توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت گیس پالیسی تبدیل کرے گوہر اعجاز

حکومت بزنس کمیونٹی سے حاصل ہونیوالا سالانہ ایک سو ارب ٹیکس انفرااسٹرکچر بنانے پر صرف کرے ،اپٹماکے گروپ لیڈرکا انٹرویو

حکومت بزنس کمیونٹی سے حاصل ہونیوالا سالانہ ایک سو ارب ٹیکس انفرااسٹرکچر بنانے پر صرف کرے ،اپٹماکے گروپ لیڈرکا انٹرویو۔ فوٹو ایکسپریس

معروف صنعتکار، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر اور وزیراعظم کی تشکیل کردہ ٹاسک کمیٹی برائے توانائی کے سربراہ گوہر اعجاز نے کہاہے کہ12فیصد غیرمعمولی شرح سود سے نجات اور Affordable Energy کی فراہمی مسائل میں گھری ملکی معیشت کا واحد حل ہے ۔

حکومت گیس پالیسی میں تبدیلی لا کر اور صنعتکاروں کی مشاورت سے ایسے اقدامات کر سکتی ہے جن کے نتیجے میں نہ صرف توانائی کا بحران ختم ہو سکتا ہے بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہو سکتی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انھوںنے ایک خصوصی انٹرویوکے دوران کیا۔ گوہر اعجازنے کہا کہ انرجی کرائسزکی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ گزشتہ دس سال میں انفرااسٹرکچر ہی ڈیولپ نہیںکیا گیا ۔ جب گروتھ ریٹ9,8 فیصد تھا تو ہم نے پلاننگ نہیں کی کہ ہماری ضروریات کیا ہوںگی اور اگلے بیس سال میں افورڈ ایبل انرجی کیا ہوگی ۔

2001 میں ہمارے پاس فاضل بجلی تھی لیکن آج اس کی قلت ہے ۔ بجلی پیداکرنے کے دو بنیادی ذرائع ہمارے پاس موجود ہیں جن کا دوسرے مملک محض خواب دیکھ سکتے ہیں ،ایک ہائیڈرو پاور اور دوسرا کول ۔ جوکسی وجہ سے استعمال نہیں کیے جا سکے ۔ فرنس آئل پر انحصار کر کے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے ۔ اس میں امپورٹڈ را میٹریل استعمال ہوتا ہے جو مہنگا پڑتا ہے ۔ پہلے ڈالر 40 روپے کا تھا تو بجلی کے نرخ فی یونٹ 4روپے تھے اب ڈالر 110روپے کا ہو چکا ہے اور بجلی کا یونٹ بھی11روپے تک پہنچ گیاہے ۔

اس وقت گیس سے3000میگاواٹ ،ہائیڈل سے 4000 میگاواٹ اور فرنس آئل سے7000میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے جو17روپے فی یونٹ پڑتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں گیس سے پانچ روپے اور ہائیڈل سے ایک روپے فی یونٹ بجلی پڑتی ہے ۔ اگلے پانچ سال میں ہماری ضروریات کیا ہیں اس بارے میں ابھی تک کوئی پلان نہیں بنا ۔2020ء میں ہماری بجلی کی ضروریات 30,000 میگا واٹ ہوں گی ، گویا آج سے ایک سو فیصد زیادہ ۔ انھوں نے کہا کہ ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کیلیے مختصر مدت ، وسط مدتی اور طویل المدتی منصوبہ بندی کرنا ہو گی جو بالترتیب2سے 3سال، 3سے 5سال اور7سے 10سال کیلیے ہوںگی ۔


ایمرجنسی عمل یہ ہے کہ سولرسے گیس پیدا کرنے کوترجیح دی جائے اورگیس والے گیزر بین کیے جائیں ۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ وفاقی حکومت گاڑیوں کیلیے سی این جی کیلیے50ارب کی جو سبسڈی دے رہی ہے اگر اس کو بجلی کی پیداوارکیلیے استعمال کیا جائے تو اس سے ہم فوری طور پر 2000 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں ۔ اس گیس سے جو گاڑیوں کیلئے دی جاتی ہے اگر بجلی بنائی جائے تو عوام کو 300ارب روپے کا فائدہ ہو گا ۔ حکومتی ادارے متبادل راستے تلاش کریں ۔

یہاں ایل این جی لائیں ۔ انٹرنیشنل انویسٹرز کا اعتماد بحال کریں ، ٹرمینل بنائیں ۔کراچی میں امپورٹڈ کول سے بجلی بنائیں جس سے فی یونٹ نرخ بھی کم ہوں گے اور سرکلر ڈیٹ بھی کم ہو گا ۔ کول مائنز پر ہی پاور پلانٹ لگائے جائیں اور وہاں سے بجلی کو ترسیلی لائنوں کے ذریعے گرڈ اسٹیشنز کو منتقل کریں ۔ اس سے4 روپے فی یونٹ ریٹ پڑے گا ۔ یہ وسط مدتی پلان ہے ۔ طویل مدتی منصوبوں میں بڑے ڈیموں کی تعمیر شامل ہے ۔ ان ڈیمز پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں گوہر اعجاز نے کہاکہ اس وقت گیس پالیسی بدلنے اور انفرااسٹرکچر ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے خصوصی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر جو سفارشات پیش کی ہیں ان میں یہ تجوزیز بھی شامل ہے کہ حکومت کو پورے ملک کی بزنس کمیونٹی کی طرف سے جو سالانہ ایک سو ارب ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اسے صرف انفراسٹرکچر بنانے پر صرف کیا جائے ۔ اس مقصد کیلیے صنعتکاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس کام کی نگرانی کرے تاکہ ٹیکس کی اس خطیر رقم کے صحیح استعمال کو یقینی بنایا جا سکے ۔

انھوں نے کہا کہ باعزت روزگار، تعلیم ، صحت کی سہولیات ، صعنت، انفرااسٹرکچر اور جان ومال کا تحفظ اس ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات ہیں اور یہ صرف وژن ، منصوبہ بندی ، عملدرآمد اور اچھی حکمرانی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور ملکی صنعت سے وابستہ ہم لوگ اس ضمن میں حکومت کی بھرپور معاونت کرنے کو تیار ہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story