کوئی کام بھی لائقِ تحسین نہیں
کوئی شہر اورگاؤں دہشتگردوں کے شر سے نہیں بچا تھا۔ہمارا ملک ایک غیر محفوظ ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا
ہمارے یہاں یہ روش اور روایت چل پڑی ہے کہ تنقید برائے تنقیدکے خود ساختہ اُصولوں کے تحت حکومت وقت کے مثبت اور اچھے کاموں کو یکسر نظراندازکرتے ہوئے ہم صرف اُس کے کچھ ناپسندیدہ کاموں کو ہروقت ہدفِ تنقید بناکر ناکامیوں اور نامرادیوں کا سارا ملبہ اُس کے سر لاد دینا چاہتے ہیں۔ ہم صبح سے شام تک اپنے حکمرانوں کی خامیاں ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔
اُس کے درست اوراچھے فیصلوں پر بھی شکوک وشبہات کی گرد ڈال کر اور اُسے غیر معتبر بناکر عوام کی نظروں میں یہ تاثر پیدا کردینا چاہتے ہیں کہ حکومت کا کوئی کام بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہاں آج اگرکوئی خودکش دھماکا ہوجائے تو حزب ِ اختلاف اور میڈیا میں بیٹھے تمامِ ذی شعورصاحب ِفہم وفراست فوراً ہی حکومت کو لعن طعن کا نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ قطع نظر اِس کے کہ وطن عزیزسے دہشتگردی کے خاتمے کا سہرا بھی موجودہ حکمرانوں کو ہی جاتا ہے وہ اکّا دکّا واقعات کو لے کر سیکیورٹی کی تمام نااہلیوں اورناکامیوں کی ذمے داری حکمرانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اول تو وہ اِس بات کا کریڈٹ حکومت کو دینے کے لیے تیارہی نہیں ہیں کہ اُسی کی کوششوں کے سبب اِس ملک میں یہ امن وامان قائم ہوا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس حکومت کے برسرِاقتدار آنے سے پہلے یہاں ہرطرف دہشتگردی کاراج تھا۔ ہزاروں لوگ مارے جاچکے تھے۔
کوئی شہر اورگاؤں دہشتگردوں کے شر سے نہیں بچا تھا۔ہمارا ملک ایک غیر محفوظ ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا۔ غیرملکی یہاں آنے سے گھبراتے۔ کوئی سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے کوتیار نہ تھا۔کراچی شہر ہرروز احتجاج اور خونریزی کی نئی داستانیں رقم کررہا تھا۔ آج ہمارے یہاں رات گئے تک بازاروں اور شاہراہوں پر جو رونق دکھائی دیتی ہے وہ سب حکمرانوں کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ سابقہ حکومت نے دوستانہ اور مفاہمانہ پالیسی کے تحت اِس شہرکو لاوارث بناکر چھوڑ دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کو پورا کرنے کے لیے اُس نے نام نہاد مفاہمتی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ ملک تباہ ہوتا رہا مگر اقتدار باقی رہا۔آج اگر یہاں امن وامان کا راج ہے تو اِسی حکومت کی ایماء اورکوششوں سے۔ اِس کام میںہماری افواج کا کردار بھی لائقِ تحسین ہے لیکن اِس سارے عمل میں ہمارے حکمرانوں کی کوششوں اور ترجیحات کو شامل نہ کرنا حقیقت سے انحراف کے مترادف ہے ۔حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ملک میں امن وامان قائم کرنے کاتہیہ کیا اور خلوصِ نیت اور عزم وحوصلے سے اُسے کسی حد تک مکمل بھی کیا۔
امن و امان قائم کرنے کے بعد حکومت نے ترقی وخوشحالی کے منصوبے شروع کیے۔ نئی سڑکیں اور شاہراہیں بنائیں۔دوست ملک چین کے تعاون سے سی پیک منصوبے کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہیں تلاش کیں۔توانائی اور بجلی پیداکرنے کے پروجیکٹ لگائے، مگر افسوس کہ ہم اپنے حکمرانوں کو اِس کارِ خیر پر خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے اُلٹا سی پیک منصوبے ہی میں خرابیاں اور خامیاں تلاش کرنے لگے۔اِس منصوبے کو بھی علاقائی اور صوبائی منافرت کا رنگ دے کر اُسے بھی کالاباغ ڈیم بنانے کی سعی وجستجو کرنے لگے۔ ملک کے اندر انفرا اسٹریکچر بہتر بنانے کی اُس کی ہر کوشش کو غیرمناسب اور بے وقت کی فضول خرچی قرار دینے لگے۔
پاکستان ریلوے 2013ء میں کس حال میں تھی کوئی ٹرین نہ وقت پر چلتی تھی اور نہ وقت پرمنزل مقصود پر پہنچ پاتی تھی۔ انجنوں کوچلانے کے لیے ڈیزل بھی میسر نہیں تھا۔کارگو سروس ختم ہوکر رہ گئی تھی۔آج اگر یہ پھر سے ایک اچھی سروس کے طور پرجانی اور پہچانی جانے لگی ہے تو اِس میں بھی ہماری اِسی حکومت کی کاوشوں کا عمل دخل ہے۔ ہم اِس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکمرانوں کو دینے میں بغل اور کنجوسی سے کا م لے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اُس کی تعریف کرتے ہوئے نجانے کیوں ناگوارگذر رہا ہوتا ہے۔چھوٹے قصبوں میںپھاٹک کے کھلارہ جانے کے سبب کسی حادثے کے رونما ہونے کے واقعے کولے کر وزیرریلوے کے استعفیٰ کی تو فوراً ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں مگر اُس کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے نجانے ہمیں کیوں ہچکچاہٹ ہونے لگتی ہے۔
گیس اسٹیشنوں پر سی این جی کے لیے لمبی لمبی قطاریں کیا ہمیں یاد نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ہمارے کسی پمپ اسٹیشن پر موٹر وہیکل کی ایسی قطاریں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اِسی طرح اگرہمارے یہاں آج 18سالوں بعد مردم شماری مکمل ہو پائی ہے تو وہ بھی نواز حکومت کا ہی کارنامہ کہلائے گا۔ اِس سے پہلے والے حکمرانوں کو اِس کی سعادت او ر توفیق نصیب ہی نہ ہوئی۔ 18سال قبل 1998ء میں بھی ہمارے ملک میں مردم شماری کروانے کا سہرا نوا ز حکومت ہی کے سر سجا تھا، اگرچار برس کے وقفے کے بعد اگر یہاں بلدیاتی انتخابات ہوپائے ہیں تو وہ بھی اِسی نواز حکومت کے زیرِ انتظام۔یہ درست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں اہم کام عدالتِ عظمیٰ کے حکم نامے کے بعد ہی ہوپائے ہیں لیکن پاکستان پیپلزپارٹی اگر چاہتی تو یہ دونوں کام اپنے دور میں کرواسکتی تھی لیکن بات پھر وہی خلوصِ نیت اور عزم و ارادے کی ہے۔ جب کام کرنے کا ارادہ ہی نہ ہوتو پھر لیت ولعل کے ہزاروں بہانے تراشے جاتے ہیں۔
یہ بات بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر تنقید کرنا سب سے آسان اور سہل کام ہے اور یہ فریضہ ہمارے یہاں ہر شخص بڑی جانفشانی اورخوش اسلوبی سے ادا کررہا ہوتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب اپوزیشن کی آواز شازونادر ہی عوام تک پہنچ پاتی تھی، لیکن جب سے ہمارے یہاں الیکٹرانک میڈیا کا دور دورہ ہے یہ کام اپوزیشن کے ساتھ ساتھ میڈیا اینکروں نے بھی سنبھال لیا ہے۔
