قوم سیاسی اتفاق رائے کی منتظر

وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ ایک پریشر گروپ الیکشن کمیشن کی تحلیل پر دبائو ڈال رہا ہے۔

کور کمیٹی اور پارٹی عہدیداروں کے اجلاس میں اسمبلیوں کی تحلیل اور نگران حکومت کے قیام کے مجوزہ شیڈول سے آگاہ کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے صرف 60 دن ملیں گے۔ فوٹو: اے پی پی/ فائل

ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت کے زیر انتظام نئے الیکشن کے لیے تیاریوں کا جمہوری عمل بادی النظر میں جاری ہے، ادھر قومی سطح پر مختلف النوع سیاسی ،اقتصادی اور سماجی مسائل کا ایک لق ودق صحرا دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ کوئی آئینی بحران بھی نظر نہیں آتا،نہ سیاسی بساط کے الٹنے یا غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کا کوئی عفریت سایہ فگن ہے ۔ بظاہر حکومت اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے اور سفینہ جمہوریت اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے مگر جو چیز موجودہ سیاسی نظام کی قلب ماہیت یا ٹرانسفارمیشن کے لیے قوم کو نظر آنی چاہیے وہ مفقود ہے جب کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مابین قومی اتفاق رائے ناگزیر ہے ۔

سیاسی امور پر خیر سگالی اور قومی مفاد میں ہونے والے دور رس فیصلے سامنے آئیں جو اس بات کا ثبوت دیں کہ ملک ایک صحت مند سیاسی کلچر اور تہذیبی رویوں پر مبنی جمہوری نظام اقدار کی طرف سرگرم سفر ہے ، تمام سیاسی جماعتیں قومی انداز اور وحدت فکر ، سیاسی بالغ نظری روشن خیالی ، زمینی حقائق اور عالمی صورتحال کے گہرے ادراک سے جڑی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ، ریاستی ستونوں کے مابین شفاف و نتیجہ خیز تعلقات اور باہمی مکالمے کی نظائرقوم میں اعتماد کی نئی جوت جگا رہی ہیں ۔مگر ایسا کچھ کسی بھی زاویے سے نظر نہیں آتا ۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات اور سیاسی جوڑ توڑ کی خبروں سے میڈیا کا افق جلتے بجھتے قمقموں کا سا منظر نامہ سجائے ہوئے ہے ، روز کسی کی پگڑی اچھلتی ہے ، ٹاک شوز میں ملک بھر کے چیدہ چیدہ سقراط جمع ہوجاتے ہیں،کسی گتھی کو سلجھانا مقصود نہیں بلکہ پوری قوم کوآزمائش میں ڈال دیا گیا ہے۔ادھر عوام ہیں جو '' فرام ہارسز مائوتھ'' یقین اور اعتبار سے مزین سیاسی اتفاق رائے کی خبروں کے منتظر ہیں ۔ وہ متضاد بیانات اور کہہ مکرنیوں سے نالاں ہیں۔

مثلاً جو ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ اور دھرنا کو غیر آئینی قرار دیتے رہے وہ خود دھرنے دے رہے ہیں ، صدر اور وزیراعظم شفاف انتخابات کے انعقاد اور نگراں حکومت کی تشکیل کے لیے مشاورت کا ذکر اتنی بار کرچکے ہیں کہ اب تو خاکم بدہن عجیب سے وسوسے اور اندیشے اٹھنے لگے ہیں ۔ صدرنے ہدایت کی ہے کہ الیکشن کے بروقت، منصفانہ،اور شفاف انعقاد کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ آیندہ انتخابات شیڈول کے مطابق شفاف اندازمیں کرائے جائیں گے، تحریک منہاج القرآن کے رہنما ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ہمارے ساتھ کیے ہوئے معاہدے سے منحرف ہوتی ہے تو ہمارے پاس سارے آپشن موجود ہیں۔


