کیوں نہ پھول اور پھل دار گملے تحفے میں دیے جائیں
لوگوں میں درخت، پودے اور گملے تحفے میں دینے کا رجحان پیدا اور پھر اسے فروغ دیا جاسکتا ہے
اب اس بات پر واقعی ریسرچ کی ضرورت ہے کہ ہمارے آباو اجداد بجلی اور پانی کی فراہمی کے ایک اچھے نظام کے بغیر کیسے زندگی گزارتے ہوں گے اور ضروریات زندگی کی نایابی سے کس طرح نمٹتے ہوں گے۔
جیساکہ اس سلسلے کی معلومات ہم تک سینہ بہ سینہ پہنچی ہیں، پرانے وقتوں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، اگرچہ پانی کی فراہمی کا آج جیسا جدید نظام نہیں تھا مگر جیسے تیسے پانی افراط سے مل جاتا تھا اور لوگوں کا گزارا ہوجاتا تھا۔
پھر بجلی کی فراہمی شروع ہوئی، پہلے منتخب علاقوں میں اور پھر وسیع علاقوں میں اور اس کے بعد بجلی کی فراہمی سے متعلق مسائل سے سر اٹھانا شروع کیا۔ ابتدا میں بجلی کی پیداوار اور کھپت میں فرق اتنا زیادہ نہیں تھا مگر سال بہ سال یہ فرق بڑھتا گیا اور اب یہ خلیج اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ اچھا خاصا بحران پیدا ہوگیا ہے اور صارفین کی اچھی خاصی تعداد لوڈ شیڈنگ کے خوفناک اثرات محسوس کرنے لگی ہے اور سخت گرمی کے باعث بجلی کی فراہمی میں تعطل ایک بڑا عذاب ہوگیا ہے۔
یوں تو بجلی کے مسائل سالہا سال سے تھے مگر کچھ سالوں سے ایئرکنڈیشنرز کے لوڈ نے بجلی کے نظام پر خاصے برے اثرات مرتب کیے ہیں ایئرکنڈیشنرز کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جن گھروں میں ایک آدھ ایئرکنڈیشنر ہوتا تھا وہاں اب چار چار ایئرکنڈیشنرز نصب ہوگئے ہیں اور ان کا وجود اس وقت اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے جب یہ ایئرکنڈیشنرز چوری کی بجلی سے چلائے جاتے ہیں۔
بہرکیف اب وہ وقت آگیا ہے جب لوگ پانی و بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے محض سرکار اور اداروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود بھی رضاکارانہ کوششیں کریں اور بعض متنوع غیر معمولی اقدامات کیے جائیں جو بعض صورتوں میں حکومت اور عوام کو مل کر کرنے ہوں گے۔
مثلاً لوگ ازخود بجلی کے استعمال میں کفایت کرنے لگیں اگر ضرورت محسوس کریں تو ایئرکنڈیشنر چلائیں مگر دو کی جگہ کوشش کریں کہ ایک ہی ایئرکنڈیشنر سے کام چل جائے، اس سے دونوں کا فائدہ ہے بجلی کے ادارے کا بھی اور صارف کا بھی۔ ایک تو بجلی کے نظام پر بوجھ کم ہوگا اور پھر بجلی کا بل بھی کم آئے گا۔
اس کے علاوہ عوام کو قدرتی ماحول بہتر بنانے کے لیے بھی اپنی سی کوششیں کرنی ہوں گی مثلاً عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ کراچی جیسے شہروں بلکہ پورے ملک میں گرمی کی شدت اس لیے بڑھ رہی ہے کہ درختوں اور سبزوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اس لیے عوام کو شہروں کے کنکریٹ کا جنگل بننے کے عمل کو روکنا چاہیے اور انفرادی و اجتماعی اور نجی و سرکاری سطح پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں اور ہر شہری کو یہ مشن بنانا چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں کم ازکم ایک پودا ضرور لگائے گا اگر سب لوگ ''خشوع و خضوع'' سے درخت اور پودے لگانے کا یہ کام کرنے لگیں اور انھیں اس نیک مقصد کے لیے پانی بھی فراہم کردیا جائے تو اردگرد کے ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
جیساکہ ہم نے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت کی بات کی ہے کوئی قانون بناکر درخت کاٹنے کو ایک بڑا جرم قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگرکوئی ایسا قانون موجود ہے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
