تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی

دنیا کو بادشاہی اور جمہوریت کے مابین ایک صدی کے لگ بھگ ہونے کو ہیں اور بادشاہ اپنی فطری اور فکری مدت پوری کرنے کو ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

بعض خارجہ امور پر پاکستان کی پالیسیاں مبہم ہیں، جس سے ملک میں انتشار پھیلنے اور فرقہ واریت کی شاخیں نکلنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ خصوصاً جب سے سعودی عرب نے مسلم آرمی کا تصور پیش کیا ہے، کیونکہ کوئی مسلم آرمی اس حیثیت میں نہیں کہ وہ روس یا امریکا سے سینہ زن ہو، لہٰذا ان کا آپس میں ہی تصادم ہونا ناگزیر ہے یا تو وہ امریکا کے ہاتھوں یا روس کے ہاتھوں میں تماشہ بنے رہیں گے۔

اسی لیے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی بھی حلقے سے معاہدہ نہ کریں۔ دنیا کو بادشاہی اور جمہوریت کے مابین ایک صدی کے لگ بھگ ہونے کو ہیں اور بادشاہ اپنی فطری اور فکری مدت پوری کرنے کو ہیں۔ اس کو کتنا عرصہ لگے گا اس کا اندازہ لگانا فوری طور پر کامل نہیں، مگر یہ ضروری ہے کہ اب شہنشاہیت کے راگ الاپنا وقت کو کھینچنے کے مترادف ہے اور ہمنوائی کرنے والے یا داد دینے والے بھی نادان دوست ہیں، اس پر تبصرہ کیا کیا جائے۔ اسلحے کی ڈیل تو 111 بلین ڈالر کی ہو چکی، یہ دو خودمختار ملکوں کے آپس کے معاملات ہیں اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہم واقعہ جو ٹرمپ کی آمد کے بعد ہوا وہ یہ کہ مسلمانوں کے فرقوں میں تفریق کا شروع ہونا اور یہ عمل اس قدر پھیل گیا کہ سعودی عرب کے اتحادیوں میں نفاق کی بو آنے لگی۔ اس میں خود بعض سعودی علاقوں اور بحرین نے اس عمل کی تیزی چکھی۔ ٹرمپ کے جاتے ہی بحرین میں کریک ڈاؤن اور شیخ عیسیٰ قاسم کو ملک کی شہریت سے دور کر دیا گیا۔ جس پر مسلسل دو ہفتے وہاں مظاہرے ہوئے۔

اب جا کر وہاں بدامنی کا زور ٹوٹا۔مگر اس ہفتے یعنی جون کے پہلے ہفتے میں بحرین کی سب سے منظم بائیں بازو کی پارٹی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ بحرین کی یہ پارٹی بڑی مضبوط اور مربوط تھی۔ بہرحال جب تک مصر میں مرسی کی حکومت تھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جمہوریت بہت یاد آتی تھی، کیونکہ محمد مرسی اسلامک پارٹی اخوان المسلمون کے رہنما تھے اور جدوجہد کا تاج پہن رکھا تھا۔ اس لیے سعودی عرب ان کا مخالف تھا۔ سعودی عرب نے اچانک قطر کے خلاف جو قدم اٹھایا ہے، اس سے اس کو مجبور کیا ہے کہ وہ رشین بلاک میں شامل ہو جائے، مگر کوئی شہنشاہ رشین بلاک میں شامل نہیں ہو سکتا، البتہ قطر کو نئی حکمت عملی بنانی پڑے گی، کیونکہ قطر کو سعودی عرب نے معاشی طور پر گھیر لیا ہے۔ اس علاقے سے قطر ایئرویز ایک نہایت کامیاب پرواز تھی، ایک عالمی اندازے کے مطابق ایلگزینڈریا، اور عرب علاقوں سے ہفتہ وار 370 پروازیں تھیں، جن کو ری شیڈول کرنا آسان نہیں اور انڈین اوشین سے سپلائی کی گزر گاہ میں بھی بعض فنی مشکلات درپیش آئیں گی۔ مگر یہ جو کچھ ہوا قطر نے ایران کی محبت میں بہت کچھ کر دیا۔


