سانحہ بلدیہ تفتیشی افسر اور سرکاری وکیل میں قتل کے مقدمے پر اختلاف مالکان کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ
فیکٹری مالکان کیخلاف قتل عمد کا الزام شامل کرنے کیلیے دبائو ڈالا گیا، سب انسپکٹر جہانزیب
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس غلام سرورکورائی پر مشتمل سنگل بینچ نے طرفین کے وکلا کے دلائل مکمل ہوجانے پر آتشزدگی کا شکاربلدیہ ٹائون کی گارمنٹس فیکٹری کے مالکان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
پیر کودرخواست ضمانت کی سماعت کے موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹرشازیہ ہنجرہ اورتفتیشی افسرسب انسپکٹرجہانزیب میں شدید اختلافات نظرآئے، سرکاری وکیل شازیہ ہنجرہ کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر کوبولنے سے منع کرتی رہیں اور انھوں نے کہاکہ وہ آئی جی سندھ کو تفتیشی افسرکے رویے کے متعلق خط ارسال کرینگی، دوسری جانب تفتیشی افسر نے انکشاف کیاکہ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عمد کا الزام شامل کرنے کیلیے ایم ڈی سائٹ نے دبائو ڈالا تھا، انھوں نے کھلی عدالت میں دعویٰ کیاکہ اگرکوئی یہ ثابت کردے کہ کہ فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہونیوالی اموات قتل عمد تعزیرات پاکستان کی دفعہ302کے زمرے میں آتی ہیں تو وہ اپنی گردن کٹانے کیلیے تیار ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم راجا پرویزاشرف کے اعلان سے قبل ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عمدکا نہیں مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بنتا ہے۔ تفتیشی افسر نے انکشاف کیاکہ مینجنگ ڈائریکٹر سائٹ نے ان پر دبائو ڈالاتھا کہ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عمد کا مقدمہ درج کیا جائے،تاہم سرکاری وکیل شازیہ ہنجرہ نے مالکان ارشد بھائیلہ ،شاہد بھائیلہ ، منیجر منصوراحمد کی ضمانت پر رہائی کیخلاف دلائل دیتے ہوئے وہی پراناموقف اختیارکیاکہ فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے فیکٹری کے دروازے بند کرائے گئے ۔
جس کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوا۔ این جی او پائلر کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ ملزمان جیل میں رہتے ہوئے بھی بااثر ہیں ، وزیر اعظم پاکستان انکی حمایت میں بیان دیتے ہیں ، اگر انھیں ضمانت پر رہاکردیا گیاتو وہ مقدمے کی تفتیش پر اثرانداز ہونگے، فیکٹری مالکان کے وکیل عامر رضا نقوی اور منیجر منصورکے وکیل خواجہ شمس الاسلام کاموقف تھاکہ ان کے موکلان کے خلاف قتل کا الزام بدنیتی پر مبنی ہے۔
پیر کودرخواست ضمانت کی سماعت کے موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹرشازیہ ہنجرہ اورتفتیشی افسرسب انسپکٹرجہانزیب میں شدید اختلافات نظرآئے، سرکاری وکیل شازیہ ہنجرہ کمرہ عدالت میں تفتیشی افسر کوبولنے سے منع کرتی رہیں اور انھوں نے کہاکہ وہ آئی جی سندھ کو تفتیشی افسرکے رویے کے متعلق خط ارسال کرینگی، دوسری جانب تفتیشی افسر نے انکشاف کیاکہ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عمد کا الزام شامل کرنے کیلیے ایم ڈی سائٹ نے دبائو ڈالا تھا، انھوں نے کھلی عدالت میں دعویٰ کیاکہ اگرکوئی یہ ثابت کردے کہ کہ فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہونیوالی اموات قتل عمد تعزیرات پاکستان کی دفعہ302کے زمرے میں آتی ہیں تو وہ اپنی گردن کٹانے کیلیے تیار ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم راجا پرویزاشرف کے اعلان سے قبل ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عمدکا نہیں مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بنتا ہے۔ تفتیشی افسر نے انکشاف کیاکہ مینجنگ ڈائریکٹر سائٹ نے ان پر دبائو ڈالاتھا کہ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عمد کا مقدمہ درج کیا جائے،تاہم سرکاری وکیل شازیہ ہنجرہ نے مالکان ارشد بھائیلہ ،شاہد بھائیلہ ، منیجر منصوراحمد کی ضمانت پر رہائی کیخلاف دلائل دیتے ہوئے وہی پراناموقف اختیارکیاکہ فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے فیکٹری کے دروازے بند کرائے گئے ۔
جس کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوا۔ این جی او پائلر کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ ملزمان جیل میں رہتے ہوئے بھی بااثر ہیں ، وزیر اعظم پاکستان انکی حمایت میں بیان دیتے ہیں ، اگر انھیں ضمانت پر رہاکردیا گیاتو وہ مقدمے کی تفتیش پر اثرانداز ہونگے، فیکٹری مالکان کے وکیل عامر رضا نقوی اور منیجر منصورکے وکیل خواجہ شمس الاسلام کاموقف تھاکہ ان کے موکلان کے خلاف قتل کا الزام بدنیتی پر مبنی ہے۔