بنگلادیش بھارتی شکنجے میں
بنگلادیش کے خلاف بھارتی بد باطنی یہ بھی ہے کہ بھارت اس پاور پلانٹ میں اپنا سب سے نکما کوئلہ استعمال کرنے جا رہا ہے
اگست 2016ء میں بھارتی وزیر اعظم نریند مودی اور بنگلادیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے گٹھ جوڑ سے ایک بھاری بھر کم پاور پلانٹ لگانے کا معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ پلانٹ بنگلادیش میں لگایا جائے گا اور اعلان کے مطابق اِس سے 1320میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ایک بھارتی کمپنی جسےBIFPCL (بنگلادیش انڈیا فرینڈ شپ پاور کمپنی لمیٹڈ)کا نام دیا گیا ہے، بجلی بنانے کا یہ کارخانہ لگائے گی۔ اِس کے سارے اخراجات (1.49ارب ڈالر) بھارت ہی کا ایک ادارہ BHEL (بھارت ہیوی الیکٹریکلز لمیٹڈ) برداشت کرے گا۔
معاہدے کے مطابق، پیدا شدہ بجلی سے حاصل ہونے والے منافع کا پچاس فیصد حصہ بھارت کو ملے گا جب کہ تمام بجلی بنگلادیش ہی کے زیر استعمال لائی جائے گی۔کہنے اور سننے کو تو یہ معاہدہ بنگلادیش کے مفاد میں نظر آتا ہے۔ ایسا مگر ہے نہیں۔ تمام ماہرین کا کہنا ہے کہ اوّل تو اس پاور پلانٹ کی بنگلادیش کو ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسرا یہ کہ بھارت بنگلادیش میں دانستہ جس جگہ یہ پلانٹ نصب کرنے جا رہا ہے، وہ بنگلادیشی سرزمین اور فضاؤں کو برباد اور آلودہ کرنے کی سازش ہے۔
اس منصوبے میں چونکہ مبینہ طور پر حسینہ واجد کے صاحبزادے کے بھاری مالی مفادات وابستہ ہیں، اس لیے بنگلادیشی حکومت اسے ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ بنگلادیش کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی، بی این پی، اس پاور پلانٹ کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء، جو دوبار وزیر اعظم بھی رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے: ''بھارت یہ پلانٹ بنگلادیش کی سب سے قیمتی جگہ، سندر بن کے جنگلات، میں لگا رہا ہے۔ یوں بنگلادیش کے جنگلوں، انوائرمنٹ اور جنگلی حیات کو قتل کرنے کا یہ ایک مہلک بھارتی منصوبہ ہے۔
بنگلادیش کے خلاف بھارتی بد باطنی یہ بھی ہے کہ بھارت اس پاور پلانٹ میں اپنا سب سے نکما کوئلہ استعمال کرنے جا رہا ہے جس سے سندر بن کے وہ قیمتی mangroves تباہ ہو جائیں گے جن پر لاکھوں بنگلادیشیوں کی زندگیوں کا انحصار ہے۔'' اس بنیاد پر بی این پی اور حکمران جماعت (عوامی لیگ) کے درمیان خاصے تصادم بھی ہو چکے ہیں۔ حسینہ واجد مگر بھارت کی محبت میں اعلان کر رہی ہیں کہ پاور پلانٹ ہر صورت لگے گا۔
یہ بات مارچ 2017ء ہی میں سامنے آنے لگی تھی کہ بنگلادیشی وزیر اعظم جَلدبھارت سے کوئی اہم دفاعی معاہدے کرنے جا رہی ہیں۔ جب اس امر کی سن گن بنگلادیش کی حزبِ اختلاف جماعتوں کو ملی تو سارے ملک میں انڈیا کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہُوا۔ سب اپوزیشن پارٹیاں بیک زبان کہہ رہی تھیں کہ بھارت حسینہ واجد کے گلے پر انگوٹھا رکھ کر، زبردستی دفاعی معاہدے پر دستخط کروانا چاہتا ہے ( تا کہ بنگلادیش کو پاکستان سے مزید دُور لے جایا جا سکے) بنگلادیش میں متذکرہ دفاعی معاہدے کے حوالے سے پہلی قوی مخالفانہ آواز جس اپوزیشن لیڈر کی سامنے آئی، وہ آر کے رضوی کی تھی۔
