سعودیہ قطر کشیدگی معاملہ فہمی سے کام لیا جائے

اسلامی ریاستوں سعودی عرب اورقطر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی تمام اسلامی ریاستوں اورمسلم امہ کےلیےقابل تشویش ہے

اسلامی ریاستوں سعودی عرب اورقطر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی تمام اسلامی ریاستوں اورمسلم امہ کےلیےقابل تشویش ہے . فوٹو : فائل

اسلامی ریاستوں سعودی عرب اور قطر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی تمام اسلامی ریاستوں اور مسلم امہ کے لیے قابل تشویش ہے۔ قطر اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کے لیے مختلف ممالک کی جانب سے ثالثی کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں، اس سلسلے میں اطلاع ہے کہ 88 سالہ امیر کویت شیخ الصباح تعلقات کی بحالی کے لیے جدہ پہنچ گئے ہیں اور تنازعہ خلیج کے لیے شاہ سلیمان اور دیگر سعودی حکام سے ملاقات کریں گے۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب اردوان بھی قطر اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے والے عرب ممالک کے درمیان ثالثی کے لیے میدان میں آگئے ہیں۔

ترک صدر نے قطر، روس، کویت اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کی ہے جس کا مقصد قطر سے متعلق پیدا ہونے والے تناؤ میں کمی لانا ہے۔ اس سے قبل ایران نے قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر ہمسایہ مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کریں۔ دونوں بڑے اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی کے معاملے کی سنگینی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ جب سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کے ساتھ اپنی بری، بحری اور فضائی سرحدیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کے بعد سے قطر میں افراتفری کا سماں ہے اور ملک بھر میں شہری بڑی مارکیٹوں اور گروسری اسٹورز پر ٹوٹ پڑے ہیں، سپر مارکیٹوں اور اسٹورز میں گاہکوں کا رش دیکھا جاسکتا ہے جو روزمرہ استعمال کی اشیا، خوراک اور پانی کی ٹرالیاں خرید کر لے جارہے ہیں۔


ان اسٹورز کے شیلف اشیا سے بالکل خالی ہوگئے ہیں۔ اس افراتفری سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے جنگ کا سماں ہو۔ اسلامی دنیا کو پہلے ہی کئی خطرات و خدشات کا سامنا ہے، ایسے میں دونوں ریاستوں کے مابین یہ خلیج قابل تشویش ہے، دنیا اس وقت کسی بڑے سانحے کی متحمل نہیں ہوسکتی، خلیج بصرہ میں امن و استحکام کے تحفظ کی خاطر مصالحتی فیصلے لینے کے لیے تمام تر متعلقہ طرفین کو مذاکرات کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ صائب ہوگا کہ قطر کے معاملے میں ہمسایہ ممالک مذاکراتی عمل شروع کریں تاکہ اختلافی امور کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے، پڑوسی مستقل ہوتے ہیں اور سرحدیں بھی تبدیل نہیں کی جا سکتیں، ایسے میں دھونس دھمکی کوئی حل نہیں۔ قطر، سعودیہ تنازعہ میں کہیں غیر فائدہ نہ اٹھا جائیں۔

اس جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف تو امریکا کا کہنا ہے کہ وہ قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی مستقل دیکھنا نہیں چاہتا، اگر خلیجی تعاون کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تو وہ بھی اپنا نمایندہ بھیجے گا۔ دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے دورے کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میرے دباؤ پر عرب ممالک نے دہشتگردی کا مقابلہ شروع کیا، دہشتگردی کا مقابلہ کرتے ہوئے قطری ریاست کو تنہا کیا گیا، قطرکو انتہاپسندی کی مالی معاونت کرنے پر اقدامات کا سامنا ہے۔ دونوں ریاستوں کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا۔ سعودی عرب میں قطری ٹی وی چینل الجزیرہ کے دفاتر کی بندش، بندرگاہوں پر قطری بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے اور فضائی کمپنیوں کے قطر آنے جانے پر پابندی سمیت بینکنگ معاملات کا موقوف ہونا تشویش کا باعث ہے۔ عالم اسلام کی نمایندہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے قطر پر زور دیا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم امہ اور تمام اسلامی ریاستیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں اور باہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی جانب پیش رفت کریں۔
Load Next Story