کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ …
موجودہ حکومت کو چار سال ہوگئے، پتہ بھی نہیں چلا کہ اتنی جلدی وقت کیسے گزر گیا
''موجودہ حکومت کو چار سال ہوگئے، پتہ بھی نہیں چلا کہ اتنی جلدی وقت کیسے گزر گیا۔'' یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ میرے ایک وزیر دوست کے ہیں، جو وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔ اُن کے ساتھ دوستی اپنی جگہ مگر اُن سے حکومتی کارکردگی کو لے کر اکثر ''اٹ کھڑکا'' لگا رہتا ہے، وہ اپنی حکومت کی مثالی کارکردگی کے قصے سنانے میں وقت ضایع کرتے رہتے اور میں انھیں سمجھانے میں اپنا وقت برباد کرتا ہوں کہ عوام کی حالت جیسی وہ بتارہے ہیںایسی نہیں ہے۔
موصوف کی باتوں سے تو اکثر ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں ہر طرف ترقی و خوشحالی کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ اب تو وہ فرمانے لگے کہ اگلا الیکشن آنے میں صرف ایک سال رہ گیا ہے، اس لیے وزیراعظم صاحب نے ''رابطہ عوام مہم'' کا آغاز بھی کر دیا ہے، اور انھیں خاص ہدایت کی ہے کہ گھر گھر، گلی گلی، کوچہ کوچہ اور شہر شہر جائیں اور لوگوں کی بات سنیں یعنی گلی محلوں میں کہیں نہ کہیں کھدائی کر وا دیں تا کہ لوگوں کو لگے کہ واقعی ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہے۔
اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو کسی معیشت دان سے پوچھا جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو بیروزگار سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو تاجر وںسے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو کسانوں سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو چھوٹے سرکاری ملازموں سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو دیہاڑی دار مزدور سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو سڑکوں پر دھکے کھاتے ینگ ڈاکٹروں اور اساتذہ سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو اُن بیواؤں اور بچوں سے پوچھی جائے جن کا خاوند یا باپ دہشت گردی کا شکار ہوگیا ، اور ان مریضوں کے لواحقین سے حکومتی کارکردگی پوچھی جائے جن کے پیاروں نے سہولیات نہ ہونے کے سبب اسپتالوں کی دہلیز پر دم توڑا۔ خیر جتنا مرضی جھوٹ بول لیا جائے، وہ بِِک ہی جایا کرتا ہے۔ بقول شاعر
دوپہر تک بک گیا بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں اک سچ کو لے کر شام تک بیٹھا رہا
موجودہ حکومت کے چار سالہ دور میں حکومت پا کستان کا کل قرضہ24000 ارب روپے (230 ارب ڈالر) اور ڈالر 107 روپے تک پہنچ گیا۔ جس وقت پیپلز پا رٹی نے 2013ء میں حکومت چھوڑی اور اقتدار نواز لیگ کو ملا تو اُس وقت پاکستان کا کل قرضہ 14318 ارب روپے اور ڈالر 85 روپے کا تھا۔ یعنی موجودہ حکومت نے چار سالہ دور حکومت میں پاکستان کے غریب عوام پر 9000 ارب روپے قرضے کا بوجھ ڈالا ہے۔جوکسی پرائز بانڈ سیاست دان، سیاسی لیڈر اور پارٹی نے نہیں دینا بلکہ یہ پاکستان کے غریب عوام ادا کریں گے۔حکومت خود اپنی چار سالہ کارکردگی کا غیر جانبداری سے جائزہ لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
اگر ہم 2013ء اور آج 2017ء کا موازنہ کریں تو 2013ء میں پاکستان کے 50 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا، آج 70فیصد لوگ صاف پانی سے محروم ہیں۔ 2013ء میں 10 ہزار آبادی کے لیے صرف 5 ڈاکٹر، 5 بیڈ اور5 نرسیں دستیاب تھیں، آج یہ تناسب مزید کم ہو کر 4ڈاکٹرز 4 بیڈ اور 4 نرسوں پر آگیا ہے۔ اور وہ بھی صر ف بڑے شہروں میں ہیں، دیہاتوں میں کچھ بھی نہیں۔تعلیم کا تناسب 2013ء میں 45 فیصد تھا ، آج کم ہو کر 41 فیصد رہ گیا ہے۔ 2013ء میں پاکستان میں 1.3کروڑ نوجوان بیروزگار تھے، آج یہ تعداد پونے 2کروڑ ہوچکی ہے۔
