عالمی تناظر میں پاکستان کہاں ہے
مظاہرین نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عدم مفاہمتوں کے خاتمے اور قیام امن کا مطالبہ کیا
LOS ANGELES:
تیسری دنیا سے تیل اور دیگر وسائل کی لوٹ مار کے لیے عالمی سامراجی قوتیں اپنے اپنے اتحادیوں کی متلاشی ہیں۔ ایک طرف امریکا اور برطانیہ نے سعودی عرب، عرب امارات، ہندوستان، مصر اور مغربی افریقہ کو اپنا اتحادی بنایا ہوا ہے اور مزید اتحادیوں کا متلاشی ہے۔ تو دوسری طرف چین اور روس، ایران، لبنان، شام، عراق، جنوبی افریقہ، یمن اور قطر کا اتحادی ہیں۔ جب کہ پاکستان اور افغانستان دونوں سامراجی مراکز کے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں۔ قطر اور سعودی عرب کے تو پہلے سے مفادات پر اختلاف چلے آرہے ہیں۔
قطر، مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین میں حماس کا حامی ہے، جب کہ سعودی عرب، مصر کی فوجی حکومت اور فلسطین کے محمود عباس کی حکومت کا حامی ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے اسلامی اتحاد (درحقیقت سعودی اتحاد) تشکیل دیا ہے۔ اس موقع پر قطر نے جب یہ بیان دیا کہ ایران اس خطے میں ایک اہم طاقت ہے، اس سے تعلقات بہتر کیے جانے چاہئیں۔ اس کے فوراً بعد سعودی عرب نے قطر کے الیکٹرانک میڈیا کے کئی چینل بلاک کردیے۔ اس کے دو دن بعد قطر اور ایران نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
قطر کے امیر شیخ تمیم حمد آل ثانی نے ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر بات کی۔ انھوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات تاریخی قرار دیتے ہوئے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر روحانی نے کہا کہ ایران اور قطر کے درمیان سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو بڑھانے کے کافی مواقع موجود ہیں۔ شیخ تمیم نے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایران اور قطر کے تعلقات کو مزید گہرا اور مضبوط بنانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔
امیر قطر شیخ تمیم نے ایک فوجی تقریب سے اپنی تقریر میں علاقائی اور اسلامی ممالک کی سطح پر ایران کے کردار کو سراہا تھا اور عرب ممالک کو مشورہ دیا تھا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دینا دانش مندی نہیں ہوگی، کیونکہ وہ ایک علاقائی سپر پاور ہے اور اس کے ساتھ تعاون کے ذریعے خطے میں استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے بقول قطر ہمسایہ ممالک میں استحکام کے لیے ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔
قطر کی سرکاری خبر رساں ایجینسی (کیو این اے) نے شیخ تمیم کے ان بیانات سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی سائٹ کو ہیک کرلیا گیا تھا، لیکن اس کی کوششں ناکام رہی۔ اس کے ردعمل میں سعودیہ اور عرب امارات نے قطر کے تمام میڈیا ذرایع کی ویب سائٹوں پر پابندی عاید کردی ہے۔ سعودی عرب نے الجزیرہ قطر نیوز ایجنسی، الوطن، الرایا، العرب، الشرق اور الجزیرہ میڈیا گروپ، الجزیرہ ڈاکومینٹری اور الجیرہ انگلش پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان چینلز کی نشریات، اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کی ویب سائٹوں کو سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
ادھر مشرقی القدس پر قبضے کی پچاس سالہ یاد کے موقع پر اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے رابین اسکوائر میں ہزاروں اسرائیلی جمع ہوئے اور فلسطینی حکومت کے قیام کے ساتھ تعاون کا اظہار کیا۔ مظاہرے میں فلسطینیوں کے خلاف جاری پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مظاہرے کا اہتمام بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں، کمیونسٹ پارٹی اور ''پیس ناؤ'' نامی سول سوسائٹی سمیت متعدد سول سوسائٹیوں نے کیا تھا۔
