ایسی عجلت میں روز و شب نہ گزار
لیکن یہاں کان دھرنے کی فرصت کسے ہے؟ وہ بھی صبح صبح جلدی جلدی کام پر جاتے ہوئے
NEW DELHI:
جنوری کی ایک سرد صبح، واشنگٹن ڈی سی کا ایک زیرِ زمین سب وے اسٹیشن۔ انتہائی رش کا عالم۔ زن و مرد تیز تیز قدموں سے کام پر جا یا آ رہے ہیں۔ بس ایک شخص ہے جسے شاید کوئی عجلت نہیں۔ وہ سب وے کی سرد دیوار سے ٹیک لگائے وائلن بجا رہا ہے۔
یورپ اور شمالی امریکا، جاپان وغیرہ میں ایسے ہزاروں فنکار ہیں جو مصروف چوراہوں، فٹ پاتھوں، زیرِ زمین میٹرو، ٹیوب اور سب وے اسٹیشنز کے اندر یا باہر آلاتِ موسیقی یا گلے سے سر جگا کر تھوڑے بہت پیسے کما لیتے ہیں۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ جنوری کی اس سرد صبح واشنگٹن کے اس سب وے کے اندر وائلن سے دھنیں بکھیرنے والا بھی ایسا ہی کوئی ضرورت مند فقیر ہو۔ مگر شاید یہ فقیر کچھ مختلف ہے۔ ذرا دھیان سے سنئے کہیں یہ اٹھارویں صدی کے شہرہِ آفاق جرمن موسیقار یوہان سباستئین باخ کو تو نہیں بجا رہا؟ شاید ایک کے بعد ایک باخ اس کے وائلن کے تاروں سے نکلتا چلا جا رہا ہے۔
لیکن یہاں کان دھرنے کی فرصت کسے ہے؟ وہ بھی صبح صبح جلدی جلدی کام پر جاتے ہوئے۔ ارے دیکھئے ایک عمر رسیدہ شخص ذرا دیر کے لیے اس وائلنسٹ کے پاس رکا۔ شاید ڈیڑھ یا دو منٹ کے لیے۔ اور پھر وہ بھی آگے بڑھ گیا۔ شاید اسے پنشن کے دفتر پہنچنا ہو یا پھر اکلوتے بیٹے یا بیٹی نے اس سے سب وے کے باہر کسی بنچ پر ذرا دیر کے لیے ملنے کا وقت طے کر رکھا ہو۔ لوگ گزرتے جا رہے ہیں۔ اسی ہجوم میں سے ایک عورت نے وائلنسٹ کے سامنے ایک ڈالر کا سکہ رکھ دیا اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔ کچھ دیر بعد ایک اور شخص رکا، دیوار سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے وائلن سننے لگا۔ پھر گھڑی پر نگاہ ڈالی شاید اور رکنا چاہتا ہے مگر نہیں رک سکتا، شاید کام پر لیٹ پہنچا تو باس بینڈ نہ بجا دے۔
ہاں ایک چار پانچ سال کا بچہ ضرور جادوئی آواز ننھی سی مٹھی اور جیبوں میں بھرنے کے لیے ٹھہرنا چاہتا ہے۔ شاید اسے آج اسکول نہیں جانا۔ مگر جس ماں نے اس کی انگلی پکڑی ہوئی ہے اسے تو کہیں نہ کہیں پہنچنا ہی ہے۔ بچہ رکنے پر بضد ہے مگر ماں کھینچ رہی ہے۔ بچہ تقریباً گھسٹتا ہوا جا رہا ہے لیکن گردن بار بار مڑ رہی ہے۔ ماں کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ بچہ تو چلا گیا مگر نگاہیں شاید وائلن کی تاروں میں ہی اٹک کے رہ گئیں۔ یہ کوئی اکیلا بچہ تھوڑا ہے۔ اس وائلن نواز کے سامنے سے گزرنے والے ہر بچے نے اپنی ماں یا باپ سے ہاتھ چھڑانا چاہا مگر معصوم فرصت دنیاداری کے سامنے کتنا ٹھہر پاتی ہے۔
المختصر اس وائلن نواز نے تقریباً پینتالیس منٹ تک ہنر دکھایا۔ شاید باخ کی چھ دھنیں فضا میں بکھیریں، شاید انیس یا بیس لوگ اس کے سامنے سکے ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے، شاید اس پون گھنٹے کی پرفارمنس سے اس وائلن نواز نے لگ بھگ بتیس ڈالر کمائے۔ پھر وہ اٹھا اور میٹرو اسٹیشن سے باہر نکل کے بھیڑ میں کھو گیا۔
کوئی نہیں پہچانا، کسی نے نہیں کہا کچھ دیر ٹھہر جاؤ اور بجاؤ ، کوئی تالی نہیں سنی گئی، کسی نے دھیان نہیں دیا کہ جہاں اب سرد دیوار بالکل تنہا ہے اسی سے ٹیک لگا کے ذرا دیر پہلے ہی ایک وائلن بجانے والا بیٹھا ہوا تھا۔ کسی کو شک تک نہ ہوا کہ یہ وائلن نواز پچاس سالہ جوشوا بیل ہے۔
کہتے ہیں اس وقت دنیا میں جوشوا سے بڑا وائلنسٹ کوئی نہیں۔ دنیا کا کون سا ایسا جانا مانا کنسرٹ ہال، ایرینا یا اوپرا ہاؤس ہے جہاں اس جادوگر کی انگلیوں نے سحر نہ بچھایا۔ اب تک چالیس البم آ چکے ہیں۔ کون سا گرامی، مرکری، گراموفون اور ایکو کلاسک ایوارڈ ہے جو اسے پیش نہیں کیا گیا۔ آسکر انعام یافتہ فلم ''ریڈ وائلن'' کی موسیقی اپنے جوشوا بیل نے ہی تو ترتیب دی ہے۔
واشنگٹن کے اس میٹرو اسٹیشن میں پینتالیس منٹ تک بے نام پرفارمنس دینے والے جوشوا بیل نے یہاں کی سرد دیوار کے نیچے بیٹھنے سے صرف دو روز پہلے ہی تو بوسٹن کے ایک تھیٹر میں حاضرین کو ایڑیوں کے بل کھڑا کروایا تھا۔ پرفارمنس کا ٹکٹ سو ڈالر تھا۔ جس وائلن سے اس نے واشنگٹن کے اس سب وے اسٹیشن میں پرفارم کیا یہ وہی بوسٹن والا وائلن تو تھا جس کی قیمت جوشوا کے عاشق ساڑھے تین ملین ڈالر تک بتاتے ہیں۔
جوشوا بیل نے واشنگٹن کے سب وے میں سماجی رویوں کو جس طرح آزمانے کا کام کیا اس کا اہتمام اخبار واشنگٹن پوسٹ کے تعاون سے کیا گیا۔ تجربے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ عام لوگوں کی نگاہ کیا دیکھتی ہے، کان کیا سنتے اور کیسے اور کتنا رجسٹر کرتے ہیں، عمومی ذوقی معیار کیا ہے اور کولہو کے اس انسان نامی بیل کی ترجیحات کیا ہیں۔
کیا ہم ایک عام سے ماحول میں غیر طے شدہ وقت میں حسن پہچان سکتے ہیں، سراہا سکتے ہیں؟ کیا ہم غیر متوقع انداز میں اچانک سامنے آنے والے ٹیلنٹ کو پرکھ سکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دراصل دوسروں کے مشاہدے کی بیساکھی کے ذریعے ہی اشیا کی خوبی اور خرابی کو پہچان کر ان کے بارے میں کسی اچھی بری رائے تک پہنچتے ہیں۔ ایسا کم کم کیوں ہے کہ ہمارا دماغ اور دل اپنے طور پر مکمل آزادی سے کسی کے اثر میں آئے بغیر حسن کو سراہنے کے قابل ہو یا کسی نامیاتی و غیر نامیاتی شے کے بارے میں اچھی بری مگر ٹھیک ٹھیک بے ساختہ رائے قائم کر سکتا ہو۔ اگر ہمیں ایک بہترین عالمی موسیقار کو پہچاننے، سننے اور پرکھنے کے لیے دو منٹ کا وقت بھی میسر نہیں تو پھر یہ وقت کہاں لگ رہا ہے اور کیوں۔ یوں ہم اپنے اردگرد کتنی ہی خوبصورت چیزیں وجود پذیر ہونے کے باوجود دیکھنے پرکھنے اور کمترین لطف اندوزی سے بھی محروم ہیں۔
ایسا ہی ایک تجربہ گزشتہ دنوں معروف بھارتی گلوکار سونو نگم نے بھی کیا۔ وہ بوریا نشین فقیر کے میلے کچیلے بھیس میں ممبئی کے مختلف مصروف ناکوں پر ہارمونیم لے کر بیٹھ گئے اور اپنے ہی گائے ہوئے گیت الاپتے رہے۔ اکا دکا راہ چلتے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے رکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ مگر ایک معمولی سا دکھنے والا سائیکل سوار لڑکا جاتے جاتے رک گیا اور اکڑوں بیٹھ کر خاصی دیر تک اس فقیر نما کو سنتا رہا۔ خدا جانے یہ لڑکا کہاں کس کام سے جا رہا ہوگا۔ اور پھر ایک کالج کا طالبِ علم بھی رکا اور بیٹھ گیا اور اپنے موبائل فون میں فقیر کی گائیکی بھرنے لگا۔ جاتے جاتے اس نے پوچھا انکل آپ نے ناشتہ کیا ؟ اور پھر فقیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کی مٹھی میں بارہ روپے دبا کے چل دیا۔
