افغانستان منزل ہے کہاں تیری
یہ صلہ ملا ہے پاکستان کو افغانستان کی قدم قدم پر مدد کرنے کا
6 جون 2017ء کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امن کانفرنس اِس حالت میں ہو رہی ہے کہ اس کانفرنس سے عین پانچ دن قبل کابل خود کش دھماکے سے لرز اُٹھا۔ یہ دھماکا کابل کے سب سے زیادہ محفوظ سمجھے جانے والے علاقے (وزیر اکبر خان)میں کیا گیا جہاں پاکستان سمیت تمام غیر ملکی سفارتخانے اور افغان صدارتی محل بروئے کار ہیں۔ دہشت گردوں نے واٹر ٹینکر کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ سوسے زائد بے گناہ انسان مار ڈالے گئے۔ جو زخمی ہُوئے ہیں، اُن کی تعداد چار سو کے قریب بتائی جارہی ہے۔
پاکستان کی ساری قیادت نے اس خونی سانحہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے لیکن کابل حکام نے ،حسبِ معمول،اس سانحہ کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ سفاک دہشت گردوں نے کابل کو اُس وقت خون کا غسل دیا ہے جب رمضان المبارک کا چوتھا روز تھا۔کہا گیا ہے کہ یہ داعش کا وحشی عمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حملے کے دوسرے ہی دن سابق افغان صدر، جناب حامد کرزئی، نے بیان دیا کہ داعش کی تخلیق کے عقب میں امریکا کا ہاتھ ہے۔ ان حالات میں چھ جون کو ہونے والی کانفرنس اور بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے 25اہم ممالک کے حکام افغانستان میں اس نیت سے کابل میں اکٹھے ہو رہے ہیں کہ بدقسمت افغانستان کو لخت لخت کرنے والی تمام اور کئی رنگی قوتوں کو خونریزی سے کیسے روکا جاسکتا ہے! روس، امریکا،چین،بھارت وغیرہ بھی شریک ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا اس میں اہم اور نمایاں کردار ہوگا کہ پاکستان ہی سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہے۔ پاکستان کی طرف سے یقینا کوشش کی جائے گی کہ بھارت اپنا لُچ تلنے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ یہ بھارت ہے جو افغانستان کی بد امنی اور شورشوں کو ہوا دے رہا ہے۔
امریکی کانگریس کے ارکان اور تین امریکی تھنک ٹینک پہلے ہی اپنی اپنی رپورٹوں میں امریکی صدر کو بتا چکے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی بھی کردار پاکستان کو ناپسند ہے۔ یہی ناپسندیدگی کشیدگی کا باعث بن رہی ہے؛ چنانچہ بھارت کواصولی طور پر افغانستان سے دُور رہنا ہوگا۔ بھارت مگر افغانستان کو پاکستان کے خلاف اکسانے اور بھڑکانے سے باز نہیں آ رہا۔ اُس نے افغان میڈیا میں اپنے پالتوؤں کے توسط سے پاک، افغان کرکٹ میچوں کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس ضمن میں بھارتی دستِ فساد افغان سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرتا ہُوا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
بھارتی سازشوں سے شہ پا کر افغان سوشل میڈیا پر پاکستان میں متعین افغان سفیر جناب عمر زخیلوال کو بھی دشنام دینے کی مذموم کوشش کی گئی ہے کہ جناب زخیلوال پاکستان اور افغانستان میں کرکٹ میچ کروانے کے لیے بڑی دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔ بھارت سے متاثرہ افغانستان کا رویہ پاکستان سے مستحسن نہیں رہا۔ یوں سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ایسے جارحانہ ماحول میں پاکستان کو کابل میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہونا چاہیے؟ جب کہ حالیہ دنوں میں افغانستان نے پاکستان کے خلاف بہت سی اور بے جا طور پر زیادتیاں بھی کی ہیں۔
