پھر ہوجائے اِس عید پر بڑے برانڈز کا بائیکاٹ
اگر مسئلہ مہنگائی ہی ہے تو کیا ہم عید پر برانڈڈ کپڑوں کا بائیکاٹ کررہے ہیں جنکی قیمتیں پہلے سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہیں
گزشتہ دنوں ملک میں ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو ملی، کسی صاحب نے مغرب کو مثال بناتے ہوئے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کی ٹھانی تو مہنگائی و دیگر ظلم و زیادتیوں کا شکار قوم نے بے اختیار اِس پکار پر لبیک کہا۔ اِس سوچ کو سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی۔ نیوز چینلز ہوں یا فیس بک، ٹویٹر، واٹس اپ گروپ ہوں یا دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس غرضیکہ ہر جگہ اِسی بات کی دھوم تھی کہ ملک بھر کے عوام پھلوں کی خریداری کا تین دن کے لئے بائیکاٹ کریں۔ اِس سے وہ پھل فروش جو مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں، اُن کا پھل تین دن میں گل سڑ جائے گا جس پر انہیں مجبوراً پھل کم داموں پر فروخت کرنا پڑجائیں گے جس سے ملک میں پہلی مرتبہ عوامی انقلاب آجائے گا اور عوام کی جیت ہوگی۔
آج تک سیاسی قائدین کے ذاتی مفاد کے لئے اُن کے اشاروں پر ناچتے ہوئے سڑکوں پر ریلیاں نکالتی، جلاؤ گھیراؤ اور اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ دست و گریباں ہوتی قوم پہلی بار اپنے کسی جائز حق کے لئے اُٹھی جو کہ واقعی ایک خوش آئند بات تھی لیکن اِس سب کے باوجود میرے کان گزشتہ ہفتے ایک بات سننے کے لئے ترستے رہے کہ آیا فروٹس کی اِس تین روزہ بھوک ہڑتال میں غریب دیہاڑی دار پھل فروشوں کے ساتھ کہیں زیادتی تو نہیں ہونے جا رہی؟
میں نے اِس حوالے سے بہت سے سوشل ایکٹوسٹس کے انٹرویوز سنے جن سے یہ سوال بھی پوچھا گیا لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب سننے کو نہیں ملا۔ کسی نے کہا کہ پھل فروش ویسے بھی تو ناپ تول میں ہیر پھیر کرتے ہیں تو ایسا کرنا کوئی زیادتی نہیں ہوگی تو کسی نے کہا کہ پھل فروش ہی قیمتیں بڑھانے کے ذمہ دار ہیں لہٰذا اِن کے خلاف اُٹھنا ہی ہوگا، الغرض اِس سے بڑھ کر کوئی جواب نہیں دے سکا۔
میں اِس شخص کو تلاش کر رہا تھا جس نے یہ آواز بلند کی کیونکہ اُس سے بہتر اِس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا تھا لیکن یہ سراغ بھی نہ لگ سکا، اگر وہ ملتا تو ضرور پوچھتا کہ بھائی حکمرانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ موجودہ حکمران خاندان پیشیاں بھگت رہا ہے، اِس کے علاوہ صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، ملک کے 30 فیصد بچے ایک دن بھی اسکول جانے سے محروم ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 7 فیصد ہے اور عوام خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ بے شمار مسائل ہیں جن کا چار سال میں کوئی سدِباب نہیں کیا جاسکا لیکن اِن سب بنیادی مسائل کو چھوڑ کر ہم پھلوں کے نرخ کم کروانے کے لئے ہی کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے؟
