اب انھیں ڈھونڈ…
سائیں سانگی کا ایک تو پڑھانے کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ ازبرکیا دل پر نقش ہوجاتا تھا
جس طرح آج کل 3 سال کا بچہ نرسری کلاس میں داخلہ لے کر اسکول جانا اور پڑھنا شروع کرتا ہے ویسے پرانے وقتوں میں اس عمر کے بچوں کو پہلے قرآن پاک پڑھنے کے لیے بٹھایا جاتا تھا۔ میں بھی محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ جامع مسجد جایا کرتا تھا جس کے خطیب مولوی عسکری صاحب نمازِ فجر کے فوراً بعد پڑھانے بیٹھتے تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے، وہی میرے پہلے استاد تھے۔ 2 سال میں قرآن مجید ( ناظرہ) ختم کرکے میں نے پہلی کلاس میں داخلہ لیا۔گورنمنٹ پرائمری اسکول ٹنڈوغلام علی کے جنرل رجسٹر میں میری تاریخ پیدائش 12 اپریل 1944ء اور عمر 5 سال درج ہے۔ پرائمری تعلیم کے 4 درجے ہوتے تھے جو پاس کرنے کے بعد مڈل یا ہائی اسکول کے پہلے درجے میں داخلہ ملتا تھا۔ پرائمری تعلیم مادری زبان میں دی جاتی تھی اور صبح سے شام تک پڑھایا جاتا تھا، درمیان میں بچوں کوکھیلنے کودنے اورفریش ہونے کے لیے ایک ایک گھنٹہ دورانیے کے دو وقفے دیے جاتے تھے۔ پڑھائی خاصی سخت ہوتی تھی مگر اس سے بھی زیادہ سخت نگرانی کا نظام قائم تھا، یہ چیک کرنے کے لیے کہ پڑھانے والے کیا اورکیسے پڑھاتے ہیں نیز پڑھنے والے بچوں کا ریسپانس کیسا ہے۔
مادری زبان ہی میں مزید 3 درجے پڑھ کر 7 ویں درجے میں ورنی کیولر فائنل کا امتحان دیا جاتا تھا جو پاس کرنے والے ایسی کئی سرکاری نوکریوں کے لیے اہل مانے جاتے تھے جو آج کل گریجویٹس کو بھی نہیں ملتیں۔ انگریزی تیسرے درجے کے طلبہ کو بھی اس امتحان میں بیٹھنے کی اجازت تھی، دوسری صورت میں وہ ساتویں درجے میں میٹرک کا امتحان دیتے تھے جو اس زمانے میں یونیورسٹی لیتی تھی۔ مجھے پرائمری اسکول میں سائیں کریم بخش جیسے انتہائی شفیق، مہربان اور قابل استاد ملے جو مشنری جذبے سے عبادت سمجھ کر پڑھاتے اور بچوں کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ میں نے ان سے تختی لکھنا ہی نہیں سیکھی، پرائمری کے چاروں درجے بھی پڑھے۔ مڈل اسکول میں البتہ ایک سے زیادہ اساتذہ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں سے سائیں گل حسن آرائیں پہلے درجے میں 'او' نب والی اسٹیل سے ہاتھ پکڑکر اے بی سی لکھنا سکھاتے تھے، جب کہ سائیں موج علی شاہ نے (جو بمبئی یونیورسٹی کے میٹریکیولیٹ اورہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے ) تیسرے درجے تک انگریزی پڑھائی۔ چوتھے اور پانچویں درجے میں ہمارے کلاس ٹیچر سائیں خان محمدسانگی تھے اور وہی انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔
آخر الذکر دونوں اساتذہ جتنے قابل تھے، اپنی وضع قطع سے ویسے لگتے نہیں تھے۔ سادگی پسند تھے اور ان میں بڑائی کا شائبہ تک نہ تھا۔ سائیں موج علی شاہ کی انگریزی اتنی اچھی تھی کہ کہتے ہیں میر بندہ علی خان جب اپنی تعلیم مکمل کرکے طویل عرصے کے بعد لندن سے وطن لوٹے تو اپنی زبان تک بھول چکے تھے اور صرف انگریزی بولتے تھے۔ان کے والد میرحاجی محمد حسن جب اپنے اکلوتے بیٹے سے کوئی بات کرنا چاہتے تو پہلے سائیں موج علی شاھ کو بلوایا جاتا جو دونوں کے درمیان مترجم بن کر بیٹھتے تھے۔اسکول میں بھی جب ان سے کسی انگریزی لفظ کے معنیٰ پوچھے جاتے تو وہ پہلے تو اس کا تلفظ صحیح کرتے اور پھر معنیٰ بتانے سے پہلے اس کے کم ازکم دو تین متبادل لفظ بھی بتاتے تھے۔ ہمارے اکثر ٹیچرز ان کے لیے کہتے تھے کہ انھوں نے آکسفورڈ ڈکشنری حفظ کر رکھی ہے جب کہ خود ان کا اپنا حال یہ تھا کہ اگرکسی لفظ کے معنیٰ پوچھے جاتے تو کہتے سائیں موج علی شاہ سے پوچھ لینا۔