مئی 2017ء کے پہلے ہفتے افغان فورسز نے پاک افغان سرحد پر واقع دو دیہاتوں (کِلی جہانگیر اور کِلی لقمان) پر حملہ کر کے پاکستان کے ایک درجن کے قریب شہریوں کو بِلا وجہ شہید کر دیا۔ پاکستانی فورسز نے بھی اس کا ممکنہ حد تک جواب دیا لیکن پوری شدت سے نہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، رمضان شریف شروع ہوتے ہی، 29مئی2017ء کو، سدرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے چمن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کِلی لقمان اور کِلی جہانگیر کے متاثرین کی نہ صرف قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ اُن کی موجودگی میں مذکورہ علاقوں کے متاثرین اور شہدا کے وارثوں میں 34لاکھ روپے نقد اور تقریباً ڈیڑھ ٹن کا راشن بھی تقسیم کیا گیا۔ فرنٹئر کور کا ہیڈ کوارٹر اس سے قبل اِنہی متاثرین میں 25ملین روپے کا پیکیج تقسیم کر چکا ہے۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ کِلی جہانگیر اور کِلی لقمان کے شہدا کے بچوں کو ایف سی کے اسکولوں میں مفت تعلیم بھی فراہم کی جائے گی۔ ابھی اس خونی افغان جارحیت کی تلخ یادیں معدوم بھی نہیں ہُوئی تھیں کہ دو ہی ہفتے بعد، 18مئی2017ء کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس، نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے دو اہلکاروں (حسن خانزادہ اور سید منیر شاہ)کو اغوا کر لیا۔ جب پاکستان نے اس پراپنے سخت ردِعمل کا اظہار کیا تو مبینہ طور پر ان دونوں مغوی پاکستانی اہلکاروں کو رہا کر دیا گیا۔
یہ صلہ ملا ہے پاکستان کو افغانستان کی قدم قدم پر مدد کرنے کا اور یہ نتیجہ سامنے آیا ہے پاکستان کی طرف سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو کئی عشروں تک پناہ دینے اور اُنہیں گلے سے لگانے کا۔سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں داعش بھی دہشت گردی کی جووارداتیں کر رہی ہے، افغانستان کی NDS دانستہ ''کسی'' کے اشارے پر اس کاسارا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ افغان حکام فرسٹریشن کا شکار ہو کر پاکستان کے خلاف مزید اوچھے ہتھکنڈوں پر بھی اُتر آئے ہیں۔ پاکستان مگر بار بار تحمل،اعراض اور صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
کیا اِسے محض اتفاق کہنا چاہیے کہ کابل میں 6جون کو ہونے والی کانفرنس سے صرف تین دن پہلے ایک ممتاز امریکی تھنک ٹینک کے دوعالمی شہرت یافتہ اسکالرز، جو گذشتہ کئی برسوں سے افغان امور اور افغان بحرانوں پر گہری نظر رکھے ہُوئے ہیں، کی طرف سے افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنے کے حوالے سے ایک چشم کشا پالیسی پیپر شایع کیا گیا ہے۔ اِسے US Policy in Afghanistan ,Changing Strategies, Preserving Gains کاعنوان دیا گیا ہے۔
افغان مسائل، افغان امور اور تازہ و سنگین افغان بحرانوں سے دلچسپی رکھنے والے تمام عالمی عناصر اِس پیپر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسے کارنیگی اینڈومنٹ کے محقق Ashley TellisاورJeff Eggersنے مل کر لکھااور مرتب کیا ہے۔ اس میں جو تجاویز دی گئی ہیں، دونوں محققین کا دعویٰ ہے کہ ان پر عمل کرنے سے افغانستان میں امن عمل بھی مستحکم ہوگا ، داعش و طالبان کے عفریت سے بھی نجات مل جائے گی اور افغانستان کا سب سے قریبی ہمسایہ (پاکستان) بھی امن چَین کی نیند سوسکے گا۔
