مجھ پر دباؤ ہے کہ سپریم کورٹ کو خوش کروں چیئر مین نیب
نیب افسران اپنی ملازمت بچانے کیلیے غیر منصفانہ تحقیقات پر مجبور ہیں،میڈیا خفیہ ادارے کا کردار ادا کر رہا ہے
چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کے دائرہ اختیار میں مسلسل مداخت کے الزام پر مبنی خط میں اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے۔
چیئرمین نیب نے صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ آپ کی توجہ نیب کے چیئرمین کے اختیارات کے استعمال میں درپیش رکاوٹوں کی جانب مبذول کرائوں گا، بطور چیئرمین نیب میرے دور میں نیب نے 25ارب کی ریکوری کی، ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے، عوام ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے منتظر ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اور شخصیات اس پر متفق ہیں کہ ملک میں جمہوری سسٹم چلتا رہے اور اسے ڈی ریل نہ ہونے دیا جائے، ملک کی افواج نے بھی اسی خواہش کے مطابق اپنی پوزیشن ظاہر کی ہے۔
انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ صدر مملکت آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نیب کو دیے جانے والے احکام مبہم ہیں جس کے باعث بطور چیئرمین نیب قانون کے مطابق اپنے اختیارات من و عن استعمال نہیں کر پا رہا، نیب کے دائرہ اختیار میں سپریم کورٹ کے احکام نیب کی فیئر انویسٹی گیشن کو مانیٹر کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹسز زبانی احکام اور تحریری آرڈر مختلف ہیں، نیب کو رپورٹ کی تیاری کے لیے نامناسب وقت دیا جاتا ہے، اس کے باعث نیب افسران انتہائی غیر معمولی دباؤ میں اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔
نیب افسران سپریم کورٹ کے ججز کے سامنے پیش ہونے کے باعث دباؤ کا شکار رہتے ہیں یہ عمل اس حد تک خطر ناک ہو گیا ہے کہ نیب افسران اپنی آزادی کھو چکے ہیں اور انویسٹی گیشن افسران تفتیش پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ رہے، سپریم کورٹ کے احکام میں واضح ہوتا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق کارروائی کی جائے، اس دباؤ کے باعث نیب افسران ذمے داری انجام نہیں دے رہے، اپنی ملازمت کو محفوط بنانے کے لیے غیر منصفانہ انویسٹی گیشن پر مجبور ہو جاتے ہیں اس انویسٹی گیشن کے باعث ملک کے سینئر ترین سیاستدانوں کو گرفتار کرنے کے احکام دیے جاتے ہیں۔
ریجنل انویسٹی گیشن افسران کی رپورٹ جو ابھی ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہو رہی اس پر کارروائی کا حکم دیا جاتا ہے جبکہ نیب قانون واضح ہے کہ چیئرمین نیب کو اختیار حاصل ہے کہ کسی ریفرنس پر اس وقت دسخط کروں جب اس کا مکمل جائزہ لے لوں اور اپنے ذہن کے مطابق اس پر فیصلہ نہ کر لوں کہ ریفرنس بنتا ہے کہ نہیں، یہ اختیار نیب آرڈیننس کے تحت دیا گیا ہے جیسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، صدر مملکت آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قانون کے تحت جو بھی جرم کا مرتکب ہو اس کے خلاف کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا، قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور کوئی قانون سے مبرا نہیں ہے، میڈیا کے کچھ حلقے کامران فیصل کیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں، میڈیا خفیہ ادارے کا کردار ادا کر رہا ہے اور عدلیہ کے کچھ ممبران پر بھی اثر انداز بھی ہو رہے ہیں، کامران فیصل کی موت کے حوالے سے نیب کے اندر بغاوت کے پیچھے میڈیا کے کچھ حلقے ہیں، اس مہم میں سپریم کورٹ کا کردار بھی واضح ہے اور مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کو خوش کروں جو انتخابات سے قبل دھاندلی ہو گی اور میری جانب سے لاقانونیت ہو گی۔
چیئرمین نیب نے لکھا کہ میں نے بطور نیول چیف بھی ملک میں آئین کی خلاف ورزی کی منصوبہ بندی سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا اور تین نومبر کی ایمرجنسی کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک کا ساتھ دیا، مجھے خوف ہے کہ سپریم کورٹ کے احکام میں اپنی ذمہ داری آزادنہ انجام نہیں دے سکتا، عدلیہ کے کچھ ممبران کی جانب سے دیگر اداروں کو نیچا دکھانے سے عوام کا ریاست کے اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا، سپریم کورٹ کو جو حتمی آئینی عدالت ہے اور فائنل اپیلیٹ کورٹ ہے انسانی حقوق کیسز کی بنیاد پر ازخود نوٹسز کا مقصد حکومت کے دائرہ اختیار کو نظر انداز کرنا ہے۔
جبکہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں ہزاروں مقدمات ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، چاہے کچھ ہو جائے کہ قانون کو مقدم رہنا چاہیے اس صورت حال میں، میں افسوس کے ساتھ اپنا استعفیٰ بھیج رہا ہوں۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر آصف زرداری کو چیئرمین نیب کا استعفیٰ موصول ہو گیا ہے تاہم اس کی منظوری پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔دوسری جانب اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران فصحیح بخاری نے اپنے استعفے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
