فیکٹری کی مزدوری سے ڈریسنگ روم کا سفر ناقابل فراموش ہے محمد عرفان
کبھی کرکٹ شوز تک نہیں پہنے تھے اور نہ ہی میرے پاس کِٹ تھی، دوستوں کی مدد سے کرکٹ کٹ ملی،فاسٹ بولرمحمد عرفان
دنیائے کرکٹ کے طویل ترین قامت کے فاسٹ بولر محمد عرفان کا کہنا ہے کہ وہ فیکٹری کی مزدوری سے ڈریسنگ روم کا سفر کبھی نہیں بھلا سکیں گے، انہوں نے غربت میں آنکھ کھولی مگر قسمت اور محنت نے ان کے خوابوں میں رنگ بھردیئے۔
پنجاب کےچھوٹے سے شہر بوریوالہ کے گاؤں گَگو منڈی سے تعلق رکھنے والے 7 فٹ ایک انچ کے محمد عرفان اب قومی ٹیسٹ ٹیم کے ساتھ جنوبی افریقہ پہنچ گئے ہیں۔ چھ بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے محمد عرفان نے ایک مزدور کےگھرمیں آنکھ کھولی اور جوانی میں بھائیوں کے ساتھ فیکٹری میں کام کر کے والدین کا بوجھ کم کرنے لگے لیکن گاؤں میں ٹینس بال سے کرکٹ ضرورکھیلتے تھے۔
ایک کرکٹ ویب سائٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں عرفان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کرکٹ شوز تک نہیں پہنے تھے اور نہ ہی ان کے پاس کِٹ تھی۔ دوستوں کی مدد سے کٹ ملی تو اس کے اوپر شلوار قمیض پہن کر فیکٹری جاتے تھے اور گھر والوں سے چھپ کر کرکٹ کھیلتے تھے،محمد عرفان نے کہا کہ انہیں کوچ ندیم اقبال نہ ملتے تو وہ آج بھی فیکٹری میں مزدوری کررہے ہوتے۔
محمد عرفان کہتے ہیں کہ پہلی بار 2008 میں آگے بڑھنے کا کچھ راستہ ملا، جب وہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی پہنچے تو بولنگ کوچ عاقب جاوید نے کافی رہنمائی کی، سال 2009 میں فرسٹ کلاس میچ کھیلا جس میں ایک بھی وکٹ نہ ملی، دوسرے میچ میں حبیب بینک کے خلاف 9 وکٹیں حاصل کیں پھر راستے کھلنے لگے،اسی دوران وسیم اکرم نے کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لئےان کا نام تجویز کیا۔
محمد عرفان نے کہا کہ قومی ٹیم کےلئے 2010 میں انگلینڈ بلایا گیا تو بد قسمتی سے ڈبیو میچ میں جسم اور ذہن بالکل ساتھ ہی نہیں دے پارہا تھا۔ عرفان کا کہنا ہے کہ ٹیم سے باہر ہوا تو بھارت کے خلاف دوسری زندگی مل گئی، کوچ اور کپتان نے ہمت بندھائی تو ٹیسٹ ٹیم تک بھی پہنچ گیا ، انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ کا دورہ ان کے لئے بڑا چیلنج ہےجس میں وہ خودکومنوانا چاہتے ہیں۔
پنجاب کےچھوٹے سے شہر بوریوالہ کے گاؤں گَگو منڈی سے تعلق رکھنے والے 7 فٹ ایک انچ کے محمد عرفان اب قومی ٹیسٹ ٹیم کے ساتھ جنوبی افریقہ پہنچ گئے ہیں۔ چھ بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے محمد عرفان نے ایک مزدور کےگھرمیں آنکھ کھولی اور جوانی میں بھائیوں کے ساتھ فیکٹری میں کام کر کے والدین کا بوجھ کم کرنے لگے لیکن گاؤں میں ٹینس بال سے کرکٹ ضرورکھیلتے تھے۔
ایک کرکٹ ویب سائٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں عرفان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کرکٹ شوز تک نہیں پہنے تھے اور نہ ہی ان کے پاس کِٹ تھی۔ دوستوں کی مدد سے کٹ ملی تو اس کے اوپر شلوار قمیض پہن کر فیکٹری جاتے تھے اور گھر والوں سے چھپ کر کرکٹ کھیلتے تھے،محمد عرفان نے کہا کہ انہیں کوچ ندیم اقبال نہ ملتے تو وہ آج بھی فیکٹری میں مزدوری کررہے ہوتے۔
محمد عرفان کہتے ہیں کہ پہلی بار 2008 میں آگے بڑھنے کا کچھ راستہ ملا، جب وہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی پہنچے تو بولنگ کوچ عاقب جاوید نے کافی رہنمائی کی، سال 2009 میں فرسٹ کلاس میچ کھیلا جس میں ایک بھی وکٹ نہ ملی، دوسرے میچ میں حبیب بینک کے خلاف 9 وکٹیں حاصل کیں پھر راستے کھلنے لگے،اسی دوران وسیم اکرم نے کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے لئےان کا نام تجویز کیا۔
محمد عرفان نے کہا کہ قومی ٹیم کےلئے 2010 میں انگلینڈ بلایا گیا تو بد قسمتی سے ڈبیو میچ میں جسم اور ذہن بالکل ساتھ ہی نہیں دے پارہا تھا۔ عرفان کا کہنا ہے کہ ٹیم سے باہر ہوا تو بھارت کے خلاف دوسری زندگی مل گئی، کوچ اور کپتان نے ہمت بندھائی تو ٹیسٹ ٹیم تک بھی پہنچ گیا ، انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ کا دورہ ان کے لئے بڑا چیلنج ہےجس میں وہ خودکومنوانا چاہتے ہیں۔