تجاویز میں کہا گیا ہے'':(۱)متحارب طالبان سے نمٹنے کے لیے بندوق کے بجائے سیاسی راستہ اختیار کیا جائے(2)چونکہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بدتر ہے اور گورننس کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے، اس لیے فوری طور پر جنگجو طالبان(داعش نہیں) سے مکالمہ کیا جائے (3)کابل اگر سنجیدگی سے امن کا متمنی ہے تو اُسے پاکستان سے اپنے معاملات درست کرنا ہوں گے تاکہ طالبان کا اعتماد حاصل کیا جاسکے (4)پولیٹیکل سیٹلمنٹ ہی افغانستان کے جلتے بدن پر ٹھنڈا پانی ڈال سکتی ہے (5)افغانستان میں امریکی جرنیلوں کا کردار کم کرکے افغانستان میں امریکی سفیر کا کردار بھی بڑھانا ہوگا اور اُس کے اختیارات کو مزید وسیع کرنا چاہیے (6)افغانستان میں پولیٹیکل سیٹلمنٹ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔''
کہا تو یہی جا رہا ہے کہ 6جون کو کابل میں ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں دونوں متذکرہ امریکی محققین کی اِن تجاویز کو کسی نہ کسی شکل میں بروئے کار لانے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان تو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہمیشہ سے کوششیں کرتا آ رہا ہے۔ اب بھی وہ پائیدار امن کی خاطر افغانستان سے ہرسطح پر تعاون کرنے پر تیار ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ''کسی'' کی شہ پر وہ پاکستان کے خلاف شدید بد گمانیوں کا شکار ہو چکا ہے۔
کابل میں ہونے والے تازہ ہلاکت خیز خود کش دھماکے کی ذمے داری تو اُس نے پاکستان پر (بے جا طور پر) ڈالی ہی ہے، اس سے قبل بھی وہ بلخ میں ہونے والے طالبانی ظلم کا ذمے بھی پاکستان کے سر تھوپ چکا ہے۔ اکیس اپریل 2017ء کو دس افغان طالبان نے شمالی افغان صوبے (بلخ) کے مرکزی شہر (مزار شریف) کی فوجی چھاؤنی پر بھیس بدل کر حملہ کرکے 170سے زائد افغان فوجی مارڈالے تھے۔ سارے افغانستان میں صفِ ماتم بچھ گئی۔
وزیراعظم نواز شریف اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزار شریف پر دہشت گردانہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔کیا ستم ہے کہ 3جون 2017ء کو کابل میں ایک جنازے پر دہشتگردوں نے پھر تین خود کش حملے کیے اور تقریباً ایک درجن بے گناہ انسانوں کو مار ڈالا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اشد اور فوری ضرورت بھی ہے۔ اسی صورت میں 6جون کی امن کانفرنس کے کامیاب ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی ساری قیادت نے اس خونی سانحہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے لیکن کابل حکام نے ،حسبِ معمول،اس سانحہ کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ سفاک دہشت گردوں نے کابل کو اُس وقت خون کا غسل دیا ہے جب رمضان المبارک کا چوتھا روز تھا۔کہا گیا ہے کہ یہ داعش کا وحشی عمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حملے کے دوسرے ہی دن سابق افغان صدر، جناب حامد کرزئی، نے بیان دیا کہ داعش کی تخلیق کے عقب میں امریکا کا ہاتھ ہے۔ ان حالات میں چھ جون کو ہونے والی کانفرنس اور بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے 25اہم ممالک کے حکام افغانستان میں اس نیت سے کابل میں اکٹھے ہو رہے ہیں کہ بدقسمت افغانستان کو لخت لخت کرنے والی تمام اور کئی رنگی قوتوں کو خونریزی سے کیسے روکا جاسکتا ہے! روس، امریکا،چین،بھارت وغیرہ بھی شریک ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا اس میں اہم اور نمایاں کردار ہوگا کہ پاکستان ہی سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہے۔ پاکستان کی طرف سے یقینا کوشش کی جائے گی کہ بھارت اپنا لُچ تلنے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ یہ بھارت ہے جو افغانستان کی بد امنی اور شورشوں کو ہوا دے رہا ہے۔
