کرپشن اور سیاست

سینٹر نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا اس سے حکومتی عزائم واضح ہوتے ہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان میں ایک طبقے کے بقول کرپشن کی سیاست کوئی مسئلہ نہیں۔ جو لوگ کرپشن اور بدعنوانی کو بنیاد بنا کر اس مسئلہ کو ایک اہم مسئلہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہ سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کو بنیاد بنانے کے بجائے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے وہ سوائے خود کو دھوکا دینے کے کچھ نہیں ۔کچھ لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ اس وقت جو سرمایہ دارانہ نظام ہے اس میں کرپشن نظام کا حصہ بن گئی ہے، وہ دراصل کرپشن کی سیاست کا جواز فراہم کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں کرپشن اور بدعنوانی کے معاملات کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا ،لیکن کوئی بھی ملک اپنی اچھی حکمرانی اور شفافیت اور خود مختار ی پر مبنی اداروں کے ساتھ کرپشن اور بدعنوان لوگوں کو عمل کو لگام دے سکتا ہے۔ ہمارے اور مہذب معاشروں میں بنیادی فرق ہی اداروں کی خود مختاری اور شفافیت کے ساتھ جڑی ہے۔ وہاں لوگوں کو ایک ڈر اور خوف بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ کرپشن اور بدعنوانی کے شکنجے میں جکڑے گئے تو کسی بھی صورت میں قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔

حکومتیں عموماً کرپشن او ربدعنوانی کے خاتمہ اور موثر احتساب کے لیے اصلاحات کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ لیکن جب نظام کرپشن او ربدعنوانی کا شکار ہوجائے تو پھر سمجھوتے کی سیاست غالب ہوجاتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے ایک دوسرے کا کڑااحتساب کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرکے انصاف کے نظام کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ پانامہ کے مقدمہ میں جے آئی ٹی کے تحت جاری کارروائی کے عمل میں سینٹر نہال ہاشمی کی تقریر نے دھوم مچائی ہے۔

سینٹر نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا اس سے حکومتی عزائم واضح ہوتے ہیں۔ نہال ہاشمی نے جس انداز سے ججز، عدلیہ اور سرکاری افسران کو دھمکیاں دی ہیں وہ ایسے ہی معاشرے میں ہوسکتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کا کوئی شفاف نظام نہ ہو۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومتی عزائم یہ ہی ہیں جو بھی لوگ ان کو قانون کے دائرے کار میں لانا چاہتے ہیں اسے سیاسی مسئلہ بنا کر محاز آرائی میں تبدیل کردیا جائے ، تاکہ احتسابی عمل متاثر ہو۔اب سینٹر نہال ہاشمی کی اس تقریر پر حکومتی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔


یہ بات محض نہال ہاشمی تک محدود نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حکومتی لوگ اسی طری عدلیہ سمیت دیگر اداروں کو اپنے دباو میںلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خود عدلیہ نے بھی اشارہ کیا ہے کہ نہال ہاشمی کا بیان کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوا اور اس کے پیچھے کوئی اور ہے ۔ اگرچہ حکومت نے نہال ہاشمی کی پارٹی رکنیت ختم کرکے ان سے سینٹر شپ سے بھی لے لیا ہے، لیکن کیا ان کی سیاست پارٹی سے ختم ہوگئی یا یہ وقتی سزا ہے۔

ہمارے اہل سیاست اور دیگر طبقات جو جمہوری سیاست پر یقین رکھتے ہیں ان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ محض کرپشن اور بدعنوانی پر سمجھوتہ کرکے، تحفظ فراہم کرکے ، یا خاموشی اختیار کرکے کسی بھی صورت میں ایک مضبوط جمہوری اور قانون پر مبنی حکمرانی کے نظام کو طاقت فراہم نہیں کی جاسکتی ۔جمہوری نظام کی بنیاد ہی شفافیت پر مبنی حکمرانی سے جڑی ہوتی ہے۔ کل تک جو لوگ یہ کہتے تھے کہ پاکستان میں کرپشن ، بدعنوانی اور پانامہ جیسے مقدمہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ۔ آج پانامہ کا مقدمہ پاکستان کا بڑا مقدمہ بن گیا ہے۔

پہلی بار اس مقدمہ میں ہماری سیاسی تاریخ میں موجودہ وزیر اعظم او ران کے بچے عدالتی کٹہرے میں مجرمانہ تفتیش کا حصہ ہیں۔یہ کریڈیٹ ہر صورت میں تمام تر سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ہمیں عمران خان کو دینا ہوگا کہ انھوں نے اس مقدمہ میں جس استقامت او ردیدہ دلیری و بہادری سے مقابلہ کیا وہ واقعی قابل تعریف ہے ، اس تحریک کا یقینی طور پر کوئی مثبت نتیجہ مستقبل کی سیاست کے تناظر میں ہی برآمد ہوگا ۔پانامہ کا مقدمہ اس وقت پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ یہ محض ایک فرد یا خاندان کے خلاف مقدمہ ہی نہیں بلکہ اصولی طور پر یہ طے ہونا ہے کہ یہاں مستقبل قانون او راداروں کی بالادستی کا ہوگا یا یہاں مافیا ز کی حکمرانی ہوگی۔

اس مقدمہ کی ناکامی ان ہی قوتوں کو طاقت فراہم کرے گی جنہوں نے ہمارے ریاستی نظام کو عملی طور پر یرغمال بنایا ہوا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں اداروں کی سطح پر بھی ایک بڑے دباو کی کیفیت ہے ۔اب دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ انفرادی یا گروہ کی صورت میں لوگ جو اداروں پر دباو ڈال کر اثر انداز ہوتے ہیں ان کو کامیابی ملنی ہے یا واقعی قانون اپنی رٹ کو قائم کرتا ہے ۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }