مہاتما بدھ کے ہاتھ میں خنجر کس نے دیا
بدھ بھکشو صدیوں سے اپنی جماعت سے عدم تشدد کی دعوت دیتے چلے آرہے ہیں
جین مت اور بدھ مت ہندو دھرم کی کوکھ سے جنم لینے والے دو ایسے گروہ تھے جن کے بانیوں نے نہ صرف ہندو فلسفے پر کاری ضرب لگائی بلکہ عدم تشدد کے فلسفے کو ایک نئی جہت عطا کرتے ہوئے عام انسانوں کو توہم پرستی سے دور رکھنے کے اصول بھی وضع کیے۔دونوںگروہوں کے بانی گوتم اور مہابیرکی تعلیمات میں کسی بھگوان یا اوتار کی کوئی گنجائش نہیںتھی بلکہ انھوں نے جانوروں پر رحم اورخلق خدا سے محبت کو ہی نجات کا سب سے بڑا ذریعہ بتایا تھا۔اسی بنا پر ہندو فلسفے میں جین مت اور بدھ مت کے فلسفے کو ناستک (کسی ماورائی طاقت کو نہ ماننے والا) کہا جاتا ہے۔وقت گزرنے اور ہندو مذہب کے اثرات کی وجہ سے ان تحریکوں نے بھی مذاہب کی صورت اختیارکرلی اوردونوں مذاہب میں دو بڑے فرقوں کی ابتدا ہوئی۔
جین مت میں دگامبر(عریاں) اورسویتامبر( سفید لباس پہنے والے) کے نام سے اور بدھ مت میں مہایان(بڑا پہیہ) اور تھیر واد (عام لوگوں کی بات)کے نام سے دو فرقوں کی بنیاد پڑی۔ مہایان کوبدھ مت کی ابتدائی شاخ سمجھا جاتا ہے جو پہلی صدی کے آس پاس کے زمانے میں قائم ہوا اورتھیرواد اس کے بعد وجودمیں آیا۔ برصغیر سے جنم لینے والا بدھ مت جب چین، جاپان،کوریا تائیوان،تبت، بھوٹان منگولیا اور سنگا پور پہنچا تو اسے ماننے والے مہایان فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔دوسری طرف تھیر وادفرقے سے تعلق رکھنے والے سر ی لنکا، برما،کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈاورلاؤس تک پھیل گئے۔ جنوبی ایشیاء میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا تواُس وقت کے برما اورموجودہ میانمارکو بھی آزادی نصیب ہوئی ، لیکن اقتدار منتقل ہونے سے پہلے ہی آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سن کوقتل کر دیا گیا۔تب جنرل آنگ سن کی بیٹی اورمیانمار کی موجودہ سربراہ آنگ سان سوچی کی عمر صرف دوسال تھی۔آنگ سان سوچی کا تعلق بھی بدھ مت کی اسی شاخ ہے جسے تھیر واد کہتے ہیں۔
ہوش سنبھالنے کے بعد آنگ سان سوچی نے تعلیم مکمل کرنے کے لیے طویل عرصہ برطانیہ میں گزارا، وہیں شادی کی اور اس کے ہاں دو بچوں نے جنم لیا۔1988ء میں اپنی ماں کی بیماری کی وجہ سے جب اسے میانمار واپس آنا پڑاتو فوجی حکومت کے خلاف اس کی طویل جدوجہد کا آغاز ہوا، لیکن جلد ہی اسے گرفتارکرلیا گیا اور وہ پندر ہ سال سے زیادہ عرصے تک گھرکی چار دیواری میںمقید رہی ۔گرفتاری کے دوران اسے نہ صرف نوبل پرائز سے نوازا گیا بلکہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والی سب سے بہادرخاتون کے طور پر بھی دنیا بھرکے اہم لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔دوہزار پندرہ کے جنرل الیکشن میں آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کامیابی حاصل کی اور 2016ء کو وہ میانمار کے اسٹیٹ کونسلر کے عہدے پر منتخب ہوئی جو ملک کے سربراہ کے عہدے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اس سے قبل میانمارکے آئین میں تبدیلی کے بعد ایسے شخص سے ملک کا صدر بننے کا حق چھین لیا گیا تھا جس کے بچوں کا تعلق کسی دوسرے ملک سے ہو جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ قانون آنگ سان سوچی کے لیے ہی بنایا گیا تھا۔
آنگ سان سوچی میانمار کی سربراہ تو بن گئی لیکن انسانی حقوق کے شعبے میں اپنا وہ مقام برقرار نہ رکھ سکی جس کے لیے پوری دنیا میں اس کی عزت کی جاتی تھی اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف اس کی لڑائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اس کی شخصیت اورخیالات کی تبدیلی سے پوری دنیا کو تب دھچکا لگا جب میانمارکی اقلیتی روہنگیا مسلم برادری بدھ مت کے پر امن پیروکارکہلانے والوں کے ہاتھوں پے درپے قتل ہونے لگی اورانگ سان سوچی بھی وہی زبان بولنے لگی جو برما کے فوجی گزشتہ دور سے بولتے چلے آرہے تھے۔ یہاں کی مسلم برادری جس کی آبادی4 فی صد کے لگ بھگ تھی، اس وقت اور زیادہ خوف ،ظلم و بربریت اور جنسی تشدد کا شکار ہوئی جب اشین وراتو نامی بدھ بھکشو نے969 تنظیم کے تحت مسلمانوں کومقامی بدھ آبادی کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف پرتشدد مہم کا آغازکیا۔