امریکی کانگریس کے ارکان اور تین امریکی تھنک ٹینک پہلے ہی اپنی اپنی رپورٹوں میں امریکی صدر کو بتا چکے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی بھی کردار پاکستان کو ناپسند ہے۔ یہی ناپسندیدگی کشیدگی کا باعث بن رہی ہے؛ چنانچہ بھارت کواصولی طور پر افغانستان سے دُور رہنا ہوگا۔ بھارت مگر افغانستان کو پاکستان کے خلاف اکسانے اور بھڑکانے سے باز نہیں آ رہا۔ اُس نے افغان میڈیا میں اپنے پالتوؤں کے توسط سے پاک، افغان کرکٹ میچوں کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس ضمن میں بھارتی دستِ فساد افغان سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرتا ہُوا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
بھارتی سازشوں سے شہ پا کر افغان سوشل میڈیا پر پاکستان میں متعین افغان سفیر جناب عمر زخیلوال کو بھی دشنام دینے کی مذموم کوشش کی گئی ہے کہ جناب زخیلوال پاکستان اور افغانستان میں کرکٹ میچ کروانے کے لیے بڑی دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔ بھارت سے متاثرہ افغانستان کا رویہ پاکستان سے مستحسن نہیں رہا۔ یوں سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ایسے جارحانہ ماحول میں پاکستان کو کابل میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہونا چاہیے؟ جب کہ حالیہ دنوں میں افغانستان نے پاکستان کے خلاف بہت سی اور بے جا طور پر زیادتیاں بھی کی ہیں۔
مئی 2017ء کے پہلے ہفتے افغان فورسز نے پاک افغان سرحد پر واقع دو دیہاتوں (کِلی جہانگیر اور کِلی لقمان) پر حملہ کر کے پاکستان کے ایک درجن کے قریب شہریوں کو بِلا وجہ شہید کر دیا۔ پاکستانی فورسز نے بھی اس کا ممکنہ حد تک جواب دیا لیکن پوری شدت سے نہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق، رمضان شریف شروع ہوتے ہی، 29مئی2017ء کو، سدرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے چمن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کِلی لقمان اور کِلی جہانگیر کے متاثرین کی نہ صرف قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ اُن کی موجودگی میں مذکورہ علاقوں کے متاثرین اور شہدا کے وارثوں میں 34لاکھ روپے نقد اور تقریباً ڈیڑھ ٹن کا راشن بھی تقسیم کیا گیا۔ فرنٹئر کور کا ہیڈ کوارٹر اس سے قبل اِنہی متاثرین میں 25ملین روپے کا پیکیج تقسیم کر چکا ہے۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ کِلی جہانگیر اور کِلی لقمان کے شہدا کے بچوں کو ایف سی کے اسکولوں میں مفت تعلیم بھی فراہم کی جائے گی۔ ابھی اس خونی افغان جارحیت کی تلخ یادیں معدوم بھی نہیں ہُوئی تھیں کہ دو ہی ہفتے بعد، 18مئی2017ء کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس، نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے دو اہلکاروں (حسن خانزادہ اور سید منیر شاہ)کو اغوا کر لیا۔ جب پاکستان نے اس پراپنے سخت ردِعمل کا اظہار کیا تو مبینہ طور پر ان دونوں مغوی پاکستانی اہلکاروں کو رہا کر دیا گیا۔
یہ صلہ ملا ہے پاکستان کو افغانستان کی قدم قدم پر مدد کرنے کا اور یہ نتیجہ سامنے آیا ہے پاکستان کی طرف سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو کئی عشروں تک پناہ دینے اور اُنہیں گلے سے لگانے کا۔سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں داعش بھی دہشت گردی کی جووارداتیں کر رہی ہے، افغانستان کی NDS دانستہ ''کسی'' کے اشارے پر اس کاسارا ملبہ بھی پاکستان پر گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ افغان حکام فرسٹریشن کا شکار ہو کر پاکستان کے خلاف مزید اوچھے ہتھکنڈوں پر بھی اُتر آئے ہیں۔ پاکستان مگر بار بار تحمل،اعراض اور صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