مظاہرین نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عدم مفاہمتوں کے خاتمے اور قیام امن کا مطالبہ کیا۔ مظاہرے کے دوران فلسطین کے صدر محمود عباس کی طرف سے مظاہرے کے لیے بھیجا گیا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ خطاب اور امن کے حق میں نعروں کے بعد کانسرٹ کے ساتھ مظاہرہ اختتام پذیر ہوا۔ ان حالات کی روشنی میں پاکستان نے ہمسایہ ملک ایران سے تعلقات پر مبنی اثرات سے بچنے کے لیے سعودی اتحاد میں قائم ہونے والے فوجی اتحاد میں شمولیت کے معاملے پر ''ریڈ لائنز'' کھینچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپریل میں جنرل (ر) راحیل شریف کی فوجی سربراہ کے عہدے پر نامزدگی کی توثیق کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستان اس فوجی اتحاد میں شامل ہوگیا ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اس معاملے پر نظرثانی کا فیصلہ ریاض میں ہونے والی حالیہ عرب اسلامک امریکا سربراہ کانفرنس میں سعودی حکام کے بیانات کے بعد کیا گیا تھا کہ اتحاد کا مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ایران کو کاؤنٹر کرنا بھی حکومت اصولی طور پر سعودی اتحاد کا حصہ بننے پر تیار ہے، اگر اس کا واحد مقصد دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف لڑنا ہوتا۔ حکام کے مطابق حتمی فیصلہ اس وقت ہوگا جب اتحاد کے ٹرمز ریفرنس تیار ہوجائیں۔ سینئر عہدیدار نے کہا کہ پاکستان اپنا موقف وزرائے دفاع کے اجلاس میں پیش کرے گا جس میں واضح مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ ہونا چاہیے۔ اس سے انحراف کیا گیا تو نہ صرف امہ تقسیم ہوجائے گی بلکہ فوجی اتحاد کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ادھر بھارتی بندرگاہوں سے چار سو کنٹینرز چابہار منتقل کیے گئے۔ ایران کی جہاز راں کمپنی نے چابہار بندرگاہ اور بھارت کے کانڈلا بندرگاہ کے درمیان نقل و حمل شروع کرنے کے لیے براہ راست روٹ قائم کیا ہے۔ ایران کی مشرقی چابہار بندرگاہ کے درمیان نقل و حمل کا براہ راست سلسلہ شروع ہونے سے دونوں ملکوں کے درمیان نقل و حمل کے لیے درکار وقت کا فاصلہ اب دو روز سے بھی کم ہوگیا ہے۔
ایران کی بحری جہاز راں کمپنی کے دو بحری جہازوں کے ذریعے بھارت کی کانڈلا اور مندرا بندرگاہوں سے مال لاد کر ایران کی چابہار بندرگاہ منتقل کیا جارہا ہے۔ ایران کے آرزو بحری جہاز نے پہلے مرحلے میں بھارت کی کانڈلا بندرگاہ سے تین سو کنٹینرز اور ایران کے یاران بحری جہاز سے پہلے مرحلے میں بھارتی مندرا بندرگاہ سے ایک سو ایک کنٹینرز چابہار منتقل کیے ہیں۔ ادھر چھ جون کو کابل میں امن کانفرنس منعقد ہورہی ہے، جس میں امریکا اور پاکستان سمیت سبھی فریقین شریک ہورہے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ افغانستان کی عوام دوست اور سامراج مخالف سوشلسٹ حکومت کو اقتدار سے امریکا نے بے دخل کیا اور اب امریکا اور اس کے ہی اتحادی امن کانفرنس کرنے جارہے ہیں؟ ہر چند کہ امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر امریکی اتحادیوں کا ایران، شام، کیوبا، شمالی کوریا اور یمن کے خلاف اسلامی سعودی امریکی اتحاد کا جارحانہ جنگی اتحاد بننے جارہا تھا، قطر اور پاکستان کا ایران مخالف جنگ میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعد یہ امریکی سامراجی مقاصد فی الحال ناکام یا ان کی سازشوں میں خلل پڑگیا ہے۔ مگر یہ دونوں اتحاد درحقیقت عوامی مفادات کی خاطر نہیں بلکہ سامراجی لوٹ مار کے لیے ہیں۔ جن میں ایک جانب امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب ہے تو دوسری طرف روس، چین اور ایران ہے۔
دنیا بھر کے تمام محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کو امریکی اور چینی سامراج کے خلاف متحد ہونا ہے اور اس عالمی سرمایہ داری کو نیست و نابود کرکے، ایک کمیونسٹ یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم کرکے ہی عوام کو ان تمام مصیبتوں اور ذلتوں سے چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے۔