حکومت انعامات اور اخراجات کی رقم کی صورت میں شہریوں کو درخت اور پودے لگانے کی ترغیب دے سکتی ہے اور خاص طور پر اپارٹمنٹ میں رہنے والوں کو بطور عطیہ گملے دیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح کے گملے خوش نما بھی ہوں گے اور ماحول پر بھی اچھے اثرات مرتب کریں گے۔
لوگوں میں درخت، پودے اور گملے تحفے میں دینے کا رجحان پیدا اور پھر اسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پھل اور پھول دینے کے بجائے لوگ ایک دوسرے کو پھول اور پھل دار درخت یا گملے تحفے میں دے سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ باتیں مذاق لگ رہی ہوں تاہم موسم اور ماحول کو سازگار اور اپنے فائدے کے مطابق بنانے کے لیے لوگوں کو ایسے ہی عام ڈگر سے ہٹ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔
آپس میں میل محبت اور یگانگت کے ذریعے بھی لوگ لوڈ شیڈنگ کا منہ پھیرسکتے ہیں، اگرچہ اب بجلی کا تعطل یہ کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے مگر یہ کام ہوسکتا ہے کہ بجلی طویل مدت کے لیے جانے کی صورت میں اپنے قریبی رشتے دار اور دوست احباب کے گھر منتقل ہونے کی روایت کو فروغ دیں۔ بجلی کے ادارے کی طرف سے بھی جسے دورانیے کے مختصر یا طویل ہونے کا علم ہوتا ہے صارفین کو اپنے کسی قریبی رشتے دار کے گھر منتقل ہونے کا مشورہ دیا جاسکتا ہے اگر ادارے کے پاس صارفین کے رشتے داروں کا ریکارڈ موجود ہو تو یہ کام اور زیادہ پریکٹیکل اور آسان ہوسکتا ہے۔
لیکن بات ہر پھر کے وہیں آجاتی ہے جہاں ملک میں زیادہ سے زیادہ بجلی گھر لگانے کی ضرورت ہے وہیں خود شہریوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خاص طور پر اس وقت جب بجلی کا استعمال اپنے عروج پر ہوتا ہے کم سے کم بجلی استعمال کی جائے ایئرکنڈیشنرز یا تو بالکل ہی نہیں چلائے جائیں یا کم سے کم چلائے جائیں۔ گھر والے آپس میں میل محبت اور اتفاق و اتحاد سے رہنا شروع کردیں اور ایک کمرے میں منتقل ہوجائیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔
تاہم درخت اور پودے گملوں کی صورت میں تحفے میں دینے کی تجویز ایسی ہے جس پر کوئی نہ کوئی سمجھدار شہری فوری پہل کرسکتا ہے۔
جیساکہ اس سلسلے کی معلومات ہم تک سینہ بہ سینہ پہنچی ہیں، پرانے وقتوں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، اگرچہ پانی کی فراہمی کا آج جیسا جدید نظام نہیں تھا مگر جیسے تیسے پانی افراط سے مل جاتا تھا اور لوگوں کا گزارا ہوجاتا تھا۔
پھر بجلی کی فراہمی شروع ہوئی، پہلے منتخب علاقوں میں اور پھر وسیع علاقوں میں اور اس کے بعد بجلی کی فراہمی سے متعلق مسائل سے سر اٹھانا شروع کیا۔ ابتدا میں بجلی کی پیداوار اور کھپت میں فرق اتنا زیادہ نہیں تھا مگر سال بہ سال یہ فرق بڑھتا گیا اور اب یہ خلیج اتنی وسیع ہوگئی ہے کہ اچھا خاصا بحران پیدا ہوگیا ہے اور صارفین کی اچھی خاصی تعداد لوڈ شیڈنگ کے خوفناک اثرات محسوس کرنے لگی ہے اور سخت گرمی کے باعث بجلی کی فراہمی میں تعطل ایک بڑا عذاب ہوگیا ہے۔
یوں تو بجلی کے مسائل سالہا سال سے تھے مگر کچھ سالوں سے ایئرکنڈیشنرز کے لوڈ نے بجلی کے نظام پر خاصے برے اثرات مرتب کیے ہیں ایئرکنڈیشنرز کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے جن گھروں میں ایک آدھ ایئرکنڈیشنر ہوتا تھا وہاں اب چار چار ایئرکنڈیشنرز نصب ہوگئے ہیں اور ان کا وجود اس وقت اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے جب یہ ایئرکنڈیشنرز چوری کی بجلی سے چلائے جاتے ہیں۔
بہرکیف اب وہ وقت آگیا ہے جب لوگ پانی و بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے محض سرکار اور اداروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود بھی رضاکارانہ کوششیں کریں اور بعض متنوع غیر معمولی اقدامات کیے جائیں جو بعض صورتوں میں حکومت اور عوام کو مل کر کرنے ہوں گے۔
مثلاً لوگ ازخود بجلی کے استعمال میں کفایت کرنے لگیں اگر ضرورت محسوس کریں تو ایئرکنڈیشنر چلائیں مگر دو کی جگہ کوشش کریں کہ ایک ہی ایئرکنڈیشنر سے کام چل جائے، اس سے دونوں کا فائدہ ہے بجلی کے ادارے کا بھی اور صارف کا بھی۔ ایک تو بجلی کے نظام پر بوجھ کم ہوگا اور پھر بجلی کا بل بھی کم آئے گا۔
اس کے علاوہ عوام کو قدرتی ماحول بہتر بنانے کے لیے بھی اپنی سی کوششیں کرنی ہوں گی مثلاً عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ کراچی جیسے شہروں بلکہ پورے ملک میں گرمی کی شدت اس لیے بڑھ رہی ہے کہ درختوں اور سبزوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اس لیے عوام کو شہروں کے کنکریٹ کا جنگل بننے کے عمل کو روکنا چاہیے اور انفرادی و اجتماعی اور نجی و سرکاری سطح پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں اور ہر شہری کو یہ مشن بنانا چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں کم ازکم ایک پودا ضرور لگائے گا اگر سب لوگ ''خشوع و خضوع'' سے درخت اور پودے لگانے کا یہ کام کرنے لگیں اور انھیں اس نیک مقصد کے لیے پانی بھی فراہم کردیا جائے تو اردگرد کے ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
جیساکہ ہم نے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت کی بات کی ہے کوئی قانون بناکر درخت کاٹنے کو ایک بڑا جرم قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگرکوئی ایسا قانون موجود ہے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
حکومت انعامات اور اخراجات کی رقم کی صورت میں شہریوں کو درخت اور پودے لگانے کی ترغیب دے سکتی ہے اور خاص طور پر اپارٹمنٹ میں رہنے والوں کو بطور عطیہ گملے دیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح کے گملے خوش نما بھی ہوں گے اور ماحول پر بھی اچھے اثرات مرتب کریں گے۔
لوگوں میں درخت، پودے اور گملے تحفے میں دینے کا رجحان پیدا اور پھر اسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پھل اور پھول دینے کے بجائے لوگ ایک دوسرے کو پھول اور پھل دار درخت یا گملے تحفے میں دے سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ باتیں مذاق لگ رہی ہوں تاہم موسم اور ماحول کو سازگار اور اپنے فائدے کے مطابق بنانے کے لیے لوگوں کو ایسے ہی عام ڈگر سے ہٹ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔
آپس میں میل محبت اور یگانگت کے ذریعے بھی لوگ لوڈ شیڈنگ کا منہ پھیرسکتے ہیں، اگرچہ اب بجلی کا تعطل یہ کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے مگر یہ کام ہوسکتا ہے کہ بجلی طویل مدت کے لیے جانے کی صورت میں اپنے قریبی رشتے دار اور دوست احباب کے گھر منتقل ہونے کی روایت کو فروغ دیں۔ بجلی کے ادارے کی طرف سے بھی جسے دورانیے کے مختصر یا طویل ہونے کا علم ہوتا ہے صارفین کو اپنے کسی قریبی رشتے دار کے گھر منتقل ہونے کا مشورہ دیا جاسکتا ہے اگر ادارے کے پاس صارفین کے رشتے داروں کا ریکارڈ موجود ہو تو یہ کام اور زیادہ پریکٹیکل اور آسان ہوسکتا ہے۔
لیکن بات ہر پھر کے وہیں آجاتی ہے جہاں ملک میں زیادہ سے زیادہ بجلی گھر لگانے کی ضرورت ہے وہیں خود شہریوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خاص طور پر اس وقت جب بجلی کا استعمال اپنے عروج پر ہوتا ہے کم سے کم بجلی استعمال کی جائے ایئرکنڈیشنرز یا تو بالکل ہی نہیں چلائے جائیں یا کم سے کم چلائے جائیں۔ گھر والے آپس میں میل محبت اور اتفاق و اتحاد سے رہنا شروع کردیں اور ایک کمرے میں منتقل ہوجائیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔
تاہم درخت اور پودے گملوں کی صورت میں تحفے میں دینے کی تجویز ایسی ہے جس پر کوئی نہ کوئی سمجھدار شہری فوری پہل کرسکتا ہے۔