مرنا ہے کہ جینا ہے اک بات ٹھہر جائے
ہر سیاسی جماعت انتخابات سے قبل عوامی تکالیف کے ازالے کا دعویٰ کرتی ہے
ایک وفاقی وزیر کے نائب قاصدکی مدت ملازمت ختم ہونے میں صرف ایک سال باقی تھا۔ سرکاری کوارٹر اس سے خالی کرالیا جاتا پانچ بیٹیوں اورتین بیٹوں کے ساتھ وہ بہت پریشان تھا اور شدید بیماری۔ ایک روز وہ اپنے بیٹے کے ساتھ دفتر پہنچا اور متعلقہ افسر سے بیٹے کی ملازمت کے لیے بات کی تاکہ اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری کوارٹر کی شکل میں اس کے گھرانے کو سر چھپانے کا آسرا میسر رہے۔ اسے بتایا گیا کہ باپ کی جگہ بیٹے کی ملازمت کے لیے ضروری ہے کہ باپ کا دوران ملازمت انتقال ہوجائے۔
اس شرط کے علم میں آنے کے بعد محمد اقبال نامی اس شخص نے اپنے بیٹے کو وہیں چھوڑ کر وزارت کی تیس فٹ بلند عمارت سے چھلانگ لگادی اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ یوں اس نائب قاصد نے بیٹے کی ملازمت کے لیے عائد شرط ضرور پوری کردی ہے جس کے بعد قانون کے تحت اس کے بیٹے کو ملازمت مل جائے گی اور اس کے لواحقین سر چھپانے کے ٹھکانے سے بھی محروم ہونے سے بچ جائیں گے۔
یہ کہانی یا روح فرسا اور دلدوز واقعہ ہمارے معاشرے میں انسانی مسائل کو سنگ دلی کے ساتھ نظرانداز کرنے اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ سرکاری دفاتر کے روایتی سرخ فیتے (بے حسی) کے چکر اور غیر انسانی رویہ اپنائے جانے کی ایک ایسی ہولناک اور تھرا دینے والی مثال ہے جس سے ہمارے مروجہ نظام کی بے حسی اور سفاکی پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے۔
آئے دن اخبارات میں حکومت سے وابستہ لوگوں پر اربوں روپے کی کرپشن، فراڈ یا ہیرپھیر کے ٹھوس شواہد سامنے لائے جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کے مقدر میں صاف بچ جانا ہمارے ارباب اختیار نے لکھ دیا ہے۔ اگر یہی اربوں روپے صرف ایک بار عوام کی بہبود پر خرچ کردیے جائیں تو اس ملک میں روزگارکے مواقعے بھی مل سکتے ہیں، لوگوں کو پینے کا پانی بھی مہیا ہوسکتا ہے، لوڈ شیڈنگ کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی صحت مندی اور توانائی میسر آسکتی ہے۔
وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے تعلیمی منصوبہ بندی و انتظامات کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں پرائمری اسکولوں کے حوالے سے نہایت افسوسناک اور شرمناک رپورٹ کے سامنے آنے سے ہمارے ارباب اختیار یا ملک کے کرتا دھرتاؤں کے وجود پر جو سوالیہ نشان سامنے آیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ملک کے 33 فیصد پرائمری اسکول پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں یعنی ایک لاکھ اکیس ہزار پرائمری اسکولوں میں سے 39 ہزار اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ 60 ہزار اسکول بجلی اور 38 ہزار اسکول بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ 7 ہزار 800 اسکولوں میں ایک بھی کلاس روم نہیں جب کہ 10 ہزار 500 اسکول عمارت کے بغیر اور 34 ہزار اسکول چار دیواری کے بغیر قائم ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پرائمری اسکول نہ صرف نظام تعلیم کی بنیادی اکائی بلکہ معاشرے کی بنیاد اور بچوں کی پہلی رسمی درسگاہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ان اسکولوں کی حالت زار ناقابل بیان ہے، ملک بھر میں پرائمری اسکولوں میں اکثریت میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ اس قیامت خیز گرمی میں ننھے منے بچوں کو حصول تعلیم کے دوران پانی کے بغیر کیا مشکلات پیش آتی ہوں گی اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
