86 سالہ نوجوان فخرالدین جی ابراہیم
اب تو سدھر جاؤ، سچ کو سچ کہو اور جھوٹ کو جھوٹ کہو۔ بلا وجہ فخر الدین جی ابراہیم صاحب پر تنقید اچھی بات نہیں۔
حبیب جالب امن ایوارڈ کمیٹی پاکستان گزشتہ چھ سال سے ہر سال کسی ایک شخصیت کو ان کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیتی ہے۔ اس ایوارڈ کے ساتھ کوئی پیسہ نہیں دیا جاتا، البتہ حبیب جالب کے ٹھکرائے ہوئے کروڑوں روپوں اور مراعات کی طاقت اس ایوارڈ میں ضرور شامل ہوتی ہے۔ اب تک یہ ایوارڈ جن شخصیات کو دیے گئے ہیں، ترتیب وار وہ یہ ہیں۔ گیان چندانی (1948 میں گرفتار ہونے والے پہلے سیاسی قیدی، ممبر کمیونسٹ پارٹی) اعتزا ز احسن، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی (گردوں کے امراض کے ماہر اور غریبوں کا مفت علاج کرنے والے بین الاقوامی شہرت و ایوارڈ یافتہ) محترمہ ڈاکٹر رتھ فاؤ (پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے والی 84 سالہ جرمن خاتون جو گزشتہ 55 سال سے خدمات انجام دے رہی ہیں اور جن کی دن رات محنت کے سبب یہ موذی مرض پاکستان سے تقریباً ختم ہو چکا ہے) اور سال 2012کا حبیب جالب امن ایوارڈ جناب فخر الدین جی ابراہیم صاحب کو دیا گیا۔
اس ایوارڈ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تمام ایوارڈ یافتگان نے یہ ایوارڈ خود وصول کیا۔ ایک بات اور بھی سن لیں، یہ ایوارڈ جن شخصیات نے اپنے ہاتھ سے دیا وہ ہیں، عبدالحمید چھاپرا، جسٹس (ر) رانا بھگوان داس، جناب فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس (ر) وجہیہ الدین احمد، کامریڈ جام ساقی۔
سال 2012 کے ایوارڈ کے حوالے سے میری بہت سی ملاقاتیں فخر الدین جی ابراہیم صاحب سے ہوئیں، ان ملاقاتوں میں ان سے بہت باتیں ہوتی رہیں، میں نے دیکھا وہ ایک پر جوش انسان ہیں، خوش حال مستقبل پر مکمل یقین والے پر جوش انسان! اپنے مقام کا غرور ان میں رتی برابر نہیں ہے اور اکثر یوں ہوا کہ انھوں نے ہی فون کر کے مجھے ملاقات کے لیے بلایا۔
میں نے ایک ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ کچھ اپنے ابتدائی دنوں کے بارے میں بتائیں، یوں میرے سامنے وہ شخصیت لب کشا تھی کہ جن کے دلکش انداز تکلم کا ایک زمانہ شیدائی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ''دیکھو بھائی! میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے ہے۔ پڑھائی میں اچھا تھا، قسمت ساتھ دیتی رہی، اﷲ راہیں کھولتا رہا، میں 1952 میں انگلینڈ سے قانون پڑھ کر آیا، تو کراچی کا شہر تھا اور یہاں کی سڑکیں تھیں، جن پر میں گھومتا پھرتا تھا اور روزگار کی تلاش تھی، ان دنوں زیڈ اے سلہری صاحب سینٹرل جیل کراچی میں نظر بند تھے۔
