آرگینک فارمنگ سے صحت بخش خوراک کا حصول

پاکستان میں کاشتکاری کے روایتی طریقوں کے باعث فی ایکڑ پیداوار دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سے کم ہے۔

ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ 21 فیصد ہے۔ فوٹو: اسرارالحق/فائل

اکنامک سروے آف پاکستان 2010-11کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاشتکاری کے روایتی طریقوں کے باعث فی ایکڑ پیداوار دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سے کم ہے تاہم ملک میں محفوظ اور صحت بخش خوراک کے حوالے سے لوگوں میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا ہے اور آرگینک فارمنگ کے ذریعے صحت بخش غذائی اجناس کی پیداوار حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے ماحولیات کو نقصان پہنچائے بغیر لائیو اسٹاک کے شعبے کی ترقی میں بھی معاونت ہوتی ہے۔ واضح رہے آرگینک فارمنگ میں کاشتکاری کے لیے مصنوعی کیمیکلز' مصنوعی کھادوں اور زرعی ادویات کا استعمال نہیں کیا جاتا جس سے زمین کی زرخیزی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ بھرپور پیداوار دینے کے قابل بن جاتی ہے۔


یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ 21 فیصد ہے جب کہ یہ شعبہ ملک کی مجموعی افرادی قوت کے 44 فیصد حصے کو روز گار فراہم کر رہا ہے۔ مملکت خداداد پاکستان کے مختلف صوبوں میں قابل کاشت زمین کی زرخیزی کے اپنے اعلیٰ معیار ہیں۔ بعض میدانی زمینوں کے بارے میں تو یہاں تک دعویٰ کیا جاتا کہ اگر ان زمینوں سے مکمل پیداوار حاصل کی جائے تو یہ نہ صرف وطن عزیز کی بھرپور کفالت کر سکتی ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کی خوراک کی ضروریات بھی پوری کر سکتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ قدرتی نعمتوں کی اس قدر فراوانی ہونے کے باوجود ہمیں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے درآمدات کا سہارا لینا پڑتا ہے اور یوں عوام کے لیے بنیادی خوراک کی قیمتیں بھی بین الاقوامی مارکیٹ کے برابر ہو جاتی ہیں جس سے اندرون ملک مہنگائی کے آسمان سے چھونے کا شور مچ جاتا ہے۔

وطن عزیز میں زرعی پیداوار میں کمی کے بہت سے عوامل ہیں جن میں ایک بہت اہم عنصر نہری پانی کی کمی کا مسئلہ ہے بالخصوص ٹیل تک پہنچتے پہنچتے بسا اوقات پانی کی مقدار میں اس قدر کمی ہو جاتی ہے کہ کاشتکار کے لیے اجناس کی کاشت ہی ممکن نہیں رہتی۔ اس سلسلے میں سال میں ایک دو بار بھل صفائی کی مہم بھی شروع کی جاتی ہے تا کہ نہروں میں جمنے والی بھل کو نکال کر پانی کی ٹیل تک فراہمی یقینی بنائی جا سکے مگر کاشتکاروں کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ نہروں کی خواہ کتنی ہی بھل صفائی کیوں نہ کر لی جائے با اثر افراد محکمہ انہار کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ناجائز کھالے کھول لیتے ہیں جس سے پانی بھل صفائی کے باوجود ٹیل تک نہیں پہنچ پاتا۔یہ ایسے مسائل ہیں جنھیں حل کیے بغیر پاکستان میں زراعت ترقی نہیں کرسکتی ۔پاکستان کی وفاقی حکومت کو بھی زرعی شعبے کی زبوں حال پر توجہ دینی چاہیے اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ایک ایسی زرعی پالیسی تشکیل دی جائے جس سے زرعی شعبہ حقیقی معنوں میں ترقی کرسکے۔
Load Next Story