چاند دیا اور جگنو
انسان اپنی ’’ترقی‘‘ جہاں جہاں لے گیا ہے قدرت کے رنگ کھا گیا
یہ سہ حرفی پڑھ کر گاؤں دیہات کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ کیونکہ شہروں کی اونچی اونچی عمارتوں کے جنگل میں یہ تینوں کہیں گم ہو چکے ہیں۔ دل کو سکون و راحت پہنچانے والے چاند، دیا اور جگنو کی جگہ شہروں میں کچھ ''اور'' نے لے لی ہے، مگر آج بھی گاؤں، گوٹھوں میں زمین پر بنے کچے گھروندوں میں گھاس پھوس کے جھونپڑوں میں حد نگاہ تک پھیلے لہلہاتے کھیتوں، کھلیانوں میں، گھنے درختوں کے جھنڈوں میں، شام ڈھلتے ہی چاند، دیا اور جگنو اپنا رنگ جمائے دور دور تک نظر آتے ہیں۔
انسان اپنی ''ترقی'' جہاں جہاں لے گیا ہے قدرت کے رنگ کھا گیا، روپ نگل گیا۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانی ترقیاں گئیں وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ تو اپنا پیارا وطن پاکستان ہے جہاں ہمارے ''مہربان'' سب کچھ ہڑپ کرگئے۔ دیکھیے آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں! نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ ''چاند، دیا اور جگنو'' نامی شعری مجموعے کے شاعر طارق چغتائی نے بھی اسی دکھ کو اپنے اشعار میں ڈھالا ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔ یہ اشعار پڑھیے (چھوٹی بحر میں مکمل بات کہنا بڑا فن ہے)
بوئیں لعل و جواہر
کاٹیں آنسو، آہیں
میرے شہر کے داتا
بانٹیں آنسو، آہیں
ساری عمر ملے ہیں
سوچیں، آنسو، آہیں
سونے جیسی دھرتی
اگلے، دکھ اور درد
میں نے ہنس کر جھیلے
صدمے، دکھ اور درد
''چاند، دیا اور جگنو'' طارق چغتائی کی تجرباتی کتاب ہے، اس شعری مجموعے میں شاعر نے خود کو سہ حرفی ردیفوں میں جکڑ کر غزلیں لکھی ہیں۔ یہ کڑا امتحان تھا جس میں شاعر خاصا کامیاب نظر آتا ہے۔ میں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ آخر شاعر نے خود کو اس کڑے امتحان میں کیوں ڈالا؟ تو اس سوال کے جواب میں مجھے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ طارق چغتائی نے ساری عمر اپنے اردگرد موجود شاعروں کو پڑھا ہے، سنا ہے۔ ان شاعروں میں وہ بھی شامل ہیں جو اپنی عمر کا طویل عرصہ گزار چکے اور آج بھی شعر کہہ رہے ہیں۔ شاعروں کو سننے سنانے کا اہتمام انھوں نے کر رکھا ہے۔
''بزم چغتائی'' کے نام سے ادبی تنظیم لاہور میں ماہانہ نشست کا انعقاد کرتی ہے جہاں لاہور اور قرب و جوار کے شہروں سے بھی شاعر شریک ہوتے ہیں اور بزم آرائی کا یہ سلسلہ دس سال سے جاری ہے۔ بزم چغتائی ہی کا نتیجہ ہے کہ اپنے ہم عصر شعرا کے درمیان طارق چغتائی نے ایک تجربہ کر ڈالا۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ بڑا مشکل کام تھا مگر طارق چغتائی ''مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں'' کے مصداق یہ کام کر گئے۔ طارق چغتائی خود اپنے بارے میں کہتے ہیں ''صبر ایوب کبھی میں نے کیا، گریۂ یعقوب کبھی'' پھر کہیں جاکر ''چاند، دیا اور جگنو'' شعری مجموعہ سامنے آیا۔ مگر مجھے اس اچھی شاعری والی کتاب کے آنے پر کچھ زیادہ تعجب نہیں ہے، میں جانتا ہوں، طارق چغتائی، کام کام اور کام والے آدمی ہیں، اپنا درمیانے درجے کا کاروبار بھی دیکھتے ہیں، ایک گھر کے سربراہ کا فرض بھی ادا کر رہے ہیں اور شاعروں کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔
کوئی اپنا کہ کوئی غیر ہو، ازراہ محبت سب کے
کام آیا ہوں سدا، پھر بھی ملے دشت، مسافت، چھالے
میں نے اکثر دیکھا طارق چغتائی اپنے دوست شعرا کی کتابیں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ان کے اشعار سنا رہے ہیں، ان کے بارے میں مضامین لکھوا رہے ہیں، محفلیں سجا رہے ہیں۔ ان کے لیے تڑپ رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ جائیں۔ شاعر تو ایسے نہیں ہوتے مگر طارق چغتائی ایک درویش صفت انسان ہیں