پاکستان میں ہر سال 35 لاکھ جوان نو کری کے لیے تیار ہو رہے ہیں مگر ان کو کھپانے کے لیے حکومت کے پاس کوئی انتظام نہیں۔ پاکستان کی 84 ممالک کے ساتھ تجارت ہے مگر بد قسمتی سے پا کستا ن کا تجا رتی خسارہ 6.5 بلین ڈالر ہے۔ سال 2013ء سے سال 2015ء میں پاکستان کی بر آمدات میں 14 فی صد کمی ہوئی۔پاکستان کی کل آمدنی میں صنعتوں کا اہم کر دار ہوتا ہے جو ما ضی میں 25 فی صد تھاں اور موجودہ حکومت کے دور میں 20 فی صد رہ گیا ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری میں 43 فی صد کمی ہوئی۔
ان چار سالوں میں دانش اسکول ، آشیانہ اسکیم وغیرہ منصوبے شروع ہوئے مگر وہ اب کہاں ہیں، پی آئی اے مزید تباہ ہوا، ریلوے بدستور خسارے میں ہے اور دسیوں ٹرین حادثات کی ذمے داری لینے والا کوئی نہیں ہے، لاہور میں آلودگی بہت بڑھ گئی ہے۔ میٹرو ٹرین منصوبہ زیر تکمیل ہے لیکن تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے آلودگی بھی بڑھی ہے اور شہریوں کی مشکلات بی۔ حالانکہ پرویز الٰہی دور میں انڈر گراؤنڈ ٹرین کے منصوبے پر غور کیا جاتا تو محض 20سے 30جگہوں پر کھدائی کا کام ہونا تھا ۔ موٹروے ٹول پلازوں کی مد میں30 اضافہ کیا گیا، لوڈ شیڈنگ کے بے قابو جن پر تو بات ہی نہ کریں، ہشتگردی میں کمی ضرور ہوئی مگر مصلحتوں اور دباؤ کے باعث اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ سی پیک کے حوالے سے حکومت کلئیر نہیں ہے کہ اُس کااور اس ملک کی عوام کااس منصوبے میں کیا کردار ہوگا؟
اور اگر بات کی جائے پارلیمنٹ اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تویہ صرف بجٹ کے دنوں میں ''ایکٹو'' نظر آئیں یا اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے متحرک ہوئیں۔ صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومتی پارٹیوں میں سے کسی نے بھی اپنے منشور کے مطابق کام نہیں کیا۔ نہ کہیں تیز اور سستا انصاف ملتا نظر آیا، نہ سول سروسز میں بہتری لائی گئی، پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا گیا، آزاد اور غیر جانبدار احتساب نظام نہیں لایا گیا، ٹیکس سسٹم کی از سر نو ڈھانچہ سازی نہیں کی گئی، ہیلتھ کیئر اسکیمیں وغیرہ بھی شروع نہیں کی گئیں۔
نواز لیگ کے 2013ء کے منشور میں لکھا ہے کہ آج کئی ریاستی ادارے جیسا کہ پی آئی اے، ریلویز، پاکستان اسٹیل ملز، واپڈا اور دیگر پاکستان کی معیشت پر ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ نقصان میں چلنے والے ان اداروں کی وجہ سے سالانہ 400 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے، نجکاری اور از سر نو ڈھانچہ سازی کے ذریعے خسارے میں چلنے والے ان اداروں میں اصلاحات ضروری ہیں۔ ان اداروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے نواز لیگ یہ اقدامات کرے گی... وغیر وغیرہ کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، اسی طرح بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منشور میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے جومحض دعوے ہی رہے ۔ اب بندہ پوچھے کہ اگر منشور اس پر عمل درآمد ہی نہیں کرنا، تو پھر اسے تیار کیوں کیا جاتا ہے۔
آج مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ توانائی کے بحران نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ صنعتیں بند ہونے سے مزید بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔
قومی معیشت پر مزید مالی بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ملک میں اقربا پروری، رشوت اور سفارش عام ہے میرٹ کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ اپنے چہیتوں کو غیر ضروری نوکریاں، دلکش مراعات کے ساتھ دی جارہی ہیں اور اس طرح ملک کا اربوں روپیہ ضایع کیا جارہا ہے۔ امور مملکت ایڈہاک ازم پر چلائے جارہے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی معاملات اور مسائل اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ انھیں سنبھالنا مشکل ہے۔ اربوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر نوٹ چھاپ کر خزانے کی ضروریات پوری کی جارہی ہیں، اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافے کے علاوہ لوٹ مار میں مصروف ہیں، موجودہ حالات میں عوام کا غیظ و غضب دیدنی ہے۔ایسے میں اگر حکمران یہ کہیں کہ ہم عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرنے کا کہیں تو مجھے غالبؔ کا ایک ہی شعر یاد آتا ہے کہ