سونو نے اس سوشل ایکسپیریمنٹ کے بارے میں کہا کہ اس موسیقی نواز طالبِ علم نے جو بارہ روپے دیے وہ مجھے لاکھوں روپے سے بھی زیادہ لگے اور میں نے انھیں فریم کرا لیا ہے۔ بقول سونو ہم اپنے آس پاس کتنی خوبصورت چیزیں اس لیے نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ہم آگے دیکھتے ہوئے چلتے ہیں۔ مگر آگے کہاں تک جانا ہے، آگے کیا کرنا ہے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس آگے بڑھنے کے چکر میں ہم لمحہِ موجود سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اسے ضایع کر بیٹھتے ہیں اور ہمیں کسی قیمتی شے کے کھونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم بڑی بڑی خوشیوں کی تلاش میں دوڑے چلے جا رہے ہیں حالانکہ ہمیں کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔ چھوٹی چھوٹی لاتعداد خوشیاں تو ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں مگر اندر کا مقناطیس استعمال نہیں ہو رہا جو انھیں کھینچ لے۔
عمر باقی ہے اے دلِ بیزار، ایسی عجلت میں روز و شب نہ گزار
تو نے دیکھا کہ سب ہی گرد ہوئے، تیز رفتار ہوں کہ کج رفتار
(احمد نوید)
جنوری کی ایک سرد صبح، واشنگٹن ڈی سی کا ایک زیرِ زمین سب وے اسٹیشن۔ انتہائی رش کا عالم۔ زن و مرد تیز تیز قدموں سے کام پر جا یا آ رہے ہیں۔ بس ایک شخص ہے جسے شاید کوئی عجلت نہیں۔ وہ سب وے کی سرد دیوار سے ٹیک لگائے وائلن بجا رہا ہے۔
یورپ اور شمالی امریکا، جاپان وغیرہ میں ایسے ہزاروں فنکار ہیں جو مصروف چوراہوں، فٹ پاتھوں، زیرِ زمین میٹرو، ٹیوب اور سب وے اسٹیشنز کے اندر یا باہر آلاتِ موسیقی یا گلے سے سر جگا کر تھوڑے بہت پیسے کما لیتے ہیں۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ جنوری کی اس سرد صبح واشنگٹن کے اس سب وے کے اندر وائلن سے دھنیں بکھیرنے والا بھی ایسا ہی کوئی ضرورت مند فقیر ہو۔ مگر شاید یہ فقیر کچھ مختلف ہے۔ ذرا دھیان سے سنئے کہیں یہ اٹھارویں صدی کے شہرہِ آفاق جرمن موسیقار یوہان سباستئین باخ کو تو نہیں بجا رہا؟ شاید ایک کے بعد ایک باخ اس کے وائلن کے تاروں سے نکلتا چلا جا رہا ہے۔
لیکن یہاں کان دھرنے کی فرصت کسے ہے؟ وہ بھی صبح صبح جلدی جلدی کام پر جاتے ہوئے۔ ارے دیکھئے ایک عمر رسیدہ شخص ذرا دیر کے لیے اس وائلنسٹ کے پاس رکا۔ شاید ڈیڑھ یا دو منٹ کے لیے۔ اور پھر وہ بھی آگے بڑھ گیا۔ شاید اسے پنشن کے دفتر پہنچنا ہو یا پھر اکلوتے بیٹے یا بیٹی نے اس سے سب وے کے باہر کسی بنچ پر ذرا دیر کے لیے ملنے کا وقت طے کر رکھا ہو۔ لوگ گزرتے جا رہے ہیں۔ اسی ہجوم میں سے ایک عورت نے وائلنسٹ کے سامنے ایک ڈالر کا سکہ رکھ دیا اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔ کچھ دیر بعد ایک اور شخص رکا، دیوار سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر کے وائلن سننے لگا۔ پھر گھڑی پر نگاہ ڈالی شاید اور رکنا چاہتا ہے مگر نہیں رک سکتا، شاید کام پر لیٹ پہنچا تو باس بینڈ نہ بجا دے۔
