پنجاب کا بجٹ

محکمہ زراعت کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے

محکمہ زراعت کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے . فوٹو/آئی این پی/فائل

پنجاب حکومت نے گزشتہ روز 1970 ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اگلے مالی سال کے بجٹ کا حجم رواں مالی سال کے مقابلے میں 17.20 فیصد زائد ہے او ر نظرثانی شدہ بجٹ کے مقابلے میں 12.88 فیصد زائد ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کا اعلان کیا گیا ہے۔

مالی سال 2017-18ء کے لیے بجٹ میں 117 ارب سے زاید کا خسارہ ہے۔ اس خسارے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے بیرونی امداد سے پورا کیا جائے گا۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 635 ارب روپے رکھا گیا ہے، شہری جائیداد کی خرید و فروخت پر عائد کیپٹل ویلیو ٹیکس اور اسٹیمپ ڈیوٹی کی جگہ 5 فیصد کی شرح سے نیا ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، انٹرنیٹ پر بھی ٹیکس عائد ہو گا جب کہ ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ تک انٹرنیٹ استعمال کرنیوالے طالب علم اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہونگے، تعمیراتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کنسٹرکشن سیکٹر پر عائد 16 فیصد ٹیکس کم کر کے 5 فیصد کر دیا گیا اس سے تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا، مزدور کی کم از کم اجرت 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

صحت' تعلیم' زراعت' امن عامہ' انصاف اور مقامی حکومتوں کے لیے مجموعی طور پر 1017 ارب مختص کیے جا رہے ہیں جو کل بجٹ کا تقریباً 59 فیصد ہے، صوبے کے قابل تقسیم محاصل کا 44 فیصد حصہ مقامی حکومتوں کے لیے مختص کیا گیا ہے، کسان پیکیج کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں جس کے تحت کھاد کی قیمتوں میں کمی کو آئندہ مالی سال بھی برقرار رکھا جائے گا جب کہ زرعی ٹیوب ویلوں پر 6 ارب روپے سے زائد کے سیلز ٹیکس کو بھی حکومت پنجاب ادا کریگی، صاف پانی پروگرام کے لیے تقریباً 25 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، اس کے ساتھ ساتھ 30 کروڑ روپے کی لاگت سے صوبے بھر میں ہینڈ پمپ کے منصوبے پر بھی کام کا آغاز کیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ خود روز گار اسکیم کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اپنا روز گار اسکیم کے تحت بیروزگار نوجوانوں کو اورنج کیب اسکیم کے تحت50 ہزار گاڑیاں بلا سود اقساط پر دی جائینگی جس پر35 ارب روپے لاگت آئیگی، پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوں کے لیے صوبہ میں 40 ای روزگار سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جہاں سالانہ دس ہزار طلباء کو آن لائن روزگار کے حصول کی تربیت دی جائے گی۔

پنجاب کی وزیر خزانہ عائشہ غوث پاشا کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کی اور گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان مسلسل سیٹیاں بجاتے رہے۔ بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑی گئیں، اپوزیشن نے واک آؤٹ بھی کیا ۔کچھ ایسا ہی منظرنامہ وفاقی بجٹ کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی تقریر کے دوران بھی سامنے آیا تھا۔ بہرحال تمام تر شورشرابے کے باوجود پنجاب کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے اور یہ بظاہر ترقیاتی بجٹ نظر آتا ہے۔


حکومت نے جو اہداف مقرر کر رکھے ہیں اگر وہ حاصل ہو جاتے ہیں تو اس سے یقینا صوبے کے انفرااسٹرکچر میں بہتری آئے گی۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافہ وفاقی بجٹ کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ حالیہ مہنگائی کی لہر کو دیکھا جائے تو 10 فیصد اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی شرح بڑھانی چاہیے۔ مزدور کی کم ازکم اجرت 15 ہزار روپے مقرر کرنا بھی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ حکمرانوں کو نچلے طبقے کی محرومیوں کا احساس نہیں ہے اور نہ ہی انھیں اتنا معلوم ہے کہ پندرہ ہزار روپے مہینے میں ایک گھرانہ اپنی گزراوقات کیسے کرے گا۔

یہ احساس وفاقی سطح پر بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی صوبائی سطح پر کیا گیا ہے۔ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز حضرات اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک پارلیمنٹیرین پر قومی خزانے کے کئی لاکھ روپے خرچ آتے ہیں لیکن مزدور کی اجرت 15 ہزا روپے مقرر کر کے سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا تیر مارا ہے۔ ہمارے سیاسیدان اور پارلیمنٹیرینز خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ صرف پانچ سال تک اپنی تنخواہویں، مراعات وغیرہ نہ لیں تو اس سے قومی خزانے کو کروڑوں کا فائدہ حاصل ہو گا۔ بہرحال زراعت کے حوالے سے حکومت نے بہتر فیصلہ کیا ہے بلکہ کسانوں کی ترقی کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

محکمہ زراعت کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو بجلی مفت ملے، کھاد اور بیج مزید سستے ہوں تو پاکستان اناج میں خودکفیل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو ان کی فصل کا پورا معاوضہ ملے تو ہمارے دیہات خوشحال ہوں گے۔ کسان سے اس کی فصل کھیت سے خریدی جائے تا کہ اسے منڈی میں بیٹھے آڑھتیوں کی لوٹ مار سے بچایا جا سکے اور اس کے علاوہ سرکاری اہلکاروں کے شکنجے سے بھی بچایا جا سکے۔

تعمیراتی شعبے پر ٹیکس کم ہے اس شعبے میں سرگرمیاں بڑھیں گی جس سے روزگار پیدا ہو گا۔ بہرحال پنجاب کا بجٹ متوازن ہے اور اس میں جو اہداف رکھے گئے ہیں اگر وہ پورے ہو جاتے ہیں تو اس سے صوبے میں ترقی کی رفتار پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو جائے گی۔

 
Load Next Story