سائیں سانگی کا ایک تو پڑھانے کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ ازبرکیا دل پر نقش ہوجاتا تھا اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، دوسرے وہ اپنے شاگردوں پر ذخیرہ الفاظ بڑھانے کے لیے بہت زور دیتے تھے تاکہ ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ریٹائر ہونے کے بعد پینشن کے کاغذات وغیرہ بنوانے کراچی آئے تو مجھ سے ملنے اخبارکے دفتر تشریف لائے۔ نیوز روم ہی میں میرے ساتھ والی کرسی پر اپنے مخصوص انداز میں 'کانبھ' باندھے بیٹھے پتے کی بیڑی کے کش لگا رہے تھے۔ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا اشتہار، جسے ہم ہاتھی کہا کرتے تھے، ترجمہ کر رہا تھا۔ اس کا آخری پیرا شاعرانہ قسم کا ہوتا تھا جس کے کسی لفظ کے معنیٰ یاد نہیں آرہے تھے، مجھے یاد داشت پر زور دیتا دیکھ کر ایک ساتھی سب ایڈیٹر نے ڈکشنری دیکھنے کا مشورہ دیا تو ان سے رہا نہ گیا، بولے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ میرا شاگرد ہے، ڈکشنری کو ہاتھ لگا کر دیکھے، اس کی گردن نہ مروڑ دوں تو میرا نام نہیں اورواقعی انھوں نے ابھی جملہ پورا نہ کیا تھا کہ مجھے مطلوبہ معنی یاد آگئے۔
اس زمانے کے دوسرے یاد رکھے جانے کے لائق اساتذہ میں سائیں اللہ ڈنو اور مولوی نبی حسن خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو بالترتیب ہمارے ڈرائنگ اور عربی ٹیچر ہوا کرتے تھے۔ تیسرے درجے میں پڑھتے تھے جب میں نے ایلیمنٹری گریڈ ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا تھا۔ اس کی تیاری سائیں اللہ ڈنو ہی نے کروائی تھی اور امتحان دلوانے ہمیں ٹنڈو باگو لے کر گئے تھے جہاں میرغلام محمد تالپور (جو مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے بانی کی طرح سندھ کے سرسیدکہلاتے تھے) کے قائم کردہ ہائی اسکول ''مدرسہ'' میں ہمارا سینٹر پڑا تھا۔ ڈرائنگ کے ذکر سے مولوی صاحب کی ایک دلچسپ بات یاد آگئی،آپ بھی سن لیجیے۔ ان دنوں ڈرائنگ کے امتحان کے لیے ہماری تیاری زوروں پر تھی۔ مولوی صاحب عربی کا پیریڈ لے رہے تھے، انھوں نے آخری قطار میں بیٹھے ہوئے ایک لڑکے کو دیکھا کہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں دے رہا اورگردن جھکائے کچھ لکھنے میں مصروف ہے۔ جاکر دیکھا تو فری ہینڈ ڈرائنگ کی پریکٹس کررہا تھا، پوچھا کیا کررہے ہو،اس نے کہا فری ہینڈ... ، ابھی وہ جملہ پورا بھی نہ کر پایا تھا کہ مولوی صاحب نے اسے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اورکہا یہ ہوتا ہے فری ہینڈ، اب ڈرائنگ تم بناؤ۔
میری چھوٹی بیٹی حافظہ فاطمہ، جوکراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر آف فارمیسی کے آخری سال کی طالبہ ہے، بہت چڑتی ہے جب میں اپنی تعلیمی قابلیت آٹھویں جماعت بتاتا ہوں مگر حقیقت یہی ہے کیونکہ میں نے اسکول میں ریگیولر طالب علم کی حیثیت سے یہیں تک پڑھا تھا، پانچواں درجہ پاس کرنے تک ہمارا اسکول اپ گریڈ ہوکر ہائی اسکول نہیں بنا تھا، دوسرے شہر بھیج کر پڑھانا ابا اپنی محدود آمدنی میں ''افورڈ'' نہیں کرسکتے تھے کہ میرے بڑے بھائی پہلے ہی نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد میں پڑھتے اور ہاسٹل میں رہتے تھے۔ یوں میں نے اپنی باقی تعلیم کماتے کھاتے بیرونی طالبعلم کی حیثیت سے امتحانات دے کر مکمل کی، حتیٰ کہ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کرتے وقت بھی میں بطور سب ایڈیٹر اخبار میں کام کرتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے، نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ مجھے وسیع مشاہداتی علم بھی نصیب ہوا، پڑھنے کا ویسے ہی بہت شوق تھا، آخری کاپی جانے کے بعد رات کو ڈیڑھ دو بجے گھر پہنچتا تھا، تھکا ہوا ہوتا تھا لیکن کچھ پڑھے بغیر نیند نہیں آتی تھی، تنخواہ ملتی تو پہلے ریگل جاکر'' تھامس اینڈ تھامس'' سے کوئی کتاب خریدتا، پھرگھرجاتا تھا۔