اُنھوں نے ڈھاکا میں ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس میں عوامی لیگ کی طرف انگشت نمائی کرتے ہُوئے کہا کہ بھارت سے یہ دفاعی معاہدہ کر کے حسینہ واجد ایک بار پھر یہ ثابت کرنے جا رہی ہیںکہ عوامی لیگ نے بنگلادیش کو بھارت کی جھولی میں گرا دیا ہے اور یہ کہ ''بنگلادیش کی موجودہ حکومت انڈیا کی خوشامد اور چاپلوسی میں تمام حدیں عبور کر گئی ہے۔'' بھارت سے موعودہ دفاعی معاہدے کے خلاف بنگلادیش سے اُٹھنے والی دوسری طاقتور آواز مرزا فخرالاسلام عالمگیر کی تھی۔ مرزا صاحب معروف بنگلادیشی اپوزیشن پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل ہیں۔
اُنھوں نے کہا تھا: ''حسینہ واجد بھارت سے دفاعی معاہدہ کرنے جا رہی ہیں تو وہ اس معاہدے کی شرائط اور تفصیلات ہم سے کیوں مخفی رکھ رہی ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی لیگ کے دل میں عوام اور ملک کے خلاف کھوٹ بھی ہے اور وہ بھارت کی باجگزار بننے پر بھی تُلی بیٹھی ہے۔'' اِ س تمام شور اور مخالفت کے باوجود حسینہ واجد اپنی ہٹ کی پکی ثابت ہُوئیں۔ جب وہ اپریل 2017ء کے دوسرے ہفتے بھارتی دورے پر گئیں تو نریندر مودی کے چرنوں میں بیٹھ کر دفاعی معاہدے کی دستاویزات پر دستخط ثبت کر دیے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب شیخ حسینہ واجد اپریل 2017ء میں مذکورہ بالا معاہدے پر دستخط کرنے جا رہی تھیں تو بنگلادیش کی متحدہ حزبِ اختلاف، جو کہ 18جماعتوں کا مجموعہ ہے، نے حسینہ کے خلاف سارے ملک میں زبردست احتجاجی جلوس نکالے۔ اپوزیشن رہنما، خالدہ ضیاء، مسلسل یہ کہتی رہیں: ''بھارتی مفادات کی قربان گاہ پر بنگلادیش کو قربان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بھارت سے ہونے والے یہ دفاعی معاہدے دراصل بنگلادیش کے پاؤں میں بھارتی غلامی کی زنجیریں ڈالنے کے مترادف ہیں۔'' بھارتی ویب اخبار FIRSTPOST تو صاف الفاظ میں لکھتا ہے: ''خالدہ ضیاء جب حسینہ واجد کو Indian Stooge کہتی ہیں تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔''
بھارت کو بھی پوری طرح احساس ہے کہ حسینہ واجد حکومت سے ہونے والے مختلف النوع معاہدوں کی بدولت اکثریتی بنگلادیشی عوام کے دلوں میں انڈیا کے خلاف کدورت اور نفرت کے جذبات پرورش پا رہے ہیں؛ چنانچہ اِسے کاؤنٹر کرنے کے لیے بھارتی اور بنگلادیشی میڈیا میں ایسی فضا تخلیق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ بنگلادیش میں بھارت کے خلاف پیدا ہونے والے یہ جذبات واحساسات دراصل پاکستان کی سازش ہے۔ مثال کے طور پر جناب عاشق الرحمن کا بھارت کے ممتاز انگریزی اخبار (دی انڈین ایکسپریس) میں شایع ہونے والا تازہ آرٹیکل۔ اس کے عنوان ہی میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ''وہ بنگلادیشی اپوزیشن پارٹیاں، خصوصاً بی این پی، جو بھارت کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا کر رہی ہیں، دراصل سیاسی کم عقلی اور جہالت کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔''