اس زمانے کے اخبار Evening Time میں ایک کارٹون چھپا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان آگ میں جل رہا ہے۔ اس کارٹون کی اشاعت پر سرکار نے سلہری صاحب کو بند کیا ہوا تھا، سلہری صاحب میرے بڑے مہربان تھے، انگلینڈ میں بھی وہ میرا خیال کیا کرتے تھے لہٰذا میں ان سے ملنے جیل جایا کرتا تھا۔ ایک دن ایک صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کہ یہاں جیل میں کچھ نوجوان طلبا ہیں جنھیں حکومت رہا کرنا چاہتی ہے مگر وہ معافی مانگنے پر تیار نہیں ہیں، آپ اگر چاہیں تو ان نوجوانوں سے مل لیں اور اس معاملے کو نمٹائیں۔
آپ ان کے وکیل بن جائیں، مجھے نہیں پتا کہ ان صاحب کو کس نے بتایا کہ میں وکیل ہوں۔ خیر دوسرے روز میں سلہری صاحب سے ملا اور ان سے جیل میں بند نوجوانوں کے بارے میں پوچھا۔ سلہری صاحب بولے ''یہ طلبا ہیں جن کے کچھ مطالبات ہیں، جس کی وجہ سے احتجاج کرنے پر انھیں گرفتار کیا گیا ہے''۔ یہاں تک گفتگو کرنے کے بعد فخرالدین جی ابراہیم ذرا دیر کو رکے اور پھر اپنی بھنویں اٹھا کر آنکھیں پھیلا کر بولے ''دیکھو بھائی! جانتے ہو وہ نوجوان جو مجھ سے ملا، جو جیل میں بند طلبا کو Lead کر رہا تھا، وہ کون تھا؟'' میں خاموش بیٹھا پوری توجہ سے فخرو بھائی کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے ''وہ نوجوان حسن ناصر تھا۔''
حسن ناصر کا نام سن کر ایک سنسنی سی میرے جسم میں لہرا گئی۔ فخرالدین جی ابراہیم صاحب کہہ رہے تھے ''بھائی! یہ حسن ناصر تھا، جس نے مجھے وکیل بنا دیا''۔
قارئین آئیے! حسن ناصر شہید کو ذرا یاد کر لیں۔ یہ حیدر آباد دکن کے ایک امیر کبیر خاندان کا شہزادہ تھا۔ مگر دل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ (مختصر بیان کر رہا ہوں) لہٰذا حسن ناصر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گیا اور کراچی کے مزدوروں کی جھونپڑیوں میں ان کے ساتھ رہنے لگا، نوجوان حسن ناصر دن رات اسی دھن میں مگن رہتا کہ غریبوں کو ان کے حقوق کیسے ملیں گے۔ طلبا، ملوں کے مزدور، مچھیرے، انھی لوگوں میں حسن ناصر گھومتا پھرتا تھا۔ حکومتی اہل کار سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتے تھے ''حسن ناصر آگے آگے اور خفیہ والے پیچھے پیچھے'' اور پھر 1958میں پہلا فوجی مارشل لاء کے ساتھ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان وارد ہو گئے۔ حسن ناصر گرفتار ہوئے اور انھیں بدنام زمانہ ''قلعہ لاہور'' میں بند کر دیا گیا۔ میاں محمود علی قصوری نے حسن ناصر کا مقدمہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بطور وکیل اپنا نام تاریخ میں لکھوایا۔ (واہ! محمود علی قصوری بھی کیا اچھے انسان تھے) مگر حکومت حسن ناصر کو زیر کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی تھی اور ظالموں نے قلعہ لاہور میں اذیتیں دے دے کر انھیں مار دیا اور خودکشی کا ڈھونگ رچا کر حسن ناصر کو دفنا دیا گیا۔
86 سالہ نوجوان فخر الدین جی ابراہیم کی حق و صداقت کے لیے جاری رہنے والی جدوجہد کا بانی، حسن ناصر شہید تھا جس کے مقدمے سے بطور وکیل فخر و بھائی نے اپنے سنہرے مستقبل کی بنیاد رکھی تھی۔ حسن ناصر شہید کا ذکر کرتے ہوئے ان کا لہجہ پر جوش ہو گیا تھا۔ وہ بتا رہے تھے اس زمانے میں اے ٹی نقوی کمشنر کراچی ہوتے تھے، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد بچل ہوتے تھے۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار مسٹر ڈوسا تھے۔ گفتگو کے دوران حسین شہید سہروردی صاحب کا ذکر آ گیا۔ وہ کہہ رہے تھے ''حسین شہید سہروردی جیسا وکیل میں نے نہیں دیکھا''۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ انتہائی برے حالات میں ہونے والے انتخابات کے لیے ہمیں فخر الدین جی ابراہیم جیسا سربراہ ملا ہے، فخر الدین جی ابراہیم نے اپنی زندگی اندھیروں کے خلاف جدوجہد کرتے گزاری ہے۔ جہاں جہاں مشکل مقام آئے فخرو بھائی وہاں وہاں سے کامران گزر گئے۔ جاہ و ہشم کو ٹھوکروں میں اڑانے والا، اصولوں پر اڑ جانے والا فخرالدین جی ابراہیم نہ کبھی ڈگمگایا ہے اور نہ ہی ڈگمگائے گا۔ ایسے درویش صفت، فقیر منش، سادگی کے پیکر، جرأت و بے باکی کے نشان اپنے چیف الیکشن کمشنر کو ہمیں تنہا نہیں چھوڑنا، ہمیں ان کا مکمل ساتھ دینا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ صاف ستھرا کام الیکشن کمیشن کے سپرد کریں۔ تمام گند صاف کر کے شفاف امیدوار الیکشن کمیشن کے حوالے کریں جو آئین کی دفعات 62 اور 63 پر سو فیصد پورے اترتے ہوں۔ اب تو ملک تباہی کے عین کنارے پر آ گیا ہے۔ اب تو سدھر جاؤ، سچ کو سچ کہو اور جھوٹ کو جھوٹ کہو۔ بلا وجہ فخر الدین جی ابراہیم صاحب پر تنقید اچھی بات نہیں۔ یہ بہت توانا انسان ہیں اور آج بھی روزانہ چالیس منٹ ورزش کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں۔ بظاہر منحنی سے فخرو بھائی فولادی انسان ہیں۔ آخر میں حبیب جالب کے چند اشعار فخر الدین جی ابراہیم کے حوالے سے قارئین کی نذرہیں :
دینا پڑے کچھ بھی ہر جانا، سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا، مت ڈر جانا، سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کرجانا، سچ ہی لکھتے جانا
پل دو پل کے عیش کی خاطر، کیا دبنا، کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مرجانا، سچ ہی لکھتے جانا
لوح جہاں پر نام تمہارا، لکھا رہے گا یونہی
جالب سچ کا دم بھرجانا، سچ ہی لکھتے جانا
اس ایوارڈ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تمام ایوارڈ یافتگان نے یہ ایوارڈ خود وصول کیا۔ ایک بات اور بھی سن لیں، یہ ایوارڈ جن شخصیات نے اپنے ہاتھ سے دیا وہ ہیں، عبدالحمید چھاپرا، جسٹس (ر) رانا بھگوان داس، جناب فخر الدین جی ابراہیم، جسٹس (ر) وجہیہ الدین احمد، کامریڈ جام ساقی۔
سال 2012 کے ایوارڈ کے حوالے سے میری بہت سی ملاقاتیں فخر الدین جی ابراہیم صاحب سے ہوئیں، ان ملاقاتوں میں ان سے بہت باتیں ہوتی رہیں، میں نے دیکھا وہ ایک پر جوش انسان ہیں، خوش حال مستقبل پر مکمل یقین والے پر جوش انسان! اپنے مقام کا غرور ان میں رتی برابر نہیں ہے اور اکثر یوں ہوا کہ انھوں نے ہی فون کر کے مجھے ملاقات کے لیے بلایا۔
