آئیے مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کریں
آئیےاپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں،اپنی طاقت دکھائیں اور ماہ مبارک رمضان کو مال بٹورنےکا ذریعہ بنانےوالوں کو سبق سکھائیں
میرا تعلق ضلع سوات کے پُر فضام مقام کالام سے ہے۔ یہ ایسا سرد علاقہ ہے کہ جون جولائی میں بھی لوگ دن میں سویٹر اور جیکٹ پہن کر گھومتے ہیں اور رات میں رضائی لیکر سوجاتے ہیں۔ آج کل رمضان میں کراچی سمیت دیگر شہروں میں شدید گرمی اور اوپر سے مسلسل لوڈ شیڈنگ نے شدت سے گاوں کی یاد دلائی ہے۔ وہاں آج بھی لوگ سحری اور افطاری کے وقت آگ جلا کر اِرد گرد بیٹھ جاتے ہیں۔ پنکھے کا وہاں کوئی تصور نہیں اور اے سی کے بارے میں تو وہاں کے لوگ جانتے ہی بہت کم ہیں۔
گاوں اور کراچی کی افطاری میں بھی بڑا فرق ہے۔ یہاں دوپہر کے بعد سے ہی افطاری کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ پکوڑے، سموسے، چنا چاٹ اور سب سے بڑھ کر فروٹ چاٹ اگر نہ ہو تو افطاری ادھوری لگتی ہے۔ خواتین افطاری تک شدید گرمی میں مختلف چیزیں تلتی رہتی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی مختلف قسم کے مشروبات کے کولر بھر بھر کر رکھے جاتے ہیں۔ بس اِدھر آذان ہوئی اور اُدھر جگ منہ کو لگالیا۔ اگلا انتظار ہی کرتا رہے کہ اُس کا نمبر کب آئے گا۔ اِس کے برعکس گاوں میں اتنی ساری پنچایتیں اور اضافی اخراجات نہیں کرنے پڑتے، اور نہ ہی اِس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ خواتین مغرب سے پہلے سالن اور روٹی تیار کرلیتی ہیں۔ مشروبات کی ضرورت نہیں پڑتی، چشمے کا تازہ پانی لال پیلے مشروبات سے گئی گنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ آذان سے پہلے دسترخوان لگ جاتا ہے۔ سالن پلیٹوں میں نکالا جاتا ہے۔ اذان ہوتے ہی روزہ دار کھجور کے ساتھ افطاری کرکے کھانا شروع کرتے ہیں۔ جس نے نماز پڑھنی ہے وہ ذرا جلدی نمٹا کر واپس دسترخوان پر پہنچ جاتا ہے۔ اِسی کلچر کی بدولت گاوں میں کبھی رمضان میں مہنگائی نہیں آتی۔
لیکن اِس کے برعکس شہری علاقوں میں رمضان کے آغاز سے ہی دیگر اشیائے خورد و نوش خاص طور پر پھلوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ جو پھل عام دنوں میں 50 روپے کلو یا درجن دستیاب ہورہا تھا، اب وہ رمضان کے پہلے ہی دن خود بخود چھلانک لگا کر 200 تک پہنچ جاتا ہے۔ اِس کے باوجود لوگ خود پر جبر کرکے پھل کھانا ایسے ہی لازم سمجھتے ہیں، جیسے اگر افطاری میں پھل نہیں کھائے تو روزوں کی قبولیت میں شاید کچھ مسائل پیدا ہوجائیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم پورا سال اِس باقاعدگی سے ہرگز پھل نہیں کھاتے، لیکن کیا ایسا کرنے سے ہماری صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ یقیناً نہیں، اور مجھے یقین ہے کہ رمضان میں بھی اگر کچھ دنوں کے لیے پھل کھانا ترک کردیں تب بھی ہماری صحت پر کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا۔
گزشتہ برس رمضان میں پھلوں کی قیمتیں اِس قدر تیزی سے بڑھیں کہ بہت سارے نادار اور کم آمدنی والے افراد کیلئے پھل کھانا مشکل نہیں ناممکن ہی ہوگیا۔ اِس دوران صارفین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے عوام سے پھلوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ عوام کی ایک خاطر خواہ تعداد نے اِس اپیل کو سنجیدہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دو دن کے اندر ہی پھلوں کی قیمتیں پہلے سے زیادہ گرگئیں۔
رواں سال بھی رمضان کے پہلے دن سے ہی پھلوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچ کر بیٹھ جائیں کہ انتظامیہ ہی قیمتوں میں اضافہ کا سدِباب کرے گی یا ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو لگام ڈالے گی تو کم از کم ہمارے معاشرے میں یہ ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ فروٹ کی سپلائی سے وابستہ بڑے تاجروں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں اور مقامی مارکیٹ میں وہی پولیس والا جاتا ہے جو عام دنوں میں ریڑھی والے سے روزانہ 100 روپے بھتہ لیتا ہے اور رمضان میں بھتہ ڈبل لیکر کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔
اِس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا کہ عوام میں اِس حوالے سے ایک بیداری مہم شروع کی جائے تاکہ اُن کو بحیثیت صارف اپنی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور اِس کے نتیجے میں ناجائز منافع بٹورنے والوں کو بھی عوامی سطح پر لگام ڈالی جائے۔ مہم کا طریقہ یہ طے کیا ہے کہ صرف تین دن جمعہ، ہفتہ، اتوار بتاریخ 4،3،2 جون کو کراچی سمیت ملک بھر میں عوام پھلوں کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ افطاری سے قبل سالن تیار کرے۔ اذان ہوتے ہی کھجور کے ساتھ روزہ افطار کرے اور کھانا کھالے۔ اگر ہم لوگ تین دن تک حقیقی معنوں میں پھلوں کا بائیکاٹ کرلیں اور فروٹ گوداموں میں سڑنا شروع ہوجائیں تو یقین کریں یہ ناجائز منافع خور تاجر اِن پھلوں کو اپنی اصل قیمت سے بھی سستا فروخت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اِس سے عام مزدور متاثر ہوگا تو یہ بتاتا چلوں کہ پھلوں کی ترسیل میں ایک عام مزدور کا حصہ بہت کم ہے۔ ریڑھی والا گھر سے فروٹ لیکر نہیں آتا، نہ ہی باغات خریدتا ہے۔ دوسری طرف اِس ہڑتال کی وجہ سے باغبان کا نقصان بھی نہیں ہوگا کیوںکہ اُن سے تو تاجر ایک مہینہ پہلے سستے داموں خرید کر گوداموں میں اسٹور کرتے ہیں اور پھر رمضان میں منہ مانگے داموں مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں۔ الغرض مگر مچھ درمیانے تاجر ہے۔ باغبان اور ریڑھی والا بھی اِس مگر مچھ کے استحصال کا شکار ہے۔ آئیں اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں، اپنی طاقت دکھائیں اور رمضان کے مقدس مہینے کو مال بٹورنے کا ذریعہ بنانے والوں کو سبق سکھائیں۔
آخر میں گزارشٜ بس اتنی سی ہے کہ اگر آپ گھر کے سربراہ ہیں اور یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ سے التجا ہے کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو پھل نہ خریدیں۔ اگر آپ گھر کے چھوٹے ہیں تو یہ پیغام سربراہ تک ضرور پہنچائیں۔ اپنے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو مہم کا حصہ بنا کر عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں۔
[poll id="1379"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گاوں اور کراچی کی افطاری میں بھی بڑا فرق ہے۔ یہاں دوپہر کے بعد سے ہی افطاری کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ پکوڑے، سموسے، چنا چاٹ اور سب سے بڑھ کر فروٹ چاٹ اگر نہ ہو تو افطاری ادھوری لگتی ہے۔ خواتین افطاری تک شدید گرمی میں مختلف چیزیں تلتی رہتی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی مختلف قسم کے مشروبات کے کولر بھر بھر کر رکھے جاتے ہیں۔ بس اِدھر آذان ہوئی اور اُدھر جگ منہ کو لگالیا۔ اگلا انتظار ہی کرتا رہے کہ اُس کا نمبر کب آئے گا۔ اِس کے برعکس گاوں میں اتنی ساری پنچایتیں اور اضافی اخراجات نہیں کرنے پڑتے، اور نہ ہی اِس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ خواتین مغرب سے پہلے سالن اور روٹی تیار کرلیتی ہیں۔ مشروبات کی ضرورت نہیں پڑتی، چشمے کا تازہ پانی لال پیلے مشروبات سے گئی گنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ آذان سے پہلے دسترخوان لگ جاتا ہے۔ سالن پلیٹوں میں نکالا جاتا ہے۔ اذان ہوتے ہی روزہ دار کھجور کے ساتھ افطاری کرکے کھانا شروع کرتے ہیں۔ جس نے نماز پڑھنی ہے وہ ذرا جلدی نمٹا کر واپس دسترخوان پر پہنچ جاتا ہے۔ اِسی کلچر کی بدولت گاوں میں کبھی رمضان میں مہنگائی نہیں آتی۔
