لفظوں کے اندر چھپی ہوئی کہانیاں
قرآن میں ایک پیغمبر کا نام ہے ذُلکفل۔ بعض علما کا خیال ہے کہ کفل مہاتما بدھ ہی کا دوسرا نام ہے۔
پچھلے سے پچھلے کالم میں خالد احمد کی کتاب Word for Word کا ذکر تھا۔ اس سے ہمارے بعض دوستوں کو گمان ہوا کہ ہمیں اعتراض ہے کہ یہ کتاب انگریزی میں کیوں ہے۔ غلط۔ ہمارا مطلب یہ تھا کہ کاش یہ کتاب اردو میں چھپتی۔ پھر ہمارے خالد احمد دوسرے مولانا محمد حسین آزاد بن جاتے۔ ویسے جب یہ کالم فرنٹیر پوسٹ' میں چھپ رہا تھا تب ہی ہم نے خالد صاحب سے بعد حیرت استفسار کیا تھا کہ انگریزی اخبار کے کتنے قارئین آپ کی اس اشتقاقیات میں دلچسپی لیتے ہوں گے۔ اس کے قارئین تو آپ کو اردو دنیا میں میسر آئیں گے۔
بالخصوص ہمارے محققین اور نقاد اس کے اصل قارئین ہونے چاہئیں۔ جیسا کہ انھوں نے اپنے اس کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے خود انھیں احساس ہوا کہ انگریزی میں ان کے اس زبردست تحقیقی کام کے قدر دان ندارد ہیں۔ سو انھوں نے اس کالم کا سلسلہ بند کر دیا۔ مگر یاروں کے ہمت بندھانے پر انھوں نے ڈیلی ٹائمز میں یہ کالم پھر شروع کر دیا۔ اور اب ان کالموں کے حوالے سے یہ سارا تحقیقی کام کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اصل میں اردو میں سب سے پہلے یہ کام مولانا محمد حسین آزاد نے کیا تھا جس کا ذکر خالد صاحب نے بھی اپنے دیباچہ میں کیا ہے۔ انھوں نے ایک بسیط مقالہ میں فارسی اور سنسکرت کے کتنے الفاظ میں لسانی مشابہت اجاگر کر کے ان دو زبانوں کے لسانی رشتہ کو اجاگر کیا۔ خالد صاحب نے عربی اور عبرانی میں اسی طرح کا رشتہ بتایا ہے۔ مگر ادھر ہندوئوں سے اور ادھر یہودیوں سے مسلمانوں کی لاگ ڈاٹ ہے۔ اس کے باعث ہم ان لسانی رشتوں کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہیں۔
خالد احمد بتاتے ہیں کہ ادھر ہندوستان سے ناراضگی کے خط موصول ہوئے کہ تم تو ہندو نہیں ہو۔ تمہیں سنسکرت کا کیا پتہ ہے جو اس میں ٹانگ اڑا رہے ہو۔ مطلب یہ کہ تو گدھی کمہار کی' تجھے رام سے کیا کام مگر خالد احمد کہاں باز آنے والے تھے۔
ہاں دیکھیے اس سے پہلے اردو پر کتنا کام انگریزی میں ہو چکا ہے۔ رام بابو سکسینہ نے اردو زبان و ادب کی تاریخ انگریزی میں لکھی تھی۔ اسے مرزا محمد عسکری نے جھٹ پٹ اردو میں ترجمہ کیا اور یہ اضافہ کیا کہ انگریزی میں لکھتے ہوئے شعروں کی مثالیں پیش نہیں ہوئی تھیں۔ مترجم نے مثالوں کے ذیل میں کتنے بہت سے شعر اس تذکرے میں پرو دیے۔ ہماری طالب علمی کے زمانے تک اردو میں ترجمہ ہو کر یہ کتاب اردو زبان و ادب کی سب سے جامع تاریخ تھی۔ پھر ہم نے اس پر تکیہ کیا اور انگریزی اصلی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔
ہمارے زمانے میں اردو پر جو کام انگریزی میں بھی ہوتا ہے اسے آخر اردو میں منتقل کیوں نہیں کیا جاتا۔ آخر یہ مقتدرہ قومی زبان کس مرض کی دوا ہے۔ ادھر ایک تو خالد صاحب کی یہ کتاب آئی۔ اشتقاقیات پر اتنا اہم کام۔ ادھر طارق رحمٰن کا اتنا اہم کام ہمارے سامنے آیا ہے۔ اب تک اردو زبان کی پیدائش اور نشو و نما پر جو کام ہوا ہے اس پر یہ کتاب ایک قیمتی اضافہ ہے۔ پھر فرانسس پریچٹ کی چند کتابیں ہیں۔
آخر یہ مقتدرہ قومی زبان کیا کرتی رہتی ہے۔ اولاً یہ اس کا فرض بنتا ہے کہ اردو زبان کے حوالے سے جو کام انگریزی میں ہو رہا ہے، اس پر نظر رکھے اور ترجمہ کر کے اسے مقتدرہ کی طرف سے شایع کرے۔ اس ادارے کے چیئرمین ابھی تھوڑے عرصے کے لیے ڈاکٹر انوار احمد بنے تھے۔ انھیں سب سے اہم کام یہ نظر آیا کہ اس ادارے کا نام بدل دیا جائے۔ وہ تو ادارے کا نام بدل کر رخصت ہو گئے اور ہم ایسے بھلکڑ پریشان پھرتے ہیں کہ مقتدرہ قومی زبان اب مقتدرہ تو رہی نہیں۔ پھر اب وہ کیا ہے۔
لو ہم کدھر نکل گئے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کتاب سے بھی تھوڑا تعارف ہو جائے۔ لیجیے چند ایک مثالیں پیش خدمت ہیں۔
خالد صاحب نے لفظ شرم کے ڈانڈے انگریزی لفظ 'شیم' Shame سے ملائے ہیں۔ ان کے حساب سے لفظ 'شرم' نے جب سفر کرنا شروع کیا تو حرف آر R یا 'ر' کہیں رستے میں گر پڑا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ روسی زبان میں یہ لفظ 'سرم' ہے یعنی شرم کا 'ر' روسی زبان تک کے سفر میں برقرار رہا ہے۔ انگریزی میں پہنچتے پہنچتے بیچ میں گم ہو گیا۔
کہتے ہیں کہ بعض انگریزی لفظ اردو اور پنجابی کے لفظوں کے بدل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً پنجابی کا ککڑ انگریزی کے کوک Cock سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ اور اگر ککڑ اور کوک Cock دونوں مرغی کے کڑکڑانے سے نکلے ہیں تو لفظ Cuckoo پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ اردو میں ایک پرندے کا نام ہے کویل۔ یہ نام سنسکرت کے لفظ کو کیلا سے برآمد ہوا ہے۔ کوکیلا بھی کویل ہی کو کہتے ہیں۔
اتوار کا دن۔ یہ اتوار کیا ہے۔ ہندی میں سورج بیٹا ہے ادیتی دیوی کا۔ اس لیے وہ ادیتا کہلایا۔ اس سے جو دن منسوب ہوا وہ کہلایا ادیتہ وار۔ وہ بول چال میں آ کر رفتہ رفتہ اتوار بن گیا۔
عبرانی میں ایک لفظ ہے 'کوشر'۔ اس کے معنی ہیں مناسب اور موزوں۔ عربی کا لفظ کوثر اسی کوشر سے مستعار ہے۔ کوثر نکلا ہے کثر سے۔ کثر سے کثرت جس کا مطلب ہے با فراط۔ بہت سا۔ کثیر۔ کوثر۔ حوض کوثر۔ یعنی انبساط بافراط۔
قرآن میں ایک پیغمبر کا نام ہے ذُلکفل۔ بعض علما کا خیال ہے کہ کفل مہاتما بدھ ہی کا دوسرا نام ہے۔ کفل سے دھیان کپل کی طرف جاتا ہے۔ اور کپل کپی نکلا۔ کپی نام تھا بندر کا۔ کپل کی اصل ہے کاپ۔ اس سے اردو کا لفظ کپکپانا نکلا ہے۔ ہندو کپکپاتا بہت ہے۔ سو اس کا نام اگر کپل ہے یا کپی تو سمجھ میں آتا ہے۔
بس اس طرح لفظوں کو خالد صاحب کریدتے چلے گئے ہیں۔ اور ان کی کتاب کا ذیلی عنوان ہے۔
روز مرہ کے لفظوں کی تہہ میں جو کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔
بالخصوص ہمارے محققین اور نقاد اس کے اصل قارئین ہونے چاہئیں۔ جیسا کہ انھوں نے اپنے اس کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے خود انھیں احساس ہوا کہ انگریزی میں ان کے اس زبردست تحقیقی کام کے قدر دان ندارد ہیں۔ سو انھوں نے اس کالم کا سلسلہ بند کر دیا۔ مگر یاروں کے ہمت بندھانے پر انھوں نے ڈیلی ٹائمز میں یہ کالم پھر شروع کر دیا۔ اور اب ان کالموں کے حوالے سے یہ سارا تحقیقی کام کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اصل میں اردو میں سب سے پہلے یہ کام مولانا محمد حسین آزاد نے کیا تھا جس کا ذکر خالد صاحب نے بھی اپنے دیباچہ میں کیا ہے۔ انھوں نے ایک بسیط مقالہ میں فارسی اور سنسکرت کے کتنے الفاظ میں لسانی مشابہت اجاگر کر کے ان دو زبانوں کے لسانی رشتہ کو اجاگر کیا۔ خالد صاحب نے عربی اور عبرانی میں اسی طرح کا رشتہ بتایا ہے۔ مگر ادھر ہندوئوں سے اور ادھر یہودیوں سے مسلمانوں کی لاگ ڈاٹ ہے۔ اس کے باعث ہم ان لسانی رشتوں کو بھی خاطر میں لانے پر تیار نہیں ہیں۔
خالد احمد بتاتے ہیں کہ ادھر ہندوستان سے ناراضگی کے خط موصول ہوئے کہ تم تو ہندو نہیں ہو۔ تمہیں سنسکرت کا کیا پتہ ہے جو اس میں ٹانگ اڑا رہے ہو۔ مطلب یہ کہ تو گدھی کمہار کی' تجھے رام سے کیا کام مگر خالد احمد کہاں باز آنے والے تھے۔
ہاں دیکھیے اس سے پہلے اردو پر کتنا کام انگریزی میں ہو چکا ہے۔ رام بابو سکسینہ نے اردو زبان و ادب کی تاریخ انگریزی میں لکھی تھی۔ اسے مرزا محمد عسکری نے جھٹ پٹ اردو میں ترجمہ کیا اور یہ اضافہ کیا کہ انگریزی میں لکھتے ہوئے شعروں کی مثالیں پیش نہیں ہوئی تھیں۔ مترجم نے مثالوں کے ذیل میں کتنے بہت سے شعر اس تذکرے میں پرو دیے۔ ہماری طالب علمی کے زمانے تک اردو میں ترجمہ ہو کر یہ کتاب اردو زبان و ادب کی سب سے جامع تاریخ تھی۔ پھر ہم نے اس پر تکیہ کیا اور انگریزی اصلی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔
ہمارے زمانے میں اردو پر جو کام انگریزی میں بھی ہوتا ہے اسے آخر اردو میں منتقل کیوں نہیں کیا جاتا۔ آخر یہ مقتدرہ قومی زبان کس مرض کی دوا ہے۔ ادھر ایک تو خالد صاحب کی یہ کتاب آئی۔ اشتقاقیات پر اتنا اہم کام۔ ادھر طارق رحمٰن کا اتنا اہم کام ہمارے سامنے آیا ہے۔ اب تک اردو زبان کی پیدائش اور نشو و نما پر جو کام ہوا ہے اس پر یہ کتاب ایک قیمتی اضافہ ہے۔ پھر فرانسس پریچٹ کی چند کتابیں ہیں۔
آخر یہ مقتدرہ قومی زبان کیا کرتی رہتی ہے۔ اولاً یہ اس کا فرض بنتا ہے کہ اردو زبان کے حوالے سے جو کام انگریزی میں ہو رہا ہے، اس پر نظر رکھے اور ترجمہ کر کے اسے مقتدرہ کی طرف سے شایع کرے۔ اس ادارے کے چیئرمین ابھی تھوڑے عرصے کے لیے ڈاکٹر انوار احمد بنے تھے۔ انھیں سب سے اہم کام یہ نظر آیا کہ اس ادارے کا نام بدل دیا جائے۔ وہ تو ادارے کا نام بدل کر رخصت ہو گئے اور ہم ایسے بھلکڑ پریشان پھرتے ہیں کہ مقتدرہ قومی زبان اب مقتدرہ تو رہی نہیں۔ پھر اب وہ کیا ہے۔
لو ہم کدھر نکل گئے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کتاب سے بھی تھوڑا تعارف ہو جائے۔ لیجیے چند ایک مثالیں پیش خدمت ہیں۔
خالد صاحب نے لفظ شرم کے ڈانڈے انگریزی لفظ 'شیم' Shame سے ملائے ہیں۔ ان کے حساب سے لفظ 'شرم' نے جب سفر کرنا شروع کیا تو حرف آر R یا 'ر' کہیں رستے میں گر پڑا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ روسی زبان میں یہ لفظ 'سرم' ہے یعنی شرم کا 'ر' روسی زبان تک کے سفر میں برقرار رہا ہے۔ انگریزی میں پہنچتے پہنچتے بیچ میں گم ہو گیا۔
کہتے ہیں کہ بعض انگریزی لفظ اردو اور پنجابی کے لفظوں کے بدل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً پنجابی کا ککڑ انگریزی کے کوک Cock سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ اور اگر ککڑ اور کوک Cock دونوں مرغی کے کڑکڑانے سے نکلے ہیں تو لفظ Cuckoo پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ اردو میں ایک پرندے کا نام ہے کویل۔ یہ نام سنسکرت کے لفظ کو کیلا سے برآمد ہوا ہے۔ کوکیلا بھی کویل ہی کو کہتے ہیں۔
اتوار کا دن۔ یہ اتوار کیا ہے۔ ہندی میں سورج بیٹا ہے ادیتی دیوی کا۔ اس لیے وہ ادیتا کہلایا۔ اس سے جو دن منسوب ہوا وہ کہلایا ادیتہ وار۔ وہ بول چال میں آ کر رفتہ رفتہ اتوار بن گیا۔
عبرانی میں ایک لفظ ہے 'کوشر'۔ اس کے معنی ہیں مناسب اور موزوں۔ عربی کا لفظ کوثر اسی کوشر سے مستعار ہے۔ کوثر نکلا ہے کثر سے۔ کثر سے کثرت جس کا مطلب ہے با فراط۔ بہت سا۔ کثیر۔ کوثر۔ حوض کوثر۔ یعنی انبساط بافراط۔
قرآن میں ایک پیغمبر کا نام ہے ذُلکفل۔ بعض علما کا خیال ہے کہ کفل مہاتما بدھ ہی کا دوسرا نام ہے۔ کفل سے دھیان کپل کی طرف جاتا ہے۔ اور کپل کپی نکلا۔ کپی نام تھا بندر کا۔ کپل کی اصل ہے کاپ۔ اس سے اردو کا لفظ کپکپانا نکلا ہے۔ ہندو کپکپاتا بہت ہے۔ سو اس کا نام اگر کپل ہے یا کپی تو سمجھ میں آتا ہے۔
بس اس طرح لفظوں کو خالد صاحب کریدتے چلے گئے ہیں۔ اور ان کی کتاب کا ذیلی عنوان ہے۔
روز مرہ کے لفظوں کی تہہ میں جو کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