شعر دیکھئے:
اللہ ہو کی بزم سجائے میرے آنگن میں
لے آتا ہے ہر جانب سے باہو پیر فقیر
کوئی سنے اس دور کے بلھے شاہ کی چیخ و پکار
کون کہاں سے ڈھونڈ کے لائے گھنگھرو اور پازیب
عشق نے لاکھ پکارا لاکھ صدائیں دیں لیکن
پیروں میں ہم باندھ نہ پائے گھنگھرو اور پازیب
میرا ہے بس ایک حوالہ میری اک پہچان
ایک ہی جانب دوڑ رہے ہیں دکھ جیون اور میں
زمانے کے لیے مر مٹنے والا شاعر اپنے دوستوں کو یہ مشورہ بھی دے رہا ہے:
تجھے کام مجھ سے جو پڑ گیا' کبھی میں سمیٹا نہ جاؤں گا
میری جان یوں نہ گنوا مجھے' کبھی اس طرف کبھی اس طرف
یہ دنیا اللہ نے بنائی محبت کے لیے اپنا محبوب بنایا اور پھر سارے عالم سے کہا میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں، تم سب بھی میرے محبوب سے محبت کرو۔ طارق چغتائی کا بھی یہی ایمان ہے۔ وہ کہتا ہے:
محبت بس محبت ہے، زمانہ کل بھی کہتا تھا
زمانہ اب بھی کہتا ہے، محبت بس محبت ہے
آخر میں ایک غزل سے چند شعر۔ شاعر کا کردار اس غزل میں خوب ابھر کر سامنے آتا ہے:
جب سے عشق کی جوت جگائی، رات، غزل، تنہائی
میرے حصے میں ہے آئی، رات، غزل، تنہائی
برسوں ایک چراغ کی صورت جلتے بجھتے میں نے
عمر گزاری اور کمائی، رات، غزل، تنہائی
اپنے گھر میں لے آتا ہوں، شوق سے میں تو اکثر
شہر سخن میں جب گھبرائی، رات، غزل، تنہائی
ورنہ میں تو مر ہی جاتا، حبس کے اس موسم میں
جیون کے سندیسے لائی، رات' غزل، تنہائی
میں سوچتا ہوں جب طارق چغتائی نے خود کو پابند کر کے کڑے امتحان میں ڈال کے اتنی معیاری شاعری کی ہے تو کسی پابندی و کڑے امتحان کے بغیر وہ کیا شاعری کرے گا! یقینا میں بھی دوسروں کے ساتھ طارق چغتائی کے آیندہ شعری مجموعے کا شدت سے انتظار کروں گا اور اس کے لیے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اسے پہلے شعری مجموعے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ طارق چغتائی کے اس فکر انگیز شعر کے ساتھ اجازت:
ایک مدت سے جانے کس لیے
ہیں پریشان راستہ منزل
انسان اپنی ''ترقی'' جہاں جہاں لے گیا ہے قدرت کے رنگ کھا گیا، روپ نگل گیا۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانی ترقیاں گئیں وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ تو اپنا پیارا وطن پاکستان ہے جہاں ہمارے ''مہربان'' سب کچھ ہڑپ کرگئے۔ دیکھیے آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں! نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، کیونکہ ''چاند، دیا اور جگنو'' نامی شعری مجموعے کے شاعر طارق چغتائی نے بھی اسی دکھ کو اپنے اشعار میں ڈھالا ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔ یہ اشعار پڑھیے (چھوٹی بحر میں مکمل بات کہنا بڑا فن ہے)
بوئیں لعل و جواہر
کاٹیں آنسو، آہیں
میرے شہر کے داتا
بانٹیں آنسو، آہیں
ساری عمر ملے ہیں
سوچیں، آنسو، آہیں
سونے جیسی دھرتی
اگلے، دکھ اور درد
میں نے ہنس کر جھیلے
صدمے، دکھ اور درد
''چاند، دیا اور جگنو'' طارق چغتائی کی تجرباتی کتاب ہے، اس شعری مجموعے میں شاعر نے خود کو سہ حرفی ردیفوں میں جکڑ کر غزلیں لکھی ہیں۔ یہ کڑا امتحان تھا جس میں شاعر خاصا کامیاب نظر آتا ہے۔ میں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ آخر شاعر نے خود کو اس کڑے امتحان میں کیوں ڈالا؟ تو اس سوال کے جواب میں مجھے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ طارق چغتائی نے ساری عمر اپنے اردگرد موجود شاعروں کو پڑھا ہے، سنا ہے۔ ان شاعروں میں وہ بھی شامل ہیں جو اپنی عمر کا طویل عرصہ گزار چکے اور آج بھی شعر کہہ رہے ہیں۔ شاعروں کو سننے سنانے کا اہتمام انھوں نے کر رکھا ہے۔