حال ہی میں جب میں نے اپنی کتابیں ایک پبلک لائبریری کو عطیہ کیں تو ایک صاحب نے پوچھا اتنی کتابیں آپ کے پاس کہاں سے آئیں، میں نے کہا فکر نہ کریں چوری کی نہیں، میری اپنی ہیں۔ بہت پڑھا اور پڑھتا ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ تعلیم وہی پائی جو ان اساتذہ کرام سے ودیعت ہوئی، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے بھردے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
مادری زبان ہی میں مزید 3 درجے پڑھ کر 7 ویں درجے میں ورنی کیولر فائنل کا امتحان دیا جاتا تھا جو پاس کرنے والے ایسی کئی سرکاری نوکریوں کے لیے اہل مانے جاتے تھے جو آج کل گریجویٹس کو بھی نہیں ملتیں۔ انگریزی تیسرے درجے کے طلبہ کو بھی اس امتحان میں بیٹھنے کی اجازت تھی، دوسری صورت میں وہ ساتویں درجے میں میٹرک کا امتحان دیتے تھے جو اس زمانے میں یونیورسٹی لیتی تھی۔ مجھے پرائمری اسکول میں سائیں کریم بخش جیسے انتہائی شفیق، مہربان اور قابل استاد ملے جو مشنری جذبے سے عبادت سمجھ کر پڑھاتے اور بچوں کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ میں نے ان سے تختی لکھنا ہی نہیں سیکھی، پرائمری کے چاروں درجے بھی پڑھے۔ مڈل اسکول میں البتہ ایک سے زیادہ اساتذہ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان میں سے سائیں گل حسن آرائیں پہلے درجے میں 'او' نب والی اسٹیل سے ہاتھ پکڑکر اے بی سی لکھنا سکھاتے تھے، جب کہ سائیں موج علی شاہ نے (جو بمبئی یونیورسٹی کے میٹریکیولیٹ اورہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے ) تیسرے درجے تک انگریزی پڑھائی۔ چوتھے اور پانچویں درجے میں ہمارے کلاس ٹیچر سائیں خان محمدسانگی تھے اور وہی انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔
آخر الذکر دونوں اساتذہ جتنے قابل تھے، اپنی وضع قطع سے ویسے لگتے نہیں تھے۔ سادگی پسند تھے اور ان میں بڑائی کا شائبہ تک نہ تھا۔ سائیں موج علی شاہ کی انگریزی اتنی اچھی تھی کہ کہتے ہیں میر بندہ علی خان جب اپنی تعلیم مکمل کرکے طویل عرصے کے بعد لندن سے وطن لوٹے تو اپنی زبان تک بھول چکے تھے اور صرف انگریزی بولتے تھے۔ان کے والد میرحاجی محمد حسن جب اپنے اکلوتے بیٹے سے کوئی بات کرنا چاہتے تو پہلے سائیں موج علی شاھ کو بلوایا جاتا جو دونوں کے درمیان مترجم بن کر بیٹھتے تھے۔اسکول میں بھی جب ان سے کسی انگریزی لفظ کے معنیٰ پوچھے جاتے تو وہ پہلے تو اس کا تلفظ صحیح کرتے اور پھر معنیٰ بتانے سے پہلے اس کے کم ازکم دو تین متبادل لفظ بھی بتاتے تھے۔ ہمارے اکثر ٹیچرز ان کے لیے کہتے تھے کہ انھوں نے آکسفورڈ ڈکشنری حفظ کر رکھی ہے جب کہ خود ان کا اپنا حال یہ تھا کہ اگرکسی لفظ کے معنیٰ پوچھے جاتے تو کہتے سائیں موج علی شاہ سے پوچھ لینا۔
سائیں سانگی کا ایک تو پڑھانے کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ ازبرکیا دل پر نقش ہوجاتا تھا اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، دوسرے وہ اپنے شاگردوں پر ذخیرہ الفاظ بڑھانے کے لیے بہت زور دیتے تھے تاکہ ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ریٹائر ہونے کے بعد پینشن کے کاغذات وغیرہ بنوانے کراچی آئے تو مجھ سے ملنے اخبارکے دفتر تشریف لائے۔ نیوز روم ہی میں میرے ساتھ والی کرسی پر اپنے مخصوص انداز میں 'کانبھ' باندھے بیٹھے پتے کی بیڑی کے کش لگا رہے تھے۔ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا اشتہار، جسے ہم ہاتھی کہا کرتے تھے، ترجمہ کر رہا تھا۔ اس کا آخری پیرا شاعرانہ قسم کا ہوتا تھا جس کے کسی لفظ کے معنیٰ یاد نہیں آرہے تھے، مجھے یاد داشت پر زور دیتا دیکھ کر ایک ساتھی سب ایڈیٹر نے ڈکشنری دیکھنے کا مشورہ دیا تو ان سے رہا نہ گیا، بولے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ میرا شاگرد ہے، ڈکشنری کو ہاتھ لگا کر دیکھے، اس کی گردن نہ مروڑ دوں تو میرا نام نہیں اورواقعی انھوں نے ابھی جملہ پورا نہ کیا تھا کہ مجھے مطلوبہ معنی یاد آگئے۔