چیئرمین نیب نے صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ آپ کی توجہ نیب کے چیئرمین کے اختیارات کے استعمال میں درپیش رکاوٹوں کی جانب مبذول کرائوں گا، بطور چیئرمین نیب میرے دور میں نیب نے 25ارب کی ریکوری کی، ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے، عوام ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے منتظر ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اور شخصیات اس پر متفق ہیں کہ ملک میں جمہوری سسٹم چلتا رہے اور اسے ڈی ریل نہ ہونے دیا جائے، ملک کی افواج نے بھی اسی خواہش کے مطابق اپنی پوزیشن ظاہر کی ہے۔
انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ صدر مملکت آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے نیب کو دیے جانے والے احکام مبہم ہیں جس کے باعث بطور چیئرمین نیب قانون کے مطابق اپنے اختیارات من و عن استعمال نہیں کر پا رہا، نیب کے دائرہ اختیار میں سپریم کورٹ کے احکام نیب کی فیئر انویسٹی گیشن کو مانیٹر کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹسز زبانی احکام اور تحریری آرڈر مختلف ہیں، نیب کو رپورٹ کی تیاری کے لیے نامناسب وقت دیا جاتا ہے، اس کے باعث نیب افسران انتہائی غیر معمولی دباؤ میں اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔
نیب افسران سپریم کورٹ کے ججز کے سامنے پیش ہونے کے باعث دباؤ کا شکار رہتے ہیں یہ عمل اس حد تک خطر ناک ہو گیا ہے کہ نیب افسران اپنی آزادی کھو چکے ہیں اور انویسٹی گیشن افسران تفتیش پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ رہے، سپریم کورٹ کے احکام میں واضح ہوتا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق کارروائی کی جائے، اس دباؤ کے باعث نیب افسران ذمے داری انجام نہیں دے رہے، اپنی ملازمت کو محفوط بنانے کے لیے غیر منصفانہ انویسٹی گیشن پر مجبور ہو جاتے ہیں اس انویسٹی گیشن کے باعث ملک کے سینئر ترین سیاستدانوں کو گرفتار کرنے کے احکام دیے جاتے ہیں۔
ریجنل انویسٹی گیشن افسران کی رپورٹ جو ابھی ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہو رہی اس پر کارروائی کا حکم دیا جاتا ہے جبکہ نیب قانون واضح ہے کہ چیئرمین نیب کو اختیار حاصل ہے کہ کسی ریفرنس پر اس وقت دسخط کروں جب اس کا مکمل جائزہ لے لوں اور اپنے ذہن کے مطابق اس پر فیصلہ نہ کر لوں کہ ریفرنس بنتا ہے کہ نہیں، یہ اختیار نیب آرڈیننس کے تحت دیا گیا ہے جیسے پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، صدر مملکت آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قانون کے تحت جو بھی جرم کا مرتکب ہو اس کے خلاف کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا، قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور کوئی قانون سے مبرا نہیں ہے، میڈیا کے کچھ حلقے کامران فیصل کیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں، میڈیا خفیہ ادارے کا کردار ادا کر رہا ہے اور عدلیہ کے کچھ ممبران پر بھی اثر انداز بھی ہو رہے ہیں، کامران فیصل کی موت کے حوالے سے نیب کے اندر بغاوت کے پیچھے میڈیا کے کچھ حلقے ہیں، اس مہم میں سپریم کورٹ کا کردار بھی واضح ہے اور مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کو خوش کروں جو انتخابات سے قبل دھاندلی ہو گی اور میری جانب سے لاقانونیت ہو گی۔
چیئرمین نیب نے لکھا کہ میں نے بطور نیول چیف بھی ملک میں آئین کی خلاف ورزی کی منصوبہ بندی سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا اور تین نومبر کی ایمرجنسی کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک کا ساتھ دیا، مجھے خوف ہے کہ سپریم کورٹ کے احکام میں اپنی ذمہ داری آزادنہ انجام نہیں دے سکتا، عدلیہ کے کچھ ممبران کی جانب سے دیگر اداروں کو نیچا دکھانے سے عوام کا ریاست کے اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا، سپریم کورٹ کو جو حتمی آئینی عدالت ہے اور فائنل اپیلیٹ کورٹ ہے انسانی حقوق کیسز کی بنیاد پر ازخود نوٹسز کا مقصد حکومت کے دائرہ اختیار کو نظر انداز کرنا ہے۔
جبکہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں ہزاروں مقدمات ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، چاہے کچھ ہو جائے کہ قانون کو مقدم رہنا چاہیے اس صورت حال میں، میں افسوس کے ساتھ اپنا استعفیٰ بھیج رہا ہوں۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق صدر آصف زرداری کو چیئرمین نیب کا استعفیٰ موصول ہو گیا ہے تاہم اس کی منظوری پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔دوسری جانب اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران فصحیح بخاری نے اپنے استعفے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