برطانوی سیاستداں سعیدہ وارثی مسلمانوں کی حمایت میں بول پڑیں
برطانوی مسلمان ’اندر کے دشمن‘ نہیں بلکہ اس ملک کا حصہ ہیں، سعیدہ وارثی
برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی سابق سربراہ اور برطانوی کابینہ کی اوّلین مسلم خاتون وزیر سعیدہ وارثی نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ برطانوی مسلمان اندر کے دشمن نہیں بلکہ اس ملک کا حصہ ہیں۔
لندن دہشت گردی سے کچھ دیر پہلے بی بی سی کو دیئے گئے اس انٹرویو میں سعیدہ وارثی کا کہنا تھا کہ کسی شخص کے بنیاد پرست بننے کی مختلف وجوہ میں سے ایک ممکنہ وجہ خارجہ پالیسی کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ جب ''میرے دادا اور نانا نے اس ملک کےلیے پسینہ بہایا ہے، اور انہوں نے خود اعلیٰ سطح پر کابینہ میں خدمات دی ہیں، تو میں پوچھتی ہوں کہ کب تک مسلمانوں کو وفاداری کے امتحان دینا پڑیں گے؟''
انٹرویو کے دوران سعیدہ وارثی نے بتایا کہ انہیں غزہ اور فلسطین کے حوالے سے کنزرویٹیو پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جس کی بناء پر وہ اس وقت کی کابینہ سے مستعفی ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ برطانوی وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی وزیر تھیں تو انہیں واضح طور پر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اس معاملے پر حکومت کے قول وفعل میں تضاد ہے۔
انہیں برطانوی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے شکایت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کو درست طور پر قومی معاملات میں شریک نہیں کررہے ہیں۔ ان کے بقول، ''اگر ہم مسلمانوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور انہیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک کا حصہ ہیں تو حکومت کو صحیح طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ رابطہ کرنا پڑے گا؛ اور تیس لاکھ برطانوی مسلمانوں کی شراکت کےلیے بیس سے پچیس افراد کو شریک کرلینا کوئی شراکت داری (انگیجمنٹ) نہیں ہوتی۔''
لندن دہشت گردی سے کچھ دیر پہلے بی بی سی کو دیئے گئے اس انٹرویو میں سعیدہ وارثی کا کہنا تھا کہ کسی شخص کے بنیاد پرست بننے کی مختلف وجوہ میں سے ایک ممکنہ وجہ خارجہ پالیسی کے خلاف ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے شکوہ کیا کہ جب ''میرے دادا اور نانا نے اس ملک کےلیے پسینہ بہایا ہے، اور انہوں نے خود اعلیٰ سطح پر کابینہ میں خدمات دی ہیں، تو میں پوچھتی ہوں کہ کب تک مسلمانوں کو وفاداری کے امتحان دینا پڑیں گے؟''
انٹرویو کے دوران سعیدہ وارثی نے بتایا کہ انہیں غزہ اور فلسطین کے حوالے سے کنزرویٹیو پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جس کی بناء پر وہ اس وقت کی کابینہ سے مستعفی ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ برطانوی وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی وزیر تھیں تو انہیں واضح طور پر یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اس معاملے پر حکومت کے قول وفعل میں تضاد ہے۔
انہیں برطانوی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے شکایت ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کو درست طور پر قومی معاملات میں شریک نہیں کررہے ہیں۔ ان کے بقول، ''اگر ہم مسلمانوں کو سمجھنا چاہتے ہیں اور انہیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک کا حصہ ہیں تو حکومت کو صحیح طریقے سے مسلمانوں کے ساتھ رابطہ کرنا پڑے گا؛ اور تیس لاکھ برطانوی مسلمانوں کی شراکت کےلیے بیس سے پچیس افراد کو شریک کرلینا کوئی شراکت داری (انگیجمنٹ) نہیں ہوتی۔''