سیاستدان الیکشن اور ووٹر
ہماری اس حکومت نے ایسے حیران کن اور کامیاب کام کر دکھائے ہیں جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
سچے سچے اور سیدھے سادے منتظر پاکستانیوں کے لیے ان کے قومی الیکشن زیادہ دور نہیں۔ بعض سیاستدان یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ الیکشن شاید ملتوی ہو جائیں اور وہ اپنے سرکاری عشرت کدوں میں کچھ وقت مزید بسر کر لیں لیکن ان کی یہ امید میرے خیال میں پوری نہیں ہو گی کیونکہ پاکستان کا مستقبل اب الیکشن پر منحصر ہے کیونکہ سیاستدانوں کے ہاتھوں آخری دموں پر پہنچے ہوئے اس ملک کو عوام کا نئی زندگی کا نیا عزم ہی بچا سکتا ہے اور اس کے اظہار کا موثر ترین اور تسلیم شدہ طریقہ الیکشن ہیں جن میں کسی قوم کے افراد نئے سفر کے لیے اپنی مرضی سے اپنے نئے حکمران منتخب کرتے ہیں۔
الیکشن سے بچنے کی کوشش اور خواہش صرف وہ سیاستدان کر رہے ہیں جن کے پاس ووٹ نہیں ہیں، ان کی جماعتیں ایسی نہیں کہ لوگ انھیں پسند کرتے ہوں یا اگر وہ حکومت میں رہے ہیں تو ان کی حکومت سے لوگ بے زار ہوئے ہیں جس کی واضح مثال ہماری موجودہ حکومت ہے جس نے قوم کو زندگی کے ہر شعبے میں مایوس ہی نہیں کیا سخت بے زار کر دیا ہے۔ ٹیلی فونی پیغام میں ایک لطیفہ بھیجا گیا ہے کہ ایک گداگر فٹ پاتھ پر ہاتھ میں ایک کتبہ لیے بیٹھا تھا جس پر لکھا تھا کہ مجھے کچھ دے دو ورنہ میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے دوں گا اور پھر ایک دن آپ سب میرے ساتھ یہاں بیٹھے ہوں گے۔
ہماری اس حکومت نے ایسے حیران کن اور کامیاب کام کر دکھائے ہیں جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ریلوے، اسٹیل ملز، بجلی گیس وغیرہ کی بندش کا کون پاکستانی سوچ سکتا تھا، کون پاکستانی یہ برداشت کر سکتا تھا کہ اس کا ایک وزیر اعظم توہین عدالت کے الزام میں رخصت ہو اور دوسرا اس کے پاس جانے والا ہو، یہ قومی شرم کی بات ہے اور وزیروں کی تو آپ بات ہی نہ کریں کوئی چور نہیں تو چور کا ساتھی ہے۔ قدرتی بات ہے کہ اونچے حکمرانوں کی بدعنوانی نیچے چپڑاسی تک جاتی ہے اور پوری قومی مشینری میں سرایت کر جاتی ہے۔
اس وبائے عام میں جو لوگ اپنا دامن بچا لیتے ہیں وہ فرشتے ہیں یا پھر شہید۔ شاید ہم انھی فرشتوں اور دیانت دار افسروں کی برکت سے اب تک زندہ ہیں اور الیکشن تک پہنچے ہیں۔ اگر ہم الیکشن کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دنیا میں ہماری عزت بنے یا نہ بنے خود اپنی نظروں میں ہم باعزت ہو جائیں گے اور اس وقت اس بات کی زبردست ضرورت ہے کہ ہمارا اپنے اوپر اعتماد پیدا ہو۔ ہمارے دانشمندوں نے اسی ذوق یقین کو ہماری بنیاد قرار دیا ہے۔
عام حالات دیکھے جائیں تو فضا ایسی مسموم ہے کہ اس میں الیکشن جیسی قومی ہمہ گیر سرگرمی آسان دکھائی نہیں دیتی خصوصاً ان سیاسی جماعتوں کی وجہ سے جن کو الیکشن میں جیتنے کی امید نہیں ہے اور وہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی حرکت کر رہے ہیں۔ الیکشن صرف اندرونی قومی مسئلہ ہی نہیں بیرونی مسئلہ بھی ہے اور بھارت اور اس کا سرپرست امریکا پاکستان کو ہر طرح سے کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نہایت ہی اہم خطے میں جس میں چین بھی واقع ہے پاکستان ایک بہت ہی بنیادی حیثیت کا مالک ہے۔ پاکستان کا محل وقوع بھی اس کی ایک طاقت ہے پاکستانی قوم بھی ایک عالمی طاقت ہے اور ایک ایٹمی طاقت والا ملک پڑوسیوں کی مار کھانے پر تیار نہیں ہے۔ ہمیں اگر کوئی مروائے گا تو وہ ہمارا کوئی سیاستدان ہی ہو گا۔
