تاریخ خانہ کعبہ

خانہ کعبہ کی ہر ایک چیز عبداﷲ بن زبیرؓ کی بنائی ہوئی ہے۔ سوائے اس دیوار کے جو حجر میں ہے۔

محمد طاہر بن عبدالقادر الکروی نے اپنی کتاب ''تاریخ خانہ کعبہ'' کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ جہاں تک انھیں معلوم ہے اس موضوع پر اس نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔ انھوں نے اس کی تالیف پر بڑی محنت کی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ تصنیف و تالیف ایک مشکل کام ہے جو انسان کو بہت جلد بوڑھا کردیتا ہے۔ ایک مسئلے کی تحقیق کے درپے ہو تو دوسرا مسئلہ نکل آتا ہے اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ انسان غوروفکر میں ڈوبا ہی رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کے لکھنے سے ان کا مقصد خانہ کعبہ کی مکمل تاریخ لکھنا نہیں کیونکہ یہ تو بڑا بھاری کام ہے، ہاں کچھ باتیں جو مناسب ہیں وہ بیان کردی ہیں۔

طاہر الکروی نے اپنی کتاب کی تالیف میں شیخ حسین باسلامہ الحضرمی کی تاریخ کعبہ اور تاریخ بنائے حرم سے اور تاریخ ارزقی سے استفادہ کیا ہے اور مصدقہ معلومات پر بھی تکیہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ کو حکم الٰہی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تو آپ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو لے کر روانہ ہوگئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ پانی تھا اور نہ یہاں کوئی رہتا تھا۔ درختوں کے نام پر صرف ببول وغیرہ کی جھاڑیاں تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیوی بچے دونوں کو یہاں بٹھا دیا۔ ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوریں پاس رکھ دیں اور پھر آپؑ شام کی طرف چلے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ دوسری بار مکہ آئے تو قیام نہ کیا لیکن جب تیسری بار تشریف لائے تو حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ ''بیٹا! اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے''۔ حضرت اسماعیلؑ نے کہا: ''تو اطاعت کیجیے''۔ پوچھا: ''کیا تُو میری مدد کرے گا؟'' کہا: ''کیوں نہیں''۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بناؤں''۔

گھر کی تعمیر شروع ہوئی، حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیمؑ بناتے جاتے تھے۔ جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیلؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیمؑ اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔ (یہی مقام ابراہیمؑ ہے) دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔

''اے پروردگار! ہم سے قبول فرما، تُو سننے اور جاننے والا ہے۔''

انھوں نے اس گھر کی تعمیر نہ مٹی سے کی اور چونے سے، بس پتھر پر پتھر رکھتے چلے گئے، نہ اس کی چھت بنائی نہ دروازہ۔ بعد میں مختلف ایام میں پھر بیت اﷲ کی تعمیر ہوئی۔ قریش نے بھی تعمیر کی اور ان کے بعد بھی ہوئی۔

کہتے ہیں اس وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر بیس سال تھی، حضرت ابراہیمؑ نے بیت اﷲ کے پہلو میں حجر کو حضرت اسماعیلؑ کی بکریوں کا باڑہ بنایا تھا اور اس پر پیلو کی چھت ڈالی تھی۔ پہلے بیت اﷲ کی جگہ ایک سرخ ٹیلہ تھا۔ اکثر سیلاب ادھر ادھر سے اسے کاٹتا رہتا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوگئے تو حضرت اسماعیلؑ سے ایک ایسا پتھر لانے کو کہا جو آغاز طواف کے لیے نشانی کے طور پر استعمال ہوسکے۔ یہ پتھر حضرت جبرئیل ابوقبیس کی پہاڑی سے لائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب قائم ہے۔ روایت ہے یہ بہت روشن تھا۔

حضرت جبرئیل نے انھیں تمام مقامات دکھائے اور پھر اﷲ نے حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکاریں۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''پروردگار! میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟'' اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ پکاریے، ہم آپ کی پکار لوگوں تک پہنچادیں گے۔'' تفسیر جلالین میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ابو قبیس پہاڑی پر چڑھ کر پکارا: ''لوگو! اﷲ تعالیٰ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہو۔''

حضرت ابراہیمؑ نے شمال جنوب، دائیں اور بائیں منہ کرکے آواز دی اور لوگوں نے لبیک کہا۔

طاہر الکروی جن کی اس کتاب کو عبدالصمد صارم نے اردو میں منتقل کیا ہے، لکھتے ہیں کہ حضرت عباس کی روایت کے مطابق رسول اﷲ ؐ نے فرمایا ہے: ''اﷲ کے اس گھر پر ہر دن رات میں اﷲ کی ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ساٹھ طواف کرنے والوں کے لیے، چالیس نمازیوں کے لیے اور بیس اﷲ کے گھر کو دیکھنے والوں کے لیے۔


حضرت حسان بن عطیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ ؐ کے اس قول پر غور کیا، معلوم ہوا کہ یہ سب رحمتیں درحقیقت طواف کرنے والے کے لیے ہیں کہ وہ طواف کرتا ہے، نماز بھی پڑھتا ہے اور کعبہ کی طرف دیکھتا بھی ہے۔

