میمو کیس حسین حقانی نہیں آتے جو کرنا ہے کرلیں عاصمہ جہانگیر
حقانی کا دوسرا خط پیش ، وطن واپسی سے انکار، سپریم کورٹ کا اظہار برہمی
سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق حسین حقانی کا دوسرا خط پیش کردیا اور کہا کہ ان کے موکل نے پاکستان آنے سے انکار کردیا ہے ۔
چیف جسٹس نے حسین حقانی کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ عدالت نے انھیںطلب کیا تھا ، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے،یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جائے؟، پھر ہمیں حقانی کو لانے کیلیے جبری طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ عدالت نے حسین حقانی کو تحفظ دیے جانے کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت12 فروری تک ملتوی کردی۔ پیر کوچیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کے موکل حسین حقانی سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان نہیں آ سکتے، انھوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حسین حقانی کو طلب کیا تھا، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ حسین حقانی نے اپنے خط میں لکھا کہ وہ عدالت کے حکم کی تعمیل میں پاکستان آنا چاہتے ہیں انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جائے۔ جس پر عاصمہ جہانگیر نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں ذاتی طور پر تو جا کر انھیں نہیں لا سکتی۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بھی حسین حقانی کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ وزارت خارجہ و داخلہ تحقیقات کرائیں کون دھمکیاں دے رہا ہے۔ جس پر عدالتی بینچ کا کہنا تھا کہ ہمیں خطرات کا علم نہیں، حاضری سے متعلق حکم پر عمل چاہتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ حسین حقانی31دسمبر کو سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ چکے ہیں۔26جنوری کو بھی لکھا گیاخط عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔
تاہم سیکریٹری داخلہ نے حسین حقانی کی سیکیورٹی سے متعلق جواب نہیں دیاجبکہ کرائسز مینجمنٹ سیل کے مطابق وکیل نے حقانی کی آمد سے متعلق کچھ نہیں لکھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ 13 نومبر کے حکم کے مطابق حقانی کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کرنے کو کہا تھا، اس کا واضح مطلب ہے ہم حقانی کو ہر حال میں بلانا چاہتے ہیں، جس پر حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ حسین حقانی آئے ہیں نہ ہی ملک میں ہیں۔
چیف جسٹس نے حسین حقانی کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ عدالت نے انھیںطلب کیا تھا ، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے،یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جائے؟، پھر ہمیں حقانی کو لانے کیلیے جبری طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ عدالت نے حسین حقانی کو تحفظ دیے جانے کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت12 فروری تک ملتوی کردی۔ پیر کوچیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں9 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کے موکل حسین حقانی سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان نہیں آ سکتے، انھوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حسین حقانی کو طلب کیا تھا، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ حسین حقانی نے اپنے خط میں لکھا کہ وہ عدالت کے حکم کی تعمیل میں پاکستان آنا چاہتے ہیں انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جائے۔ جس پر عاصمہ جہانگیر نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں ذاتی طور پر تو جا کر انھیں نہیں لا سکتی۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بھی حسین حقانی کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ وزارت خارجہ و داخلہ تحقیقات کرائیں کون دھمکیاں دے رہا ہے۔ جس پر عدالتی بینچ کا کہنا تھا کہ ہمیں خطرات کا علم نہیں، حاضری سے متعلق حکم پر عمل چاہتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ حسین حقانی31دسمبر کو سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ چکے ہیں۔26جنوری کو بھی لکھا گیاخط عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔
تاہم سیکریٹری داخلہ نے حسین حقانی کی سیکیورٹی سے متعلق جواب نہیں دیاجبکہ کرائسز مینجمنٹ سیل کے مطابق وکیل نے حقانی کی آمد سے متعلق کچھ نہیں لکھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ 13 نومبر کے حکم کے مطابق حقانی کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کرنے کو کہا تھا، اس کا واضح مطلب ہے ہم حقانی کو ہر حال میں بلانا چاہتے ہیں، جس پر حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ حسین حقانی آئے ہیں نہ ہی ملک میں ہیں۔