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب ؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
موصوف کی باتوں سے تو اکثر ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں ہر طرف ترقی و خوشحالی کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ اب تو وہ فرمانے لگے کہ اگلا الیکشن آنے میں صرف ایک سال رہ گیا ہے، اس لیے وزیراعظم صاحب نے ''رابطہ عوام مہم'' کا آغاز بھی کر دیا ہے، اور انھیں خاص ہدایت کی ہے کہ گھر گھر، گلی گلی، کوچہ کوچہ اور شہر شہر جائیں اور لوگوں کی بات سنیں یعنی گلی محلوں میں کہیں نہ کہیں کھدائی کر وا دیں تا کہ لوگوں کو لگے کہ واقعی ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہے۔
اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو کسی معیشت دان سے پوچھا جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو بیروزگار سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو تاجر وںسے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو کسانوں سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو چھوٹے سرکاری ملازموں سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو دیہاڑی دار مزدور سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو سڑکوں پر دھکے کھاتے ینگ ڈاکٹروں اور اساتذہ سے پوچھی جائے، اگر حکومت کی کارکردگی پوچھنی ہو تو اُن بیواؤں اور بچوں سے پوچھی جائے جن کا خاوند یا باپ دہشت گردی کا شکار ہوگیا ، اور ان مریضوں کے لواحقین سے حکومتی کارکردگی پوچھی جائے جن کے پیاروں نے سہولیات نہ ہونے کے سبب اسپتالوں کی دہلیز پر دم توڑا۔ خیر جتنا مرضی جھوٹ بول لیا جائے، وہ بِِک ہی جایا کرتا ہے۔ بقول شاعر
دوپہر تک بک گیا بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں اک سچ کو لے کر شام تک بیٹھا رہا
موجودہ حکومت کے چار سالہ دور میں حکومت پا کستان کا کل قرضہ24000 ارب روپے (230 ارب ڈالر) اور ڈالر 107 روپے تک پہنچ گیا۔ جس وقت پیپلز پا رٹی نے 2013ء میں حکومت چھوڑی اور اقتدار نواز لیگ کو ملا تو اُس وقت پاکستان کا کل قرضہ 14318 ارب روپے اور ڈالر 85 روپے کا تھا۔ یعنی موجودہ حکومت نے چار سالہ دور حکومت میں پاکستان کے غریب عوام پر 9000 ارب روپے قرضے کا بوجھ ڈالا ہے۔جوکسی پرائز بانڈ سیاست دان، سیاسی لیڈر اور پارٹی نے نہیں دینا بلکہ یہ پاکستان کے غریب عوام ادا کریں گے۔حکومت خود اپنی چار سالہ کارکردگی کا غیر جانبداری سے جائزہ لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
اگر ہم 2013ء اور آج 2017ء کا موازنہ کریں تو 2013ء میں پاکستان کے 50 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا، آج 70فیصد لوگ صاف پانی سے محروم ہیں۔ 2013ء میں 10 ہزار آبادی کے لیے صرف 5 ڈاکٹر، 5 بیڈ اور5 نرسیں دستیاب تھیں، آج یہ تناسب مزید کم ہو کر 4ڈاکٹرز 4 بیڈ اور 4 نرسوں پر آگیا ہے۔ اور وہ بھی صر ف بڑے شہروں میں ہیں، دیہاتوں میں کچھ بھی نہیں۔تعلیم کا تناسب 2013ء میں 45 فیصد تھا ، آج کم ہو کر 41 فیصد رہ گیا ہے۔ 2013ء میں پاکستان میں 1.3کروڑ نوجوان بیروزگار تھے، آج یہ تعداد پونے 2کروڑ ہوچکی ہے۔
پاکستان میں ہر سال 35 لاکھ جوان نو کری کے لیے تیار ہو رہے ہیں مگر ان کو کھپانے کے لیے حکومت کے پاس کوئی انتظام نہیں۔ پاکستان کی 84 ممالک کے ساتھ تجارت ہے مگر بد قسمتی سے پا کستا ن کا تجا رتی خسارہ 6.5 بلین ڈالر ہے۔ سال 2013ء سے سال 2015ء میں پاکستان کی بر آمدات میں 14 فی صد کمی ہوئی۔پاکستان کی کل آمدنی میں صنعتوں کا اہم کر دار ہوتا ہے جو ما ضی میں 25 فی صد تھاں اور موجودہ حکومت کے دور میں 20 فی صد رہ گیا ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری میں 43 فی صد کمی ہوئی۔
ان چار سالوں میں دانش اسکول ، آشیانہ اسکیم وغیرہ منصوبے شروع ہوئے مگر وہ اب کہاں ہیں، پی آئی اے مزید تباہ ہوا، ریلوے بدستور خسارے میں ہے اور دسیوں ٹرین حادثات کی ذمے داری لینے والا کوئی نہیں ہے، لاہور میں آلودگی بہت بڑھ گئی ہے۔ میٹرو ٹرین منصوبہ زیر تکمیل ہے لیکن تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے آلودگی بھی بڑھی ہے اور شہریوں کی مشکلات بی۔ حالانکہ پرویز الٰہی دور میں انڈر گراؤنڈ ٹرین کے منصوبے پر غور کیا جاتا تو محض 20سے 30جگہوں پر کھدائی کا کام ہونا تھا ۔ موٹروے ٹول پلازوں کی مد میں30 اضافہ کیا گیا، لوڈ شیڈنگ کے بے قابو جن پر تو بات ہی نہ کریں، ہشتگردی میں کمی ضرور ہوئی مگر مصلحتوں اور دباؤ کے باعث اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ سی پیک کے حوالے سے حکومت کلئیر نہیں ہے کہ اُس کااور اس ملک کی عوام کااس منصوبے میں کیا کردار ہوگا؟
اور اگر بات کی جائے پارلیمنٹ اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تویہ صرف بجٹ کے دنوں میں ''ایکٹو'' نظر آئیں یا اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے متحرک ہوئیں۔ صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومتی پارٹیوں میں سے کسی نے بھی اپنے منشور کے مطابق کام نہیں کیا۔ نہ کہیں تیز اور سستا انصاف ملتا نظر آیا، نہ سول سروسز میں بہتری لائی گئی، پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا گیا، آزاد اور غیر جانبدار احتساب نظام نہیں لایا گیا، ٹیکس سسٹم کی از سر نو ڈھانچہ سازی نہیں کی گئی، ہیلتھ کیئر اسکیمیں وغیرہ بھی شروع نہیں کی گئیں۔
نواز لیگ کے 2013ء کے منشور میں لکھا ہے کہ آج کئی ریاستی ادارے جیسا کہ پی آئی اے، ریلویز، پاکستان اسٹیل ملز، واپڈا اور دیگر پاکستان کی معیشت پر ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ نقصان میں چلنے والے ان اداروں کی وجہ سے سالانہ 400 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے، نجکاری اور از سر نو ڈھانچہ سازی کے ذریعے خسارے میں چلنے والے ان اداروں میں اصلاحات ضروری ہیں۔ ان اداروں کی حالت بہتر بنانے کے لیے نواز لیگ یہ اقدامات کرے گی... وغیر وغیرہ کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، اسی طرح بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منشور میں بلند و بانگ دعوے کیے گئے جومحض دعوے ہی رہے ۔ اب بندہ پوچھے کہ اگر منشور اس پر عمل درآمد ہی نہیں کرنا، تو پھر اسے تیار کیوں کیا جاتا ہے۔
آج مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ توانائی کے بحران نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ صنعتیں بند ہونے سے مزید بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔
قومی معیشت پر مزید مالی بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ملک میں اقربا پروری، رشوت اور سفارش عام ہے میرٹ کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ اپنے چہیتوں کو غیر ضروری نوکریاں، دلکش مراعات کے ساتھ دی جارہی ہیں اور اس طرح ملک کا اربوں روپیہ ضایع کیا جارہا ہے۔ امور مملکت ایڈہاک ازم پر چلائے جارہے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی معاملات اور مسائل اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ انھیں سنبھالنا مشکل ہے۔ اربوں کی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر نوٹ چھاپ کر خزانے کی ضروریات پوری کی جارہی ہیں، اراکین پارلیمنٹ اپنی تنخواہوں میں ہوش ربا اضافے کے علاوہ لوٹ مار میں مصروف ہیں، موجودہ حالات میں عوام کا غیظ و غضب دیدنی ہے۔ایسے میں اگر حکمران یہ کہیں کہ ہم عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرنے کا کہیں تو مجھے غالبؔ کا ایک ہی شعر یاد آتا ہے کہ
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب ؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی