اپنے رب سے تعلق کامیابی کی راہیں ہموار کرتا ہے
اللہ کی محبت ان لوگوں کیلئے ہوتی ہے جو احسان کرتے ہیں۔ احسان کرنے والا سخی ہوتا ہے اور سخی اللہ کو بہت پسند ہے۔
بادشاہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شکار پر تھا۔ وہ جنگل میں راستہ بھول گیا۔ پیاس سے برا حال تھا۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کو ایک پرانی کٹیا مل گئی۔ اندر داخل ہوا تو ایک بزرگ کو عبادت کرتے پایا۔ وہ اپنی عبادت سے فارغ ہوئے تو اس کی طرف متوجہ ہوکر آنے کا مقصد پوچھا۔ بادشاہ نے پیاس اور راستہ بھولنے کا بتایا۔ بزرگ نے پانی پلایا اور راستہ بتاکر دوبارہ عبادت کرنا چاہی تو بادشاہ بولا حضرت ایک چھوٹا سا تحفہ آپ کو عنایت کرنا چاہتا ہوں یہ کہہ کر اپنی انگوٹھی ان کے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا کہ میں بادشاہ ہوں آپ جب چاہیں میرے محل میں آجاسکتے ہیں۔
فقط دربان کو یہ انگوٹھی دکھائیے گا وہ بغیر کسی سوال کے آپ کو مجھ تک پہنچا دے گا۔ بادشاہ وہاں سے رخصت ہوگیا۔ کچھ دن کے بعد بزرگ کو کچھ پیسوں کی شدید ضرورت آن پڑی وہ انگوٹھی لیے محل کو چلے۔ دربان نے بغیر سوال کے داخل ہونے دیا۔ سب دروازے کھول دیئے گئے اور وہ بادشاہ کے کمرے تک چلے گئے۔ کمرے کے باہر ہی انہیں کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا اندر جھانک کر دیکھا تو حیران ہوئے بادشاہ سجدے میں سر رکھ کر اللہ کے سامنے رو رہا تھا۔
وہیں سے واپس چل پڑے۔ قدموں کی چاپ سے بادشاہ متوجہ ہوا اور وہی رکنے کا کہہ دیا۔ بادشاہ نے عرض کی حضرت حکم فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔ بزرگ نے کہا ''میں کچھ مانگنے آیا تھا لیکن میں خود شرمندہ ہوگیا ہوں کیونکہ جو خود مانگتا ہو اس سے کیا مانگنا۔''
یہ کہانی پورا فلسفہ بیان کرتی ہے اور ہم میں سے اکثر اس فلسفے سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ ''جو خود مانگتا ہو اس سے کیا مانگنا۔''
ہم ساری زندگی گزار دیتے ہیں لیکن اپنے رب سے محبت کو تعلق نہیں بنا پاتے کیونکہ ہم رب کے تعلق کو اہم نہیں سمجھتے۔ انسان کی نفسیات میں شامل ہے کہ وہ ہر اس تعلق کو قائم رکھتا ہے اور اہم سمجھتا ہے جس سے اس کا فائدہ جڑا ہوا ہو۔ ہم اپنی شعوری زندگی میں اپنے اور اپنے رب کے تعلق کی اہمیت کو جان ہی نہیں پاتے اس لیے ہم اس تعلق کو جوڑنے کا نہیں سوچتے اور نہ ہی اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ ایک بہت اہم اصول جان لیجئے کہ ''انسان جس بھی کام کو اہم سمجھے اور کرنا چاہے اس کا راستہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔'' سب سے پہلے تو اس بات کی اہمیت کو سامنے رکھ لیجئے کہ بغیر خدا تعالیٰ کی مدد اور رہنمائی کے کوئی بڑا کام ممکن نہیں۔ رب کی ذات کی عظمت یہ ہے کہ وہ آپ سے بڑا کام بھی کرواتی ہے اور اس کام میں برکت بھی ڈالتی ہے۔ آپ کی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچنا بلکہ فائدہ ملنا برکت اور فضل کی دلیل ہے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آپ اپنے جسم کی طاقت سے وزن اٹھاسکتے ہیں و جسمانی محنت کرسکتے ہیں، دوڑ سکتے ہیں لیکن جسمانی صلاحیت دوسری مخلوقات میں بھی موجود ہیں۔ گھوڑے کی طاقت کی وجہ سے ''ہارس پاور'' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ہرن اور چیتا انسان سے کئی گنا تیز دوڑ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کو ذہنی صلاحیتیں بھی عطا کی گئی ہیں۔ آپ کی یادداشت، آپ کی آبزرویشن اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ذہن کے تابع ہیں لیکن آپ جان کر حیران ہوں گے کہ شاہین ایک وقت میں ساٹھ مربع کلو میٹر (60 مربع کلو میٹر) کا علاقہ دیکھ کر اپنے شکار کو تلاش کرلیتا ہے۔ ریچھ کی یادداشت کے کئی واقعات آپ نے سنے ہوں گے۔ قوت فیصلہ کسی حد تک بندر اور بن مانس میں بھی ہے لیکن ایک واحد صلاحیت جو باقی مخلوقات میں نہیں وہ روحانی صلاحیت ہے۔
روحانیت دراصل خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا نام ہے اور ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ اس سفر کا راستہ آپ کو مل جاتا ہے جس سفر کو آپ اہمیت دیتے ہیں۔ زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ''جب ہم کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو سیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں۔'' یہ تمام باتیں جو ہم ان مضامین میں بیان کرتے ہیں ان کے سیکھنے کا بہترین وقت لڑکپن اور جوانی ہے۔ آئیے آج ان پانچ طریقوں کو جانیں جن سے آپ کی روحانیت بیدار ہوسکتی ہے۔
(1) خدا تعالیٰ سے تعلق یا روحانیت تب بیدار ہوتی ہے جب آپ دعا کا سہارا استعمال کرتے ہیں۔ آپ مکمل یقین کے ساتھ بغیر دیکھے خدا کی ذات سے مانگتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ کا اٹھنا آنکھوں کا جھکنا اور آنسو اس بات کی علامت ہوتے ہیں کہ آپ کا دینے والے سے کوئی تعلق ہے۔ خدا تعالیٰ کے در کی گدائی آپ کو در در کی ٹھوکروں سے بچالیتی ہے۔ خدا تعالیٰ سے مانگنا بذات خود خدا تعالیٰ کی طاقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور جب آپ کو پتا ہوتا ہے کہ جس سے میں مانگ رہا ہوں وہ اس کائنات کا سب سے طاقت ور بادشاہ ہے بلکہ یہ کہہ لیں کہ اصل بادشاہ ہے تو آپ کا اعتماد اور بڑھ جاتا ہے۔
درحقیقت دعا پر اعتماد ہی خدا پر اعتماد کی نشانی ہے۔ اس لیے آج سے دعا مانگیں۔ رب سے مانگتے ہوئے شرمائے بغیر مانگیں۔ مانگنا تعلق کو ظاہر کرتا ہے اس لیے اپنی کامیابی مانگیں، جذبہ مانگیں، خیر مانگیں اور برکت مانگیں۔ خدا تعالیٰ کواپنے بندے کا مانگنا بہت اچھا لگتا ہے۔ پورے مان کے ساتھ مانگیں۔ یہ کہہ کر مانگیں کہ ''اے میرے اللہ تیرے علاوہ میرا ہے کون جس سے میں مانگوں'' اپنے آپ پر مان آپ کے اندر روحانیت کو بیدار کرتا ہے۔ یاد رکھیں روح دینے والے سے تعلق روحانیت کو بیدار کردیتا ہے۔ آج سے یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ آپ روح والی مخلوق ہیں، دعا مانگنے والی ، رب سے تعلق بنانے والی اور رب پر مان کرنے والی مخلوق۔
