شوگر یا ذیابیطس علاج آپ کے ہاتھ میں

ہر گلی کوچے میں میٹھی سپاریوں کو فروخت کرنے والے بیٹھے ہیں جو اس خوبصورت انداز میں زہر فروخت کر رہے ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

ہم کیا کھاتے ہیں کیسے کھاتے ہیں یہ سب ہمارا چہرہ بتا دیتا ہے، دمکتے، کھلی رنگت کے چہرے اور زرد یا نقاہت زدہ چہرے کے درمیان کیا فرق ہے یہ سب ہماری غذا پر منحصر ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں نہ صرف غیر متوازن غذا کھائی جا رہی ہے بلکہ بحیثیت قوم ہم مسائل کا انبار اپنے سروں پر لیے گھوم رہے ہیں۔ چاہے یہ مسائل نجی نوعیت کے ہوں یا معاشرتی نوعیت کے لیکن ان کے بارے میں سوچ سوچ کر ہم ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔

ایک بار ایک مسئلہ ذہن سے چپک جائے تو پھر بار بار اسی کا ناگ ڈسے جاتا ہے، کچھ بہت معمولی نوعیت کے مسائل یا باتیں ذہن پر آسیب کی طرح چمٹ جاتی ہیں اور اگر ان کا تذکرہ کسی دوسرے سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ تو مسئلہ ہی نہیں تھا اور اس وقت تک ہمارے پورے جسم کے اندر ایک نامناسب بگاڑ پیدا ہو چکا ہوتا ہے جو ذیابیطس کی وجہ بن جاتا ہے۔

ذیابیطس کے معنی ہیں خمدار نلی میں بہاؤ، دراصل اس مرض کا تعلق گردوں سے ہے، یہ مرض آج کل کے مسائل کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر قدیم ہندی اطبا نے تقریباً پانچ ہزار سال قبل بیان کیا تھا جو کچھ اس طرح سے ہے کہ

''جو آدمی کاہل، سست، پست ہمت، پیٹو اور موٹا ہوتا ہے اسے موت جلد آ پکڑتی ہے جس کی وجہ امراض پیشاب ہوتے ہیں۔''

ذیابیطس کو یہ نام ایک یونانی طبیب نے دیا، ایریٹیس (1380-181ء) یہ مشہور حکیم جالینوس کا ہم عمر تھا اور اسکندریہ و روم میں اپنا مطب کرتا تھا اس کا کہنا تھا:

''ذیابیطس عجب مرض ہے، جس میں پیشاب کے ذریعے گوشت اور ہڈیوں کا اخراج ہوتا ہے یہ مریض بار بار پیشاب کرتے ہیں جن کی پیاس نہیں بجھتی۔''

حکیم جالینوس (129-199ء) کا خیال تھا کہ کثرت پیشاب کا سبب گردوں کی کمزوری ہے، دوسری صدی عیسوی تک ترکی میں ایسا مرض سمجھا جاتا تھا جس میں انسانی گوشت و اعضا پیشاب کے راستے خارج ہو جاتے ہیں جب کہ قدیم چین میں اسے لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا، جس میں پیشاب کثرت سے آتا ہے جو میٹھا ہوتا ہے، جسے کتے شوق سے چاٹتے ہیں۔ ابن سینا (980-1037ء) کا کہنا ہے کہ اس مرض میں شدید پیاس شدید بھوک، نقاہت ہوتی ہے، پیشاب میٹھا ہوتا ہے اس مرض میں تپ دق، پھوڑے پھنسیاں، ناسور اور جسم کا گلنا بھی شامل ہے ایک انگریز طبیب تھامس ولز نے 1685ء میں اس مرض کے بارے میں لکھا تھا۔''


میں ایسی غذاؤں کو ناپسند کرتا ہوں جس میں شکر کی کثرت ہوتی ہے، میرا خیال ہے کہ شکر کی دریافت اور بکثرت استعمال جدید امراض کا سبب ہے۔''

ڈاکٹر ہیٹنگ جس نے 1920ء میں انسولین دریافت کی تھی لکھتا ہے ''بالغ آدمیوں میں ذیابیطس کا سبب غذائی ہے، قدرتی شکر جو قدرتی پودوں والی غذاؤں میں ہوتی ہے دراصل مفید غذا ہے اور سفید شکر زہر ہے۔''

ہم دن رات اس سفید شکرکا زہر اپنے معدوں میں اتار رہے ہیں صرف یہی کیا کم تھا کہ لوگوں نے ایک اور زہر، اسکرین، کی ایجاد کر کے یہ ایک ایسا زہر ہے جسے براہ راست اپنے جسم میں کھانے پینے کی مختلف چیزوں کے ذریعے شامل کر کے بیماریوں میں گھرتے جا رہے ہیں۔

ہر گلی کوچے میں میٹھی سپاریوں کو فروخت کرنے والے بیٹھے ہیں جو اس خوبصورت انداز میں زہر فروخت کر رہے ہیں کہ انسانی ذہن کو خبر ہی نہ ہوتی اور وہ اس کے نشے کا عادی ہوتا جاتا ہے، جو نا صرف بچوں بلکہ بڑوں میں ذیابیطس کے علاوہ کینسر جیسے موذی امراض کا باعث بنتے ہیں۔

صرف کھانے پینے کی اشیا کے ذریعے نہیں بلکہ ذہنی دباؤ اور انتشار کے نتیجے میں بھی انسانی جسم کے خلیات میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے جو کھانے پینے کی عادات اور نظام میں بگاڑ پیدا کر کے لبلبے پر اثر انداز ہوتی ہیں اور درحقیقت یہی سوچیں، فکرات اور دباؤ انسان کے دماغ سے ہوتا ہوا پیٹ میں اتر کر اسے مختلف بیماریوں میں جکڑ دیتا ہے، دراصل لبلبے کی خرابی کے باعث انسانی جسم میں شکر کوکنٹرول کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے اور یہ انسانی خون میں سرائیت کر کے زہر ثابت ہوتی ہے اور اس طرح انسان خود بخود گلتا جاتا ہے اس کے وزن میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے پیاس بار بار لگتی ہے پیشاب زیادہ آنے لگتا ہے۔

جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ قدرتی اقسام کی شکر مثلاً کھجور اورگڑ ذیابیطس قسم دوم کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے اور انھیں پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں، امریکی اور برازیلی تحقیق کاروں کے مطابق ان میں قدرتی طور پر موجود اینٹی اوکسی ڈینٹس نہ صرف ذیابیطس بلکہ اس سے تعلق رکھنے والے ہائی بلڈ پریشر اور دل کے امراض سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

میساچوسٹس کی ایمہرسٹ یونیورسٹی کی ریسرچر ڈاکٹر کالی داس شیٹی کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا ایک موثر علاج یہ بھی ہے کہ کھانے پینے کی ایسی اشیا تیار کی جائیں جن میں کم حرارت والی شکر یا مٹھاس شامل رہے یا پھر حراروں سے یکسر خالی شیرینی شامل کی جائے تا کہ خون کی شکر بے قابو نہ ہو یہ شوگر کے مریضوں کے لیے طویل المدتی علاجی تدبیر ہے، لہٰذا احتیاط ضروری ہے ہمیں ابھی سے اپنے بچوں کو مٹھائیاں، کولڈ ڈرنکس، آئس کریم، سونف سپاریاں اور دیگر شکر والی خوبصورت پیکنگ میں دستیاب اشیا کے بے دریغ استعمال سے روکنا چاہیے تا کہ وہ مستقبل میں بڑی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔
Load Next Story