تیسری دنیا سے تیل اور دیگر وسائل کی لوٹ مار کے لیے عالمی سامراجی قوتیں اپنے اپنے اتحادیوں کی متلاشی ہیں۔ ایک طرف امریکا اور برطانیہ نے سعودی عرب، عرب امارات، ہندوستان، مصر اور مغربی افریقہ کو اپنا اتحادی بنایا ہوا ہے اور مزید اتحادیوں کا متلاشی ہے۔ تو دوسری طرف چین اور روس، ایران، لبنان، شام، عراق، جنوبی افریقہ، یمن اور قطر کا اتحادی ہیں۔ جب کہ پاکستان اور افغانستان دونوں سامراجی مراکز کے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں۔ قطر اور سعودی عرب کے تو پہلے سے مفادات پر اختلاف چلے آرہے ہیں۔
قطر، مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین میں حماس کا حامی ہے، جب کہ سعودی عرب، مصر کی فوجی حکومت اور فلسطین کے محمود عباس کی حکومت کا حامی ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے اسلامی اتحاد (درحقیقت سعودی اتحاد) تشکیل دیا ہے۔ اس موقع پر قطر نے جب یہ بیان دیا کہ ایران اس خطے میں ایک اہم طاقت ہے، اس سے تعلقات بہتر کیے جانے چاہئیں۔ اس کے فوراً بعد سعودی عرب نے قطر کے الیکٹرانک میڈیا کے کئی چینل بلاک کردیے۔ اس کے دو دن بعد قطر اور ایران نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
قطر کے امیر شیخ تمیم حمد آل ثانی نے ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر بات کی۔ انھوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات تاریخی قرار دیتے ہوئے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر روحانی نے کہا کہ ایران اور قطر کے درمیان سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو بڑھانے کے کافی مواقع موجود ہیں۔ شیخ تمیم نے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایران اور قطر کے تعلقات کو مزید گہرا اور مضبوط بنانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔
امیر قطر شیخ تمیم نے ایک فوجی تقریب سے اپنی تقریر میں علاقائی اور اسلامی ممالک کی سطح پر ایران کے کردار کو سراہا تھا اور عرب ممالک کو مشورہ دیا تھا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دینا دانش مندی نہیں ہوگی، کیونکہ وہ ایک علاقائی سپر پاور ہے اور اس کے ساتھ تعاون کے ذریعے خطے میں استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے بقول قطر ہمسایہ ممالک میں استحکام کے لیے ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔
قطر کی سرکاری خبر رساں ایجینسی (کیو این اے) نے شیخ تمیم کے ان بیانات سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی سائٹ کو ہیک کرلیا گیا تھا، لیکن اس کی کوششں ناکام رہی۔ اس کے ردعمل میں سعودیہ اور عرب امارات نے قطر کے تمام میڈیا ذرایع کی ویب سائٹوں پر پابندی عاید کردی ہے۔ سعودی عرب نے الجزیرہ قطر نیوز ایجنسی، الوطن، الرایا، العرب، الشرق اور الجزیرہ میڈیا گروپ، الجزیرہ ڈاکومینٹری اور الجیرہ انگلش پر پابندی عائد کردی ہے۔ ان چینلز کی نشریات، اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کی ویب سائٹوں کو سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات میں بھی نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
ادھر مشرقی القدس پر قبضے کی پچاس سالہ یاد کے موقع پر اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے رابین اسکوائر میں ہزاروں اسرائیلی جمع ہوئے اور فلسطینی حکومت کے قیام کے ساتھ تعاون کا اظہار کیا۔ مظاہرے میں فلسطینیوں کے خلاف جاری پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ مظاہرے کا اہتمام بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں، کمیونسٹ پارٹی اور ''پیس ناؤ'' نامی سول سوسائٹی سمیت متعدد سول سوسائٹیوں نے کیا تھا۔
