ماں زمین پر جنت

مگر ماں پھر بھی ان سے منہ نہیں موڑتی اور ہمیشہ دعا ہی مانگتی ہے

خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے، وہ خالق ہے اور پھر اس نے ماں کو اہمیت دیتے ہوئے اسے اولاد کو جنم دینے کا اعزاز بخشا ہے۔ دنیا میں کتنے بڑے پیغمبر، ولی اللہ، سائنسدان، مفکر، مدبر وغیرہ پیدا ہوئے ہیں وہ ماں کی بدولت ہیں۔ ماں گھر کا کام کاج بھی کرتی ہے اور بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔

تصور کریں اللہ نے ماں کو کتنا عظیم بنایا ہے کہ وہ خود بھوکا رہ کر بھی جو کچھ بھی ہوتا ہے اپنے بچوں کو کھلا دیتی ہے۔ پیدا ہونے کے بعد ساری ساری رات بچے کے ساتھ جاگتی ہے۔ ماں کوئی بھی شکایت نہیں کرتی اور نہ غصہ کرتی ہے۔ صبح چپ چاپ گھر کا کام بھی کرتی ہے اور بچے کو بھی دیکھتی رہتی ہے۔ جو عورتیں گھروں میں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں اور چھوٹے بچوں کو گھر پر جب چھوڑ آتی ہیں تو ان کا سارا دھیان بچوں کی طرف ہوتا ہے۔

میں نے کئی تصویریں دیکھی ہیں جن میں ماں اپنے چھوٹے بچوں کو کپڑے کے بنائے ہوئے جھولے میں ڈال کر اینٹیں اٹھا رہی ہیں، کھیتوں میں کام کر رہی ہیں اور اگر تھوڑی دیر کے لیے ماں کام چھوڑ کر بچے کو دودھ پلاتی ہے تو ہم اسے کام سے نکالنے یا پھر مزدوری کاٹنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

غریب مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، جس کے لیے قرآن پاک میں بھی حکم ہے کہ ہر ماں اپنے بچے کو دو سال تک دودھ پلائے۔ ماں کے دودھ میں اللہ نے بڑی طاقت اور حکمت رکھی ہے جس کی وجہ سے بچہ کئی بیماریوں سے بچ جاتا ہے اور پھر دو سال تک ماں کے سینے سے چمٹے رہنے سے بچے اور ماں کی محبت میں سچائی اور پختگی آتی ہے۔

بڑے گھرانوں کی عورتیں تو ڈبے کا دودھ پلا کر اپنے بچے کی محبت سے دور ہوجاتی ہیں۔ انھیں یہ پتہ نہیں کہ بچے کو دودھ پلانے سے بچہ زیادہ صحت مند ہوتا ہے۔ اس سے دوسری بات یہ دیکھیں کہ کئی مائیں اپنے بچوں کو ڈے کیئر میں چھوڑ آتی ہیں، جس سے بھی محبت میں کمی آتی ہے اور پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے، اسے ہر سہولت ہوتی ہے مگر وہ ماں باپ کی محبت اور پیار سے دور رہ کر محرومیوں کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر کئی غلط کاریوں میں پھنس جاتا ہے۔ اس طرح کے ماں اور باپ کے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو یا تو انھیں شیلٹر ہاؤس یا پھر ایدھی ہوم میں ڈال دیتے ہیں۔

غریب کے بچے اپنے ماں باپ کو کندھے پر اٹھائے بیماری کی صورت میں بھی اسپتالوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، مگر ایسا نہیں کرتے۔ باپ باہر جاکر بچوں کے لیے رزق کماتا ہے، ماں گھر میں بیٹھ کر بچے پالتی ہے۔ ماں بچے کی پہلی ٹیچر ہے، جو اسے بولنا، چلنا اور عقل سکھاتی ہے، بچہ جب توتلا بولتا ہے تو وہ کتنی خوش ہوتی ہے اور پھر اسے انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے، اپنی گود میں لے کر جھولا جھلاتی ہے، رات کو سلاتے لوریاں دیتی ہے، کہانیاں سناتی ہے اور پھر صبح شام اور رات اسے اپنے ہاتھ سے اچھے اچھے کھانے کھلاتی ہے۔ میں نے کئی گھروں میں بچپن میں ایسا دیکھا کہ گھر میں کھانے کو کم ہے مگر ماں بھوکی سو جاتی تھی اور سب کچھ بچوں کو کھلا دیتی تھی۔


ماں کی عظمت کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ ایک دن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے جبل طور پر گئے تو اللہ نے فرمایا کہ موسیٰ! آپ اب خیال سے آئیں کیونکہ اب آپ کے لیے دعا کرنے والی ماں دنیا میں نہیں رہی۔ انسان تو انسان آپ جانوروں اور پرندوں کو دیکھیں، اگر آپ ان کے بچوں کے قریب سے بھی گزریں گے تو وہ کمزور ہونے کے باوجود بھی آپ سے لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

ماں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے بیٹے کی شادی کے بعد بہو آنے سے اس کی محبت اپنی بیوی کی طرف چلی جائے گی مگر ماں اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتی ہے، اس کی شادی پر ناچتی ہے، اپنے پوتے پوتیوں کو پالتی ہے اور مرنے کے بعد بھی ماں کی قبر سے بچوں کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ جب کبھی پریشانی ہو تو ماں کی قبر پر جاکر دعا مانگیں، کیونکہ رب ماں کی دعا کو ہمیشہ قبول کرتا ہے۔

بیٹے ہوں یا بیٹیاں، چاہے وہ کتنے برے ہوں، مجرم ہوں، مگر ماں پھر بھی ان سے منہ نہیں موڑتی اور ہمیشہ دعا ہی مانگتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ماں کی بددعا نہیں لگتی، جب کہ باپ کی لگ جاتی ہے۔ ہاں اگر ماں کی توہین کی جائے تو پھر رب اولاد کو سزا ضرور دیتا ہے۔ ہم نے کئی بیٹوں کو ماں کے ساتھ برا سلوک کرتے دیکھا اور پھر قدرت کی طرف سے انھیں سزا بھگتتے بھی دیکھا۔ ایک بیٹے نے اپنی ماں کو گالیاں دے کر، مار کر اپنے گھر سے نکال دیا اور ماں کے مرنے کے بعد اس شخص کا برا وقت شروع ہوگیا۔ اس شخص کی زبان بند ہوگئی اور مرتے ہوئے اس کی سانس جسم سے نہیں نکل رہا تھا، جب لوگ اس کی ماں کی قبر پر گئے اور اس کی مشکل دور ہونے کی دعا مانگی، تب جاکر موت ہوگئی۔

سندھ کے گاؤں میں اکثر لوگ چاہے وہ کتنے امیر کیوں نہ ہوں جب بھی گھر سے باہر جاتے یا گھر میں آتے ہیں تو سب سے پہلے ماں کے قدموں میں بیٹھ کر اس سے دعا کے لیے کہتے اور ماں بیٹے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر دعا کرتی کہ بیٹا! جا تیرا اللہ نگہبان ہو اور تو خیر سے آئے اور خیر سے جائے۔ اس وقت بھی گھر کے فیصلے ماں کرتی تھی اور بچے کتنے بھی بڑے ہوجاتے ماں کی ڈانٹ ڈپٹ سنتے تھے۔ میں نے تو کئی بڑے اولاد والوں کو ماں کے جوتے کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ماں اولاد کے لیے تپتی دھوپ میں چھاؤں ہے اور صحرا میں پیاسے مسافر کے لیے نخلستان کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسے صدقہ انسان کو مصیبتوں سے بچاتا ہے اسی طرح ماں کی دعا بھی اولاد کو پریشانیوں سے بچاتی ہے۔ ماں کے لفظ میں کتنی اپنائیت اور سکون ہے، اس کا نام لیتے ہی سارے غم اور دکھ انسان بھول جاتا ہے۔

سندھی میں ہم ماں کے لیے جیجل کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس لفظ میں لاکھوں پیار کے خزانے سمائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ وہ انسانوں سے ماں کے پیار سے 70 گنا زیادہ پیار کرتا ہے، اس نے ماں کی مثال ہی کیوں دی ہے، اس لیے ماں دنیا اور آخرت میں ہمارے لیے بخشش کروانے میں بڑی سفارش ہے۔ ماں کے جانے کے بعد دنیا می بچوں کے لیے دعا کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ جب سے ماں کا دن مئی مہینے میں بین الاقوامی طور پر منائے جانے سے معاشرے میں کچھ احساس پیدا ہو رہا ہے اور لوگ کچھ دکھاوے کے لیے اور کچھ ندامت محسوس کرنے کے بعد اپنی تصویریں ماں کی تصویر کے ساتھ فیس بک پر رکھوا رہے ہیں، جو شاید آگے چل کر حقیقت کا رنگ پکڑ لے۔

ماں اولاد کے سامنے آنے والے خطرات کو ڈھال بن کر روکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے جن لوگوں نے ماں کی خدمت نہیں کی، فوراً ماں کے پاؤں دھوئیں، اس کے لیے اپنا ایک خدمت کا وقت مقرر کریں، اس دنیا میں کامیابی بیوی کی وجہ سے نہیں ماں کی دعا کی وجہ سے ہے، اس لیے کے ہر بڑے آدمی نے یہ کہا ہے کہ وہ ماں کی دعا سے ہی بڑا مقام حاصل کرسکا ہے۔
Load Next Story