''بزم چغتائی'' کے نام سے ادبی تنظیم لاہور میں ماہانہ نشست کا انعقاد کرتی ہے جہاں لاہور اور قرب و جوار کے شہروں سے بھی شاعر شریک ہوتے ہیں اور بزم آرائی کا یہ سلسلہ دس سال سے جاری ہے۔ بزم چغتائی ہی کا نتیجہ ہے کہ اپنے ہم عصر شعرا کے درمیان طارق چغتائی نے ایک تجربہ کر ڈالا۔ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ بڑا مشکل کام تھا مگر طارق چغتائی ''مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں'' کے مصداق یہ کام کر گئے۔ طارق چغتائی خود اپنے بارے میں کہتے ہیں ''صبر ایوب کبھی میں نے کیا، گریۂ یعقوب کبھی'' پھر کہیں جاکر ''چاند، دیا اور جگنو'' شعری مجموعہ سامنے آیا۔ مگر مجھے اس اچھی شاعری والی کتاب کے آنے پر کچھ زیادہ تعجب نہیں ہے، میں جانتا ہوں، طارق چغتائی، کام کام اور کام والے آدمی ہیں، اپنا درمیانے درجے کا کاروبار بھی دیکھتے ہیں، ایک گھر کے سربراہ کا فرض بھی ادا کر رہے ہیں اور شاعروں کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔
کوئی اپنا کہ کوئی غیر ہو، ازراہ محبت سب کے
کام آیا ہوں سدا، پھر بھی ملے دشت، مسافت، چھالے
میں نے اکثر دیکھا طارق چغتائی اپنے دوست شعرا کی کتابیں اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ان کے اشعار سنا رہے ہیں، ان کے بارے میں مضامین لکھوا رہے ہیں، محفلیں سجا رہے ہیں۔ ان کے لیے تڑپ رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ جائیں۔ شاعر تو ایسے نہیں ہوتے مگر طارق چغتائی ایک درویش صفت انسان ہیں
شعر دیکھئے:
اللہ ہو کی بزم سجائے میرے آنگن میں
لے آتا ہے ہر جانب سے باہو پیر فقیر
کوئی سنے اس دور کے بلھے شاہ کی چیخ و پکار
کون کہاں سے ڈھونڈ کے لائے گھنگھرو اور پازیب
عشق نے لاکھ پکارا لاکھ صدائیں دیں لیکن
پیروں میں ہم باندھ نہ پائے گھنگھرو اور پازیب
میرا ہے بس ایک حوالہ میری اک پہچان
ایک ہی جانب دوڑ رہے ہیں دکھ جیون اور میں
زمانے کے لیے مر مٹنے والا شاعر اپنے دوستوں کو یہ مشورہ بھی دے رہا ہے:
تجھے کام مجھ سے جو پڑ گیا' کبھی میں سمیٹا نہ جاؤں گا
میری جان یوں نہ گنوا مجھے' کبھی اس طرف کبھی اس طرف
یہ دنیا اللہ نے بنائی محبت کے لیے اپنا محبوب بنایا اور پھر سارے عالم سے کہا میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں، تم سب بھی میرے محبوب سے محبت کرو۔ طارق چغتائی کا بھی یہی ایمان ہے۔ وہ کہتا ہے:
محبت بس محبت ہے، زمانہ کل بھی کہتا تھا
زمانہ اب بھی کہتا ہے، محبت بس محبت ہے
آخر میں ایک غزل سے چند شعر۔ شاعر کا کردار اس غزل میں خوب ابھر کر سامنے آتا ہے:
جب سے عشق کی جوت جگائی، رات، غزل، تنہائی
میرے حصے میں ہے آئی، رات، غزل، تنہائی
برسوں ایک چراغ کی صورت جلتے بجھتے میں نے
عمر گزاری اور کمائی، رات، غزل، تنہائی
اپنے گھر میں لے آتا ہوں، شوق سے میں تو اکثر
شہر سخن میں جب گھبرائی، رات، غزل، تنہائی
ورنہ میں تو مر ہی جاتا، حبس کے اس موسم میں
جیون کے سندیسے لائی، رات' غزل، تنہائی
میں سوچتا ہوں جب طارق چغتائی نے خود کو پابند کر کے کڑے امتحان میں ڈال کے اتنی معیاری شاعری کی ہے تو کسی پابندی و کڑے امتحان کے بغیر وہ کیا شاعری کرے گا! یقینا میں بھی دوسروں کے ساتھ طارق چغتائی کے آیندہ شعری مجموعے کا شدت سے انتظار کروں گا اور اس کے لیے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اسے پہلے شعری مجموعے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ طارق چغتائی کے اس فکر انگیز شعر کے ساتھ اجازت:
ایک مدت سے جانے کس لیے
ہیں پریشان راستہ منزل