مظاہرین نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عدم مفاہمتوں کے خاتمے اور قیام امن کا مطالبہ کیا۔ مظاہرے کے دوران فلسطین کے صدر محمود عباس کی طرف سے مظاہرے کے لیے بھیجا گیا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ خطاب اور امن کے حق میں نعروں کے بعد کانسرٹ کے ساتھ مظاہرہ اختتام پذیر ہوا۔ ان حالات کی روشنی میں پاکستان نے ہمسایہ ملک ایران سے تعلقات پر مبنی اثرات سے بچنے کے لیے سعودی اتحاد میں قائم ہونے والے فوجی اتحاد میں شمولیت کے معاملے پر ''ریڈ لائنز'' کھینچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپریل میں جنرل (ر) راحیل شریف کی فوجی سربراہ کے عہدے پر نامزدگی کی توثیق کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستان اس فوجی اتحاد میں شامل ہوگیا ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اس معاملے پر نظرثانی کا فیصلہ ریاض میں ہونے والی حالیہ عرب اسلامک امریکا سربراہ کانفرنس میں سعودی حکام کے بیانات کے بعد کیا گیا تھا کہ اتحاد کا مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ایران کو کاؤنٹر کرنا بھی حکومت اصولی طور پر سعودی اتحاد کا حصہ بننے پر تیار ہے، اگر اس کا واحد مقصد دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف لڑنا ہوتا۔ حکام کے مطابق حتمی فیصلہ اس وقت ہوگا جب اتحاد کے ٹرمز ریفرنس تیار ہوجائیں۔ سینئر عہدیدار نے کہا کہ پاکستان اپنا موقف وزرائے دفاع کے اجلاس میں پیش کرے گا جس میں واضح مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ ہونا چاہیے۔ اس سے انحراف کیا گیا تو نہ صرف امہ تقسیم ہوجائے گی بلکہ فوجی اتحاد کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ادھر بھارتی بندرگاہوں سے چار سو کنٹینرز چابہار منتقل کیے گئے۔ ایران کی جہاز راں کمپنی نے چابہار بندرگاہ اور بھارت کے کانڈلا بندرگاہ کے درمیان نقل و حمل شروع کرنے کے لیے براہ راست روٹ قائم کیا ہے۔ ایران کی مشرقی چابہار بندرگاہ کے درمیان نقل و حمل کا براہ راست سلسلہ شروع ہونے سے دونوں ملکوں کے درمیان نقل و حمل کے لیے درکار وقت کا فاصلہ اب دو روز سے بھی کم ہوگیا ہے۔
ایران کی بحری جہاز راں کمپنی کے دو بحری جہازوں کے ذریعے بھارت کی کانڈلا اور مندرا بندرگاہوں سے مال لاد کر ایران کی چابہار بندرگاہ منتقل کیا جارہا ہے۔ ایران کے آرزو بحری جہاز نے پہلے مرحلے میں بھارت کی کانڈلا بندرگاہ سے تین سو کنٹینرز اور ایران کے یاران بحری جہاز سے پہلے مرحلے میں بھارتی مندرا بندرگاہ سے ایک سو ایک کنٹینرز چابہار منتقل کیے ہیں۔ ادھر چھ جون کو کابل میں امن کانفرنس منعقد ہورہی ہے، جس میں امریکا اور پاکستان سمیت سبھی فریقین شریک ہورہے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ افغانستان کی عوام دوست اور سامراج مخالف سوشلسٹ حکومت کو اقتدار سے امریکا نے بے دخل کیا اور اب امریکا اور اس کے ہی اتحادی امن کانفرنس کرنے جارہے ہیں؟ ہر چند کہ امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر امریکی اتحادیوں کا ایران، شام، کیوبا، شمالی کوریا اور یمن کے خلاف اسلامی سعودی امریکی اتحاد کا جارحانہ جنگی اتحاد بننے جارہا تھا، قطر اور پاکستان کا ایران مخالف جنگ میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعد یہ امریکی سامراجی مقاصد فی الحال ناکام یا ان کی سازشوں میں خلل پڑگیا ہے۔ مگر یہ دونوں اتحاد درحقیقت عوامی مفادات کی خاطر نہیں بلکہ سامراجی لوٹ مار کے لیے ہیں۔ جن میں ایک جانب امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب ہے تو دوسری طرف روس، چین اور ایران ہے۔
دنیا بھر کے تمام محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کو امریکی اور چینی سامراج کے خلاف متحد ہونا ہے اور اس عالمی سرمایہ داری کو نیست و نابود کرکے، ایک کمیونسٹ یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم کرکے ہی عوام کو ان تمام مصیبتوں اور ذلتوں سے چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے۔