کرپشن کا خاتمہ محض ایک خواب
جرمن یونیورسٹی ہمبولٹ کی ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کہتی ہیں’’مجھے حیرت ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے قدم پیچھے ہٹا لیے
BEIJING:
جے آئی ٹی کے دو ارکان سے متعلق حسین نواز نے جن خدشات کا اظہار کیا، عدالت عظمیٰ نے انھیں مسترد کر کے پاناما معاملے میں اپنی سنجیدگی کا واضح ثبوت فراہم کیا ہے۔ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کا خاندان یا تو منی ٹریل کے ثبوت فراہم کرے یا نتائج کے لیے تیار رہے۔ جے آئی ٹی کے سامنے حسین نواز کی پیشی اور تفتیش نے نہال ہاشمی کو اس قدر برانگیختہ کر دیا کہ انھوں نے تحقیقات کرنے والے کو براہ راست سنگین نتائج کی دھمکی دے ڈالی۔ 1998ء میں مسلم لیگ نواز کے کارکن جس طرح سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھ دوڑے تھے، اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ دھمکی بھی سنجیدہ معاملہ محسوس کی گئی۔ نہال ہاشمی کو عدالت نے طلب کر لیا۔ اگرچہ وزیر اعظم نے فوری نہال ہاشمی کی پارٹی رکنیت معطل کر دی اور وہ سینیٹ سے مستعفی بھی ہوگئے۔ اپنی بات کسی اور کے منہ سے کہلوانا حکمرانوں کا پرانا طریقۂ واردات ہے۔
نیوز لیکس سے سول ملٹری تعلقات میں پیدا ہونے والی خلیج پاٹ لی گئی۔ البتہ نوٹیفکیشن میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی گئی ۔ ردّعمل کے بجائے وسیع تر قومی مفاد میں فوج نے ''مفاہمت''کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو موقعہ دیا۔ ادھر مریم نواز کی جانب سے تند و تیز ٹیوٹس کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ شاید اسٹیبلشمنٹ سے اُن کی ''خفگی'' کم ہو گئی ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھیوں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ ہدف بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
جرمن یونیورسٹی ہمبولٹ کی ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کہتی ہیں''مجھے حیرت ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے قدم پیچھے ہٹا لیے۔ نظام میں چند ہی دیانت دار لوگ بچے ہیں اور انھیں بھی اس جرم کی سزا دی جا چکی ہے، اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ ہمیں مغرب کی مثالیں دے کر جمہوریت کی داستان طرازی کا سلسلہ ختم کر دینا چاہیے۔ اس سے اب کوئی فرق نہیںپڑنے والا۔ جاگیردارانہ سوچ کے حامل معاشرے، جیسا کہ پاکستان بھی ہے، جمہوریت کے بنیادی اصول ہی قبول نہیں کر پاتے۔ یہ بنیادی اصول قانون کی نظر میں سب کی برابری اور یکساں جواب دہی ہے۔
اس کے بغیر رائج ہونے والی جمہوریت مسخ شدہ ہو گی۔''عالمی اقتصادی فورم کے ''پارٹنر شپ اگینسٹ کرپشن انیشیٹیوو''کے تحت 24 مئی 2017ء کو لندن میں ہونے والے سیمینار میں کہا گیا ''بدعنوانی کے خلاف قوانین کے نفاذ اور قواعد کی پابندی میں کی جانے والی کوتاہی کسی بھی حقیقی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، بالخصوص کاروباری فضا پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔''بدعنوانی کی روک تھام کے لیے سرکاری و نجی شعبے میں ہونے والے معاہدات کی شفافیت، دستاویز کی تیاری کے عمل کو بہتر بنانا اور نگرانی کے نظام میں بہتری جیسے اقدامات اور دیانتدار قیادت درکار ہیں۔کرپشن کا مکمل خاتمہ ایک خواب سہی لیکن قانون کے یکساں اطلاق سے اس کے امکانات تو محدود کیے ہی جا سکتے ہیں۔ احتساب میں من مانی کی جائے تو پورے احتسابی عمل ہی پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ میرے عزیز دوست ڈاکٹر فرینک جرگن رچٹر نے لزبن میں 27 سے30 مئی کے دوران ''ہوراسس گلوبل میٹنگ'' کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ اس کے دوران ''کرپشن کا خاتمہ'' کے عنوان سے ہونے والی ایک پینل گفتگو میں، جس کی صدارت بروک ہورووٹز کر رہے تھے، بدعنوانی اور بددیانتی کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے اس میں کئی اہم نکات پر بات ہوئی اور تجاویز بھی سامنے آئیں۔
