پائل اور گھنگھرو
یہ فلاحی ادارے بھی یہ کام نہیں کرتے چاہے کوئی بھی ہو
کبھی کبھی خبریں بہت دلچسپ ہوتی ہیں اور ان کوکیپشن یا سب ہیڈنگ کو دلچسپ بناکر دلچسپ نہیں بنایا جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان خبروں سے بہت سی خبریں اور بہت سے خبروں کے منظرنامے اور پس منظر اور شاید پیش منظر بھی واضح ہوجاتے ہیں اب ان خبروں کو Expose کرنے کا فن ہی دراصل فن خبر رسانی ہے اور اس کی اپچ ہی خبروں کو منفرد، دلچسپ اور نمایاں بنادیتی ہے۔
ایک خبر آپ کو بھارت سے بتاتے ہیں مگر اس خبر کو پڑھتے وقت ہمیں بہت ہنسی آئی تھی وجہ ہنسی کی یہ تھی اور ہے کہ 1947ء میں ہندوستان اور پاکستان دو حصے برصغیر کے ضرور ہوگئے مگر دراصل صدیوں ساتھ رہتے ہوئے اب عادتوں کو بدلتے ہوئے سال تو لگیں گے ہی نا۔
بنگلور میں ایک بھارتی خاتون نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ اس کا خاوند ساڑھی پہنتا ہے اور میک اپ کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق خاتون نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میرے خاوند کو نہ صرف رات میں ساڑھی پہننا پسند ہے بلکہ وہ میک اپ کے علاوہ میری دوسری چیزیں بھی استعمال کرتا ہے۔
بنگلور کے علاقے اندرا نگر کی رہائشی اس 29 سالہ اینتھا نامی خاتون نے بتایا کہ دونوں کی گزشتہ سال ارینج میرج ہوئی ہے تاہم شادی کی پہلی رات ہی سے اس کے خاوند نے خواتین کی طرح برتاؤ کرنا شروع کردیا تھا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ دن کے اوقات میں اس کا خاوند بالکل نارمل برتاؤ کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی ہے اس کے عورتوں والے لچھن شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ ہے وہ خبر جس کو پڑھ کر ہمیں برگر فیملی اور دوسرے ملکوں میں بڑے لوگوں کی اولادوں کا خیال آیا کہ یہ وہاں ایک عام بات ہے اور فیس بک کے آنے کے بعد تو مستقبل کے لیڈر بچوں کی تصاویر، دوستوں کی آغوش سے ایک واضح پیغام دے رہی ہیں۔ اس میں ایک کانٹریکٹڈ سفارتکار کا خاندان بھی شامل ہے اور دوسرے لوگ بھی اب سب کچھ صاف نظر آتا ہے کچھ نہیں چھپتا چھپانے سے پھر بھی بزرگ لیڈر ان بچوں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں یہ بات ناقابل تبصرہ ہے کیونکہ تبصرے کو کچھ بچا نہیں ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے پنجاب کی دو لڑکیوں نے شادی کرلی تھی اور میڈیکل ٹیسٹ سے شوہر بھی بیوی نکلیں لہٰذا دو بیبیوں کی پاکستان میں ابھی تک شادی کا رواج نہیں ہے۔ مستقبل کی خدا جانے کیا کیا صورتحال ہو، سیاسی بچوں نے کام خراب کیا ہے ورنہ لیڈروں تک پہنچنا مشکل تھا کم تو وہ بھی نہیں مگر احتیاط رکھتے ہیں۔ خیر تو بھارت کی اس خبر پر ایک بات اور بھی یاد آئی کہ پاکستان کے بہت سے اداروں میں اب اس جنس کو ملازمت بھی دی گئی ہے۔ کراچی کینٹ میں ملازم یہ لوگ پکا نہ کرنے اور تنخواہ نہ بڑھانے کا بھی احتجاج کرچکے ہیں نادرا کے دفتر میں بھی ایک دو لوگ ملازم ہیں۔
ہمارے علما نے درست فیصلہ دیا ہے کہ جس میں جس جنس کی علامات زیادہ پائی جائیں اسے وہی رجسٹر کیا جائے اور ان کا ووٹ کا حق بھی اسی طریقے کار کے مطابق ہوگا۔ ایک زمانے میں باقاعدگی سے ٹی وی شوز میں یہ لوگ آتے تھے۔ شاید دوسری خواتین کے بائیکاٹ کے خوف سے چینلز نے انھیں بلانا اور ان کے پروگرام ختم کردیے۔
بی بی اینتھا کی شکایت میں یہ بات نہیں ہے کہ کیا وہ شوہر ہیں یا نہیں بس یہ شکایت ہے کہ وہ ان کا سامان اور ساڑھیاں خراب کرتے ہیں۔ اس پر تو کوئی شکایت کیا کرنا تھا۔ وہ سامان بھی تو شوہر ہی خرید کر لاتا ہوگا تو اگر مل بانٹ کر استعمال کرلیتا ہے تو اس میں بھلا کیا اعتراض، مگر یہ صرف ایک جملہ معترضہ ہے ہمارا، ان خاتون کی شکایت اپنی جگہ بدستور درست ہے۔
اس خبر سے بہت خبریں یاد آتی ہیں، پنجاب کے وزیر مذہبی امور کسی ستم ظریف نے منتخب کیے ہیں کیونکہ فیس بک پر ان کی خواتین کی محفلوں کی بہت تصاویر موجود ہیں، وہ غالباً وہاں ان بگڑی ہوئی رئیس زادیوں کو جن کے ہاتھ میں جام اور لب میں سگریٹ ہے صراط مستقیم کی تعلیم دینے گئے تھے اور ''نچ کے یار منانا ہے'' کے طور پر محو رقص بھی تھے۔ سندھ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ جن کا نام دو بہت مقدس ہستیوں کے نام سے رکھا گیا ہے بھی ایک زمانے میں معروف تھے کہ رات کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں وہ وہی کرتے تھے جو محترمہ اینتھا کے شوہر کرتے ہیں بلکہ گھنگھرو باندھ کر بہت عمدہ رقص کرتے تھے۔
ابھی حال ہی میں آصف زرداری گھوٹکی تشریف لے گئے تھے لاڑکانہ میں محترمہ کی برسی کے پروگرام کے بعد تو وہ شاید وہیں گئے تھے، بلاول شاید ان کے پاس ٹھہر گئے تھے یا ان کے بلاوے پر چلے گئے تھے گزشتہ دنوں وہاں ایک جلسہ بھی کیا تھا ان کے علاقے میں اور بلاول کے ساتھ وہ فوٹو میں موجود ہیں۔ اس وقت زرداری دبئی میں تھے اور شکایت پر اب وہ گھوٹکی گئے تھے ان کے مخالف پی پی کے لیڈروں کے پاس اور صلح صفائی کروائی تھی شاید اب ان لوگوں یعنی اینتھا کے شوہر ٹائپ کے لوگوں کو اپنی ایک جماعت سیاسی بنا لینی چاہیے اپنے حقوق کے لیے اور اب ''ینگ لیڈر'' موجود ہیں ان سے صلاح مشورہ بھی کرلیں وہ آپ کو اچھی صلاح دیں گے اور یہ جدید بھی ہوگی، حق تو سب کا ہے نا ملک پر ملک کے شہری تو سب ہیں تو پھر اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے میں کیا حرج ہے بلکہ پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی اور دوسرے اداروں میں اقلیتوں کی طرح ان کی بھی سیٹیں مخصوص کرنی چاہئیں اور پورا پاکستان ان کا حلقہ قرار دینا چاہیے اور پورا صوبہ بھی اور اگر ایک سے زیادہ سیٹ دیں تو جس ترتیب سے ان کے ووٹ ہوں اسی حساب سے سیٹیں ان کو کامیاب قرار دے کر دے دیں۔
شاید ہماری بات لوگوں کو عجیب لگے مگر ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں اس طرح یہ جنس بھی باعزت بن جائے گی اور جن گھرانوں میں یہ بچے پیدا ہوتے ہیں وہ بھی شرمندہ نہیں ہوں گے۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی جنس کے تعین سے آسان ہوجائے گی اداروں میں یہ آسانی سے رہ سکیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے گا، کوئی بھی کام کرسکیں گے اور غلط راستوں سے بچیں گے۔
ہم نے یہ تو دیکھ ہی لیا ہے کہ یہ بچے کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں چاہے غریب کے گھر پیدا ہوں یا امرا اور رؤسا کے یہاں ان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جاسکے گا۔ آپ یہ دیکھیں کہ شاہی خاندانوں میں ان لوگوں کو کہاں تک رسائی تھی یہ لوگ محلات میں رہا کرتے تھے۔ شہزادیوں اور بیگمات کی خدمت گزاری کرتے تھے نہ جانے کتنے خاندان ہوں گے اس دور میں جنھیں ان لوگوں سے فوائد حاصل ہوئے۔ آج کوئی اس کا اعتراف نہیں کرے گا ہر جگہ ایسا ہی تھا پورے ہندوستان میں جس میں یہ علاقہ جو اب پاکستان ہے بھی شامل تھا تو حقیقتوں سے انحراف کیا جاسکتا ہے نہ آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں۔ ان کو تسلیم کرنا ہوگا۔ برے راستوں کو بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اچھے راستے کھولیں۔
جیساکہ ہم نے لکھا ہے کہ ہماری سیاست میں بھی براہ راست یا بالواسطہ یہ کردار تو موجود ہی ہیں تو پھر اس سلسلے کو عام لوگوں کے لیے بھی عام کردینا چاہیے، کسی کو بھیک مانگنے سے روکنا ہے تو اسے کام دو، بھکاریوں کے ٹھیکیداروں کو سزا دو اور بچوں کو بھکاری اور یہ کچھ بننے سے بچاؤ، معاشرے سے ایڈز کا خاتمہ کرو مگر کوشش مثبت کرو تاکہ علاج ایسا ہو کہ مریض مطمئن ہوجائے۔
یہ فلاحی ادارے بھی یہ کام نہیں کرتے چاہے کوئی بھی ہو۔ وہ ان کے خلاف مہم نہیں چلاتے چاہے ایدھی کی جماعت ہی ہو، ان کو لا کر دے دو یہ بے سہارا کو رکھ لیں گے۔ مگر معاشرے کو برائی سے پاک کرنے کے کوئی کام سے بڑھ کر کوئی نہیں کرتا، حکومت ان اداروں کی خدمات حاصل کرے، تحفظ دے، قانون نافذ کرے تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہاں تو یہ ضروری ہے دیکھتے ہیں کہ اینتھا کی شکایت کا کیا ہوتا ہے عورت ہر معاشرے کی مجبور ہے اس کے حقوق کا تحفظ ہر جگہ مشکل ہے۔
ایک خبر آپ کو بھارت سے بتاتے ہیں مگر اس خبر کو پڑھتے وقت ہمیں بہت ہنسی آئی تھی وجہ ہنسی کی یہ تھی اور ہے کہ 1947ء میں ہندوستان اور پاکستان دو حصے برصغیر کے ضرور ہوگئے مگر دراصل صدیوں ساتھ رہتے ہوئے اب عادتوں کو بدلتے ہوئے سال تو لگیں گے ہی نا۔
بنگلور میں ایک بھارتی خاتون نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ اس کا خاوند ساڑھی پہنتا ہے اور میک اپ کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق خاتون نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میرے خاوند کو نہ صرف رات میں ساڑھی پہننا پسند ہے بلکہ وہ میک اپ کے علاوہ میری دوسری چیزیں بھی استعمال کرتا ہے۔
بنگلور کے علاقے اندرا نگر کی رہائشی اس 29 سالہ اینتھا نامی خاتون نے بتایا کہ دونوں کی گزشتہ سال ارینج میرج ہوئی ہے تاہم شادی کی پہلی رات ہی سے اس کے خاوند نے خواتین کی طرح برتاؤ کرنا شروع کردیا تھا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ دن کے اوقات میں اس کا خاوند بالکل نارمل برتاؤ کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی ہے اس کے عورتوں والے لچھن شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ ہے وہ خبر جس کو پڑھ کر ہمیں برگر فیملی اور دوسرے ملکوں میں بڑے لوگوں کی اولادوں کا خیال آیا کہ یہ وہاں ایک عام بات ہے اور فیس بک کے آنے کے بعد تو مستقبل کے لیڈر بچوں کی تصاویر، دوستوں کی آغوش سے ایک واضح پیغام دے رہی ہیں۔ اس میں ایک کانٹریکٹڈ سفارتکار کا خاندان بھی شامل ہے اور دوسرے لوگ بھی اب سب کچھ صاف نظر آتا ہے کچھ نہیں چھپتا چھپانے سے پھر بھی بزرگ لیڈر ان بچوں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں یہ بات ناقابل تبصرہ ہے کیونکہ تبصرے کو کچھ بچا نہیں ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے پنجاب کی دو لڑکیوں نے شادی کرلی تھی اور میڈیکل ٹیسٹ سے شوہر بھی بیوی نکلیں لہٰذا دو بیبیوں کی پاکستان میں ابھی تک شادی کا رواج نہیں ہے۔ مستقبل کی خدا جانے کیا کیا صورتحال ہو، سیاسی بچوں نے کام خراب کیا ہے ورنہ لیڈروں تک پہنچنا مشکل تھا کم تو وہ بھی نہیں مگر احتیاط رکھتے ہیں۔ خیر تو بھارت کی اس خبر پر ایک بات اور بھی یاد آئی کہ پاکستان کے بہت سے اداروں میں اب اس جنس کو ملازمت بھی دی گئی ہے۔ کراچی کینٹ میں ملازم یہ لوگ پکا نہ کرنے اور تنخواہ نہ بڑھانے کا بھی احتجاج کرچکے ہیں نادرا کے دفتر میں بھی ایک دو لوگ ملازم ہیں۔
ہمارے علما نے درست فیصلہ دیا ہے کہ جس میں جس جنس کی علامات زیادہ پائی جائیں اسے وہی رجسٹر کیا جائے اور ان کا ووٹ کا حق بھی اسی طریقے کار کے مطابق ہوگا۔ ایک زمانے میں باقاعدگی سے ٹی وی شوز میں یہ لوگ آتے تھے۔ شاید دوسری خواتین کے بائیکاٹ کے خوف سے چینلز نے انھیں بلانا اور ان کے پروگرام ختم کردیے۔
بی بی اینتھا کی شکایت میں یہ بات نہیں ہے کہ کیا وہ شوہر ہیں یا نہیں بس یہ شکایت ہے کہ وہ ان کا سامان اور ساڑھیاں خراب کرتے ہیں۔ اس پر تو کوئی شکایت کیا کرنا تھا۔ وہ سامان بھی تو شوہر ہی خرید کر لاتا ہوگا تو اگر مل بانٹ کر استعمال کرلیتا ہے تو اس میں بھلا کیا اعتراض، مگر یہ صرف ایک جملہ معترضہ ہے ہمارا، ان خاتون کی شکایت اپنی جگہ بدستور درست ہے۔
اس خبر سے بہت خبریں یاد آتی ہیں، پنجاب کے وزیر مذہبی امور کسی ستم ظریف نے منتخب کیے ہیں کیونکہ فیس بک پر ان کی خواتین کی محفلوں کی بہت تصاویر موجود ہیں، وہ غالباً وہاں ان بگڑی ہوئی رئیس زادیوں کو جن کے ہاتھ میں جام اور لب میں سگریٹ ہے صراط مستقیم کی تعلیم دینے گئے تھے اور ''نچ کے یار منانا ہے'' کے طور پر محو رقص بھی تھے۔ سندھ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ جن کا نام دو بہت مقدس ہستیوں کے نام سے رکھا گیا ہے بھی ایک زمانے میں معروف تھے کہ رات کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں وہ وہی کرتے تھے جو محترمہ اینتھا کے شوہر کرتے ہیں بلکہ گھنگھرو باندھ کر بہت عمدہ رقص کرتے تھے۔