ذرا سوچئے کتنے عرصے سے آپ نے اپنے رب سے بات چیت کی ہی نہیں۔ اپنوں سے تو رابطے قائم رہنے چاہئیں۔ کسی بہت اپنے کو کچھ کہنا ہو تو انتظار کس بات کا ابھی بات کیجئے۔ وضو کیجئے سر سجدے میں رکھیے اور دل کا حال بیان کردیجئے۔ آج ہی ٹوٹے ہوئے تعلق کو برقرار کیجئے۔ یاد رکھیے آپ کی آمد کا خدا تعالیٰ کو بہت انتظار ہے۔ وہ تو خود انتظار کرتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے مانگے اور میں نواز دوں۔
-2 اپنے خدا سے تعلق کیلئے دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔ حدیث شریف ہے کہ ''جو معاف کرتا ہے خدا اس کو معاف کردیتا ہے۔'' رب تعالیٰ کو معاف کرنے والے بہت پسند ہیں۔ معاف کرنے والے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ گلہ نہیں کرتا۔ معاف کرنے سے آپ اپنی انرجی بچالیتے ہیں۔ آپ بھی آج سے معاف کرنا شروع کریں۔ دوسروں کو اللہ کیلئے معاف کریں۔ جب آپ اللہ کیلئے معاف کرتے ہیں تو آپ کا اپنے کے رب سے تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ معاف کرنے والا خالق اور مخلوق دونوں کا پسندیدہ ہوتا ہے۔ معاف کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو معافی مانگنے سے پہلے ہی معاف کردیں تاکہ اس کو معافی مانگنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔
معاف کرنے سے آپ کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ سقراط کے پاس بہت دور دور سے لوگ سوال پوچھنے آتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص ان کے گھر گیا اور دروازہ کھٹکایا، اندر سے بہت بدزبان اور برے لہجے میں جواب آیا ''سقراط گھر پر نہیں ہے۔'' وہ شخص ڈھونڈتا ہوا بازار گیا وہاں سقراط مل گیا۔ اس نے سب سے پہلے اپنا سوال کیا اور سقراط نے جواب دے دیا پھر وہ شخص بولا ''اے وقت کے دانش ور یہ تو بتا کہ تو فہم و فراست کا پیکر ہے اور تیری گھر والی اتنی بدتمیز کیوں ہے۔''
سقراط بولا اس کے بدتمیز ہونے کی وجہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ اس بدتمیز اور بدزبان کو معاف کرنے سے خداتعالیٰ مجھے دانش اور سمجھ نوازتا ہے اس لیے آپ بھی معاف کرنا سیکھیں۔ یاد رکھیں معاف کرنا ایک عادت ہے اور عادت سیکھی جاسکتی ہے اور پیدا بھی کی جاسکتی ہے۔ اپنی شخصیت میں معاف کرنے کی عادت پیدا کریں یہ عادت نبیوں کی عادت ہے، یہ عادت ولیوں اور اللہ والوں کی عادت ہے ،یہ عادت آپ کے اندر روحانیت بیدار کردیتی ہے۔
-3 رنگ محل بازار میں ایک بابا جی رہتے تھے پیشے کے اعتبار سے وہ موچی تھے۔ ان کا نام بابا فیروز تھا۔ ایک بات بہت معروف ہے ان کے متعلق کے وہ صاحب دعا تھے۔ دوسروں کے لیے دعا کرتے تھے اور اللہ کریم ان کی دعا سنتا بھی تھا۔ ان کے درویش اور ولی اللہ ہونے پر بہت سے لوگوں کا یقین تھا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ باباجی اللہ سے دوستی کیسے ہوئی؟ کہاں موچی اور کہاں اللہ کا ولی؟ بابا جی نے جواب بہت خوبصورت دیا فرمانے لگے ''میں نے پوری زندگی میں جس کی جوتی مرمت کی ہے اس نیت سے مرمت کی ہے کہ یہ میرے اللہ کا بندہ ہے اور یہ میرے رسولﷺؐ کا امتی ہے۔''