ہر سیاسی جماعت انتخابات سے قبل عوامی تکالیف کے ازالے کا دعویٰ کرتی ہے، انھیں سہولتیں فراہم کرنے ان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ سب کچھ فراموش کرکے اپنے اثاثوں کو بڑھانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں حکومت کی طرف سے عوام دوست بجٹ کی نوید سنا کر عوام دشمنی کا ثبوت فراہم کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش بالخصوص تیل،گھی، دودھ، چائے، دہی، دالیں، آٹا، بیسن اور پھل فروٹ پر اس قدر پیسے بڑھائے جاتے ہیں کہ انسان زندہ خودکشی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پٹرولیم مصنوعات میں 5 بار اضافہ کیا ہے اور اب اس کے کرتا دھرتا امسال بجٹ کو عوام دوست بجٹ دینے کا دل فریب وعدہ کر رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری قومی آمدنی چھ فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے مگر ستم یہ ہے کہ غریب انسان کی بنیادی سہولتوں کی طرف نگاہ غلط تک نہیں ڈالی جا رہی۔ ملک کی 45 فیصد آبادی کو 2100 کیلوریز فی فرد کے حساب سے بھی غذا نصیب نہیں ہے، جب کہ اقوام متحدہ کے صحت کے شعبے کے مطابق ہر فرد کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے روزانہ 2300 کیلوریز ملنا اشد ضروری ہے، لیکن غذا کیا یہاں تو 70 فیصد آبادی کو پینے کا صاف اور شفاف پانی تک میسر نہیں ہے۔
اس مملکت خداداد کو معرض وجود میں آئے آج 70 برس کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن اب تک کسی بھی حکومت نے ایسا بجٹ پیش نہیں کیا جو معاشرتی اور طبقاتی ناہمواریوں کو ختم یا کم کر پاتا اور امیر اور غریب کے درمیان تفاوت ختم کرسکتا اور انسان اس فکر میں ہی غلطاں رہتا ہے کہ ایسا بجٹ کون اورکب پیش کرے گا جس سے نہ کوئی نائب قاصد محمد اقبال 30 فٹ کی بلندی سے کود کر خودکشی کرے گا، نہ کوئی اپنے لخت جگرکو فروخت کرے گا، نہ کوئی اپنا گردہ بیچے گا، نہ بھوک مارنے کے لیے اپنا خون فروخت کرے گا اور ایسا بجٹ آنے سے وہ زندہ رہے گا، اپنے پیاروں کے لیے اپنے پیاروں کی خاطر۔
ہمارے ارباب اختیار سب اچھا کے جھوٹے دعوے، گا، گی اور گے کا برسوں پرانا راگ پاٹ آخر کب تک اور کس حد تک گاتے رہیں گے؟ تعلیم، صحت، پیٹرول، گیس، بجلی، اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام انسان کا اپنے تن سے رشتہ رکھنا ناممکن ہوگیا ہے جس سے مایوسی، جرائم، خودکشی اور دیگر افسوسناک عوامل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف بااثر اور بڑے لوگوں کی لوٹ مار اورکرپشن بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب بد سے بدتر بنتا جا رہا ہے اور ہمارے حکمران بے حسی کی عملی تصویر بنے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔
افسوس صد افسوس انھی وجوہات کی بنا پر ہمارا ملک رفتہ رفتہ حکمرانوں ہی کی کارستانیوں کی وجہ سے انتہائی پستی کا شکار ہوگیا ہے۔ دنیا کس تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہم کس تیزی سے پستیوں میں ڈوب رہے ہیں اور یہ امر ہمارے لیے انتہائی شرمناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے قائداعظم محمد علی جناح جیسے بااصول اور صاحب کردار اور دنیا بھر میں اپنے کریکٹر اور قابلیت کے لیے معروف قائد کے ملک کوکوڑے دان بنادیا ہے۔
عہد حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں نظام مملکت، کلیدی اداروں، تعلیم وتدریس، صنعت و زراعت اور زندگی کے تمام شعبوں کو تیزی سے ترقی یافتہ ملکوں کے معیار پر لایا جائے، چین، ترکی اور ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنا کر سو فیصد آبادی کو کم سے کم وقت میں حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ بنایا جائے، ہر سطح پر صرف میرٹ کو ترقی کی بنیاد ٹھہرایا جائے، کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے تمام معاملات میں شفافیت کا لازماً اہتمام کیا جائے اور احتساب کا ایسا بے لاگ اور کل وقتی اور خودکار نظام تشکیل دیا جائے جس کے دائرہ اختیار سے کوئی ادارہ اور فرد باہر نہ ہوسکے۔ ان امور کا اہتمام پاکستان کو ایک طفیلی ریاست ہونے کے تاثر سے محفوظ رکھنے اور اقوام عالم میں محترم اور باوقار مقام دلانے کے لیے ناگزیر ہے۔
