طالبان سے مذاکرات کے لئے جے یو آئی ف کی پیشکش

خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ نے نگران سیٹ اپ کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ فروری سے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

خیبر پختونکواہ میں اے این پی اور جے یو آئی (ف) اہم جماعتیں ہیں۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
جمعیت علماء اسلام (ف)بار،بار یہ پیشکش کررہی ہے کہ اس نے طویل اور انتھک محنت کے بعد جو کل قبائل جرگہ تشکیل دیا ہے۔

اسے فاٹا میں قیام امن کے لیے استعمال کیا جائے کیونکہ مذکورہ جرگہ میں تمام قبائلی ایجنسیوں اور ایف آر علاقوں کی نمائندگی موجود ہے اور اس جرگہ کے ارکان نے تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کرتے ہوئے نہ صرف وہاں پر حجرے اور مساجد میں عام لوگوں کے خیالات جانے بلکہ یہ عوام کے قریب بھی ہے، کیونکہ اس جرگہ کے ارکان حکومت یا انتظامیہ کے نامزد کردہ نہیں بلکہ خود قبائلی عوام نے ان نمائندوں کا انتخاب کیا ہے ۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن یہ پیشکش بھی کرچکے ہیں کہ مذکورہ جرگہ طالبان اور حکومت کے درمیان بات چیت کے لیے پل کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے اور حکومت یا طالبان نے آپس میں جو بھی بات چیت کرنی ہو وہ اس کے لیے مذکورہ جرگہ کا استعمال کرسکتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جے یو آئی (ف)نے اس شرط پر اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی بھی حامی بھری ہے کہ اے این پی بھی اس جرگہ سے استفادہ کرتے ہوئے فاٹا میں قیام امن کی راہ ہموار کرے گی ۔ جے یو آئی (ف)کی اس پیشکش کو مرکزی حکومت کی جانب سے سنجیدہ نہیں لیاجارہا حالانکہ ایسے وقت میں جبکہ حکومت کی اتحادی اے این پی فاٹا اور خیبرپختونخوا میں قیام امن کے لیے کوشاں ہے حکومت کو اس پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

اے این پی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہی ہے اس کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس پر تمام سیاسی جماعتوں ،حکومتوں اور اداروں کا اتفاق ہو تاکہ مذاکرات ہوں یا کاروائی سب کے لیے قابل قبول ہو اور یہ سلسلہ اسی صورت میں آگے بڑھ سکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں، حکومتوں اور اداروں کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے کسی لائحہ عمل کے ساتھ باقاعدہ طور پر ٹیم کا بھی اعلان کیاجائے جبکہ جے یو آئی کی پیشکش کی صورت میں حکومت اور اداروں کو بنی بنائی ایسی ٹیم مل جائے گی جس پر اگر دونوں جانب سے اعتماد کا اظہار کردیاجائے تو اس سے کام کافی آسان ہوجائے گا اور اس قبائلی جرگہ کو اپنانے کا حکومت کو یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جے یو آئی بھی اس کے ساتھ اس سارے منظر میں شامل رہے گی۔

جس کا قبائلی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بھی ہے اوروہ قبائلی علاقوں ،خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں قیام امن کے حوالے سے اپنا الگ موقف بھی رکھتی ہے جو حکومتی موقف سے سراسر مختلف ہے کیونکہ اس موقف میں صرف اور صرف مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور اس بات پر زور بھی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا مسلہ حل کیاجاسکتا ہے ،ان حالات میں حکومت اگر اپنے طور پر اقدامات کرنے کے ساتھ جے یو آئی اور اس کی جانب سے تشکیل کردہ اس قبائلی جرگہ سے استفادہ کرتی ہے تو اس کے نتائج ہوسکتا ہے کہ مثبت برآمد ہوں تاہم اگر حکومت اور حکومتی پارٹیاں جو آئندہ الیکشن کی صورت میں ایک مرتبہ پھر عوام کے پاس جانے والی ہیں وہ اپنی منشا کے مطابق پالیسیوں کو چلاتی ہیں تو اس سے کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود حکومتی پارٹیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔


عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے ایک ایسے مرحلہ پر کہ اب موجودہ حکومتوں کی رخصتی میں پچاس سے بھی کم دن رہ گئے ہیں دہشت گردی کے خاتمے کیلیے تمام سیاسی جماعتوں کا اکٹھ کرنا اور مشترکہ پالیسی لے کر چلنے کے اعلانات یقینی طور پر دیگر پارٹیوں کو نہیں بھارہے کیونکہ اب ہر پارٹی اپنی پالیسی کے تحت آئندہ الیکشن کے لیے میدان میں جانے کی تیاری کررہی ہے اور اگر وہ اس وقت اے این پی کے ساتھ آکر بیٹھتی ہیں تو چاہے ایجنڈا ان کا اپنا ہی کیوں نہ ہو اس کا فائدہ اے این پی کو ہی ملے گا جو اس بات کو آئندہ الیکشن میں ضرور استعمال کرے گی کہ جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انہوں نے قربانیاں دیں اور ان کی پارٹی کے سینکڑوں ورکر مارے گئے۔

اسی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے علاج بھی وہی لے کر آئے اور اے این پی نے ہی تمام پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا اور اگر سیاسی پارٹیاں اے این پی کی اس اے پی سی سے خود کو الگ رکھتے ہوئے اس میں شرکت نہیں کرتیں تو اس صورت حال کا فائدہ بھی اے این پی اس انداز میں لینے کی کوشش کرے گی کہ وہ توتمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کرنا چاہتی تھی تاکہ تمام پارٹیاں متفقہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو اس کے مطابق عمل درآمد کرنے پر مجبور کرتیں تاہم سیاسی جماعتوں کے یکجا نہ ہونے کی وجہ سے مشترکہ پالیسی نہ اپنائی جاسکی ورنہ معاملات کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا ،اے این پی اسی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے حالات کو اپنی گرفت میں کرنے کے لیے کوشاں ہے جس میں اسے کس حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کا پتا آنے والے دنوں ہی میں چلے گا۔

حکومت میں شامل پارٹیاں اس حوالے سے بھی مشکلات کا شکار ہیں کہ الیکشن کمیشن نے سرکاری محکموںمیں بھرتیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے وہ راستے بند کردیئے ہیں جن کے ذریعے آنے والے انتخابات میں رائے عامہ کو اپنی جانب موڑا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرکز میں بھی پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں اس سلسلے میں احتجاج کررہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن سے مذکورہ پابندی نگران حکومت کے قیام تک ختم کرالی جائے اور یہ پابندی اس وقت سے عائد کی جائے۔

جب نگران اقتدار سنبھالیں جبکہ خیبرپختونخوا میں بھی یہی صورت حال ہے اسی لیے ایک طرف اگر وزیر صحت سید ظاہرعلی شاہ نے صرف محکمہ صحت کے حوالے سے بھرتیوں پر پابندی ختم کرانے کے لیے چیف الیکشن کمیشنر کے ساتھ رابطہ کیا ہے تو دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان میاں افتخار حسین نے بھی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی اور حکمنامہ پر نظر ثانی کرے کیونکہ اب جبکہ موجودہ حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی صحت ،تعلیم اور دیگر محکموںمیں بڑی تعداد میں بھرتیاں کرنے کی خواہاں ہے تاہم الیکشن کمیشن نے یہ راستہ بند کردیا ہے تاکہ وہ سیاسی پارٹیاں جو اس وقت حکومت میں ہیں وہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہ لے سکیں تاہم اگر الیکشن کمیشن مرکز اور صوبوں کے مطالبہ پر یہ پابندی ختم کردیتا ہے تو اس سے یقینی طور پر برسراقتدار سیاسی پارٹیوں کو آئندہ الیکشن کے لیے کافی فائدہ حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا ۔

خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ نے نگران سیٹ اپ کے قیام کے حوالے سے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ ماہ فروری سے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ایسا ہونے کا امکان بھی ہے کیونکہ اگر حکومتی اتحاد دس مارچ یا اس سے قبل اسمبلیاں تحلیل کرنے پر اتفاق کرتاہے تو اس صورت میں ان کے پاس ایسے تمام فیصلوں کے لیے صرف فروری کا ہی ایک مہینہ ہوگا تاہم اس صورت حال کے باوجود خیبرپختونخوا میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی منظر سے ''غائب''ہیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ صوبائی اسمبلی کے طویل ترین اجلاس میں چند دن ہی شرکت کی بلکہ انہوں نے اب تک دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا آغازبھی نہیں کیا حالانکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے لیے بھی انھیں کافی وقت درکار ہوگا کیونکہ مسلم لیگ(ن)،مسلم لیگ(ق)اورقومی وطن پارٹی تو پارلیمانی پارٹیاں ہیں جن کے پارلیمانی لیڈروں اور قیادت کے ساتھ وہ اسمبلی کے توسط سے ویسے ہی رابطے میں ہیں تاہم ان سے ہٹ کر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ بھی انہوںنے نگران وزیراعلیٰ اور وزراء کے بارے میں مشاورت کرنا ہوگی جو یقینی طور پر ایسی شخصیت کا بحیثیت نگران وزیراعلیٰ تقرر چاہیں گی جو حقیقی معنوں میں غیر جانبدار ہو لیکن اس صورت حال کے باوجود اکرم درانی نے ان جماعتوں کے ساتھ مشاورت شروع نہیں کی حالانکہ مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن نے صلاح مشوروں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس کے بعد وہ وہاں کی متعلقہ حکومتوں کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گی اس لیے اب خیبرپختونخوا میں بھی اکرم درانی جو جے یو آئی کی نمائندگی کررہے ہیں انھیں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت شروع کردینی چاہیے تاکہ وہ وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے لیے بہتر پوزیشن میں آسکیں ۔
Load Next Story