توہین عدالت کا قانون دوسرے وزیراعظم کو بچانے کیلئے لایا گیا وفاق کا اعتراف

آپ نے تسلیم کرلیا کہ استثنیٰ کی شق غلط ہے، امیر غریب کا فرق بنیادی حقوق سے متصادم ہے، چیف جسٹس

مقصد برا بھی نہیں، وزیراعظم کو گھر بھیجنے سے ادارے مستحکم نہیں ہوں گے، وکیل وفاق، آپ نے تسلیم کرلیا کہ استثنیٰ کی شق غلط ہے، امیر غریب کا فرق بنیادی حقوق سے متصادم ہے، چیف جسٹس۔ فوٹو ایکسپریس

SINGAPORE:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاق کے وکیل کو سیاسی بات کر نے سے روکتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نیا قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے، مراعات یافتہ طبقے کو استثنیٰ دے کر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ آمریت کو کندھا نہ دیا جائے تو جمہوریت چلتی رہے گی، حکومت کی نئے قانون میں کچھ غلط نہ ہونے کی بات درست نہیں، قانون بنانا پارلیمنٹ اور تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے، اسلام میں سارا زور عدل و انصاف اور مساوات پر ہے۔

عدل کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کو سزا اور امیر کو استثنیٰ ہو، پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار ضرورت اور منطق کے مطابق ہی استعمال کر سکتی ہے، ملک میں بجلی پانی نہیں اس سے ہمارا کیا کام، ہمیں اپنا کام آئین کے مطابق کرنا ہے، آرٹیکل9اور 25 کا نفاذ نہیں ہو رہااسے نافذ کریں،کالا کوٹ ملک میں انقلاب لے کر آیا، ججز کے پاس کلاشنکوف نہیں ہوتی، سول سوسائٹی، میڈیا، وکلا اسے مضبوط کرتے ہیں۔ وفاق کے وکیل شکور پراچہ نے کہا ہے کہ توہین عدالت کے خلاف درخواستیں آئین کے تحت قابل سماعت نہیں۔

منگل کو توہین عدالت قانون کیخلاف آئینی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وفاق کے وکیل شکور پراچہ نے کہاکہ آئین نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا، پارلیمنٹ کے اس اختیار کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، نئے قانون میں عدالتی اختیار کو کم نہیں کیا گیا،توہین عدالت قانون کیخلاف دائر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں تصادم کی باتیں کی جارہی ہے اس موقع پر چیف جسٹس نے کہاکہ آمریت کو کندھا نہ دیا جائے تو جمہوریت چلتی رہے گی، کالا کوٹ ملک میں انقلاب لے کر آیا، ججز کے پاس کلاشنکوف نہیں ہوتی، سول سوسائٹی، میڈیا، وکلا اسے مضبوط کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ اور اس کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے، اسلام میں سارا زور عدل و انصاف اور مساوات پر ہے ، عدل کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کو سزا اور امیر کو استثنیٰ ہو۔ عدالت کے استفسار پر عبدالشکور پراچہ نے بتایا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ قانون اس لیے لایا گیا کہ دوسرا وزیراعظم بھی نہ چلا جائے اور یہ کوئی برا مقصد نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وزیر اعظم گیا ہے جمہوری نظام اسی طرح چل رہا ہے۔ جسٹس شاکراللہ جان نے کہا کہ نیا قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے، مراعات یافتہ طبقے کو استثنیٰ دے کر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ اور اسکی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے، پارلیمنٹ قانون بنانے کا اختیار ضرورت اور منطق کے مطابق ہی استعمال کر سکتی ہے، ملک میں بجلی پانی نہیں اس سے ہمارا کیا کام، ہمیں اپنا کام آئین کے مطابق کرنا ہے۔ آرٹیکل9اور 25 کا نفاذ نہیں ہو رہااسے نافذ کریں۔ جسٹس تصدق جیلانی نے استفسار کیا کہ کیا قانون کی تشریح کیلیے آئین کے ابتدائیہ کو استعمال کیا جا سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آفاقی مذہب ہے جس کا اطلاق پوری کائنات پر ہے، عدل و انصاف اور مساوات اسلام کی اساس ہیں، عدل کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کو سزا اور امیر کو استثنیٰ ہو۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سے متعلق بھی کہا کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں، جبکہ نئے قانون میں بڑے لوگوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت تسلیم کرتی ہے قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، حکومت یہ کہے کہ نئے قانون میں کوئی خرابی نہیں تو یہ درست نہیں۔ وفاق کے وکیل نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ درخواستیں براہ راست نہ سنے، معاملہ ہائیکورٹ بھیجا جائے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ کیا وفاق نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتا ہے۔