بدھ بھکشو صدیوں سے اپنی جماعت سے عدم تشدد کی دعوت دیتے چلے آرہے ہیں، مگراشین وراتو نے عدم تشدد کے اوراق کو نفرت کی ہوا میں اڑاتے ہوئے بدھ مت میں ایک پر تشدد دورکا آغاز کیا۔1968ء میں پیدا ہونے والے اس بدھ بھکشو نے چودہ سال کی عمر میں اسکول کو خیرآباد کہنے کے بعد بدھ راہب بننے کی خواہش کوعملی جامہ پہنایا، لیکن اسی دوران مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں اُسے 25سال کی قیدکا حکم سنایا گیا۔ 2012ء میںدوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ وقت سے پہلے رہائی کے بعد اشین وارتو نے نہ صرف سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا بلکہ اسی سال ایک ایسے جلوس کی راہ نمائی کی جو اس وقت کے صدر تھین سن کے حق میں تھا۔
تھین سن کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کسی دوسرے ملک بھیج دینا چاہیے۔اس کے ایک ماہ بعد ہی ریاست رخائن میں فسادات پھوٹ پڑے جو مسلمانوں کا مقدر بن گئے اور عالمی ذرایع ابلاغ نے ان فسادات کو ' بدھ دہشتگردی کا چہرہ' قرار دیا۔ تب سے ان فسادات میں سیکڑوں مسلمان نہ صرف قتل ہوئے بلکہ ان کی بہت بڑی آبادی میانمار سے اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش اور دوسرے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو ئی۔اس موقعے پر میانمار کے صدر نے اشین کو ' بدھ کا بیٹا' اور ایسا انسان قراردیا جو امن کے لیے لڑرہا ہو۔اشین وارتوکے زیر اثر969 کے نام سے کام کرنے والی بدھ تنظیم کو اب میانمار میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا میانمار سے کوئی تعلق نہیں اورایک دن یہ ہمارے ملک پر قبضہ کرلیں گے۔اس کے خیال میں روہنگیا مسلمانوں نے تجارت کے شعبے پر قبضہ کیا اور ہم نے اپنی خریداری سے انھیں امیر بنادیا۔اس کا قول ہے کہ اپنی قوم کے لوگوں سے خریداری کرو،ان سے ہی شادی کرو اورانھیں ہی اپنی جائیداد فروخت کرو۔
میانمار میں بدھ مت جیسے پرامن مذہب کے ماننے والوں کے اس اندازکو دنیا بھر میں حیرت اور دکھ سے دیکھا جارہا ہے اور عالمی سطح پر بدھ مت کی امن پسندی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے میانمارکی آبادی شدت پسندی کی طرف مائل ہوئی،لیکن اس کے ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نہ صرف میانمار بلکہ سری لنکا اور تھائی لینڈ میں بھی بدھ مت کے پیرو کاروں نے مسلمانوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک روا نھیں رکھا۔تھائی لینڈ میں تو ایک بدھ رہنما نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ کمیونسٹوں کو قتل کرنا کوئی گناہ نہیں۔ سری لنکا میں بی بی ایس (بدھ بالاسینا)یعنی بدھوں کی جری فوج کے نام سے جو تنظیم بنائی گئی اس نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس دھرتی کے اصل وارث سنہالی بدھ ہیں مسلمان اور تامل یہاں سے چلے جائیں۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اعتدال پسند بدھسٹ بھی اب شدت پسندوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔
مسلمانوں کی طرف داری کرنے والے ایسے ہی ایک سری لنکن بدھسٹ رہ نما کو ماضی میں اغوا کر کے بے ہوش کیا گیا اور پھر اس کے ختنے کر دیے گئے تھے۔شدت پسند تنظیم کا کہنا تھا کہ ہم اس لیے ان کی تذلیل کررہے ہیں کہ یہ بدھوں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں۔یاد رہے کہ کچھ برس قبل اسی تنظیم کی دعوت پر برما کے شدت پسند راہب اور 969کے رہ نمااشین وارتونے سری لنکا کا دورہ کیا تھا۔اس دورے میں ایک یاداشت پر دستخط ہوئے تھے جس میں یہ درج تھا کہ ایشیاء میںبدھ مت کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔اگر اس تحفظ کا مطلب دہشتگردی ہے تو امن کے پیامبر گوتم بدھ کے ہاتھوں میں بیگناہ انسانوں کو قتل کرنے کے لیے نفرت کا جو خنجر تھمایا گیا اُس میں آنگ سان سوچی کے ساتھ سری لنکا، تھائی لینڈ اور برما کے بدھ راہب بھی شامل ہیں۔
جین مت میں دگامبر(عریاں) اورسویتامبر( سفید لباس پہنے والے) کے نام سے اور بدھ مت میں مہایان(بڑا پہیہ) اور تھیر واد (عام لوگوں کی بات)کے نام سے دو فرقوں کی بنیاد پڑی۔ مہایان کوبدھ مت کی ابتدائی شاخ سمجھا جاتا ہے جو پہلی صدی کے آس پاس کے زمانے میں قائم ہوا اورتھیرواد اس کے بعد وجودمیں آیا۔ برصغیر سے جنم لینے والا بدھ مت جب چین، جاپان،کوریا تائیوان،تبت، بھوٹان منگولیا اور سنگا پور پہنچا تو اسے ماننے والے مہایان فرقے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔دوسری طرف تھیر وادفرقے سے تعلق رکھنے والے سر ی لنکا، برما،کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈاورلاؤس تک پھیل گئے۔ جنوبی ایشیاء میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا تواُس وقت کے برما اورموجودہ میانمارکو بھی آزادی نصیب ہوئی ، لیکن اقتدار منتقل ہونے سے پہلے ہی آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سن کوقتل کر دیا گیا۔تب جنرل آنگ سن کی بیٹی اورمیانمار کی موجودہ سربراہ آنگ سان سوچی کی عمر صرف دوسال تھی۔آنگ سان سوچی کا تعلق بھی بدھ مت کی اسی شاخ ہے جسے تھیر واد کہتے ہیں۔
ہوش سنبھالنے کے بعد آنگ سان سوچی نے تعلیم مکمل کرنے کے لیے طویل عرصہ برطانیہ میں گزارا، وہیں شادی کی اور اس کے ہاں دو بچوں نے جنم لیا۔1988ء میں اپنی ماں کی بیماری کی وجہ سے جب اسے میانمار واپس آنا پڑاتو فوجی حکومت کے خلاف اس کی طویل جدوجہد کا آغاز ہوا، لیکن جلد ہی اسے گرفتارکرلیا گیا اور وہ پندر ہ سال سے زیادہ عرصے تک گھرکی چار دیواری میںمقید رہی ۔گرفتاری کے دوران اسے نہ صرف نوبل پرائز سے نوازا گیا بلکہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والی سب سے بہادرخاتون کے طور پر بھی دنیا بھرکے اہم لوگوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔دوہزار پندرہ کے جنرل الیکشن میں آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کامیابی حاصل کی اور 2016ء کو وہ میانمار کے اسٹیٹ کونسلر کے عہدے پر منتخب ہوئی جو ملک کے سربراہ کے عہدے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اس سے قبل میانمارکے آئین میں تبدیلی کے بعد ایسے شخص سے ملک کا صدر بننے کا حق چھین لیا گیا تھا جس کے بچوں کا تعلق کسی دوسرے ملک سے ہو جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ قانون آنگ سان سوچی کے لیے ہی بنایا گیا تھا۔
آنگ سان سوچی میانمار کی سربراہ تو بن گئی لیکن انسانی حقوق کے شعبے میں اپنا وہ مقام برقرار نہ رکھ سکی جس کے لیے پوری دنیا میں اس کی عزت کی جاتی تھی اور فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف اس کی لڑائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔اس کی شخصیت اورخیالات کی تبدیلی سے پوری دنیا کو تب دھچکا لگا جب میانمارکی اقلیتی روہنگیا مسلم برادری بدھ مت کے پر امن پیروکارکہلانے والوں کے ہاتھوں پے درپے قتل ہونے لگی اورانگ سان سوچی بھی وہی زبان بولنے لگی جو برما کے فوجی گزشتہ دور سے بولتے چلے آرہے تھے۔ یہاں کی مسلم برادری جس کی آبادی4 فی صد کے لگ بھگ تھی، اس وقت اور زیادہ خوف ،ظلم و بربریت اور جنسی تشدد کا شکار ہوئی جب اشین وراتو نامی بدھ بھکشو نے969 تنظیم کے تحت مسلمانوں کومقامی بدھ آبادی کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف پرتشدد مہم کا آغازکیا۔
بدھ بھکشو صدیوں سے اپنی جماعت سے عدم تشدد کی دعوت دیتے چلے آرہے ہیں، مگراشین وراتو نے عدم تشدد کے اوراق کو نفرت کی ہوا میں اڑاتے ہوئے بدھ مت میں ایک پر تشدد دورکا آغاز کیا۔1968ء میں پیدا ہونے والے اس بدھ بھکشو نے چودہ سال کی عمر میں اسکول کو خیرآباد کہنے کے بعد بدھ راہب بننے کی خواہش کوعملی جامہ پہنایا، لیکن اسی دوران مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں اُسے 25سال کی قیدکا حکم سنایا گیا۔ 2012ء میںدوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ وقت سے پہلے رہائی کے بعد اشین وارتو نے نہ صرف سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا بلکہ اسی سال ایک ایسے جلوس کی راہ نمائی کی جو اس وقت کے صدر تھین سن کے حق میں تھا۔
تھین سن کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کسی دوسرے ملک بھیج دینا چاہیے۔اس کے ایک ماہ بعد ہی ریاست رخائن میں فسادات پھوٹ پڑے جو مسلمانوں کا مقدر بن گئے اور عالمی ذرایع ابلاغ نے ان فسادات کو ' بدھ دہشتگردی کا چہرہ' قرار دیا۔ تب سے ان فسادات میں سیکڑوں مسلمان نہ صرف قتل ہوئے بلکہ ان کی بہت بڑی آبادی میانمار سے اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش اور دوسرے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو ئی۔اس موقعے پر میانمار کے صدر نے اشین کو ' بدھ کا بیٹا' اور ایسا انسان قراردیا جو امن کے لیے لڑرہا ہو۔اشین وارتوکے زیر اثر969 کے نام سے کام کرنے والی بدھ تنظیم کو اب میانمار میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا میانمار سے کوئی تعلق نہیں اورایک دن یہ ہمارے ملک پر قبضہ کرلیں گے۔اس کے خیال میں روہنگیا مسلمانوں نے تجارت کے شعبے پر قبضہ کیا اور ہم نے اپنی خریداری سے انھیں امیر بنادیا۔اس کا قول ہے کہ اپنی قوم کے لوگوں سے خریداری کرو،ان سے ہی شادی کرو اورانھیں ہی اپنی جائیداد فروخت کرو۔
میانمار میں بدھ مت جیسے پرامن مذہب کے ماننے والوں کے اس اندازکو دنیا بھر میں حیرت اور دکھ سے دیکھا جارہا ہے اور عالمی سطح پر بدھ مت کی امن پسندی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے میانمارکی آبادی شدت پسندی کی طرف مائل ہوئی،لیکن اس کے ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نہ صرف میانمار بلکہ سری لنکا اور تھائی لینڈ میں بھی بدھ مت کے پیرو کاروں نے مسلمانوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک روا نھیں رکھا۔تھائی لینڈ میں تو ایک بدھ رہنما نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ کمیونسٹوں کو قتل کرنا کوئی گناہ نہیں۔ سری لنکا میں بی بی ایس (بدھ بالاسینا)یعنی بدھوں کی جری فوج کے نام سے جو تنظیم بنائی گئی اس نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس دھرتی کے اصل وارث سنہالی بدھ ہیں مسلمان اور تامل یہاں سے چلے جائیں۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اعتدال پسند بدھسٹ بھی اب شدت پسندوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔
مسلمانوں کی طرف داری کرنے والے ایسے ہی ایک سری لنکن بدھسٹ رہ نما کو ماضی میں اغوا کر کے بے ہوش کیا گیا اور پھر اس کے ختنے کر دیے گئے تھے۔شدت پسند تنظیم کا کہنا تھا کہ ہم اس لیے ان کی تذلیل کررہے ہیں کہ یہ بدھوں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں۔یاد رہے کہ کچھ برس قبل اسی تنظیم کی دعوت پر برما کے شدت پسند راہب اور 969کے رہ نمااشین وارتونے سری لنکا کا دورہ کیا تھا۔اس دورے میں ایک یاداشت پر دستخط ہوئے تھے جس میں یہ درج تھا کہ ایشیاء میںبدھ مت کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔اگر اس تحفظ کا مطلب دہشتگردی ہے تو امن کے پیامبر گوتم بدھ کے ہاتھوں میں بیگناہ انسانوں کو قتل کرنے کے لیے نفرت کا جو خنجر تھمایا گیا اُس میں آنگ سان سوچی کے ساتھ سری لنکا، تھائی لینڈ اور برما کے بدھ راہب بھی شامل ہیں۔