اس زمانے کے دوسرے یاد رکھے جانے کے لائق اساتذہ میں سائیں اللہ ڈنو اور مولوی نبی حسن خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو بالترتیب ہمارے ڈرائنگ اور عربی ٹیچر ہوا کرتے تھے۔ تیسرے درجے میں پڑھتے تھے جب میں نے ایلیمنٹری گریڈ ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا تھا۔ اس کی تیاری سائیں اللہ ڈنو ہی نے کروائی تھی اور امتحان دلوانے ہمیں ٹنڈو باگو لے کر گئے تھے جہاں میرغلام محمد تالپور (جو مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے بانی کی طرح سندھ کے سرسیدکہلاتے تھے) کے قائم کردہ ہائی اسکول ''مدرسہ'' میں ہمارا سینٹر پڑا تھا۔ ڈرائنگ کے ذکر سے مولوی صاحب کی ایک دلچسپ بات یاد آگئی،آپ بھی سن لیجیے۔ ان دنوں ڈرائنگ کے امتحان کے لیے ہماری تیاری زوروں پر تھی۔ مولوی صاحب عربی کا پیریڈ لے رہے تھے، انھوں نے آخری قطار میں بیٹھے ہوئے ایک لڑکے کو دیکھا کہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں دے رہا اورگردن جھکائے کچھ لکھنے میں مصروف ہے۔ جاکر دیکھا تو فری ہینڈ ڈرائنگ کی پریکٹس کررہا تھا، پوچھا کیا کررہے ہو،اس نے کہا فری ہینڈ... ، ابھی وہ جملہ پورا بھی نہ کر پایا تھا کہ مولوی صاحب نے اسے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اورکہا یہ ہوتا ہے فری ہینڈ، اب ڈرائنگ تم بناؤ۔
میری چھوٹی بیٹی حافظہ فاطمہ، جوکراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر آف فارمیسی کے آخری سال کی طالبہ ہے، بہت چڑتی ہے جب میں اپنی تعلیمی قابلیت آٹھویں جماعت بتاتا ہوں مگر حقیقت یہی ہے کیونکہ میں نے اسکول میں ریگیولر طالب علم کی حیثیت سے یہیں تک پڑھا تھا، پانچواں درجہ پاس کرنے تک ہمارا اسکول اپ گریڈ ہوکر ہائی اسکول نہیں بنا تھا، دوسرے شہر بھیج کر پڑھانا ابا اپنی محدود آمدنی میں ''افورڈ'' نہیں کرسکتے تھے کہ میرے بڑے بھائی پہلے ہی نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد میں پڑھتے اور ہاسٹل میں رہتے تھے۔ یوں میں نے اپنی باقی تعلیم کماتے کھاتے بیرونی طالبعلم کی حیثیت سے امتحانات دے کر مکمل کی، حتیٰ کہ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کرتے وقت بھی میں بطور سب ایڈیٹر اخبار میں کام کرتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے، نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ مجھے وسیع مشاہداتی علم بھی نصیب ہوا، پڑھنے کا ویسے ہی بہت شوق تھا، آخری کاپی جانے کے بعد رات کو ڈیڑھ دو بجے گھر پہنچتا تھا، تھکا ہوا ہوتا تھا لیکن کچھ پڑھے بغیر نیند نہیں آتی تھی، تنخواہ ملتی تو پہلے ریگل جاکر'' تھامس اینڈ تھامس'' سے کوئی کتاب خریدتا، پھرگھرجاتا تھا۔
حال ہی میں جب میں نے اپنی کتابیں ایک پبلک لائبریری کو عطیہ کیں تو ایک صاحب نے پوچھا اتنی کتابیں آپ کے پاس کہاں سے آئیں، میں نے کہا فکر نہ کریں چوری کی نہیں، میری اپنی ہیں۔ بہت پڑھا اور پڑھتا ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ تعلیم وہی پائی جو ان اساتذہ کرام سے ودیعت ہوئی، اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے بھردے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر