برمی مسلمان جانیں بچانے بنگلہ دیش آئے عزتیں گنوا بیٹھے
پناہ گزین کا درجہ نہ ملنے کی وجہ سے عالمی اداروں کو امداد مہیا کرنے نہیں دی جارہی
ISLAMABAD:
میانمارکی ریاست راکھین میں بدھوں کے مظالم کا شکا رہوکرپناہ کیلیے آنے والے روہنگیامسلمان جانیں بچاکرآئے تھے۔
مگر بنگلہ دیش کی حکومت نے انھیں پناہ گزین کا درجہ نہیں دیا جس کے باعث انھیں عالمی اداروں کی کوشش کے باوجود نہ توامداد مہیا کرنے دی جارہی ہے نہ ہی انہیں روزی کمانے کیلیے کہیں کام کرنے کی اجازت ہے۔ بہت سے خاندان بدکاری کے دھندے میں ملوث ہوچکے ہیں۔
ایک 89 سالہ بزرگ عبدالمتین نے بتایاکہ انھوں نے اپنے طورپر''ہجرت'' کی تھی یہ معلوم نہ تھا کہ ان حالات کا سامنا کرناپڑے گا۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک چھ ضرب آٹھ فٹ کے خیمے میں رہ رہے ہیں، ان کے پڑوسی خیمے میں ایک لڑکی گینگ ریپ کا شکارہوچکی ہے۔
دوسرے خیمے میں بدکاری کا اڈا چل رہا ہے۔ میں نے چھ ماہ کے دوران اپنی بیوی اوربیٹیوں کے زیورات بیچ کر گزارا کیا ہے اوراب کیمپ میں ہی چیزیں بیچ کرگزارا کرتاہوں۔ ہروقت اپنی بیٹیوں کی عزتوں کا خیال ستاتا رہتاہے۔ بیمارہوجائیں توکہیں علاج کیلئے نہیں جاسکتے۔ بچوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں۔
ہمیں پناہ گزین کا درجہ دیدیا جائے توعالمی ادارے ہمیں امدادفراہم کرسکتے ہیں۔ ہم مہاجر بن کرآئے تھے لیکن یہاں روہنگیا ہوناگالی بن چکا ہے ۔دوسری طرف بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی وجہ سے کاکس بازاراوردیگرعلاقوں میں جرائم کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔
میانمارکی ریاست راکھین میں بدھوں کے مظالم کا شکا رہوکرپناہ کیلیے آنے والے روہنگیامسلمان جانیں بچاکرآئے تھے۔
مگر بنگلہ دیش کی حکومت نے انھیں پناہ گزین کا درجہ نہیں دیا جس کے باعث انھیں عالمی اداروں کی کوشش کے باوجود نہ توامداد مہیا کرنے دی جارہی ہے نہ ہی انہیں روزی کمانے کیلیے کہیں کام کرنے کی اجازت ہے۔ بہت سے خاندان بدکاری کے دھندے میں ملوث ہوچکے ہیں۔
ایک 89 سالہ بزرگ عبدالمتین نے بتایاکہ انھوں نے اپنے طورپر''ہجرت'' کی تھی یہ معلوم نہ تھا کہ ان حالات کا سامنا کرناپڑے گا۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک چھ ضرب آٹھ فٹ کے خیمے میں رہ رہے ہیں، ان کے پڑوسی خیمے میں ایک لڑکی گینگ ریپ کا شکارہوچکی ہے۔
دوسرے خیمے میں بدکاری کا اڈا چل رہا ہے۔ میں نے چھ ماہ کے دوران اپنی بیوی اوربیٹیوں کے زیورات بیچ کر گزارا کیا ہے اوراب کیمپ میں ہی چیزیں بیچ کرگزارا کرتاہوں۔ ہروقت اپنی بیٹیوں کی عزتوں کا خیال ستاتا رہتاہے۔ بیمارہوجائیں توکہیں علاج کیلئے نہیں جاسکتے۔ بچوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں۔
ہمیں پناہ گزین کا درجہ دیدیا جائے توعالمی ادارے ہمیں امدادفراہم کرسکتے ہیں۔ ہم مہاجر بن کرآئے تھے لیکن یہاں روہنگیا ہوناگالی بن چکا ہے ۔دوسری طرف بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی وجہ سے کاکس بازاراوردیگرعلاقوں میں جرائم کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