اس شرط کے علم میں آنے کے بعد محمد اقبال نامی اس شخص نے اپنے بیٹے کو وہیں چھوڑ کر وزارت کی تیس فٹ بلند عمارت سے چھلانگ لگادی اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ یوں اس نائب قاصد نے بیٹے کی ملازمت کے لیے عائد شرط ضرور پوری کردی ہے جس کے بعد قانون کے تحت اس کے بیٹے کو ملازمت مل جائے گی اور اس کے لواحقین سر چھپانے کے ٹھکانے سے بھی محروم ہونے سے بچ جائیں گے۔
یہ کہانی یا روح فرسا اور دلدوز واقعہ ہمارے معاشرے میں انسانی مسائل کو سنگ دلی کے ساتھ نظرانداز کرنے اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ سرکاری دفاتر کے روایتی سرخ فیتے (بے حسی) کے چکر اور غیر انسانی رویہ اپنائے جانے کی ایک ایسی ہولناک اور تھرا دینے والی مثال ہے جس سے ہمارے مروجہ نظام کی بے حسی اور سفاکی پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے۔
آئے دن اخبارات میں حکومت سے وابستہ لوگوں پر اربوں روپے کی کرپشن، فراڈ یا ہیرپھیر کے ٹھوس شواہد سامنے لائے جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کے مقدر میں صاف بچ جانا ہمارے ارباب اختیار نے لکھ دیا ہے۔ اگر یہی اربوں روپے صرف ایک بار عوام کی بہبود پر خرچ کردیے جائیں تو اس ملک میں روزگارکے مواقعے بھی مل سکتے ہیں، لوگوں کو پینے کا پانی بھی مہیا ہوسکتا ہے، لوڈ شیڈنگ کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی صحت مندی اور توانائی میسر آسکتی ہے۔
وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے تعلیمی منصوبہ بندی و انتظامات کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں پرائمری اسکولوں کے حوالے سے نہایت افسوسناک اور شرمناک رپورٹ کے سامنے آنے سے ہمارے ارباب اختیار یا ملک کے کرتا دھرتاؤں کے وجود پر جو سوالیہ نشان سامنے آیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ملک کے 33 فیصد پرائمری اسکول پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں یعنی ایک لاکھ اکیس ہزار پرائمری اسکولوں میں سے 39 ہزار اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ 60 ہزار اسکول بجلی اور 38 ہزار اسکول بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ 7 ہزار 800 اسکولوں میں ایک بھی کلاس روم نہیں جب کہ 10 ہزار 500 اسکول عمارت کے بغیر اور 34 ہزار اسکول چار دیواری کے بغیر قائم ہیں۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پرائمری اسکول نہ صرف نظام تعلیم کی بنیادی اکائی بلکہ معاشرے کی بنیاد اور بچوں کی پہلی رسمی درسگاہ ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ان اسکولوں کی حالت زار ناقابل بیان ہے، ملک بھر میں پرائمری اسکولوں میں اکثریت میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ اس قیامت خیز گرمی میں ننھے منے بچوں کو حصول تعلیم کے دوران پانی کے بغیر کیا مشکلات پیش آتی ہوں گی اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