مگر عرب ریاستوں کے خلیج کی یہ آگ جو موجودہ حالات میں لگائی گئی ہے اور اس پر مسٹر ٹرمپ 4 جون کو خوب بولے کہ اتنی عجلت میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بیان منسٹر آف اسٹیٹ امریکا کے مسٹر ریکس ٹلرسن نے دیا۔ اس میں شک نہیں کہ دوحہ کی حکومت کو شدید دھچکا لگا مگر یہ بھولنے کی بات نہیں کہ عرب جزیرے میں دراڑ پڑ گئی اور خلیجی دنیا اس میں ڈوب سکتی ہے۔ ایک اور اہم بات جو ٹرمپ کے حالیہ دورہ اسرائیل سے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ عرب ملکوں اور ان کے ہمنوا ملکوں اور اسرائیل کے تھنک ٹینک کے درمیان ایک غیر رسمی رابطہ شروع ہو چکا ہے۔ مگر شاباش کہ اسرائیل کے ان سادہ لوح عورتوں مردوں اور بچوں کو جنھوں نے 5 جون کو تل ابیب میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اور ان کی آباد کاری کے حق میں ایک بے مثل مظاہرہ کیا، جس کا تصور بحرین اور سعودی عرب یا مصر میں ممکن نہیں۔

ٹرمپ نے نسل پرستی اور مذہبی منافرت کی حد کر دی۔ اس ہفتے صادق خان جو لندن کے میئر ہیں، ان کے خلاف دو مرتبہ ٹوئٹ کیے، جو منتخب شدہ میئر ہیں، جب کہ غیر منتخب قائدین کی تائید کرتے ان کا وقت گزرتا ہے۔ اور جو کچھ بھی وہ عمل کر رہے ہیں انتخابات کے دوران ان تمام چیزوں کے خلاف گفتگو کرتے تھے اور ایران اور شمالی کوریا کے خلاف صدر بش کی طرح لائن لے لی اور دنیا میں جنگ کی خواہش لیے دورے کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف رات دن ملکوں کو اکسا رہے ہیں اور سنی شیعہ نفاق عرب دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔

ایران سے تعلقات خراب کرانا امریکا کی پالیسیوں کی اولین ترجیح ہے۔ کیونکہ پاک ایران تعلقات جب خراب ہوں گے تو سی پیک کا منصوبہ خطرے میں پڑے گا، کیونکہ یہی وہ بہترین وقت ہوگا جب بھارت بھی متحرک ہوگا اور ملک میں مذہبی منافرت کی لہر دوڑے گی۔ حالانکہ باوجود اس کے کہ پاکستان نے ایران سے بجلی اور گیس نہ لی اتنی کمی کے باوجود۔ سرجانی ٹاؤن کراچی کے علاقے میں دو دو دن بجلی نہیں ہوتی اور گیس بھی محدود ہے، نئی عمارتیں محروم۔ ایران سے کشمیریوں کے حق میں اکثر پریس ٹی وی سے خبریں نشر ہوتی ہیں۔ لہٰذا پاکستان نے جو خارجہ حکمت عملی اختیار کی ہے وہ ملکی مفاد میں ہے۔ کیونکہ یہ واضح عمل ہے کہ روس چین کڑے وقتوں میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، جیسا کہ عملاً نارتھ کوریا کے طرز عمل سے ظاہر ہے اور شرق اوسط میں بھی روس اور چین کا یکساں موقف ہے اور مشرق وسطیٰ کی جنگ ابھی بہت دور نہیں، زبانی جنگ اصل جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ یمن کی جنگ میں اضافہ اور بحرین کے معاملات پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہاں تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی۔
Load Next Story