لیکن اِس کے برعکس شہری علاقوں میں رمضان کے آغاز سے ہی دیگر اشیائے خورد و نوش خاص طور پر پھلوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ جو پھل عام دنوں میں 50 روپے کلو یا درجن دستیاب ہورہا تھا، اب وہ رمضان کے پہلے ہی دن خود بخود چھلانک لگا کر 200 تک پہنچ جاتا ہے۔ اِس کے باوجود لوگ خود پر جبر کرکے پھل کھانا ایسے ہی لازم سمجھتے ہیں، جیسے اگر افطاری میں پھل نہیں کھائے تو روزوں کی قبولیت میں شاید کچھ مسائل پیدا ہوجائیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم پورا سال اِس باقاعدگی سے ہرگز پھل نہیں کھاتے، لیکن کیا ایسا کرنے سے ہماری صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ یقیناً نہیں، اور مجھے یقین ہے کہ رمضان میں بھی اگر کچھ دنوں کے لیے پھل کھانا ترک کردیں تب بھی ہماری صحت پر کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا۔
گزشتہ برس رمضان میں پھلوں کی قیمتیں اِس قدر تیزی سے بڑھیں کہ بہت سارے نادار اور کم آمدنی والے افراد کیلئے پھل کھانا مشکل نہیں ناممکن ہی ہوگیا۔ اِس دوران صارفین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم نے عوام سے پھلوں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ عوام کی ایک خاطر خواہ تعداد نے اِس اپیل کو سنجیدہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دو دن کے اندر ہی پھلوں کی قیمتیں پہلے سے زیادہ گرگئیں۔
رواں سال بھی رمضان کے پہلے دن سے ہی پھلوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ اگر ہم یہ سوچ کر بیٹھ جائیں کہ انتظامیہ ہی قیمتوں میں اضافہ کا سدِباب کرے گی یا ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو لگام ڈالے گی تو کم از کم ہمارے معاشرے میں یہ ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ فروٹ کی سپلائی سے وابستہ بڑے تاجروں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں اور مقامی مارکیٹ میں وہی پولیس والا جاتا ہے جو عام دنوں میں ریڑھی والے سے روزانہ 100 روپے بھتہ لیتا ہے اور رمضان میں بھتہ ڈبل لیکر کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔
اِس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا کہ عوام میں اِس حوالے سے ایک بیداری مہم شروع کی جائے تاکہ اُن کو بحیثیت صارف اپنی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور اِس کے نتیجے میں ناجائز منافع بٹورنے والوں کو بھی عوامی سطح پر لگام ڈالی جائے۔ مہم کا طریقہ یہ طے کیا ہے کہ صرف تین دن جمعہ، ہفتہ، اتوار بتاریخ 4،3،2 جون کو کراچی سمیت ملک بھر میں عوام پھلوں کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ افطاری سے قبل سالن تیار کرے۔ اذان ہوتے ہی کھجور کے ساتھ روزہ افطار کرے اور کھانا کھالے۔ اگر ہم لوگ تین دن تک حقیقی معنوں میں پھلوں کا بائیکاٹ کرلیں اور فروٹ گوداموں میں سڑنا شروع ہوجائیں تو یقین کریں یہ ناجائز منافع خور تاجر اِن پھلوں کو اپنی اصل قیمت سے بھی سستا فروخت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ اِس سے عام مزدور متاثر ہوگا تو یہ بتاتا چلوں کہ پھلوں کی ترسیل میں ایک عام مزدور کا حصہ بہت کم ہے۔ ریڑھی والا گھر سے فروٹ لیکر نہیں آتا، نہ ہی باغات خریدتا ہے۔ دوسری طرف اِس ہڑتال کی وجہ سے باغبان کا نقصان بھی نہیں ہوگا کیوںکہ اُن سے تو تاجر ایک مہینہ پہلے سستے داموں خرید کر گوداموں میں اسٹور کرتے ہیں اور پھر رمضان میں منہ مانگے داموں مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں۔ الغرض مگر مچھ درمیانے تاجر ہے۔ باغبان اور ریڑھی والا بھی اِس مگر مچھ کے استحصال کا شکار ہے۔ آئیں اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں، اپنی طاقت دکھائیں اور رمضان کے مقدس مہینے کو مال بٹورنے کا ذریعہ بنانے والوں کو سبق سکھائیں۔
آخر میں گزارشٜ بس اتنی سی ہے کہ اگر آپ گھر کے سربراہ ہیں اور یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ سے التجا ہے کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو پھل نہ خریدیں۔ اگر آپ گھر کے چھوٹے ہیں تو یہ پیغام سربراہ تک ضرور پہنچائیں۔ اپنے دوست، احباب اور عزیز و اقارب کو مہم کا حصہ بنا کر عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں۔
[poll id="1379"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