کیا اِسے محض اتفاق کہنا چاہیے کہ کابل میں 6جون کو ہونے والی کانفرنس سے صرف تین دن پہلے ایک ممتاز امریکی تھنک ٹینک کے دوعالمی شہرت یافتہ اسکالرز، جو گذشتہ کئی برسوں سے افغان امور اور افغان بحرانوں پر گہری نظر رکھے ہُوئے ہیں، کی طرف سے افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنے کے حوالے سے ایک چشم کشا پالیسی پیپر شایع کیا گیا ہے۔ اِسے US Policy in Afghanistan ,Changing Strategies, Preserving Gains کاعنوان دیا گیا ہے۔
افغان مسائل، افغان امور اور تازہ و سنگین افغان بحرانوں سے دلچسپی رکھنے والے تمام عالمی عناصر اِس پیپر کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسے کارنیگی اینڈومنٹ کے محقق Ashley TellisاورJeff Eggersنے مل کر لکھااور مرتب کیا ہے۔ اس میں جو تجاویز دی گئی ہیں، دونوں محققین کا دعویٰ ہے کہ ان پر عمل کرنے سے افغانستان میں امن عمل بھی مستحکم ہوگا ، داعش و طالبان کے عفریت سے بھی نجات مل جائے گی اور افغانستان کا سب سے قریبی ہمسایہ (پاکستان) بھی امن چَین کی نیند سوسکے گا۔
تجاویز میں کہا گیا ہے'':(۱)متحارب طالبان سے نمٹنے کے لیے بندوق کے بجائے سیاسی راستہ اختیار کیا جائے(2)چونکہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بدتر ہے اور گورننس کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے، اس لیے فوری طور پر جنگجو طالبان(داعش نہیں) سے مکالمہ کیا جائے (3)کابل اگر سنجیدگی سے امن کا متمنی ہے تو اُسے پاکستان سے اپنے معاملات درست کرنا ہوں گے تاکہ طالبان کا اعتماد حاصل کیا جاسکے (4)پولیٹیکل سیٹلمنٹ ہی افغانستان کے جلتے بدن پر ٹھنڈا پانی ڈال سکتی ہے (5)افغانستان میں امریکی جرنیلوں کا کردار کم کرکے افغانستان میں امریکی سفیر کا کردار بھی بڑھانا ہوگا اور اُس کے اختیارات کو مزید وسیع کرنا چاہیے (6)افغانستان میں پولیٹیکل سیٹلمنٹ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔''
کہا تو یہی جا رہا ہے کہ 6جون کو کابل میں ہونے والی مجوزہ کانفرنس میں دونوں متذکرہ امریکی محققین کی اِن تجاویز کو کسی نہ کسی شکل میں بروئے کار لانے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان تو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہمیشہ سے کوششیں کرتا آ رہا ہے۔ اب بھی وہ پائیدار امن کی خاطر افغانستان سے ہرسطح پر تعاون کرنے پر تیار ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ''کسی'' کی شہ پر وہ پاکستان کے خلاف شدید بد گمانیوں کا شکار ہو چکا ہے۔
کابل میں ہونے والے تازہ ہلاکت خیز خود کش دھماکے کی ذمے داری تو اُس نے پاکستان پر (بے جا طور پر) ڈالی ہی ہے، اس سے قبل بھی وہ بلخ میں ہونے والے طالبانی ظلم کا ذمے بھی پاکستان کے سر تھوپ چکا ہے۔ اکیس اپریل 2017ء کو دس افغان طالبان نے شمالی افغان صوبے (بلخ) کے مرکزی شہر (مزار شریف) کی فوجی چھاؤنی پر بھیس بدل کر حملہ کرکے 170سے زائد افغان فوجی مارڈالے تھے۔ سارے افغانستان میں صفِ ماتم بچھ گئی۔
وزیراعظم نواز شریف اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزار شریف پر دہشت گردانہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔کیا ستم ہے کہ 3جون 2017ء کو کابل میں ایک جنازے پر دہشتگردوں نے پھر تین خود کش حملے کیے اور تقریباً ایک درجن بے گناہ انسانوں کو مار ڈالا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی اشد اور فوری ضرورت بھی ہے۔ اسی صورت میں 6جون کی امن کانفرنس کے کامیاب ہونے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