سیاسی نظام میں انحطاط، بگڑتی معاشی صورت حال اور زیر زمین معیشت کے پھیلاؤ نے پاکستان میں قانون کی خلاف وزری کو منافع بخش کاروبار بنانے کا ماحول ساز گار بنا دیا ہے۔ غیر مؤثر گورننس نے منظم جرائم اور دہشت گردی کے باہمی گٹھ جوڑ کو جنم دیا ہے۔ منظم جرائم کے نیٹ ورک نے ہماری سیاست میں اس طرح اثر و رسوخ پیدا کیا ہے کہ اب ہماری ملکی سیاست میں بدعنوان افراد موجود ہیں۔ کثیر معاشی وسائل تک رسائی اور کالے دھن سے چلنے والی متوازی معیشت کی وجہ سے منظم جرائم کے یہ گروہ ملک و قوم کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں ۔لوٹ مار میں مدد فراہم کرنے والوں کو بھی احتساب کے شکنجے میں لانا ہوگا۔
اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز افراد اگر اپنے ذاتی مفاد کے لیے عہدے یا اختیارات کا غلط استعمال کرے تو اسے ''چور'' نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے، یہ سادہ سی بات ہے۔ جے آئی ٹی کی پاناما معاملے کی اب تک کی تحقیقات سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ دروغ گوئی ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ لغت میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حلف شکنی کا مطلب کیا ہے۔ کئی مسائل کا سراغ مل سکتا ہے کہ حلف اٹھانے والے کیوں کر عدالت میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں، جعلی دستاویز کیوں بنائے جا رہے ہیں اور بہت کچھ کیوں گھڑا جا رہا ہے۔
جھوٹا حلف اٹھانا بھی ایک جرم ہے۔ گزشتہ برس 18 نومبر کو راقم نے شواہد اور ثبوت حاصل کرنے کے جدید ذرایع سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ آسڑیلیا کی ایک کمپنی Nuix نے ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو با آسانی پی ڈی ایف فائلوں، تصاویر اور اسکین کی گئی دستاویز میں ڈیٹا کی تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کمپنی نے آئی سی آئی جے کو موزیک فونسیکا کی حاصل شدہ دستاویزات کا جائزہ لینے میں مدد فراہم کی۔ اس کمپنی کی وی پی انجیلا بنٹنگ نے یہ بیان دیا تھا ''ہمارے تیار کردہ سافٹ ویئر کی مدد سے آئی سی آئی جے نے مختصر مدت میں وہ کام کیا ہے جو اس کے بغیر شاید مہینوں یا برسوں میں کرنا ممکن نہیں تھا۔'' جے آئی ٹی کو دیا گیا وقت بھی قلیل ہے، ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال وقت پر نتائج حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔
یہ کمپنی 65 ممالک میں سافٹ ویئر فروخت کرتی ہے، اس کمپنی سے سافٹ ویئر خریدنے والے اداروں میں اقوام متحدہ، امریکا کے خفیہ ادارے اور دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ ایسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ریاستی ادارے پاکستان میں غبن، جرائم منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، بدعنوانی، منظم جرائم اور دہشتگردی سے گٹھ جوڑ پر قابو پاسکتے ہیں۔
ایک جانب ''سب سے پہلے پاکستان'' کا نعرہ لگانے والے پرویز مشرف نے صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے این آر او کیا۔ آج پرویز مشرف روزانہ ٹی وی پر کرپشن کے خلاف وعظ فرماتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے این آر او کے کو منسوخ کیا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ ساری علامتیں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ہمارے طرز حکمرانی میں کرپشن کے مقابلے کے لیے سیاسی، انتظامی اور عدالتی سطح پر کوئی نظام موجود نہیں۔ پارلیمنٹ میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ہیں اور خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ یکسو نظر آتی ہے کہ اب مجرموں کو ذاتی مفاد کے لیے انصاف اور قانون کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ متحرک عدالتی نظام کے بغیر کرپشن کا خاتمہ محض خواب و خیال کی بات ہے اور انصاف جرم!