اگلا جملہ بہت خوبصورت ہے فرماتے ہیں'' کام بڑا نہیں ہوتا ،کام کی نیت کام کو بڑا بنا دیتی ہے۔'' یہ راز بہت کم لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کام کی عظمت دراصل نیت کی عظمت میں چھپی ہے۔ خلوص نیت تو ولیوں کاشیوہ ہے۔ آپ جو بھی کام کررہے ہیں۔ کاروبار، پڑھائی، نوکری، دوسروں کی مدد، سیاست، ڈاکٹری یا انجینئرنگ، تبلیغ، رہنمائی یا تدریس... آج سے ابھی سے اس کام کی نیت بہترین کریں۔ اللہ کی نظر میں پسندیدہ وہ ہے جس کی نیت بہترین ہے۔
قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھی جانے والی کتاب بخاری شریف ہے اور حدیث کی اس کتاب کے اعمال والے باب کی ابتدائی حدیث یہ ہے ''عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے''۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جس کے کام اور محنت کی نیت مخلوق کی خیر اور اللہ کی خوشنودی ہو۔ آپ بھی اپنے کام میں نیت کریں کہ مخلوق خدا کی خیر کرنی ہے پھر دیکھیں اللہ آپ کو دوست کیے بناتا ہے۔
-4 اللہ کریم کو وہ بندہ بہت پسند ہے جس کا اخلاق بہت اچھا ہے۔ اچھا اخلاق دوسروں کو بے لوث پیار کرنے اور احترام دینے سے شروع ہوتا ہے۔ ترمذی شریف حدیث کی معروف کتاب ہے اس میں ایک حدیث موجود ہے جو اخلاق کی قدرو قیمت بیان کرتی ہے۔ ''قیامت کے روز مومن کے نامہ اعمال میں سب سے وزنی شہ اس کا حسن اخلاق ہوگا۔'' نرم زبان میں بات کرنا، شرم و حیا کا خیال رکھنا اور دوسروں کو قدر دینا اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر آپ اللہ کی مدد چاہتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق سے معاملہ کریں۔
اچھے اخلاق والے لوگوں کے دوست زیادہ ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں عزت اور محبت ہمیشہ دینے سے ملتی ہے۔ ہم عزت اور محبت کا تقاضا کئے بغیر دوسروں کو محبت دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ اچھے اخلاق سے پیش آکر دیکھیں تو سہی، آپ خود کہیں گے کہ میٹھے بول میں جادو ہے۔ ان لوگوں کا اخلاق زیادہ اچھا ہوتا ہے جو یہ جانتے ہیں کہ اخلاق ''جسمانی طاقت'' سے زیادہ طاقت ور ہے۔ آپ اپنی یاداشت پر زور ڈالیے ،آپ کے دل میں ان سب کی محبت بھری یاد ہوگی جن کے اخلاق اچھے ہیں۔ ماہرین کی ریسرچ کے مطابق ان لوگوں کے کاروبار ترقی کرتے ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ بداخلاق انسان ا پنے دنیاوی دوست سے بھی محروم ہوجاتا ہے اور اللہ کی دوستی بھی اسے نہیں ملتی۔ آج سے اپنے اخلاق کو بہتر کریں۔ اچھے بول بولنا سیکھیں۔ دوسروں سے پیار کرنا سیکھیں یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو بہت پسند فرماتے ہیں۔
-5 اللہ کی محبت ان لوگوں کیلئے ہوتی ہے جو احسان کرتے ہیں۔ احسان کرنے والا سخی ہوتا ہے اور سخی اللہ کو بہت پسند ہے۔ سخاوت کرنے والا اپنے اس عمل سے اس بات کا اظہار کررہا ہوتا ہے کہ میرا ایمان اس ہستی پر ہے جو تمام خزانوں کا مالک ہے۔ سخاوت آپ کے کاموں اور مال میں برکت ڈال دیتی ہے۔ آپ یقینی طور پر کامیاب ہوسکتے ہیں اگر آپ اپنی زندگی کے ثمرات میں دوسروں کو شامل کرتے ہیں۔ سخاوت مال کی موجودگی میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دل سے ہوتی، یہ حوصلے سے ہوتی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اصل سخی وہ ہے جو دل کا سخی ہے۔ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والا، اپنے علم سے دوسروں کی زندگی میں روشنی کرنے والا اور مایوس لوگوں کو امید کی دولت دینے والا بھی سخی ہی کہلائے گا۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کو ایک پرانی کٹیا مل گئی۔ اندر داخل ہوا تو ایک بزرگ کو عبادت کرتے پایا۔ وہ اپنی عبادت سے فارغ ہوئے تو اس کی طرف متوجہ ہوکر آنے کا مقصد پوچھا۔ بادشاہ نے پیاس اور راستہ بھولنے کا بتایا۔ بزرگ نے پانی پلایا اور راستہ بتاکر دوبارہ عبادت کرنا چاہی تو بادشاہ بولا حضرت ایک چھوٹا سا تحفہ آپ کو عنایت کرنا چاہتا ہوں یہ کہہ کر اپنی انگوٹھی ان کے ہاتھ پر رکھ دی اور کہا کہ میں بادشاہ ہوں آپ جب چاہیں میرے محل میں آجاسکتے ہیں۔
فقط دربان کو یہ انگوٹھی دکھائیے گا وہ بغیر کسی سوال کے آپ کو مجھ تک پہنچا دے گا۔ بادشاہ وہاں سے رخصت ہوگیا۔ کچھ دن کے بعد بزرگ کو کچھ پیسوں کی شدید ضرورت آن پڑی وہ انگوٹھی لیے محل کو چلے۔ دربان نے بغیر سوال کے داخل ہونے دیا۔ سب دروازے کھول دیئے گئے اور وہ بادشاہ کے کمرے تک چلے گئے۔ کمرے کے باہر ہی انہیں کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا اندر جھانک کر دیکھا تو حیران ہوئے بادشاہ سجدے میں سر رکھ کر اللہ کے سامنے رو رہا تھا۔
وہیں سے واپس چل پڑے۔ قدموں کی چاپ سے بادشاہ متوجہ ہوا اور وہی رکنے کا کہہ دیا۔ بادشاہ نے عرض کی حضرت حکم فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔ بزرگ نے کہا ''میں کچھ مانگنے آیا تھا لیکن میں خود شرمندہ ہوگیا ہوں کیونکہ جو خود مانگتا ہو اس سے کیا مانگنا۔''
یہ کہانی پورا فلسفہ بیان کرتی ہے اور ہم میں سے اکثر اس فلسفے سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ ''جو خود مانگتا ہو اس سے کیا مانگنا۔''
ہم ساری زندگی گزار دیتے ہیں لیکن اپنے رب سے محبت کو تعلق نہیں بنا پاتے کیونکہ ہم رب کے تعلق کو اہم نہیں سمجھتے۔ انسان کی نفسیات میں شامل ہے کہ وہ ہر اس تعلق کو قائم رکھتا ہے اور اہم سمجھتا ہے جس سے اس کا فائدہ جڑا ہوا ہو۔ ہم اپنی شعوری زندگی میں اپنے اور اپنے رب کے تعلق کی اہمیت کو جان ہی نہیں پاتے اس لیے ہم اس تعلق کو جوڑنے کا نہیں سوچتے اور نہ ہی اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ ایک بہت اہم اصول جان لیجئے کہ ''انسان جس بھی کام کو اہم سمجھے اور کرنا چاہے اس کا راستہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔'' سب سے پہلے تو اس بات کی اہمیت کو سامنے رکھ لیجئے کہ بغیر خدا تعالیٰ کی مدد اور رہنمائی کے کوئی بڑا کام ممکن نہیں۔ رب کی ذات کی عظمت یہ ہے کہ وہ آپ سے بڑا کام بھی کرواتی ہے اور اس کام میں برکت بھی ڈالتی ہے۔ آپ کی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچنا بلکہ فائدہ ملنا برکت اور فضل کی دلیل ہے۔