اگر اِس عمل کو بارش کا پہلا قطرہ مان بھی لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اِس سے کسی غریب اور مجبور کا حق نہ سلب ہو رہا ہو۔ چلیں اِس کو سمجھنے کے لئے اِس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کسی باغ میں کسی پھل کی پہلی فصل تیار ہوتی ہے تو اُسے مالک یا بروکر اُٹھا کر بڑی منڈی میں لیکر آتا ہے جہاں اُس کی بولی لگائی جاتی ہے۔ آڑھت پر بیٹھے افراد بولی لگاتے ہیں اور اِس طرح وہ مال منڈیوں میں آجاتا ہے، جہاں سے غریب چھابڑی والے اپنی حیثیت کے مطابق خرید کر لے آتے ہیں جو انہوں نے فروخت کرکے ہی رات کو گھر جانا ہوتا ہے اور اگلے روز علیٰ الصبح پھر یہی مشق دہرانی ہوتی ہے کہ پہلے منڈی جا کر مال خریدتے ہیں، بعد میں پھیری کرتے ہیں۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر اِن ریٹس کو طے کرنے کا اختیار کیا غریب چھابڑی والوں کے پاس ہے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اختیار تو اِن بروکروں یا مالکان کے ہاتھ میں ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ پرائس کنٹرول ٹیمیں بھی موجود ہوتی ہیں جن کی ملی بھگت کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ریڑھی والا تو اتنے کا ہی لے کر جائے گا جتنے کا اُسے منڈی سے ملے گا۔ اب اگر عوام تین دن پھل نہیں خریدتے تو جو مال منڈیوں میں لاکر اُسے من مانی بولی پر فروخت کرسکتے ہیں وہ اُسے تین دن تک اسٹور روم یا کولڈ سٹوریج میں بھی نہیں رکھوا سکتے؟ اور اگر وہ آج کوئی پھل 100 روپے فی کلو فروخت کر رہے ہیں تو تین دن بعد 150 روپے فروخت کرنے پر ہمارا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ بس یہی کہ پھر ہم اِسے اُسی قیمت میں خریدیں گے جس میں وہ ہمیں بیچیں گے۔
ہاں یہ ضرور ہوگا کہ تین روز تک اُس دیہاڑی باز کے گھر چولہا نہیں جلے گا۔ آپ خود بتائیں کہ آج تک کتنے ریڑھی والوں کو قیمت میں اضافہ کرکے گاڑی لیتے دیکھا ہے؟ وہ بیچارا تو ایک موٹر سائیکل لینے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ ہاں اگر 10،20 روپے بڑھائے گا تو شاید عید پر اپنے بچوں کو کپڑوں کا ایک ایک جوڑا ضرور دلاسکے اور شاید یہی ہماری مشق کا مقصد تھا کہ اِس غریب کے بچوں کو کہیں عید پر نیا جوڑا نہ مل جائے۔
بھائی جس مغرب کی مثال دی جارہی ہے وہاں کا پھل فروش نہ تو یہاں جیسا غریب ہے اور نہ ہی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم۔ دوسری طرف سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور فاروقِ اعظم ؓ کے دورِِ خلافت کی مثالیں دی جارہی ہیں کہ تب گوشت، کشمش کا بائیکاٹ کیا گیا تھا تو پھر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تب پوری سلطنت میں کوئی مانگنے والا بھی نہیں تھا۔ تب حقدار کو حق سے محروم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی بڑے مافیا مل کر نچلے طبقے کے استحصال کی راہ ہموار کرتے تھے۔
اگر مسئلہ مہنگائی ہی ہے تو کیا ہم اِس عید پر برانڈڈ کپڑے لینے کا بائیکاٹ کر رہے ہیں؟ جن کی قیمتیں پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوچکی ہیں یا پھر ہمارا سارا غصہ صرف غریب ریڑھی بان اور خوانچہ فروش پر ہی نکلتا ہے؟ کیونکہ بحیثیت مجموعی ہمارا کردار ایسا ہی ہے کہ جب کسی سائیکل والے سے ٹکڑ ہوجائے تو اُس کا گریبان پکڑ لو اور جب کسی بڑی گاڑی سے ٹکڑا جاؤ تو اُس کے پاؤں پکڑلو۔ یہ درست ہے کہ اِس مہم سے سوشل میڈیا کا ایک درست استعمال دیکھنے میں آیا مگر یہ بھی سوچیں کہ کہیں ہم بھی کسی دوسرے کے ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ تو نہیں بن رہے؟
اگر نہیں تو چلیں عہد کریں کہ آئندہ 300 روپے والی چائے، کافی کے لئے مہنگے ریستوارانوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں روپے خرچ نہیں کریں گے، سوشل میڈیا پر ''اونچی دکانوں'' کے چیک ان نہیں دیں گے اور اِس عید پر کسی برانڈ کے کپڑے نہیں پہنیں گے، ہمت ہے تو آئیں، اب کریں بائیکاٹ۔
اِس عید پر پھر ہوجائے برانڈز کا بائیکاٹ؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج تک سیاسی قائدین کے ذاتی مفاد کے لئے اُن کے اشاروں پر ناچتے ہوئے سڑکوں پر ریلیاں نکالتی، جلاؤ گھیراؤ اور اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ دست و گریباں ہوتی قوم پہلی بار اپنے کسی جائز حق کے لئے اُٹھی جو کہ واقعی ایک خوش آئند بات تھی لیکن اِس سب کے باوجود میرے کان گزشتہ ہفتے ایک بات سننے کے لئے ترستے رہے کہ آیا فروٹس کی اِس تین روزہ بھوک ہڑتال میں غریب دیہاڑی دار پھل فروشوں کے ساتھ کہیں زیادتی تو نہیں ہونے جا رہی؟
میں نے اِس حوالے سے بہت سے سوشل ایکٹوسٹس کے انٹرویوز سنے جن سے یہ سوال بھی پوچھا گیا لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب سننے کو نہیں ملا۔ کسی نے کہا کہ پھل فروش ویسے بھی تو ناپ تول میں ہیر پھیر کرتے ہیں تو ایسا کرنا کوئی زیادتی نہیں ہوگی تو کسی نے کہا کہ پھل فروش ہی قیمتیں بڑھانے کے ذمہ دار ہیں لہٰذا اِن کے خلاف اُٹھنا ہی ہوگا، الغرض اِس سے بڑھ کر کوئی جواب نہیں دے سکا۔
میں اِس شخص کو تلاش کر رہا تھا جس نے یہ آواز بلند کی کیونکہ اُس سے بہتر اِس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا تھا لیکن یہ سراغ بھی نہ لگ سکا، اگر وہ ملتا تو ضرور پوچھتا کہ بھائی حکمرانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ موجودہ حکمران خاندان پیشیاں بھگت رہا ہے، اِس کے علاوہ صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، ملک کے 30 فیصد بچے ایک دن بھی اسکول جانے سے محروم ہیں۔ بیروزگاری کی شرح 7 فیصد ہے اور عوام خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ بے شمار مسائل ہیں جن کا چار سال میں کوئی سدِباب نہیں کیا جاسکا لیکن اِن سب بنیادی مسائل کو چھوڑ کر ہم پھلوں کے نرخ کم کروانے کے لئے ہی کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے؟
اگر اِس عمل کو بارش کا پہلا قطرہ مان بھی لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اِس سے کسی غریب اور مجبور کا حق نہ سلب ہو رہا ہو۔ چلیں اِس کو سمجھنے کے لئے اِس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کسی باغ میں کسی پھل کی پہلی فصل تیار ہوتی ہے تو اُسے مالک یا بروکر اُٹھا کر بڑی منڈی میں لیکر آتا ہے جہاں اُس کی بولی لگائی جاتی ہے۔ آڑھت پر بیٹھے افراد بولی لگاتے ہیں اور اِس طرح وہ مال منڈیوں میں آجاتا ہے، جہاں سے غریب چھابڑی والے اپنی حیثیت کے مطابق خرید کر لے آتے ہیں جو انہوں نے فروخت کرکے ہی رات کو گھر جانا ہوتا ہے اور اگلے روز علیٰ الصبح پھر یہی مشق دہرانی ہوتی ہے کہ پہلے منڈی جا کر مال خریدتے ہیں، بعد میں پھیری کرتے ہیں۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر اِن ریٹس کو طے کرنے کا اختیار کیا غریب چھابڑی والوں کے پاس ہے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اختیار تو اِن بروکروں یا مالکان کے ہاتھ میں ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ پرائس کنٹرول ٹیمیں بھی موجود ہوتی ہیں جن کی ملی بھگت کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ریڑھی والا تو اتنے کا ہی لے کر جائے گا جتنے کا اُسے منڈی سے ملے گا۔ اب اگر عوام تین دن پھل نہیں خریدتے تو جو مال منڈیوں میں لاکر اُسے من مانی بولی پر فروخت کرسکتے ہیں وہ اُسے تین دن تک اسٹور روم یا کولڈ سٹوریج میں بھی نہیں رکھوا سکتے؟ اور اگر وہ آج کوئی پھل 100 روپے فی کلو فروخت کر رہے ہیں تو تین دن بعد 150 روپے فروخت کرنے پر ہمارا کیا لائحہ عمل ہوگا؟ بس یہی کہ پھر ہم اِسے اُسی قیمت میں خریدیں گے جس میں وہ ہمیں بیچیں گے۔
ہاں یہ ضرور ہوگا کہ تین روز تک اُس دیہاڑی باز کے گھر چولہا نہیں جلے گا۔ آپ خود بتائیں کہ آج تک کتنے ریڑھی والوں کو قیمت میں اضافہ کرکے گاڑی لیتے دیکھا ہے؟ وہ بیچارا تو ایک موٹر سائیکل لینے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔ ہاں اگر 10،20 روپے بڑھائے گا تو شاید عید پر اپنے بچوں کو کپڑوں کا ایک ایک جوڑا ضرور دلاسکے اور شاید یہی ہماری مشق کا مقصد تھا کہ اِس غریب کے بچوں کو کہیں عید پر نیا جوڑا نہ مل جائے۔
بھائی جس مغرب کی مثال دی جارہی ہے وہاں کا پھل فروش نہ تو یہاں جیسا غریب ہے اور نہ ہی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم۔ دوسری طرف سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور فاروقِ اعظم ؓ کے دورِِ خلافت کی مثالیں دی جارہی ہیں کہ تب گوشت، کشمش کا بائیکاٹ کیا گیا تھا تو پھر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تب پوری سلطنت میں کوئی مانگنے والا بھی نہیں تھا۔ تب حقدار کو حق سے محروم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی بڑے مافیا مل کر نچلے طبقے کے استحصال کی راہ ہموار کرتے تھے۔
اگر مسئلہ مہنگائی ہی ہے تو کیا ہم اِس عید پر برانڈڈ کپڑے لینے کا بائیکاٹ کر رہے ہیں؟ جن کی قیمتیں پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوچکی ہیں یا پھر ہمارا سارا غصہ صرف غریب ریڑھی بان اور خوانچہ فروش پر ہی نکلتا ہے؟ کیونکہ بحیثیت مجموعی ہمارا کردار ایسا ہی ہے کہ جب کسی سائیکل والے سے ٹکڑ ہوجائے تو اُس کا گریبان پکڑ لو اور جب کسی بڑی گاڑی سے ٹکڑا جاؤ تو اُس کے پاؤں پکڑلو۔ یہ درست ہے کہ اِس مہم سے سوشل میڈیا کا ایک درست استعمال دیکھنے میں آیا مگر یہ بھی سوچیں کہ کہیں ہم بھی کسی دوسرے کے ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ تو نہیں بن رہے؟
اگر نہیں تو چلیں عہد کریں کہ آئندہ 300 روپے والی چائے، کافی کے لئے مہنگے ریستوارانوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں روپے خرچ نہیں کریں گے، سوشل میڈیا پر ''اونچی دکانوں'' کے چیک ان نہیں دیں گے اور اِس عید پر کسی برانڈ کے کپڑے نہیں پہنیں گے، ہمت ہے تو آئیں، اب کریں بائیکاٹ۔
اِس عید پر پھر ہوجائے برانڈز کا بائیکاٹ؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