جے آئی ٹی کے دو ارکان سے متعلق حسین نواز نے جن خدشات کا اظہار کیا، عدالت عظمیٰ نے انھیں مسترد کر کے پاناما معاملے میں اپنی سنجیدگی کا واضح ثبوت فراہم کیا ہے۔ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کا خاندان یا تو منی ٹریل کے ثبوت فراہم کرے یا نتائج کے لیے تیار رہے۔ جے آئی ٹی کے سامنے حسین نواز کی پیشی اور تفتیش نے نہال ہاشمی کو اس قدر برانگیختہ کر دیا کہ انھوں نے تحقیقات کرنے والے کو براہ راست سنگین نتائج کی دھمکی دے ڈالی۔ 1998ء میں مسلم لیگ نواز کے کارکن جس طرح سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھ دوڑے تھے، اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ دھمکی بھی سنجیدہ معاملہ محسوس کی گئی۔ نہال ہاشمی کو عدالت نے طلب کر لیا۔ اگرچہ وزیر اعظم نے فوری نہال ہاشمی کی پارٹی رکنیت معطل کر دی اور وہ سینیٹ سے مستعفی بھی ہوگئے۔ اپنی بات کسی اور کے منہ سے کہلوانا حکمرانوں کا پرانا طریقۂ واردات ہے۔
نیوز لیکس سے سول ملٹری تعلقات میں پیدا ہونے والی خلیج پاٹ لی گئی۔ البتہ نوٹیفکیشن میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی گئی ۔ ردّعمل کے بجائے وسیع تر قومی مفاد میں فوج نے ''مفاہمت''کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو موقعہ دیا۔ ادھر مریم نواز کی جانب سے تند و تیز ٹیوٹس کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ شاید اسٹیبلشمنٹ سے اُن کی ''خفگی'' کم ہو گئی ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھیوں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ ہدف بنانے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
جرمن یونیورسٹی ہمبولٹ کی ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کہتی ہیں''مجھے حیرت ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ نے قدم پیچھے ہٹا لیے۔ نظام میں چند ہی دیانت دار لوگ بچے ہیں اور انھیں بھی اس جرم کی سزا دی جا چکی ہے، اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ ہمیں مغرب کی مثالیں دے کر جمہوریت کی داستان طرازی کا سلسلہ ختم کر دینا چاہیے۔ اس سے اب کوئی فرق نہیںپڑنے والا۔ جاگیردارانہ سوچ کے حامل معاشرے، جیسا کہ پاکستان بھی ہے، جمہوریت کے بنیادی اصول ہی قبول نہیں کر پاتے۔ یہ بنیادی اصول قانون کی نظر میں سب کی برابری اور یکساں جواب دہی ہے۔
اس کے بغیر رائج ہونے والی جمہوریت مسخ شدہ ہو گی۔''عالمی اقتصادی فورم کے ''پارٹنر شپ اگینسٹ کرپشن انیشیٹیوو''کے تحت 24 مئی 2017ء کو لندن میں ہونے والے سیمینار میں کہا گیا ''بدعنوانی کے خلاف قوانین کے نفاذ اور قواعد کی پابندی میں کی جانے والی کوتاہی کسی بھی حقیقی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، بالخصوص کاروباری فضا پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔''بدعنوانی کی روک تھام کے لیے سرکاری و نجی شعبے میں ہونے والے معاہدات کی شفافیت، دستاویز کی تیاری کے عمل کو بہتر بنانا اور نگرانی کے نظام میں بہتری جیسے اقدامات اور دیانتدار قیادت درکار ہیں۔کرپشن کا مکمل خاتمہ ایک خواب سہی لیکن قانون کے یکساں اطلاق سے اس کے امکانات تو محدود کیے ہی جا سکتے ہیں۔ احتساب میں من مانی کی جائے تو پورے احتسابی عمل ہی پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ میرے عزیز دوست ڈاکٹر فرینک جرگن رچٹر نے لزبن میں 27 سے30 مئی کے دوران ''ہوراسس گلوبل میٹنگ'' کا کامیابی سے انعقاد کیا۔ اس کے دوران ''کرپشن کا خاتمہ'' کے عنوان سے ہونے والی ایک پینل گفتگو میں، جس کی صدارت بروک ہورووٹز کر رہے تھے، بدعنوانی اور بددیانتی کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے اس میں کئی اہم نکات پر بات ہوئی اور تجاویز بھی سامنے آئیں۔