خدا تعالیٰ نے آپ کو جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آپ اپنے جسم کی طاقت سے وزن اٹھاسکتے ہیں و جسمانی محنت کرسکتے ہیں، دوڑ سکتے ہیں لیکن جسمانی صلاحیت دوسری مخلوقات میں بھی موجود ہیں۔ گھوڑے کی طاقت کی وجہ سے ''ہارس پاور'' کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ہرن اور چیتا انسان سے کئی گنا تیز دوڑ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کو ذہنی صلاحیتیں بھی عطا کی گئی ہیں۔ آپ کی یادداشت، آپ کی آبزرویشن اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ذہن کے تابع ہیں لیکن آپ جان کر حیران ہوں گے کہ شاہین ایک وقت میں ساٹھ مربع کلو میٹر (60 مربع کلو میٹر) کا علاقہ دیکھ کر اپنے شکار کو تلاش کرلیتا ہے۔ ریچھ کی یادداشت کے کئی واقعات آپ نے سنے ہوں گے۔ قوت فیصلہ کسی حد تک بندر اور بن مانس میں بھی ہے لیکن ایک واحد صلاحیت جو باقی مخلوقات میں نہیں وہ روحانی صلاحیت ہے۔
روحانیت دراصل خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا نام ہے اور ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ اس سفر کا راستہ آپ کو مل جاتا ہے جس سفر کو آپ اہمیت دیتے ہیں۔ زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ''جب ہم کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو سیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں۔'' یہ تمام باتیں جو ہم ان مضامین میں بیان کرتے ہیں ان کے سیکھنے کا بہترین وقت لڑکپن اور جوانی ہے۔ آئیے آج ان پانچ طریقوں کو جانیں جن سے آپ کی روحانیت بیدار ہوسکتی ہے۔
(1) خدا تعالیٰ سے تعلق یا روحانیت تب بیدار ہوتی ہے جب آپ دعا کا سہارا استعمال کرتے ہیں۔ آپ مکمل یقین کے ساتھ بغیر دیکھے خدا کی ذات سے مانگتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ کا اٹھنا آنکھوں کا جھکنا اور آنسو اس بات کی علامت ہوتے ہیں کہ آپ کا دینے والے سے کوئی تعلق ہے۔ خدا تعالیٰ کے در کی گدائی آپ کو در در کی ٹھوکروں سے بچالیتی ہے۔ خدا تعالیٰ سے مانگنا بذات خود خدا تعالیٰ کی طاقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور جب آپ کو پتا ہوتا ہے کہ جس سے میں مانگ رہا ہوں وہ اس کائنات کا سب سے طاقت ور بادشاہ ہے بلکہ یہ کہہ لیں کہ اصل بادشاہ ہے تو آپ کا اعتماد اور بڑھ جاتا ہے۔
درحقیقت دعا پر اعتماد ہی خدا پر اعتماد کی نشانی ہے۔ اس لیے آج سے دعا مانگیں۔ رب سے مانگتے ہوئے شرمائے بغیر مانگیں۔ مانگنا تعلق کو ظاہر کرتا ہے اس لیے اپنی کامیابی مانگیں، جذبہ مانگیں، خیر مانگیں اور برکت مانگیں۔ خدا تعالیٰ کواپنے بندے کا مانگنا بہت اچھا لگتا ہے۔ پورے مان کے ساتھ مانگیں۔ یہ کہہ کر مانگیں کہ ''اے میرے اللہ تیرے علاوہ میرا ہے کون جس سے میں مانگوں'' اپنے آپ پر مان آپ کے اندر روحانیت کو بیدار کرتا ہے۔ یاد رکھیں روح دینے والے سے تعلق روحانیت کو بیدار کردیتا ہے۔ آج سے یہ حقیقت سامنے رکھیں کہ آپ روح والی مخلوق ہیں، دعا مانگنے والی ، رب سے تعلق بنانے والی اور رب پر مان کرنے والی مخلوق۔
ذرا سوچئے کتنے عرصے سے آپ نے اپنے رب سے بات چیت کی ہی نہیں۔ اپنوں سے تو رابطے قائم رہنے چاہئیں۔ کسی بہت اپنے کو کچھ کہنا ہو تو انتظار کس بات کا ابھی بات کیجئے۔ وضو کیجئے سر سجدے میں رکھیے اور دل کا حال بیان کردیجئے۔ آج ہی ٹوٹے ہوئے تعلق کو برقرار کیجئے۔ یاد رکھیے آپ کی آمد کا خدا تعالیٰ کو بہت انتظار ہے۔ وہ تو خود انتظار کرتا ہے کہ میرا بندہ مجھ سے مانگے اور میں نواز دوں۔
-2 اپنے خدا سے تعلق کیلئے دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں۔ حدیث شریف ہے کہ ''جو معاف کرتا ہے خدا اس کو معاف کردیتا ہے۔'' رب تعالیٰ کو معاف کرنے والے بہت پسند ہیں۔ معاف کرنے والے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ گلہ نہیں کرتا۔ معاف کرنے سے آپ اپنی انرجی بچالیتے ہیں۔ آپ بھی آج سے معاف کرنا شروع کریں۔ دوسروں کو اللہ کیلئے معاف کریں۔ جب آپ اللہ کیلئے معاف کرتے ہیں تو آپ کا اپنے کے رب سے تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ معاف کرنے والا خالق اور مخلوق دونوں کا پسندیدہ ہوتا ہے۔ معاف کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو معافی مانگنے سے پہلے ہی معاف کردیں تاکہ اس کو معافی مانگنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔
معاف کرنے سے آپ کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ سقراط کے پاس بہت دور دور سے لوگ سوال پوچھنے آتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص ان کے گھر گیا اور دروازہ کھٹکایا، اندر سے بہت بدزبان اور برے لہجے میں جواب آیا ''سقراط گھر پر نہیں ہے۔'' وہ شخص ڈھونڈتا ہوا بازار گیا وہاں سقراط مل گیا۔ اس نے سب سے پہلے اپنا سوال کیا اور سقراط نے جواب دے دیا پھر وہ شخص بولا ''اے وقت کے دانش ور یہ تو بتا کہ تو فہم و فراست کا پیکر ہے اور تیری گھر والی اتنی بدتمیز کیوں ہے۔''
سقراط بولا اس کے بدتمیز ہونے کی وجہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ اس بدتمیز اور بدزبان کو معاف کرنے سے خداتعالیٰ مجھے دانش اور سمجھ نوازتا ہے اس لیے آپ بھی معاف کرنا سیکھیں۔ یاد رکھیں معاف کرنا ایک عادت ہے اور عادت سیکھی جاسکتی ہے اور پیدا بھی کی جاسکتی ہے۔ اپنی شخصیت میں معاف کرنے کی عادت پیدا کریں یہ عادت نبیوں کی عادت ہے، یہ عادت ولیوں اور اللہ والوں کی عادت ہے ،یہ عادت آپ کے اندر روحانیت بیدار کردیتی ہے۔
-3 رنگ محل بازار میں ایک بابا جی رہتے تھے پیشے کے اعتبار سے وہ موچی تھے۔ ان کا نام بابا فیروز تھا۔ ایک بات بہت معروف ہے ان کے متعلق کے وہ صاحب دعا تھے۔ دوسروں کے لیے دعا کرتے تھے اور اللہ کریم ان کی دعا سنتا بھی تھا۔ ان کے درویش اور ولی اللہ ہونے پر بہت سے لوگوں کا یقین تھا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ باباجی اللہ سے دوستی کیسے ہوئی؟ کہاں موچی اور کہاں اللہ کا ولی؟ بابا جی نے جواب بہت خوبصورت دیا فرمانے لگے ''میں نے پوری زندگی میں جس کی جوتی مرمت کی ہے اس نیت سے مرمت کی ہے کہ یہ میرے اللہ کا بندہ ہے اور یہ میرے رسولﷺؐ کا امتی ہے۔''
اگلا جملہ بہت خوبصورت ہے فرماتے ہیں'' کام بڑا نہیں ہوتا ،کام کی نیت کام کو بڑا بنا دیتی ہے۔'' یہ راز بہت کم لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کام کی عظمت دراصل نیت کی عظمت میں چھپی ہے۔ خلوص نیت تو ولیوں کاشیوہ ہے۔ آپ جو بھی کام کررہے ہیں۔ کاروبار، پڑھائی، نوکری، دوسروں کی مدد، سیاست، ڈاکٹری یا انجینئرنگ، تبلیغ، رہنمائی یا تدریس... آج سے ابھی سے اس کام کی نیت بہترین کریں۔ اللہ کی نظر میں پسندیدہ وہ ہے جس کی نیت بہترین ہے۔
قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھی جانے والی کتاب بخاری شریف ہے اور حدیث کی اس کتاب کے اعمال والے باب کی ابتدائی حدیث یہ ہے ''عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے''۔ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جس کے کام اور محنت کی نیت مخلوق کی خیر اور اللہ کی خوشنودی ہو۔ آپ بھی اپنے کام میں نیت کریں کہ مخلوق خدا کی خیر کرنی ہے پھر دیکھیں اللہ آپ کو دوست کیے بناتا ہے۔
-4 اللہ کریم کو وہ بندہ بہت پسند ہے جس کا اخلاق بہت اچھا ہے۔ اچھا اخلاق دوسروں کو بے لوث پیار کرنے اور احترام دینے سے شروع ہوتا ہے۔ ترمذی شریف حدیث کی معروف کتاب ہے اس میں ایک حدیث موجود ہے جو اخلاق کی قدرو قیمت بیان کرتی ہے۔ ''قیامت کے روز مومن کے نامہ اعمال میں سب سے وزنی شہ اس کا حسن اخلاق ہوگا۔'' نرم زبان میں بات کرنا، شرم و حیا کا خیال رکھنا اور دوسروں کو قدر دینا اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر آپ اللہ کی مدد چاہتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق سے معاملہ کریں۔
اچھے اخلاق والے لوگوں کے دوست زیادہ ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں عزت اور محبت ہمیشہ دینے سے ملتی ہے۔ ہم عزت اور محبت کا تقاضا کئے بغیر دوسروں کو محبت دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ اچھے اخلاق سے پیش آکر دیکھیں تو سہی، آپ خود کہیں گے کہ میٹھے بول میں جادو ہے۔ ان لوگوں کا اخلاق زیادہ اچھا ہوتا ہے جو یہ جانتے ہیں کہ اخلاق ''جسمانی طاقت'' سے زیادہ طاقت ور ہے۔ آپ اپنی یاداشت پر زور ڈالیے ،آپ کے دل میں ان سب کی محبت بھری یاد ہوگی جن کے اخلاق اچھے ہیں۔ ماہرین کی ریسرچ کے مطابق ان لوگوں کے کاروبار ترقی کرتے ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ بداخلاق انسان ا پنے دنیاوی دوست سے بھی محروم ہوجاتا ہے اور اللہ کی دوستی بھی اسے نہیں ملتی۔ آج سے اپنے اخلاق کو بہتر کریں۔ اچھے بول بولنا سیکھیں۔ دوسروں سے پیار کرنا سیکھیں یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو بہت پسند فرماتے ہیں۔
-5 اللہ کی محبت ان لوگوں کیلئے ہوتی ہے جو احسان کرتے ہیں۔ احسان کرنے والا سخی ہوتا ہے اور سخی اللہ کو بہت پسند ہے۔ سخاوت کرنے والا اپنے اس عمل سے اس بات کا اظہار کررہا ہوتا ہے کہ میرا ایمان اس ہستی پر ہے جو تمام خزانوں کا مالک ہے۔ سخاوت آپ کے کاموں اور مال میں برکت ڈال دیتی ہے۔ آپ یقینی طور پر کامیاب ہوسکتے ہیں اگر آپ اپنی زندگی کے ثمرات میں دوسروں کو شامل کرتے ہیں۔ سخاوت مال کی موجودگی میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دل سے ہوتی، یہ حوصلے سے ہوتی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اصل سخی وہ ہے جو دل کا سخی ہے۔ دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والا، اپنے علم سے دوسروں کی زندگی میں روشنی کرنے والا اور مایوس لوگوں کو امید کی دولت دینے والا بھی سخی ہی کہلائے گا۔