موزے پہن کر دوڑ

کینیا کے کھلاڑی نے 23 کلومیٹر طویل میراتھن جیت لی

کینیا کے کھلاڑی نے 23 کلومیٹر طویل میراتھن جیت لی۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
گذشتہ ہفتے عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر میکسیکو سے تعلق رکھنے والی ایک غریب لڑکی کا چرچا رہا جس نے چپلیں پہن کر پچاس کلومیٹر طویل دوڑ میں حصہ لیا تھا اور اول نمبر پر رہی تھی۔

چند روز قبل ایسا ہی ایک واقعہ یورپی ملک ایسٹونیا میں پیش آیا جہاں تئیس کلومیٹر طویل میراتھن کینیا سے تعلق رکھنے والے جوان نے جیت لی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ستائیس سالہ ابراہیم مکونگا نے ریس کے دوران مخصوص جوتے نہیں صرف موزے پہن رکھے تھے! صرف موزوں میں دوڑتے ہوئے اس نے تمام حریف کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

تارتو ہاف میراتھن ایسٹونیا میں ہر سال منعقد ہوتی ہے جس میں مختلف ممالک کے کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔ دوڑ میں شرکت کے لیے کینیا سے ابراہیم مکونگا کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ابراہیم کا بالکل ارادہ نہیں تھا کہ وہ رننگ شوز پہنے بغیر میراتھن میں حصہ لے گا، تاہم صورت حال کچھ ایسی بنی کہ اسے جوتوں کے بغیر دوڑنا پڑا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ابراہیم دوڑ کے مخصوص مقام پر وقت سے پہلے پہنچ گیا تھا۔ اس نے اپنے رننگ شوز حفاظت کے لیے انتظامیہ کے کسی فرد کو پکڑا دیے تھے کہ دوڑ شروع ہونے سے پہلے لے لوں گا۔

مگر عین وقت پر وہ اہل کار غائب ہوگیا۔ تلاش بسیار کے باوجود جب وہ شخص نہ ملا تو ابراہیم نے منتظمین کو آگاہ کیا۔ دوڑ شروع ہونے میں وقت کم رہ گیا تھا۔ اب نہ تو ابراہیم کے لیے مارکیٹ سے جوتے خریدے جاسکتے تھے اور نہ ہی میراتھن کا آغاز تاخیر سے ہوسکتا تھا۔ چناں چہ انتظامیہ نے وہاں موجود تماشائیوں سے درخواست کی کہ اگر کسی کے پاس رننگ شوز ہیں تو مہربانی کرتے ہوئے انھیں پہنچادے، مگر ابراہیم کے پاؤں کے سائز کے جوتے کسی کے پاس نہیں تھے۔ اب ابراہیم کے پاس دو ہی راستے تھے؛ مقابلے سے باہر ہوجائے یا پھر صرف موزے پہن کر دوڑے۔ اس نے مؤخرالذکر راستہ اپنایا۔


میراتھن جیتنے کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے ابراہیم نے کہا،''ابتدا میں مجھے دوڑنے میں بڑی دقت ہورہی تھی، خاص طور سے پختہ ٹریک پر دوڑنا مشکل لگ رہا تھا۔ مگر کچے راستے پر دوڑنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی بلکہ اس پر میں بہت آسانی سے دوڑ رہا تھا، اور پھر بہت جلد میرے پاؤں اس کے عادی ہوگئے۔

دوڑ شروع ہوئی تو گیارھویں کلومیٹر تک پہنچتے پہنچتے ابراہیم سب سے آگے نکل چکا تھا۔بالآخر چار منٹ کے فرق سے وہ دوڑ جیت گیا۔ اس نے ایک گھنٹے تیرہ منٹ اور تئیس سیکنڈ میں فاصلے طے کرکے کم ترین وقت کا ریکارڈ بھی بنادیا۔ دوڑتے دوڑتے ابراہیم کے موزے پھٹ گئے تھے مگر اس نے اپنی رفتار میں کمی نہیں آنے دی تھی اور اسی طرح دوڑتا رہا تھا۔ ابراہیم کے مطابق اس نے خود کو یہ باور کروالیا تھا کہ وہ جوتے پہنے ہوئے ہے اور اسے بس پوری طاقت سے دوڑتے ہوئے یہ ریس ہر حال میں جیتنی ہے۔ اس حیران کُن فتح نے ابراہیم کو ایسٹونیا میں ایک سلیبریٹی بنادیا ہے اور اب اس کے چرچے سوشل میڈیا میں ہورہے ہیں۔

ابراہیم کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چائے کے باغات میں مزدوری کرتا ہے اور مٹی اور گارے سے بنے ہوئے کچے گھر میں رہتا ہے۔ دوڑنے کا شوق اسے بچپن سے تھا۔ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اس نے ازخود دوڑنے کی مشق بھی شروع کردی تھی۔ محنت مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ وہ علاقائی سطح پر ہونے والے دوڑ کے مقابلوں میں شامل ہونے لگا تھا۔ ایسے ہی ایک مقابلے کے دوران اس کی ملاقات ایسوٹنیا کے قومی چیمپیئن ٹائڈریک نرمے سے ہوئی۔ نرمے اس کے ٹیلنٹ کا اندازہ کرلیا تھا۔ پھر اس نے کینیا کے اس پُرعزم نوجوان کو اپنے ساتھ ٹریننگ کرنے کی پیش کش کردی۔

یہ پش کش ابراہیم کے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں تھی۔ چناں چہ وہ پانچ سال تک ایسٹونیا کے قومی چیمپیئن کے ساتھ دوڑنے کی مشق کرتا رہا۔ اس کی محنت رنگ لائی اور اسے مختلف یورپی ممالک میں طویل اور مختصر فاصلے کی دوڑ کے مقابلوں میں شریک کیا جانے لگا۔ ابراہیم اب تک متعدد مقابلے جیت چکا ہے مگر یہ مقابلہ اس کے لیے یادگار مقابلے کی حیثیت رکھتا ہے۔
Load Next Story