سیاسی نظام میں انحطاط، بگڑتی معاشی صورت حال اور زیر زمین معیشت کے پھیلاؤ نے پاکستان میں قانون کی خلاف وزری کو منافع بخش کاروبار بنانے کا ماحول ساز گار بنا دیا ہے۔ غیر مؤثر گورننس نے منظم جرائم اور دہشت گردی کے باہمی گٹھ جوڑ کو جنم دیا ہے۔ منظم جرائم کے نیٹ ورک نے ہماری سیاست میں اس طرح اثر و رسوخ پیدا کیا ہے کہ اب ہماری ملکی سیاست میں بدعنوان افراد موجود ہیں۔ کثیر معاشی وسائل تک رسائی اور کالے دھن سے چلنے والی متوازی معیشت کی وجہ سے منظم جرائم کے یہ گروہ ملک و قوم کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں ۔لوٹ مار میں مدد فراہم کرنے والوں کو بھی احتساب کے شکنجے میں لانا ہوگا۔
اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز افراد اگر اپنے ذاتی مفاد کے لیے عہدے یا اختیارات کا غلط استعمال کرے تو اسے ''چور'' نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے، یہ سادہ سی بات ہے۔ جے آئی ٹی کی پاناما معاملے کی اب تک کی تحقیقات سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ دروغ گوئی ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ لغت میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حلف شکنی کا مطلب کیا ہے۔ کئی مسائل کا سراغ مل سکتا ہے کہ حلف اٹھانے والے کیوں کر عدالت میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں، جعلی دستاویز کیوں بنائے جا رہے ہیں اور بہت کچھ کیوں گھڑا جا رہا ہے۔
جھوٹا حلف اٹھانا بھی ایک جرم ہے۔ گزشتہ برس 18 نومبر کو راقم نے شواہد اور ثبوت حاصل کرنے کے جدید ذرایع سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ آسڑیلیا کی ایک کمپنی Nuix نے ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو با آسانی پی ڈی ایف فائلوں، تصاویر اور اسکین کی گئی دستاویز میں ڈیٹا کی تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کمپنی نے آئی سی آئی جے کو موزیک فونسیکا کی حاصل شدہ دستاویزات کا جائزہ لینے میں مدد فراہم کی۔ اس کمپنی کی وی پی انجیلا بنٹنگ نے یہ بیان دیا تھا ''ہمارے تیار کردہ سافٹ ویئر کی مدد سے آئی سی آئی جے نے مختصر مدت میں وہ کام کیا ہے جو اس کے بغیر شاید مہینوں یا برسوں میں کرنا ممکن نہیں تھا۔'' جے آئی ٹی کو دیا گیا وقت بھی قلیل ہے، ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال وقت پر نتائج حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔
یہ کمپنی 65 ممالک میں سافٹ ویئر فروخت کرتی ہے، اس کمپنی سے سافٹ ویئر خریدنے والے اداروں میں اقوام متحدہ، امریکا کے خفیہ ادارے اور دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ ایسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ریاستی ادارے پاکستان میں غبن، جرائم منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، بدعنوانی، منظم جرائم اور دہشتگردی سے گٹھ جوڑ پر قابو پاسکتے ہیں۔
ایک جانب ''سب سے پہلے پاکستان'' کا نعرہ لگانے والے پرویز مشرف نے صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے این آر او کیا۔ آج پرویز مشرف روزانہ ٹی وی پر کرپشن کے خلاف وعظ فرماتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے این آر او کے کو منسوخ کیا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ ساری علامتیں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ہمارے طرز حکمرانی میں کرپشن کے مقابلے کے لیے سیاسی، انتظامی اور عدالتی سطح پر کوئی نظام موجود نہیں۔ پارلیمنٹ میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ہیں اور خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ یکسو نظر آتی ہے کہ اب مجرموں کو ذاتی مفاد کے لیے انصاف اور قانون کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ متحرک عدالتی نظام کے بغیر کرپشن کا خاتمہ محض خواب و خیال کی بات ہے اور انصاف جرم!