مذکورہ مضمون نگار ڈھاکا کے ایک سرکاری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بطور ''ماہرِ معیشت'' وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ خالدہ ضیاء اور دیگر بنگلادیشی حزبِ اختلاف کے لیڈر محض الزامات کی دھول اڑا رہے ہیں کہ اپریل2017ء کے دوسرے ہفتے حسینہ واجد نے دہلی میں جن معاہدات پر دستخط کیے ہیں، وہ انڈیا کے ساتھ بنگلادیش کی ہرقسم کی آزادی کا سودا کر لیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل میں دانستہ بی این پی اور بنگلادیش کی جماعتِ اسلامی پر سارا غصہ اتارا گیا ہے، یہ بہتان لگا کر کہ ''ان دونوں جماعتوں کو پاکستان کی اشیرواد حاصل ہے۔'' مضمون نگار (عاشق الرحمن) کو اس بات کا بھی غم ہے کہ یہ دونوں جماعتیں بنگلادیش میں اسلام اور اسلامی طرزِ حیات کا بلند آواز سے ذکر ہی کیوں کرتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 2018ء بنگلادیش میں عام انتخابات کا سال ہے۔ اپریل 2017ء کے وسط میں بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھارت کا جو دورہ کیا ہے، بھارتی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ نریندر مودی سے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی ''ضمانت'' لینے گئی تھیں۔ حسینہ نے مودی کے ساتھ، دفاع کے علاوہ، کئی دیگر حساس (22) معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ایک مشہوربھارتی ویب اخبار کی باخبر صحافی، سیما گوہا، کا کہنا ہے کہ بھارت حسینہ کو مجبور کر رہا تھا کہ دفاعی معاہدہ اگلے25 برسوں کے لیے ہونا چاہیے۔
مودی صاحب بنگلادیشی وزیراعظم کو مالی مراعات فراہم اور بنگلادیش سے مختلف النوع معاہدے کر کے دراصل پاکستان کو مشتعل کرنے کی ناکام کوشش بھی کر رہے ہیں۔ محترمہ حسینہ بھی بھارت کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کی مخالفت کرتی جا رہی ہیں۔ اُن کا تازہ اقدام یہ ہے کہ اُنھوں نے بنگلادیشی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنے سے منع کر دیا ہے۔ جواباً پاکستان نے بھی اِسی سلوب میں جواب دیا ہے۔ بھارت کو یقینا اس منظر سے مسرت ہو رہی ہے۔ بھارتی شکنجے میں جکڑے ہُوئے بنگلادیش کی پاکستان مخالف حرکتوں کا یہ بھی نتیجہ نکلا ہے کہ چند سال پہلے حسینہ واجد سے ایوارڈز حاصل کرنے والے چند پاکستانیوں میں سے بعض نے یہ کہہ کر کہ بنگلادیش نے دھوکا دیا ہے یہ ایوارڈز واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔
معاہدے کے مطابق، پیدا شدہ بجلی سے حاصل ہونے والے منافع کا پچاس فیصد حصہ بھارت کو ملے گا جب کہ تمام بجلی بنگلادیش ہی کے زیر استعمال لائی جائے گی۔کہنے اور سننے کو تو یہ معاہدہ بنگلادیش کے مفاد میں نظر آتا ہے۔ ایسا مگر ہے نہیں۔ تمام ماہرین کا کہنا ہے کہ اوّل تو اس پاور پلانٹ کی بنگلادیش کو ضرورت ہی نہیں تھی۔ دوسرا یہ کہ بھارت بنگلادیش میں دانستہ جس جگہ یہ پلانٹ نصب کرنے جا رہا ہے، وہ بنگلادیشی سرزمین اور فضاؤں کو برباد اور آلودہ کرنے کی سازش ہے۔
اس منصوبے میں چونکہ مبینہ طور پر حسینہ واجد کے صاحبزادے کے بھاری مالی مفادات وابستہ ہیں، اس لیے بنگلادیشی حکومت اسے ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔ بنگلادیش کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی، بی این پی، اس پاور پلانٹ کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء، جو دوبار وزیر اعظم بھی رہ چکی ہیں، کا کہنا ہے: ''بھارت یہ پلانٹ بنگلادیش کی سب سے قیمتی جگہ، سندر بن کے جنگلات، میں لگا رہا ہے۔ یوں بنگلادیش کے جنگلوں، انوائرمنٹ اور جنگلی حیات کو قتل کرنے کا یہ ایک مہلک بھارتی منصوبہ ہے۔