میں نے ایک ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ کچھ اپنے ابتدائی دنوں کے بارے میں بتائیں، یوں میرے سامنے وہ شخصیت لب کشا تھی کہ جن کے دلکش انداز تکلم کا ایک زمانہ شیدائی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ''دیکھو بھائی! میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے ہے۔ پڑھائی میں اچھا تھا، قسمت ساتھ دیتی رہی، اﷲ راہیں کھولتا رہا، میں 1952 میں انگلینڈ سے قانون پڑھ کر آیا، تو کراچی کا شہر تھا اور یہاں کی سڑکیں تھیں، جن پر میں گھومتا پھرتا تھا اور روزگار کی تلاش تھی، ان دنوں زیڈ اے سلہری صاحب سینٹرل جیل کراچی میں نظر بند تھے۔
اس زمانے کے اخبار Evening Time میں ایک کارٹون چھپا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان آگ میں جل رہا ہے۔ اس کارٹون کی اشاعت پر سرکار نے سلہری صاحب کو بند کیا ہوا تھا، سلہری صاحب میرے بڑے مہربان تھے، انگلینڈ میں بھی وہ میرا خیال کیا کرتے تھے لہٰذا میں ان سے ملنے جیل جایا کرتا تھا۔ ایک دن ایک صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کہ یہاں جیل میں کچھ نوجوان طلبا ہیں جنھیں حکومت رہا کرنا چاہتی ہے مگر وہ معافی مانگنے پر تیار نہیں ہیں، آپ اگر چاہیں تو ان نوجوانوں سے مل لیں اور اس معاملے کو نمٹائیں۔
آپ ان کے وکیل بن جائیں، مجھے نہیں پتا کہ ان صاحب کو کس نے بتایا کہ میں وکیل ہوں۔ خیر دوسرے روز میں سلہری صاحب سے ملا اور ان سے جیل میں بند نوجوانوں کے بارے میں پوچھا۔ سلہری صاحب بولے ''یہ طلبا ہیں جن کے کچھ مطالبات ہیں، جس کی وجہ سے احتجاج کرنے پر انھیں گرفتار کیا گیا ہے''۔ یہاں تک گفتگو کرنے کے بعد فخرالدین جی ابراہیم ذرا دیر کو رکے اور پھر اپنی بھنویں اٹھا کر آنکھیں پھیلا کر بولے ''دیکھو بھائی! جانتے ہو وہ نوجوان جو مجھ سے ملا، جو جیل میں بند طلبا کو Lead کر رہا تھا، وہ کون تھا؟'' میں خاموش بیٹھا پوری توجہ سے فخرو بھائی کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے ''وہ نوجوان حسن ناصر تھا۔''
حسن ناصر کا نام سن کر ایک سنسنی سی میرے جسم میں لہرا گئی۔ فخرالدین جی ابراہیم صاحب کہہ رہے تھے ''بھائی! یہ حسن ناصر تھا، جس نے مجھے وکیل بنا دیا''۔
قارئین آئیے! حسن ناصر شہید کو ذرا یاد کر لیں۔ یہ حیدر آباد دکن کے ایک امیر کبیر خاندان کا شہزادہ تھا۔ مگر دل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ (مختصر بیان کر رہا ہوں) لہٰذا حسن ناصر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گیا اور کراچی کے مزدوروں کی جھونپڑیوں میں ان کے ساتھ رہنے لگا، نوجوان حسن ناصر دن رات اسی دھن میں مگن رہتا کہ غریبوں کو ان کے حقوق کیسے ملیں گے۔ طلبا، ملوں کے مزدور، مچھیرے، انھی لوگوں میں حسن ناصر گھومتا پھرتا تھا۔ حکومتی اہل کار سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتے تھے ''حسن ناصر آگے آگے اور خفیہ والے پیچھے پیچھے'' اور پھر 1958میں پہلا فوجی مارشل لاء کے ساتھ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان وارد ہو گئے۔ حسن ناصر گرفتار ہوئے اور انھیں بدنام زمانہ ''قلعہ لاہور'' میں بند کر دیا گیا۔ میاں محمود علی قصوری نے حسن ناصر کا مقدمہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بطور وکیل اپنا نام تاریخ میں لکھوایا۔ (واہ! محمود علی قصوری بھی کیا اچھے انسان تھے) مگر حکومت حسن ناصر کو زیر کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی تھی اور ظالموں نے قلعہ لاہور میں اذیتیں دے دے کر انھیں مار دیا اور خودکشی کا ڈھونگ رچا کر حسن ناصر کو دفنا دیا گیا۔
86 سالہ نوجوان فخر الدین جی ابراہیم کی حق و صداقت کے لیے جاری رہنے والی جدوجہد کا بانی، حسن ناصر شہید تھا جس کے مقدمے سے بطور وکیل فخر و بھائی نے اپنے سنہرے مستقبل کی بنیاد رکھی تھی۔ حسن ناصر شہید کا ذکر کرتے ہوئے ان کا لہجہ پر جوش ہو گیا تھا۔ وہ بتا رہے تھے اس زمانے میں اے ٹی نقوی کمشنر کراچی ہوتے تھے، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد بچل ہوتے تھے۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار مسٹر ڈوسا تھے۔ گفتگو کے دوران حسین شہید سہروردی صاحب کا ذکر آ گیا۔ وہ کہہ رہے تھے ''حسین شہید سہروردی جیسا وکیل میں نے نہیں دیکھا''۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ انتہائی برے حالات میں ہونے والے انتخابات کے لیے ہمیں فخر الدین جی ابراہیم جیسا سربراہ ملا ہے، فخر الدین جی ابراہیم نے اپنی زندگی اندھیروں کے خلاف جدوجہد کرتے گزاری ہے۔ جہاں جہاں مشکل مقام آئے فخرو بھائی وہاں وہاں سے کامران گزر گئے۔ جاہ و ہشم کو ٹھوکروں میں اڑانے والا، اصولوں پر اڑ جانے والا فخرالدین جی ابراہیم نہ کبھی ڈگمگایا ہے اور نہ ہی ڈگمگائے گا۔ ایسے درویش صفت، فقیر منش، سادگی کے پیکر، جرأت و بے باکی کے نشان اپنے چیف الیکشن کمشنر کو ہمیں تنہا نہیں چھوڑنا، ہمیں ان کا مکمل ساتھ دینا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ صاف ستھرا کام الیکشن کمیشن کے سپرد کریں۔ تمام گند صاف کر کے شفاف امیدوار الیکشن کمیشن کے حوالے کریں جو آئین کی دفعات 62 اور 63 پر سو فیصد پورے اترتے ہوں۔ اب تو ملک تباہی کے عین کنارے پر آ گیا ہے۔ اب تو سدھر جاؤ، سچ کو سچ کہو اور جھوٹ کو جھوٹ کہو۔ بلا وجہ فخر الدین جی ابراہیم صاحب پر تنقید اچھی بات نہیں۔ یہ بہت توانا انسان ہیں اور آج بھی روزانہ چالیس منٹ ورزش کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں۔ بظاہر منحنی سے فخرو بھائی فولادی انسان ہیں۔ آخر میں حبیب جالب کے چند اشعار فخر الدین جی ابراہیم کے حوالے سے قارئین کی نذرہیں :
دینا پڑے کچھ بھی ہر جانا، سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا، مت ڈر جانا، سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کرجانا، سچ ہی لکھتے جانا
پل دو پل کے عیش کی خاطر، کیا دبنا، کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مرجانا، سچ ہی لکھتے جانا
لوح جہاں پر نام تمہارا، لکھا رہے گا یونہی
جالب سچ کا دم بھرجانا، سچ ہی لکھتے جانا