اب توکوئی بات بھی عوام الناس سے چھپی نہیں رہ سکتی، اگرکوئی میڈیا ہاؤس اُسے چھپانا بھی چاہے تو سوشل میڈیا اُسے عام کردیتا ہے۔میڈیا پر بیٹھ کر آج کل جوکام بڑی مستعدی اورجانفشانی سے ہورہا ہے وہ یہی ایک کام ہے کہ صبح وشام حکومت کی خامیوں اورغلطیوں کا اُجاگرکرکے اُسے ناکام اور نااہل بلکہ ملک دشمن قرار دیتے رہو۔ وہ اگر پاناما کیس میں فی الوقت بچ جائے تو اُسے نیوز لیکس میں رگیدتے رہو۔ وہاں بھی اگر دال نہ گلے تو عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کے فیصلے پرملک دشمنی کا طعنہ دیتے رہو اور وہاں بھی اپنی خواہشوں کی تسکین نہ ہوپائے تو سعودی عرب میں وزیرِاعظم کو تقریرکا موقعہ نہ ملنے پرخود وزیراعظم ہی کو طنزوتضحیک کانشانہ بناتے رہو۔ وزیرِاعظم کسی معاملے میں اگر خاموش رہیں تو بھی قصور وار اور اگرکچھ بول بھی دیں توہدف تنقیدکہ ایسا کیوں کہا ۔
جس طرح کلبھوشن کے معاملے میں کہاگیا کہ عالمی عدالت کیوں گئے ۔ہمیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا اور اگر ناجاتے اورعالمی عدالت کی جانب سے فیصلہ پھر بھی جوں کا توں آجاتا توکہاجاتا کہ نہ جانے کا فیصلہ غلط اور نامناسب تھا۔گویا کسی طرح بھی چین نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے ہم غیر شعوری طور پر جمہوریت ، عوام اور اصلاحِ احوال کے نام پر ایسی فکرکی پرورش کررہے ہیں جوجمہوری نظام کی مکمل نفی کررہی ہوتی ہے۔ ہماری دلی خواہش اور تمنا تو یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اِس جمہوری حکومت کا بستر گول کر دیا جائے۔ اگر افواج پاکستان ہمارے اِن دانشمندانہ بصیرت افروز تجزیوں اور تبصروں کی اہمیت و افادیت کی قائل ہوجاتی توشاید ہمارے نہاں خانہ دل میں چھپی حسرتوں اور آرزؤں کی بے کلی کب کی تسکین پاچکی ہوتی، مگر خد ا کاشکر ہے کہ باوجود انتہائی کوششوں اور ہمارے اُکسانے اور بھڑکانے کے ہماری عسکری قیادت نے نہایت سمجھداری اورمعاملہ فہمی سے معاملات طے کرکے اب تک ایسی ہرخواہش اور تمنا کو ناکام و نامراد ہی کیا ہے۔
اُس کے درست اوراچھے فیصلوں پر بھی شکوک وشبہات کی گرد ڈال کر اور اُسے غیر معتبر بناکر عوام کی نظروں میں یہ تاثر پیدا کردینا چاہتے ہیں کہ حکومت کا کوئی کام بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہاں آج اگرکوئی خودکش دھماکا ہوجائے تو حزب ِ اختلاف اور میڈیا میں بیٹھے تمامِ ذی شعورصاحب ِفہم وفراست فوراً ہی حکومت کو لعن طعن کا نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ قطع نظر اِس کے کہ وطن عزیزسے دہشتگردی کے خاتمے کا سہرا بھی موجودہ حکمرانوں کو ہی جاتا ہے وہ اکّا دکّا واقعات کو لے کر سیکیورٹی کی تمام نااہلیوں اورناکامیوں کی ذمے داری حکمرانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اول تو وہ اِس بات کا کریڈٹ حکومت کو دینے کے لیے تیارہی نہیں ہیں کہ اُسی کی کوششوں کے سبب اِس ملک میں یہ امن وامان قائم ہوا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس حکومت کے برسرِاقتدار آنے سے پہلے یہاں ہرطرف دہشتگردی کاراج تھا۔ ہزاروں لوگ مارے جاچکے تھے۔