ہمارا موقف یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری ٹھیک ہے باقی چار ارکان کا تقرر غیر آئینی ہے، ممتاز آئینی ماہر ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری آئینی کے مطابق نہیں ہوئی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ن لیگ کے امکانی دھرنے سے الگ رہنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ الیکشن میں ہمیں نہر والے پل پر چھوڑ گئی۔ ادھر نگران حکومت کے دوران عدالتوں کے فیصلوں پرعملدرآمد سے حکمران جماعت پیپلزپارٹی اوراتحادیوں کے کئی اہم رہنما الیکشن کے لیے نا اہل ہوسکتے ہیں،چنانچہ حکومت کی کوشش ہے کہ نگران وزیراعظم کاحتمی فیصلہ کرنے سے پہلے خدشات اورتحفظات کے بارے ٹھوس ضمانتیں حاصل کی جائیں جب کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کوپانچ سالہ مدت پوری کرنے کے لیے ابھی ڈیڑھ ماہ باقی ہے ۔

پیپلزپارٹی نے اپنی کور کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو آگاہ کر دیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں مارچ کے پہلے ہفتے میں تحلیل اور عام انتخابات مئی کے پہلے ہفتے میں کرائے جائیں گے ۔گذشتہ ہفتے کراچی میں ہونیوالے کور کمیٹی اور پارٹی عہدیداروں کے اجلاس میں اسمبلیوں کی تحلیل اور نگران حکومت کے قیام کے مجوزہ شیڈول سے آگاہ کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے صرف 60 دن ملیں گے، پیپلزپارٹی کی قیادت نے پارٹی رہنمائوں سے کہا ہے کہ اس مرتبہ سخت ترین الیکشن ہوں گے اور وہ ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ہر ممکن آپشن استعمال کریں تاکہ پارٹی زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیت سکے۔

ادھر طالبان سے مذاکرات کا کوئی روڈ میپ نہیں، طالبان دہشت گردی کی علامت ہی نہیں ایک مستقل خطرہ ہیں،ان سے ڈیلنگ کے لیے قومی سوچ اور ملکی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کا باب کھولنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔ایک اطلاع کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے فوج کے حمایت یافتہ نمایندوں سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایک طرف یہ بات مسلسل کہی جارہی ہے کہ الیکشن کمیشن کی تحلیل پر کوئی ڈیڈ لاک نہیں مگر دوسری جانب وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ ایک پریشر گروپ الیکشن کمیشن کی تحلیل پر دبائو ڈال رہا ہے، میڈیا کا عمومی تاثر یہ ہے کہ حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور صوابدیدی فنڈز کو عوامی سبسڈی پر خرچ کرنے کے مطالبات رد کردیے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل، الیکشن کمیشن کی عدم تشکیل یا نئی تشکیل ، الیکشن کی حتمی تاریخ، نگراں حکومت کے قیام سمیت دیگر امور کے فیصلوں کے بارے میں بیانات و جوابی بیانات کا پاگل بنا دینے والا چکرچل رہا ہے یا ایک طلسم ہوشربا ہے جس کی جگالی روز ہورہی ہے ۔یہ افسوس ناک طرز سیاست ہے اور تاریخی سیاسی عوامل کا اس میں کوئی کردار نہیں، محض ا یک بے یقینی ،عدم اعتماد، اور انتشار کی کیفیت ہے جس میںحکمراں جماعت سے لے کر دوسری سیاسی جماعتیں بھی اپنے ایجنڈہ کے تحت پوائنٹ اسکورنگ میں پیش پیش ہیں ، کئی چھوٹے اور غیر اہم ایشوز کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔حالانکہ عوام مستقبل کے ایک مربوط، منظم، شائستہ، مستحکم اور سنجیدہ سیاسی نظام سے متعلق آس لگائے بیٹھے ہیں ۔وہ مستحکم سیاسی نظام چاہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی و جمہوری قوتیں انتخابات کے انعقاد سمیت دیگر امور کے متفقہ چارٹر کا اعلان کریں جس سے عوام کو دلی سکون حاصل ہو۔
Load Next Story