فلموں کا معیار بہتر بنانے کیلیے ڈریس ڈیزائنرز کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہیں مہرین سید
جدید طرز کی فلمیں بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ملبوسات پر توجہ دے کر اپنے ملک کا کلچر متعارف کراسکتے ہیں، اداکارہ
اداکارہ وماڈل مہرین سیدنے کہا ہے کہ فلموں میں حقیقت کے رنگ بھرنے کے لیے جس طرح کہانی اورکردارکا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح ان کرداروں کے مطابق اگران کے ملبوسات بھی تیارکیے جائیں تووہ ' سونے پہ سہاگہ ' کا کام کرتے ہیں۔
''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے مہرین سید نے کہا کہ دیکھا جائے توہالی وڈ اوربالی وڈ میں بننے والی فلموں کے کرداروں کی ڈریسنگ پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔ جس کے ذریعے کردارکی اپنی ایک منفرد جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ فلموں میں اب توسکرپٹ اورلوکیشنزکے مطابق ڈریس تیار کرتا ہے جس سے فلم کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بدقمستی سے ہمارے ہاں اس اہم شعبے پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے فلم بینوں کی بڑی تعداد سینما گھروں سے باہر نکلتے ہوئے آوازیں کستی دکھائی دیتی ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ 1947ء کے دور کی کہانی میں موجودہ دور کے ملبوسات دیکھ کرفلم بین '' قہقہے'' نہیں لگائیں تواورکیا کریں ؟ موجودہ دورکی فلموں میں ایک مخصوص انداز کی ڈریسنگ دیکھ کرمایوسی ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں پاکستان فلم انڈسٹری کو دیگر تکنیکی شعبے کی طرح ملبوسات کے شعبے میں بھی بہتری لانی کی ضرورت ہے۔ فلموں کے معیارکوبہتربنانے کے لیے ڈریس ڈیزائنرکی خدمات حاصل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اس حوالے سے نوجوان نسل کے معروف فیشن ڈیزائنرز صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وہ ہمارے چاروں صوبوں کے رسم ورواج اورملبوسات کو سمجھتے ہیں اوراس کے مطابق بہترین انداز میں فلم کے لیے نئے ملبوسات ڈیزائن کرسکتے ہیں۔
مہرین نے کہا کہ اب وقت اوراس کی ڈیمانڈ بدل چکی ہے۔ فارمولا فلموں کے بجائے اگرجدید طرز کی فلمیںبنائی جائیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ملک کا خوبصورت کلچر متعارف کرواسکیں، تواس سے بہترکوئی بات نہیں ہوگی۔ اپنا کلچراس وقت تک دنیا تک نہیں پہنچ پائے گا، جب تک ہماری فلموں میں ہمارے اپنے ملبوسات، میوزک اور بولیاں شامل نہیں کی جائیں گی۔
''ایکسپریس'' سے گفتگوکرتے ہوئے مہرین سید نے کہا کہ دیکھا جائے توہالی وڈ اوربالی وڈ میں بننے والی فلموں کے کرداروں کی ڈریسنگ پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔ جس کے ذریعے کردارکی اپنی ایک منفرد جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ فلموں میں اب توسکرپٹ اورلوکیشنزکے مطابق ڈریس تیار کرتا ہے جس سے فلم کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بدقمستی سے ہمارے ہاں اس اہم شعبے پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے فلم بینوں کی بڑی تعداد سینما گھروں سے باہر نکلتے ہوئے آوازیں کستی دکھائی دیتی ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ 1947ء کے دور کی کہانی میں موجودہ دور کے ملبوسات دیکھ کرفلم بین '' قہقہے'' نہیں لگائیں تواورکیا کریں ؟ موجودہ دورکی فلموں میں ایک مخصوص انداز کی ڈریسنگ دیکھ کرمایوسی ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں پاکستان فلم انڈسٹری کو دیگر تکنیکی شعبے کی طرح ملبوسات کے شعبے میں بھی بہتری لانی کی ضرورت ہے۔ فلموں کے معیارکوبہتربنانے کے لیے ڈریس ڈیزائنرکی خدمات حاصل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اس حوالے سے نوجوان نسل کے معروف فیشن ڈیزائنرز صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وہ ہمارے چاروں صوبوں کے رسم ورواج اورملبوسات کو سمجھتے ہیں اوراس کے مطابق بہترین انداز میں فلم کے لیے نئے ملبوسات ڈیزائن کرسکتے ہیں۔
مہرین نے کہا کہ اب وقت اوراس کی ڈیمانڈ بدل چکی ہے۔ فارمولا فلموں کے بجائے اگرجدید طرز کی فلمیںبنائی جائیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ملک کا خوبصورت کلچر متعارف کرواسکیں، تواس سے بہترکوئی بات نہیں ہوگی۔ اپنا کلچراس وقت تک دنیا تک نہیں پہنچ پائے گا، جب تک ہماری فلموں میں ہمارے اپنے ملبوسات، میوزک اور بولیاں شامل نہیں کی جائیں گی۔