بنگلادیش کے خلاف بھارتی بد باطنی یہ بھی ہے کہ بھارت اس پاور پلانٹ میں اپنا سب سے نکما کوئلہ استعمال کرنے جا رہا ہے جس سے سندر بن کے وہ قیمتی mangroves تباہ ہو جائیں گے جن پر لاکھوں بنگلادیشیوں کی زندگیوں کا انحصار ہے۔'' اس بنیاد پر بی این پی اور حکمران جماعت (عوامی لیگ) کے درمیان خاصے تصادم بھی ہو چکے ہیں۔ حسینہ واجد مگر بھارت کی محبت میں اعلان کر رہی ہیں کہ پاور پلانٹ ہر صورت لگے گا۔
یہ بات مارچ 2017ء ہی میں سامنے آنے لگی تھی کہ بنگلادیشی وزیر اعظم جَلدبھارت سے کوئی اہم دفاعی معاہدے کرنے جا رہی ہیں۔ جب اس امر کی سن گن بنگلادیش کی حزبِ اختلاف جماعتوں کو ملی تو سارے ملک میں انڈیا کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہُوا۔ سب اپوزیشن پارٹیاں بیک زبان کہہ رہی تھیں کہ بھارت حسینہ واجد کے گلے پر انگوٹھا رکھ کر، زبردستی دفاعی معاہدے پر دستخط کروانا چاہتا ہے ( تا کہ بنگلادیش کو پاکستان سے مزید دُور لے جایا جا سکے) بنگلادیش میں متذکرہ دفاعی معاہدے کے حوالے سے پہلی قوی مخالفانہ آواز جس اپوزیشن لیڈر کی سامنے آئی، وہ آر کے رضوی کی تھی۔
اُنھوں نے ڈھاکا میں ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس میں عوامی لیگ کی طرف انگشت نمائی کرتے ہُوئے کہا کہ بھارت سے یہ دفاعی معاہدہ کر کے حسینہ واجد ایک بار پھر یہ ثابت کرنے جا رہی ہیںکہ عوامی لیگ نے بنگلادیش کو بھارت کی جھولی میں گرا دیا ہے اور یہ کہ ''بنگلادیش کی موجودہ حکومت انڈیا کی خوشامد اور چاپلوسی میں تمام حدیں عبور کر گئی ہے۔'' بھارت سے موعودہ دفاعی معاہدے کے خلاف بنگلادیش سے اُٹھنے والی دوسری طاقتور آواز مرزا فخرالاسلام عالمگیر کی تھی۔ مرزا صاحب معروف بنگلادیشی اپوزیشن پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل ہیں۔
اُنھوں نے کہا تھا: ''حسینہ واجد بھارت سے دفاعی معاہدہ کرنے جا رہی ہیں تو وہ اس معاہدے کی شرائط اور تفصیلات ہم سے کیوں مخفی رکھ رہی ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوامی لیگ کے دل میں عوام اور ملک کے خلاف کھوٹ بھی ہے اور وہ بھارت کی باجگزار بننے پر بھی تُلی بیٹھی ہے۔'' اِ س تمام شور اور مخالفت کے باوجود حسینہ واجد اپنی ہٹ کی پکی ثابت ہُوئیں۔ جب وہ اپریل 2017ء کے دوسرے ہفتے بھارتی دورے پر گئیں تو نریندر مودی کے چرنوں میں بیٹھ کر دفاعی معاہدے کی دستاویزات پر دستخط ثبت کر دیے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب شیخ حسینہ واجد اپریل 2017ء میں مذکورہ بالا معاہدے پر دستخط کرنے جا رہی تھیں تو بنگلادیش کی متحدہ حزبِ اختلاف، جو کہ 18جماعتوں کا مجموعہ ہے، نے حسینہ کے خلاف سارے ملک میں زبردست احتجاجی جلوس نکالے۔ اپوزیشن رہنما، خالدہ ضیاء، مسلسل یہ کہتی رہیں: ''بھارتی مفادات کی قربان گاہ پر بنگلادیش کو قربان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بھارت سے ہونے والے یہ دفاعی معاہدے دراصل بنگلادیش کے پاؤں میں بھارتی غلامی کی زنجیریں ڈالنے کے مترادف ہیں۔'' بھارتی ویب اخبار FIRSTPOST تو صاف الفاظ میں لکھتا ہے: ''خالدہ ضیاء جب حسینہ واجد کو Indian Stooge کہتی ہیں تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔''
بھارت کو بھی پوری طرح احساس ہے کہ حسینہ واجد حکومت سے ہونے والے مختلف النوع معاہدوں کی بدولت اکثریتی بنگلادیشی عوام کے دلوں میں انڈیا کے خلاف کدورت اور نفرت کے جذبات پرورش پا رہے ہیں؛ چنانچہ اِسے کاؤنٹر کرنے کے لیے بھارتی اور بنگلادیشی میڈیا میں ایسی فضا تخلیق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ بنگلادیش میں بھارت کے خلاف پیدا ہونے والے یہ جذبات واحساسات دراصل پاکستان کی سازش ہے۔ مثال کے طور پر جناب عاشق الرحمن کا بھارت کے ممتاز انگریزی اخبار (دی انڈین ایکسپریس) میں شایع ہونے والا تازہ آرٹیکل۔ اس کے عنوان ہی میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ''وہ بنگلادیشی اپوزیشن پارٹیاں، خصوصاً بی این پی، جو بھارت کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا کر رہی ہیں، دراصل سیاسی کم عقلی اور جہالت کا ثبوت پیش کر رہی ہیں۔''
مذکورہ مضمون نگار ڈھاکا کے ایک سرکاری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بطور ''ماہرِ معیشت'' وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ خالدہ ضیاء اور دیگر بنگلادیشی حزبِ اختلاف کے لیڈر محض الزامات کی دھول اڑا رہے ہیں کہ اپریل2017ء کے دوسرے ہفتے حسینہ واجد نے دہلی میں جن معاہدات پر دستخط کیے ہیں، وہ انڈیا کے ساتھ بنگلادیش کی ہرقسم کی آزادی کا سودا کر لیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل میں دانستہ بی این پی اور بنگلادیش کی جماعتِ اسلامی پر سارا غصہ اتارا گیا ہے، یہ بہتان لگا کر کہ ''ان دونوں جماعتوں کو پاکستان کی اشیرواد حاصل ہے۔'' مضمون نگار (عاشق الرحمن) کو اس بات کا بھی غم ہے کہ یہ دونوں جماعتیں بنگلادیش میں اسلام اور اسلامی طرزِ حیات کا بلند آواز سے ذکر ہی کیوں کرتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ 2018ء بنگلادیش میں عام انتخابات کا سال ہے۔ اپریل 2017ء کے وسط میں بنگلادیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھارت کا جو دورہ کیا ہے، بھارتی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ نریندر مودی سے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی ''ضمانت'' لینے گئی تھیں۔ حسینہ نے مودی کے ساتھ، دفاع کے علاوہ، کئی دیگر حساس (22) معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ایک مشہوربھارتی ویب اخبار کی باخبر صحافی، سیما گوہا، کا کہنا ہے کہ بھارت حسینہ کو مجبور کر رہا تھا کہ دفاعی معاہدہ اگلے25 برسوں کے لیے ہونا چاہیے۔
مودی صاحب بنگلادیشی وزیراعظم کو مالی مراعات فراہم اور بنگلادیش سے مختلف النوع معاہدے کر کے دراصل پاکستان کو مشتعل کرنے کی ناکام کوشش بھی کر رہے ہیں۔ محترمہ حسینہ بھی بھارت کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کی مخالفت کرتی جا رہی ہیں۔ اُن کا تازہ اقدام یہ ہے کہ اُنھوں نے بنگلادیشی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنے سے منع کر دیا ہے۔ جواباً پاکستان نے بھی اِسی سلوب میں جواب دیا ہے۔ بھارت کو یقینا اس منظر سے مسرت ہو رہی ہے۔ بھارتی شکنجے میں جکڑے ہُوئے بنگلادیش کی پاکستان مخالف حرکتوں کا یہ بھی نتیجہ نکلا ہے کہ چند سال پہلے حسینہ واجد سے ایوارڈز حاصل کرنے والے چند پاکستانیوں میں سے بعض نے یہ کہہ کر کہ بنگلادیش نے دھوکا دیا ہے یہ ایوارڈز واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