کسی نے کیا ہی اچھا کہا ہے: ''خانہ کعبہ میں طرح طرح کی فضیلتیں ہیں، گھر والا ہی انھیں جانتا ہے۔ جو کوئی یہاں اپنی خطاؤں سے ڈر کر آیا، اﷲ اس کی حفاظت کرتا ہے۔''

طاہر الکروی لکھتے ہیں خانہ کعبہ گیارہ بار تعمیر ہوا ہے۔ فرشتوں نے بنایا، حضرت آدمؑ نے بنایا، حضرت شیثؑ نے تعمیر کیا، حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا، عمالقہ نے بنایا، جرہم نے تعمیر کیا، قصی نے تعمیر کیا، قریش نے بنایا، عبداﷲ بن زبیرؓ نے تعمیر کیا، حجاج نے بنایا، پھر سلطان مراد رابع نے بنایا جو آل عثمان میں سے تھا۔

قریش کی جانب سے تعمیر نو رسول اﷲ ؐ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قریش نے تعمیر کے لیے جو حلال مال جمع کیا تھا وہ کافی نہیں تھا اس لیے حجر کی طرف چھ ہاتھ ایک بالشت جگہ کم کردی گئی تھی۔ حجر کے پیچھے ایک چھوٹی سی گول دیوار بنادی تھی تاکہ لوگ اس کے باہر طواف کریں، کعبہ کے اندر انھوں نے دو صفوں میں چھ ستون رکھے تھے جس پر چھت تھی۔ اس سے پہلے کعبہ پر چھت نہیں تھی۔ دروازہ ایک رکھا تھا، چھت کی بلندی اٹھارہ ہاتھ تھی۔

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر بیت اﷲ کے بارے میں طاہر الکروی بتاتے ہیں ''انھوں نے تین دن تک استخارہ کرنے کے بعد کعبہ کو بالکل زمین کے برابر کردیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بنیاد کو بھی کھدوایا تو دیکھا کہ وہ چھ ہاتھ اور ایک بالشت حجر اسماعیل میں داخل ہے لہٰذا آپ نے انھی بنیادوں پر تعمیر کی۔ ایسا انھوں نے حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث کی بنا پر کیا۔

حضرت زبیرؓ نے کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ رکھی تاکہ عرض کے مناسب ہوجائے۔ ایک دروازہ داخلے کے لیے اور ایک باہر جانے کے لیے بنایا۔ دونوں دروازے سطح زمین کے برابر تھے، ہر دروازے کی لمبائی گیارہ ہاتھ تھی اور دو پٹ تھے۔ آپ نے کعبہ کے چار ستون بنائے۔آپ کے زمانے میں یہ چاروں ستون چومے جاتے تھے۔ اپ نے رکن شامی کی جانب ایک زینہ اوپر جانے کے لیے بنایا تھا اور اسے سونے سے مزین کیا تھا۔ چھت پر پرنالہ رکھا تھا جو حجر میں گرتا تھا۔

جس دن کعبہ شریف کی تعمیر مکمل ہوئی وہ دن عجیب تھا۔ اس دن بہت سے غلام آزاد کیے گئے اور بہت سی بکریاں ذبح کی گئیں۔ حضرت زبیرؓ ننگے پاؤں نکلے۔ آپ کے ساتھ بہت سے قریش بھی برہنہ پا تھے حتیٰ کہ قنعم کے مقام پر مسجد عائشہ پہنچے اور عمرہ کا احرام باندھا کہ اﷲ نے انھیں ابراہیمی تعمیر پر تعمیر کعبہ کی توفیق عطا کی۔

ابن زبیر کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص نے محاصرے کے زمانے میں مسجد حرام کے کسی خیمے میں آگ جلائی۔ خیمے میں آگ لگ گئی جو بڑھتے بڑھتے کعبہ تک پہنچ گئی اور اس نے غلاف کعبہ اور رکن یمانی جلا ڈالا۔ یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ دس سال بعد 74 ہجری میں حجاج نے اس بنا پر کہ ابن زبیر نے کعبہ میں اضافہ کیا تھا اور ایک دروازہ مزید بنادیا تھا، اسے گرا کر قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔

طاہر الکروی لکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ کی ہر ایک چیز عبداﷲ بن زبیرؓ کی بنائی ہوئی ہے۔ سوائے اس دیوار کے جو حجر میں ہے۔ وہ حجاج کی بنائی ہوئی ہے۔ اسی طرح مشرقی دروازے کی چوکھٹ اور وہ اندرونی سیڑھی جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہے۔

عثمانی سلطان مراد رابع کے زمانے میں 19 شعبان 1039 ہجری کو صبح 8 بجے مکہ اور اس کے اطراف میں شدید بارش ہوئی۔ بارش سے سیلاب حرم شریف میں داخل ہوگیا اور کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ سے بھی بلند ہوگیا۔ دوسرے دن جمعرات کو عصر کے وقت کعبہ کی شامی دیوار دونوں طرف سے گر گئی اور اس کے ساتھ مشرقی دیوار کا کچھ حصہ بھی۔ مغربی دیوار بھی دونوں طرف سے چھٹے حصے کے بقدر گرگئی، چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، چنانچہ سلطان مراد نے دوبارہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی، اس طرح جس طرح حجاج نے بنوائی تھی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے۔
Load Next Story