ہاں ایک چار پانچ سال کا بچہ ضرور جادوئی آواز ننھی سی مٹھی اور جیبوں میں بھرنے کے لیے ٹھہرنا چاہتا ہے۔ شاید اسے آج اسکول نہیں جانا۔ مگر جس ماں نے اس کی انگلی پکڑی ہوئی ہے اسے تو کہیں نہ کہیں پہنچنا ہی ہے۔ بچہ رکنے پر بضد ہے مگر ماں کھینچ رہی ہے۔ بچہ تقریباً گھسٹتا ہوا جا رہا ہے لیکن گردن بار بار مڑ رہی ہے۔ ماں کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ بچہ تو چلا گیا مگر نگاہیں شاید وائلن کی تاروں میں ہی اٹک کے رہ گئیں۔ یہ کوئی اکیلا بچہ تھوڑا ہے۔ اس وائلن نواز کے سامنے سے گزرنے والے ہر بچے نے اپنی ماں یا باپ سے ہاتھ چھڑانا چاہا مگر معصوم فرصت دنیاداری کے سامنے کتنا ٹھہر پاتی ہے۔
المختصر اس وائلن نواز نے تقریباً پینتالیس منٹ تک ہنر دکھایا۔ شاید باخ کی چھ دھنیں فضا میں بکھیریں، شاید انیس یا بیس لوگ اس کے سامنے سکے ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے، شاید اس پون گھنٹے کی پرفارمنس سے اس وائلن نواز نے لگ بھگ بتیس ڈالر کمائے۔ پھر وہ اٹھا اور میٹرو اسٹیشن سے باہر نکل کے بھیڑ میں کھو گیا۔
کوئی نہیں پہچانا، کسی نے نہیں کہا کچھ دیر ٹھہر جاؤ اور بجاؤ ، کوئی تالی نہیں سنی گئی، کسی نے دھیان نہیں دیا کہ جہاں اب سرد دیوار بالکل تنہا ہے اسی سے ٹیک لگا کے ذرا دیر پہلے ہی ایک وائلن بجانے والا بیٹھا ہوا تھا۔ کسی کو شک تک نہ ہوا کہ یہ وائلن نواز پچاس سالہ جوشوا بیل ہے۔
کہتے ہیں اس وقت دنیا میں جوشوا سے بڑا وائلنسٹ کوئی نہیں۔ دنیا کا کون سا ایسا جانا مانا کنسرٹ ہال، ایرینا یا اوپرا ہاؤس ہے جہاں اس جادوگر کی انگلیوں نے سحر نہ بچھایا۔ اب تک چالیس البم آ چکے ہیں۔ کون سا گرامی، مرکری، گراموفون اور ایکو کلاسک ایوارڈ ہے جو اسے پیش نہیں کیا گیا۔ آسکر انعام یافتہ فلم ''ریڈ وائلن'' کی موسیقی اپنے جوشوا بیل نے ہی تو ترتیب دی ہے۔
واشنگٹن کے اس میٹرو اسٹیشن میں پینتالیس منٹ تک بے نام پرفارمنس دینے والے جوشوا بیل نے یہاں کی سرد دیوار کے نیچے بیٹھنے سے صرف دو روز پہلے ہی تو بوسٹن کے ایک تھیٹر میں حاضرین کو ایڑیوں کے بل کھڑا کروایا تھا۔ پرفارمنس کا ٹکٹ سو ڈالر تھا۔ جس وائلن سے اس نے واشنگٹن کے اس سب وے اسٹیشن میں پرفارم کیا یہ وہی بوسٹن والا وائلن تو تھا جس کی قیمت جوشوا کے عاشق ساڑھے تین ملین ڈالر تک بتاتے ہیں۔
جوشوا بیل نے واشنگٹن کے سب وے میں سماجی رویوں کو جس طرح آزمانے کا کام کیا اس کا اہتمام اخبار واشنگٹن پوسٹ کے تعاون سے کیا گیا۔ تجربے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ عام لوگوں کی نگاہ کیا دیکھتی ہے، کان کیا سنتے اور کیسے اور کتنا رجسٹر کرتے ہیں، عمومی ذوقی معیار کیا ہے اور کولہو کے اس انسان نامی بیل کی ترجیحات کیا ہیں۔
