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے وطن عزیز کو اس آمدہ بحران کی زد سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کے تدارک کا بندوبست کریں۔ متذکرہ ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم ہونے کی وجہ ان کی تہہ میں مٹی کا جم جانا ہے جسے اصطلاحی طور پر SILT (سلٹ) کہا جاتا ہے۔

ڈیم کی جدید تعمیر میں پانی کے اخراج کے لیے صرف بالائی Spill way ہی نہیں بنایا جاتا بلکہ پانی کے اخراج کا ایک زیریں اہتمام بھی رکھا جاتا ہے جو جھیل کی تہہ میں آنے والی سلٹ کو وقفے وقفے سے خارج کرنے کے کام آتا ہے اور اس طرح ڈیم کے ذخیرے کی مقدار میں کمی واقع نہیں ہوتی لیکن چونکہ متذکرہ ڈیموں کی تعمیر کے وقت ہمارے ماہرین نے اس اہم نکتے کا خیال نہیں رکھا جس کی بنا پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی گنجائش کم ہوتی رہی۔ اب اس کا حل تو ایک ہی ہے کہ ہم نئے ڈیم کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کر لیں یا پھر تمام پرانے ڈیموں کی سطح مزید بلند کی جائے۔
Load Next Story