ابھی حال ہی میں آصف زرداری گھوٹکی تشریف لے گئے تھے لاڑکانہ میں محترمہ کی برسی کے پروگرام کے بعد تو وہ شاید وہیں گئے تھے، بلاول شاید ان کے پاس ٹھہر گئے تھے یا ان کے بلاوے پر چلے گئے تھے گزشتہ دنوں وہاں ایک جلسہ بھی کیا تھا ان کے علاقے میں اور بلاول کے ساتھ وہ فوٹو میں موجود ہیں۔ اس وقت زرداری دبئی میں تھے اور شکایت پر اب وہ گھوٹکی گئے تھے ان کے مخالف پی پی کے لیڈروں کے پاس اور صلح صفائی کروائی تھی شاید اب ان لوگوں یعنی اینتھا کے شوہر ٹائپ کے لوگوں کو اپنی ایک جماعت سیاسی بنا لینی چاہیے اپنے حقوق کے لیے اور اب ''ینگ لیڈر'' موجود ہیں ان سے صلاح مشورہ بھی کرلیں وہ آپ کو اچھی صلاح دیں گے اور یہ جدید بھی ہوگی، حق تو سب کا ہے نا ملک پر ملک کے شہری تو سب ہیں تو پھر اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے میں کیا حرج ہے بلکہ پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی اور دوسرے اداروں میں اقلیتوں کی طرح ان کی بھی سیٹیں مخصوص کرنی چاہئیں اور پورا پاکستان ان کا حلقہ قرار دینا چاہیے اور پورا صوبہ بھی اور اگر ایک سے زیادہ سیٹ دیں تو جس ترتیب سے ان کے ووٹ ہوں اسی حساب سے سیٹیں ان کو کامیاب قرار دے کر دے دیں۔
شاید ہماری بات لوگوں کو عجیب لگے مگر ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں اس طرح یہ جنس بھی باعزت بن جائے گی اور جن گھرانوں میں یہ بچے پیدا ہوتے ہیں وہ بھی شرمندہ نہیں ہوں گے۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی جنس کے تعین سے آسان ہوجائے گی اداروں میں یہ آسانی سے رہ سکیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے گا، کوئی بھی کام کرسکیں گے اور غلط راستوں سے بچیں گے۔
ہم نے یہ تو دیکھ ہی لیا ہے کہ یہ بچے کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں چاہے غریب کے گھر پیدا ہوں یا امرا اور رؤسا کے یہاں ان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا جاسکے گا۔ آپ یہ دیکھیں کہ شاہی خاندانوں میں ان لوگوں کو کہاں تک رسائی تھی یہ لوگ محلات میں رہا کرتے تھے۔ شہزادیوں اور بیگمات کی خدمت گزاری کرتے تھے نہ جانے کتنے خاندان ہوں گے اس دور میں جنھیں ان لوگوں سے فوائد حاصل ہوئے۔ آج کوئی اس کا اعتراف نہیں کرے گا ہر جگہ ایسا ہی تھا پورے ہندوستان میں جس میں یہ علاقہ جو اب پاکستان ہے بھی شامل تھا تو حقیقتوں سے انحراف کیا جاسکتا ہے نہ آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں۔ ان کو تسلیم کرنا ہوگا۔ برے راستوں کو بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اچھے راستے کھولیں۔
جیساکہ ہم نے لکھا ہے کہ ہماری سیاست میں بھی براہ راست یا بالواسطہ یہ کردار تو موجود ہی ہیں تو پھر اس سلسلے کو عام لوگوں کے لیے بھی عام کردینا چاہیے، کسی کو بھیک مانگنے سے روکنا ہے تو اسے کام دو، بھکاریوں کے ٹھیکیداروں کو سزا دو اور بچوں کو بھکاری اور یہ کچھ بننے سے بچاؤ، معاشرے سے ایڈز کا خاتمہ کرو مگر کوشش مثبت کرو تاکہ علاج ایسا ہو کہ مریض مطمئن ہوجائے۔
یہ فلاحی ادارے بھی یہ کام نہیں کرتے چاہے کوئی بھی ہو۔ وہ ان کے خلاف مہم نہیں چلاتے چاہے ایدھی کی جماعت ہی ہو، ان کو لا کر دے دو یہ بے سہارا کو رکھ لیں گے۔ مگر معاشرے کو برائی سے پاک کرنے کے کوئی کام سے بڑھ کر کوئی نہیں کرتا، حکومت ان اداروں کی خدمات حاصل کرے، تحفظ دے، قانون نافذ کرے تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہاں تو یہ ضروری ہے دیکھتے ہیں کہ اینتھا کی شکایت کا کیا ہوتا ہے عورت ہر معاشرے کی مجبور ہے اس کے حقوق کا تحفظ ہر جگہ مشکل ہے۔