کیا ہم ایک عام سے ماحول میں غیر طے شدہ وقت میں حسن پہچان سکتے ہیں، سراہا سکتے ہیں؟ کیا ہم غیر متوقع انداز میں اچانک سامنے آنے والے ٹیلنٹ کو پرکھ سکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دراصل دوسروں کے مشاہدے کی بیساکھی کے ذریعے ہی اشیا کی خوبی اور خرابی کو پہچان کر ان کے بارے میں کسی اچھی بری رائے تک پہنچتے ہیں۔ ایسا کم کم کیوں ہے کہ ہمارا دماغ اور دل اپنے طور پر مکمل آزادی سے کسی کے اثر میں آئے بغیر حسن کو سراہنے کے قابل ہو یا کسی نامیاتی و غیر نامیاتی شے کے بارے میں اچھی بری مگر ٹھیک ٹھیک بے ساختہ رائے قائم کر سکتا ہو۔ اگر ہمیں ایک بہترین عالمی موسیقار کو پہچاننے، سننے اور پرکھنے کے لیے دو منٹ کا وقت بھی میسر نہیں تو پھر یہ وقت کہاں لگ رہا ہے اور کیوں۔ یوں ہم اپنے اردگرد کتنی ہی خوبصورت چیزیں وجود پذیر ہونے کے باوجود دیکھنے پرکھنے اور کمترین لطف اندوزی سے بھی محروم ہیں۔
ایسا ہی ایک تجربہ گزشتہ دنوں معروف بھارتی گلوکار سونو نگم نے بھی کیا۔ وہ بوریا نشین فقیر کے میلے کچیلے بھیس میں ممبئی کے مختلف مصروف ناکوں پر ہارمونیم لے کر بیٹھ گئے اور اپنے ہی گائے ہوئے گیت الاپتے رہے۔ اکا دکا راہ چلتے تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے رکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ مگر ایک معمولی سا دکھنے والا سائیکل سوار لڑکا جاتے جاتے رک گیا اور اکڑوں بیٹھ کر خاصی دیر تک اس فقیر نما کو سنتا رہا۔ خدا جانے یہ لڑکا کہاں کس کام سے جا رہا ہوگا۔ اور پھر ایک کالج کا طالبِ علم بھی رکا اور بیٹھ گیا اور اپنے موبائل فون میں فقیر کی گائیکی بھرنے لگا۔ جاتے جاتے اس نے پوچھا انکل آپ نے ناشتہ کیا ؟ اور پھر فقیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کی مٹھی میں بارہ روپے دبا کے چل دیا۔
سونو نے اس سوشل ایکسپیریمنٹ کے بارے میں کہا کہ اس موسیقی نواز طالبِ علم نے جو بارہ روپے دیے وہ مجھے لاکھوں روپے سے بھی زیادہ لگے اور میں نے انھیں فریم کرا لیا ہے۔ بقول سونو ہم اپنے آس پاس کتنی خوبصورت چیزیں اس لیے نہیں دیکھ پاتے کیونکہ ہم آگے دیکھتے ہوئے چلتے ہیں۔ مگر آگے کہاں تک جانا ہے، آگے کیا کرنا ہے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس آگے بڑھنے کے چکر میں ہم لمحہِ موجود سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اسے ضایع کر بیٹھتے ہیں اور ہمیں کسی قیمتی شے کے کھونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم بڑی بڑی خوشیوں کی تلاش میں دوڑے چلے جا رہے ہیں حالانکہ ہمیں کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔ چھوٹی چھوٹی لاتعداد خوشیاں تو ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں مگر اندر کا مقناطیس استعمال نہیں ہو رہا جو انھیں کھینچ لے۔
عمر باقی ہے اے دلِ بیزار، ایسی عجلت میں روز و شب نہ گزار
تو نے دیکھا کہ سب ہی گرد ہوئے، تیز رفتار ہوں کہ کج رفتار
(احمد نوید)