کوئی شہر اورگاؤں دہشتگردوں کے شر سے نہیں بچا تھا۔ہمارا ملک ایک غیر محفوظ ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا۔ غیرملکی یہاں آنے سے گھبراتے۔ کوئی سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے کوتیار نہ تھا۔کراچی شہر ہرروز احتجاج اور خونریزی کی نئی داستانیں رقم کررہا تھا۔ آج ہمارے یہاں رات گئے تک بازاروں اور شاہراہوں پر جو رونق دکھائی دیتی ہے وہ سب حکمرانوں کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ سابقہ حکومت نے دوستانہ اور مفاہمانہ پالیسی کے تحت اِس شہرکو لاوارث بناکر چھوڑ دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کو پورا کرنے کے لیے اُس نے نام نہاد مفاہمتی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ ملک تباہ ہوتا رہا مگر اقتدار باقی رہا۔آج اگر یہاں امن وامان کا راج ہے تو اِسی حکومت کی ایماء اورکوششوں سے۔ اِس کام میںہماری افواج کا کردار بھی لائقِ تحسین ہے لیکن اِس سارے عمل میں ہمارے حکمرانوں کی کوششوں اور ترجیحات کو شامل نہ کرنا حقیقت سے انحراف کے مترادف ہے ۔حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے ملک میں امن وامان قائم کرنے کاتہیہ کیا اور خلوصِ نیت اور عزم وحوصلے سے اُسے کسی حد تک مکمل بھی کیا۔
امن و امان قائم کرنے کے بعد حکومت نے ترقی وخوشحالی کے منصوبے شروع کیے۔ نئی سڑکیں اور شاہراہیں بنائیں۔دوست ملک چین کے تعاون سے سی پیک منصوبے کو تیزی سے عملی جامہ پہنایا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہیں تلاش کیں۔توانائی اور بجلی پیداکرنے کے پروجیکٹ لگائے، مگر افسوس کہ ہم اپنے حکمرانوں کو اِس کارِ خیر پر خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے اُلٹا سی پیک منصوبے ہی میں خرابیاں اور خامیاں تلاش کرنے لگے۔اِس منصوبے کو بھی علاقائی اور صوبائی منافرت کا رنگ دے کر اُسے بھی کالاباغ ڈیم بنانے کی سعی وجستجو کرنے لگے۔ ملک کے اندر انفرا اسٹریکچر بہتر بنانے کی اُس کی ہر کوشش کو غیرمناسب اور بے وقت کی فضول خرچی قرار دینے لگے۔
پاکستان ریلوے 2013ء میں کس حال میں تھی کوئی ٹرین نہ وقت پر چلتی تھی اور نہ وقت پرمنزل مقصود پر پہنچ پاتی تھی۔ انجنوں کوچلانے کے لیے ڈیزل بھی میسر نہیں تھا۔کارگو سروس ختم ہوکر رہ گئی تھی۔آج اگر یہ پھر سے ایک اچھی سروس کے طور پرجانی اور پہچانی جانے لگی ہے تو اِس میں بھی ہماری اِسی حکومت کی کاوشوں کا عمل دخل ہے۔ ہم اِس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکمرانوں کو دینے میں بغل اور کنجوسی سے کا م لے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اُس کی تعریف کرتے ہوئے نجانے کیوں ناگوارگذر رہا ہوتا ہے۔چھوٹے قصبوں میںپھاٹک کے کھلارہ جانے کے سبب کسی حادثے کے رونما ہونے کے واقعے کولے کر وزیرریلوے کے استعفیٰ کی تو فوراً ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں مگر اُس کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے نجانے ہمیں کیوں ہچکچاہٹ ہونے لگتی ہے۔
گیس اسٹیشنوں پر سی این جی کے لیے لمبی لمبی قطاریں کیا ہمیں یاد نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ہمارے کسی پمپ اسٹیشن پر موٹر وہیکل کی ایسی قطاریں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اِسی طرح اگرہمارے یہاں آج 18سالوں بعد مردم شماری مکمل ہو پائی ہے تو وہ بھی نواز حکومت کا ہی کارنامہ کہلائے گا۔ اِس سے پہلے والے حکمرانوں کو اِس کی سعادت او ر توفیق نصیب ہی نہ ہوئی۔ 18سال قبل 1998ء میں بھی ہمارے ملک میں مردم شماری کروانے کا سہرا نوا ز حکومت ہی کے سر سجا تھا، اگرچار برس کے وقفے کے بعد اگر یہاں بلدیاتی انتخابات ہوپائے ہیں تو وہ بھی اِسی نواز حکومت کے زیرِ انتظام۔یہ درست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں اہم کام عدالتِ عظمیٰ کے حکم نامے کے بعد ہی ہوپائے ہیں لیکن پاکستان پیپلزپارٹی اگر چاہتی تو یہ دونوں کام اپنے دور میں کرواسکتی تھی لیکن بات پھر وہی خلوصِ نیت اور عزم و ارادے کی ہے۔ جب کام کرنے کا ارادہ ہی نہ ہوتو پھر لیت ولعل کے ہزاروں بہانے تراشے جاتے ہیں۔
یہ بات بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر تنقید کرنا سب سے آسان اور سہل کام ہے اور یہ فریضہ ہمارے یہاں ہر شخص بڑی جانفشانی اورخوش اسلوبی سے ادا کررہا ہوتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب اپوزیشن کی آواز شازونادر ہی عوام تک پہنچ پاتی تھی، لیکن جب سے ہمارے یہاں الیکٹرانک میڈیا کا دور دورہ ہے یہ کام اپوزیشن کے ساتھ ساتھ میڈیا اینکروں نے بھی سنبھال لیا ہے۔
اب توکوئی بات بھی عوام الناس سے چھپی نہیں رہ سکتی، اگرکوئی میڈیا ہاؤس اُسے چھپانا بھی چاہے تو سوشل میڈیا اُسے عام کردیتا ہے۔میڈیا پر بیٹھ کر آج کل جوکام بڑی مستعدی اورجانفشانی سے ہورہا ہے وہ یہی ایک کام ہے کہ صبح وشام حکومت کی خامیوں اورغلطیوں کا اُجاگرکرکے اُسے ناکام اور نااہل بلکہ ملک دشمن قرار دیتے رہو۔ وہ اگر پاناما کیس میں فی الوقت بچ جائے تو اُسے نیوز لیکس میں رگیدتے رہو۔ وہاں بھی اگر دال نہ گلے تو عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کے فیصلے پرملک دشمنی کا طعنہ دیتے رہو اور وہاں بھی اپنی خواہشوں کی تسکین نہ ہوپائے تو سعودی عرب میں وزیرِاعظم کو تقریرکا موقعہ نہ ملنے پرخود وزیراعظم ہی کو طنزوتضحیک کانشانہ بناتے رہو۔ وزیرِاعظم کسی معاملے میں اگر خاموش رہیں تو بھی قصور وار اور اگرکچھ بول بھی دیں توہدف تنقیدکہ ایسا کیوں کہا ۔
جس طرح کلبھوشن کے معاملے میں کہاگیا کہ عالمی عدالت کیوں گئے ۔ہمیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا اور اگر ناجاتے اورعالمی عدالت کی جانب سے فیصلہ پھر بھی جوں کا توں آجاتا توکہاجاتا کہ نہ جانے کا فیصلہ غلط اور نامناسب تھا۔گویا کسی طرح بھی چین نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے ہم غیر شعوری طور پر جمہوریت ، عوام اور اصلاحِ احوال کے نام پر ایسی فکرکی پرورش کررہے ہیں جوجمہوری نظام کی مکمل نفی کررہی ہوتی ہے۔ ہماری دلی خواہش اور تمنا تو یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح اِس جمہوری حکومت کا بستر گول کر دیا جائے۔ اگر افواج پاکستان ہمارے اِن دانشمندانہ بصیرت افروز تجزیوں اور تبصروں کی اہمیت و افادیت کی قائل ہوجاتی توشاید ہمارے نہاں خانہ دل میں چھپی حسرتوں اور آرزؤں کی بے کلی کب کی تسکین پاچکی ہوتی، مگر خد ا کاشکر ہے کہ باوجود انتہائی کوششوں اور ہمارے اُکسانے اور بھڑکانے کے ہماری عسکری قیادت نے نہایت سمجھداری اورمعاملہ فہمی سے معاملات طے کرکے اب تک ایسی ہرخواہش اور تمنا کو ناکام و نامراد ہی کیا ہے۔