ہر سیاسی جماعت انتخابات سے قبل عوامی تکالیف کے ازالے کا دعویٰ کرتی ہے، انھیں سہولتیں فراہم کرنے ان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ سب کچھ فراموش کرکے اپنے اثاثوں کو بڑھانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں حکومت کی طرف سے عوام دوست بجٹ کی نوید سنا کر عوام دشمنی کا ثبوت فراہم کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش بالخصوص تیل،گھی، دودھ، چائے، دہی، دالیں، آٹا، بیسن اور پھل فروٹ پر اس قدر پیسے بڑھائے جاتے ہیں کہ انسان زندہ خودکشی کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پٹرولیم مصنوعات میں 5 بار اضافہ کیا ہے اور اب اس کے کرتا دھرتا امسال بجٹ کو عوام دوست بجٹ دینے کا دل فریب وعدہ کر رہے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری قومی آمدنی چھ فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے مگر ستم یہ ہے کہ غریب انسان کی بنیادی سہولتوں کی طرف نگاہ غلط تک نہیں ڈالی جا رہی۔ ملک کی 45 فیصد آبادی کو 2100 کیلوریز فی فرد کے حساب سے بھی غذا نصیب نہیں ہے، جب کہ اقوام متحدہ کے صحت کے شعبے کے مطابق ہر فرد کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے روزانہ 2300 کیلوریز ملنا اشد ضروری ہے، لیکن غذا کیا یہاں تو 70 فیصد آبادی کو پینے کا صاف اور شفاف پانی تک میسر نہیں ہے۔
اس مملکت خداداد کو معرض وجود میں آئے آج 70 برس کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن اب تک کسی بھی حکومت نے ایسا بجٹ پیش نہیں کیا جو معاشرتی اور طبقاتی ناہمواریوں کو ختم یا کم کر پاتا اور امیر اور غریب کے درمیان تفاوت ختم کرسکتا اور انسان اس فکر میں ہی غلطاں رہتا ہے کہ ایسا بجٹ کون اورکب پیش کرے گا جس سے نہ کوئی نائب قاصد محمد اقبال 30 فٹ کی بلندی سے کود کر خودکشی کرے گا، نہ کوئی اپنے لخت جگرکو فروخت کرے گا، نہ کوئی اپنا گردہ بیچے گا، نہ بھوک مارنے کے لیے اپنا خون فروخت کرے گا اور ایسا بجٹ آنے سے وہ زندہ رہے گا، اپنے پیاروں کے لیے اپنے پیاروں کی خاطر۔
ہمارے ارباب اختیار سب اچھا کے جھوٹے دعوے، گا، گی اور گے کا برسوں پرانا راگ پاٹ آخر کب تک اور کس حد تک گاتے رہیں گے؟ تعلیم، صحت، پیٹرول، گیس، بجلی، اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام انسان کا اپنے تن سے رشتہ رکھنا ناممکن ہوگیا ہے جس سے مایوسی، جرائم، خودکشی اور دیگر افسوسناک عوامل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف بااثر اور بڑے لوگوں کی لوٹ مار اورکرپشن بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب بد سے بدتر بنتا جا رہا ہے اور ہمارے حکمران بے حسی کی عملی تصویر بنے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔
افسوس صد افسوس انھی وجوہات کی بنا پر ہمارا ملک رفتہ رفتہ حکمرانوں ہی کی کارستانیوں کی وجہ سے انتہائی پستی کا شکار ہوگیا ہے۔ دنیا کس تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہم کس تیزی سے پستیوں میں ڈوب رہے ہیں اور یہ امر ہمارے لیے انتہائی شرمناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے قائداعظم محمد علی جناح جیسے بااصول اور صاحب کردار اور دنیا بھر میں اپنے کریکٹر اور قابلیت کے لیے معروف قائد کے ملک کوکوڑے دان بنادیا ہے۔
عہد حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں نظام مملکت، کلیدی اداروں، تعلیم وتدریس، صنعت و زراعت اور زندگی کے تمام شعبوں کو تیزی سے ترقی یافتہ ملکوں کے معیار پر لایا جائے، چین، ترکی اور ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنا کر سو فیصد آبادی کو کم سے کم وقت میں حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ بنایا جائے، ہر سطح پر صرف میرٹ کو ترقی کی بنیاد ٹھہرایا جائے، کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے تمام معاملات میں شفافیت کا لازماً اہتمام کیا جائے اور احتساب کا ایسا بے لاگ اور کل وقتی اور خودکار نظام تشکیل دیا جائے جس کے دائرہ اختیار سے کوئی ادارہ اور فرد باہر نہ ہوسکے۔ ان امور کا اہتمام پاکستان کو ایک طفیلی ریاست ہونے کے تاثر سے محفوظ رکھنے اور اقوام عالم میں محترم اور باوقار مقام دلانے کے لیے ناگزیر ہے۔