ہمارا ملک دو ٹکڑے بھی سیاستدانوں نے کیا اور ان سیاستدانوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ بھارت کو وہاں فوج کشی کا بہانہ مل سکا جو اگرچہ ناجائز تھا لیکن ہمارا تو بہت کچھ بگاڑ گیا جس کا ازالہ خدا جانے اب کیسے ہو گا۔ ہم سب اس وقت اپنے سیاستدانوں کی سرگرمیوں اور ان کے کردار کو دیکھ رہے ہیں اور بعض سیاستدان عوام کی نظروں میں مشکوک بھی ہیں۔ پاکستانی جانتے ہیں کہ کون سیاستدان ان کے ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ملک کے بعض کلیدی مقامات اور حصوں میں بدامنی اور خلفشار جان بوجھ کر پھیلایا جا رہا ہے۔
یہی لوگ ہیں جو الیکشن کے انعقاد کے بارے میں خدشات پیدا کرتے رہتے ہیں اور ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ میرے جیسے لوگ بھی انتہائی بادل نخواستہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ الیکشن کا ہونا آسان نہیں ہے۔ امن و امان کی انتہائی بری حالت اور بعض سیاستدانوں کی بدنیتی یہ سب مل کر الیکشن کو مشکل بنا رہی ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے بلکہ حیران کن حد تک ایسی بری اور بے انصافی کی حکومتیں قائم کی گئی ہیں کہ کوئی بھی 'کہیں' سے پیسے لے کر ایک تھیٹر لگا لیتا ہے اور سیاسی دیوالیے اس کے حمایتی بن جاتے ہیں۔ حکمرانوں سے تنگ خلق خدا اسے کوئی نجات دہندہ سمجھ کر گرم گھروں سے باہر نکل آتی ہے ایک کھلے میدان کی سخت سردی میں' درست کہ ان میں ایک بڑی تعداد اس لیڈر کے تعلیمی اداروں کے مجبوروں کی ہے لیکن بہر حال عام لوگ بھی شامل تھے۔
یہ نجات دہندہ بعد میں ان لوگوں سے مل گیا جن سے تنگ آ کر عوام نے اس کا والہانہ استقبال کیا تھا اس کے ایک عجوبہ 'بنکر' میں لوگوں نے دیکھا کہ ان حکمرانوں کے نمایندے اور خود حکمران گلے مل رہے ہیں جپھیاں ڈال رہے ہیں اور قہقہہ زن ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ان لوگوں کو بہت سردی لگی جو یہاں پہلے کھلے آسمان کے نیچے اسلام آباد کا سرد موسم بخوشی برداشت کر رہے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ قارئین سے کیا عرض کریں موجودہ مخدوش حالات میں بات جاری رہے گی۔
الیکشن سے بچنے کی کوشش اور خواہش صرف وہ سیاستدان کر رہے ہیں جن کے پاس ووٹ نہیں ہیں، ان کی جماعتیں ایسی نہیں کہ لوگ انھیں پسند کرتے ہوں یا اگر وہ حکومت میں رہے ہیں تو ان کی حکومت سے لوگ بے زار ہوئے ہیں جس کی واضح مثال ہماری موجودہ حکومت ہے جس نے قوم کو زندگی کے ہر شعبے میں مایوس ہی نہیں کیا سخت بے زار کر دیا ہے۔ ٹیلی فونی پیغام میں ایک لطیفہ بھیجا گیا ہے کہ ایک گداگر فٹ پاتھ پر ہاتھ میں ایک کتبہ لیے بیٹھا تھا جس پر لکھا تھا کہ مجھے کچھ دے دو ورنہ میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے دوں گا اور پھر ایک دن آپ سب میرے ساتھ یہاں بیٹھے ہوں گے۔
ہماری اس حکومت نے ایسے حیران کن اور کامیاب کام کر دکھائے ہیں جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ریلوے، اسٹیل ملز، بجلی گیس وغیرہ کی بندش کا کون پاکستانی سوچ سکتا تھا، کون پاکستانی یہ برداشت کر سکتا تھا کہ اس کا ایک وزیر اعظم توہین عدالت کے الزام میں رخصت ہو اور دوسرا اس کے پاس جانے والا ہو، یہ قومی شرم کی بات ہے اور وزیروں کی تو آپ بات ہی نہ کریں کوئی چور نہیں تو چور کا ساتھی ہے۔ قدرتی بات ہے کہ اونچے حکمرانوں کی بدعنوانی نیچے چپڑاسی تک جاتی ہے اور پوری قومی مشینری میں سرایت کر جاتی ہے۔