چیف جسٹس نے سرکاری وکیل عبدالشکور پراچہ سے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ توہین عدالت کی دفعہ 12 غلط ہے اس کے بعد بھی وفاقی حکومت کیسے کہہ سکتی ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ نہیں ہے۔آپ نے تسلیم کر لیا ہے کہ نئے قانون میں استثنیٰ دینے والی شق درست نہیں، اس قانون کو صرف عام افراد نے نہیں بلکہ پاکستان بارکونسل نے بھی یہ قانون چیلنج کیا ہے۔عبدالشکور کا کہنا تھا کہ کبھی میڈیا والے کسی کو بڑا بناتے ہیں،کبھی جج ،کبھی جنرل اور کبھی حکمران کسی کو بڑا بنا دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اختیارات سے تجاوز ہو تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ایک شعرکا معروف مصرعہ پڑھتے ہوئے کہا کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ معاملہ عوامی اہمیت کا حامل نہیں تو پھر توہین عدالت قانون کے تحت ہی سابق وزیراعظم گیلانی نااہل ہوئے ہم نے قانون کی عمل داری میں بہت سے مثالیں قائم کی ہیں۔ وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے کہا کہ عدلیہ نے ریمارکس دیے تو اپوزیشن لیڈر نے شور مچا دیا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے اپنا اظہارخیال کیا۔شور مچانے والی بات مناسب نہیں۔ وفاق کے وکیل عبداالشکور پراچہ کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری وزیر اعظم کو گھر بھیجنے سے جمہوری ادارے مستحکم نہیں ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ پہلے بھی ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم قرار دیکر گھر بھیجا جاچکا ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بالآخر دل کی بات زبان پر آہی گئی۔

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ بات سب کے علم میں ہے۔عبداالشکور پراچہ نے کہا کہ وفاق نے مجھے وکیل کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں حقائق کو چھپاتا رہوں۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ قواعد بنانے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس نہیں، مفاد عامہ کا ہر معاملہ عدالت لایا جا سکتا ہے۔ سماعت کے دوران ایک موقع پر وفاق کے وکیل نے ضیا ء الحق دور کی بات کی تو چیف جسٹس نے انھیں عدالت میں سیاسی بات کرنے سے روک دیا۔ اٹارنی جنرل نے بات کرنے کی اجازت چاہی تو عدالت نے کہا کہ وفاق کے وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیے جائیں بعد ازاں توہین عدالت کے نئے قانون کیخلاف درخواستوں کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔

نمائندہ ایکسپریس کے مطابق وفاق کے وکیل نے کہا کہ اس قانون کا محرک یہی تھا کہ وزیر اعظم کو تحفظ دیا جائے کیونکہ توہین عدالت قانون کے باعث ایک وزیر اعظم فارغ کیا گیا جس سے ایک ادارہ غیر فعال ہو گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فاضل وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اس طرح کی باتیں کر کے فیڈریشن کی جگ ہنسائی نہ کی جائے۔ وفاق کے وکیل عبدالشکورپراچہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت کے قانون کیخلاف دائر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے۔

عبدالشکور پراچہ کا کہنا تھا کہ لوگ سیاسی ،فرقہ وارانہ اور ذاتی دشمنیاں لے کر سپریم کورٹ آجاتے ہیں،ایک وقت تھاکہ ضیاء الحق نے کہا کہ دیکھو کون نماز پڑھتا ہے اور کون نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی اصولوں کے مطا بق بھی کیس نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے وفاق کے وکیل کو عدالت میں سیاسی باتیں کرنے سے روکتے ہوئے آبزرویشن دی کہ لوگوں کی ذاتی زندگی سے عدالت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کالا کوٹ ملک میں انقلاب لے کر آیا نئے قانون کے خلاف بارکونسل اور بار ایسوسی ایشن بھی درخواست گزار بن کر آئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججوں کے پاس کلاشنکوف نہیں جس سے اپنے احکام پر عمل درآمد کرائے، عدلیہ کو سول سوسائٹی،میڈیا اور وکلاء مضبوط کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے قانون کے تحت نا اہل ہوئے اب اگر عدلیہ کے حوالے سے غیر اخلاقی زبان استعمال ہو تو جج کس قانون کے تحت کاروائی کرے ۔ وفاق کے وکیل نے عدالت کی وضاحت پر تسلیم کیا کہ استثنٰی کا قانون اسلامی اصولوں سے متصادم ہے ۔چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اگر وفاق کا یہ موقف ہے تو پھر آرٹیکل 248میں کیسے استثنٰی دیا جا سکتا ہے جس پر فاضل وکیل نے بتا یا کہ فی الوقت عدالت کے سامنے یہ نکتہ زیر غور نہیں ہے۔ بی بی سی کے مطابق وفاق کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ اگر استثنیٰ کا قانون درست نہیں تو پھر عدالت آئین کو ختم کردے جس کے آرٹیکل 248کے تحت استثنیٰ دیا گیا ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story