بھارت سے شکست پر سابق کرکٹرز بھی چراغ پا
پلیئرز میں صلاحیت ہی نہیں تو حکمت عملی کیا کرے گی، رمیز راجہ
قومی ٹیم کی بھارت کے ہاتھوں شکست پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی چراغ پا ہیں۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان شرٹس کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد جہاں شائقین سخت مایوسی کا شکار، وہاں سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی پریشان ہیں۔ عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ چیئرمین پی سی بی کی تعیناتی ہی میرٹ پر نہیں ہو گی تو کرکٹ کیسے ٹھیک ہو گی؟ جب تک کھیل کا بنیادی ڈھانچہ درست نہیں ہو گا تب تک معاملات بہتر نہیں ہونگے، الیکشن فکس کرنے اور حکمرانوں کی وفاداری کی وجہ سے عہدوں سے نوازے جانے والے، کبھی پاکستان میں کرکٹ کی اصلاح نہیں کر سکیں گے، بھارت کیخلاف میچ میں پاکستان کو بغیر کسی مقابلے کے شکست سے دو چار ہوتے دیکھنا تکلیف دہ ہے۔
جاوید میانداد نے کہا کہ کرکٹ کی باگ ڈور کھیل سے نابلد لوگوں کے ہاتھوں میں ہے،برسہا برس برس کا تجربہ رکھنے والے سابق کرکٹرز کا حق مارا جارہا ہے جن لوگوں نے کبھی بیٹ ہاتھ میں نہیں پکڑا، دوسروں کا کس طرح سکھاسکتے ہیں کہ پریشر میں کیسے کھیلا جاسکتا ہے۔
عامر سہیل نے کہا کہ ٹیم کی سلیکشن سے لیکر پلاننگ تک ہر شعبے میں خامیاں نظر آئیں، کھلاڑیوں میں کوئی فائٹنگ سپرٹ نظر نہیں آئی، مسائل کا انبار بڑھتا چلا جارہا ہے، پی سی بی میں عہدوں پر قابض افراد کو کرکٹ کی سمجھ ہیں نہیں، ہر شعبے میں احتساب کا نعرہ لگایا جارہا ہے تو پی سی بی میں کیوں نہیں۔
شعیب اخترکاکہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم دباؤ میں کھیلی، صرف ٹیم ہی نہیں بورڈ بھی قصور وار ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بیٹسمین تاحال پرانی طرز پر بیٹنگ کررہے ہیں،جدید کرکٹ میں 300 رنز کرنا عام بات ہے،مجھے کوئی یہ بات سمجھا دے کہ جنیدخان کو باہر کیوں بٹھاتے ہیں؟جب بیرون ملک میچ کھیلنے جاتے ہوتو آپ کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ آپ کس کے ساتھ کھیل رہے ہو اور کس طریقے سے کھیلناہے، بی سی بی عہدیداروں کو کہوں گا کہ کام نہیں کرسکتے تو چھوڑ دیں۔
رمیز راجا نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں صلاحیت ہی نہیں تو حکمت عملی کیا کرے گی۔محمدیوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بولنگ آرڈر ٹھیک نہیں تھا، جنید اور حسن علی کو ایک طرح کے بولرکہنا مذاق ہے،ایک لیفٹ اور دوسرا رائٹ آرم ہے۔
مشتاق احمد نے کہا کہ بھارت کی ٹیم نے اپنے پلان کے مطابق بیٹنگ کی اور بہتر ہدف دیا۔پاکستان یوراج سنگھ جیسے پلیئر کا کیچ چھوڑ دیا، کھلاڑیوں کو اعتماد دینا ہوگا تاکہ وہ ٹیم سے ڈراپ کے خوف میں مبتلا ہوکر اپنی جگہ پکی کرنے کیلیے نہ کھیلیں بلکہ ٹیم کی جیت کیلیے کھیلیں، دنیا کی دیگر ٹیموں کی شاندار فیلڈنگ ان کی بہترین فٹنس کی وجہ سے ہوتی ہے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان شرٹس کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد جہاں شائقین سخت مایوسی کا شکار، وہاں سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی پریشان ہیں۔ عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ چیئرمین پی سی بی کی تعیناتی ہی میرٹ پر نہیں ہو گی تو کرکٹ کیسے ٹھیک ہو گی؟ جب تک کھیل کا بنیادی ڈھانچہ درست نہیں ہو گا تب تک معاملات بہتر نہیں ہونگے، الیکشن فکس کرنے اور حکمرانوں کی وفاداری کی وجہ سے عہدوں سے نوازے جانے والے، کبھی پاکستان میں کرکٹ کی اصلاح نہیں کر سکیں گے، بھارت کیخلاف میچ میں پاکستان کو بغیر کسی مقابلے کے شکست سے دو چار ہوتے دیکھنا تکلیف دہ ہے۔
جاوید میانداد نے کہا کہ کرکٹ کی باگ ڈور کھیل سے نابلد لوگوں کے ہاتھوں میں ہے،برسہا برس برس کا تجربہ رکھنے والے سابق کرکٹرز کا حق مارا جارہا ہے جن لوگوں نے کبھی بیٹ ہاتھ میں نہیں پکڑا، دوسروں کا کس طرح سکھاسکتے ہیں کہ پریشر میں کیسے کھیلا جاسکتا ہے۔
عامر سہیل نے کہا کہ ٹیم کی سلیکشن سے لیکر پلاننگ تک ہر شعبے میں خامیاں نظر آئیں، کھلاڑیوں میں کوئی فائٹنگ سپرٹ نظر نہیں آئی، مسائل کا انبار بڑھتا چلا جارہا ہے، پی سی بی میں عہدوں پر قابض افراد کو کرکٹ کی سمجھ ہیں نہیں، ہر شعبے میں احتساب کا نعرہ لگایا جارہا ہے تو پی سی بی میں کیوں نہیں۔
شعیب اخترکاکہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم دباؤ میں کھیلی، صرف ٹیم ہی نہیں بورڈ بھی قصور وار ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بیٹسمین تاحال پرانی طرز پر بیٹنگ کررہے ہیں،جدید کرکٹ میں 300 رنز کرنا عام بات ہے،مجھے کوئی یہ بات سمجھا دے کہ جنیدخان کو باہر کیوں بٹھاتے ہیں؟جب بیرون ملک میچ کھیلنے جاتے ہوتو آپ کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ آپ کس کے ساتھ کھیل رہے ہو اور کس طریقے سے کھیلناہے، بی سی بی عہدیداروں کو کہوں گا کہ کام نہیں کرسکتے تو چھوڑ دیں۔
رمیز راجا نے کہا کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں صلاحیت ہی نہیں تو حکمت عملی کیا کرے گی۔محمدیوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بولنگ آرڈر ٹھیک نہیں تھا، جنید اور حسن علی کو ایک طرح کے بولرکہنا مذاق ہے،ایک لیفٹ اور دوسرا رائٹ آرم ہے۔
مشتاق احمد نے کہا کہ بھارت کی ٹیم نے اپنے پلان کے مطابق بیٹنگ کی اور بہتر ہدف دیا۔پاکستان یوراج سنگھ جیسے پلیئر کا کیچ چھوڑ دیا، کھلاڑیوں کو اعتماد دینا ہوگا تاکہ وہ ٹیم سے ڈراپ کے خوف میں مبتلا ہوکر اپنی جگہ پکی کرنے کیلیے نہ کھیلیں بلکہ ٹیم کی جیت کیلیے کھیلیں، دنیا کی دیگر ٹیموں کی شاندار فیلڈنگ ان کی بہترین فٹنس کی وجہ سے ہوتی ہے۔