اس وبائے عام میں جو لوگ اپنا دامن بچا لیتے ہیں وہ فرشتے ہیں یا پھر شہید۔ شاید ہم انھی فرشتوں اور دیانت دار افسروں کی برکت سے اب تک زندہ ہیں اور الیکشن تک پہنچے ہیں۔ اگر ہم الیکشن کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دنیا میں ہماری عزت بنے یا نہ بنے خود اپنی نظروں میں ہم باعزت ہو جائیں گے اور اس وقت اس بات کی زبردست ضرورت ہے کہ ہمارا اپنے اوپر اعتماد پیدا ہو۔ ہمارے دانشمندوں نے اسی ذوق یقین کو ہماری بنیاد قرار دیا ہے۔
عام حالات دیکھے جائیں تو فضا ایسی مسموم ہے کہ اس میں الیکشن جیسی قومی ہمہ گیر سرگرمی آسان دکھائی نہیں دیتی خصوصاً ان سیاسی جماعتوں کی وجہ سے جن کو الیکشن میں جیتنے کی امید نہیں ہے اور وہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی حرکت کر رہے ہیں۔ الیکشن صرف اندرونی قومی مسئلہ ہی نہیں بیرونی مسئلہ بھی ہے اور بھارت اور اس کا سرپرست امریکا پاکستان کو ہر طرح سے کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نہایت ہی اہم خطے میں جس میں چین بھی واقع ہے پاکستان ایک بہت ہی بنیادی حیثیت کا مالک ہے۔ پاکستان کا محل وقوع بھی اس کی ایک طاقت ہے پاکستانی قوم بھی ایک عالمی طاقت ہے اور ایک ایٹمی طاقت والا ملک پڑوسیوں کی مار کھانے پر تیار نہیں ہے۔ ہمیں اگر کوئی مروائے گا تو وہ ہمارا کوئی سیاستدان ہی ہو گا۔
ہمارا ملک دو ٹکڑے بھی سیاستدانوں نے کیا اور ان سیاستدانوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ بھارت کو وہاں فوج کشی کا بہانہ مل سکا جو اگرچہ ناجائز تھا لیکن ہمارا تو بہت کچھ بگاڑ گیا جس کا ازالہ خدا جانے اب کیسے ہو گا۔ ہم سب اس وقت اپنے سیاستدانوں کی سرگرمیوں اور ان کے کردار کو دیکھ رہے ہیں اور بعض سیاستدان عوام کی نظروں میں مشکوک بھی ہیں۔ پاکستانی جانتے ہیں کہ کون سیاستدان ان کے ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ملک کے بعض کلیدی مقامات اور حصوں میں بدامنی اور خلفشار جان بوجھ کر پھیلایا جا رہا ہے۔
یہی لوگ ہیں جو الیکشن کے انعقاد کے بارے میں خدشات پیدا کرتے رہتے ہیں اور ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ میرے جیسے لوگ بھی انتہائی بادل نخواستہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ الیکشن کا ہونا آسان نہیں ہے۔ امن و امان کی انتہائی بری حالت اور بعض سیاستدانوں کی بدنیتی یہ سب مل کر الیکشن کو مشکل بنا رہی ہیں۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے بلکہ حیران کن حد تک ایسی بری اور بے انصافی کی حکومتیں قائم کی گئی ہیں کہ کوئی بھی 'کہیں' سے پیسے لے کر ایک تھیٹر لگا لیتا ہے اور سیاسی دیوالیے اس کے حمایتی بن جاتے ہیں۔ حکمرانوں سے تنگ خلق خدا اسے کوئی نجات دہندہ سمجھ کر گرم گھروں سے باہر نکل آتی ہے ایک کھلے میدان کی سخت سردی میں' درست کہ ان میں ایک بڑی تعداد اس لیڈر کے تعلیمی اداروں کے مجبوروں کی ہے لیکن بہر حال عام لوگ بھی شامل تھے۔
یہ نجات دہندہ بعد میں ان لوگوں سے مل گیا جن سے تنگ آ کر عوام نے اس کا والہانہ استقبال کیا تھا اس کے ایک عجوبہ 'بنکر' میں لوگوں نے دیکھا کہ ان حکمرانوں کے نمایندے اور خود حکمران گلے مل رہے ہیں جپھیاں ڈال رہے ہیں اور قہقہہ زن ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ان لوگوں کو بہت سردی لگی جو یہاں پہلے کھلے آسمان کے نیچے اسلام آباد کا سرد موسم بخوشی برداشت کر رہے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ قارئین سے کیا عرض کریں موجودہ مخدوش حالات میں بات جاری رہے گی۔