ادبی پروگرام اور بدنظمی
کراچی شہر کی ادبی رونقیں کافی حد تک واپس آگئی ہیں
کراچی شہر کی ادبی رونقیں کافی حد تک واپس آگئی ہیں جس کے نتیجے میں آرٹس کونسل، پریس کلب، نیشنل میوزیم، پاکستان ادبیات، اردو ترقی اکیڈمی، سندھ گریجویٹ ایسوسی ایشن وغیرہ میں اکثر پروگرام ہوتے رہتے ہیں، جن میں ہمارے ادیب، شاعر، صحافی، دانشور، محقق وغیرہ شرکت کر رہے ہیں۔
اب پروگرام کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر پروگرام میں شرکت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک بات جو اہم واقع ہوئی ہے وہ ہے سندھی کتابوں کا اجرا، ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ شام منانا اور ان شخصیات کی یاد میں پروگرام منعقد کروانا جو اس دنیا کو چھوڑ گئے ہیں مگر اپنی سیاسی، سماجی، ثقافتی، تاریخی اور ادبی خدمات چھوڑ گئے ہیں، جس نے انھیں یاد کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ان پروگراموں میں شرکت کرنے کے لیے گلشن حدید سے بھی دوست آتے ہیں جن کا آنا اور پھر واپس جانا بڑا مسئلہ ہے۔ ہر آنے والے کے پاس گاڑی نہیں ہوتی، اس لیے اسے پبلک ٹرانسپورٹ ہی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ایک پروگرام کے لیے پورا ایک دن خرچ ہوجاتا ہے مگر اس کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ پروگراموں میں جو بدنظمی ہے وہ آنے والوں کو پریشان کردیتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی پروگرام بالکل پورے وقت پر شروع ہوا ہو اور وقت پر ختم ہوگیا ہو۔ دعوت نامے پر لکھا ہوتا ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ مہمان آجاتے ہیں اور میزبان کا انتظار ہوتا ہے اور پھر ہم جیسے وقت کے پابند تو بڑی پریشانی اور انتظار کی کوفت میں کڑھتے رہتے ہیں۔ تقریباً ہر تقریب ایک سے دو گھنٹے دیر سے شروع ہوتی ہے۔ لوگ آرام سے ایک ایک کرکے آتے ہیں۔
کبھی تو پروگرام میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور کبھی کبھی آدھے سے زیادہ کرسیاں خالی پڑی رہتی ہیں۔ نیشنل میوزیم اور آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں اکثر یہ حال دیکھنے میں آتا ہے، مگر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب ادیب اور شاعر کا پروگرام ہوتا ہے تو اس میں آنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے یا پھر کوئی کانفرنس یا سیمینار ہو ۔ اس کی وجہ یہ دیکھنے میں آئی کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تقریر کرنے والوں کی بڑی لائن لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جب کمپیئر آتا ہے تو وہ بجائے پروگرام کی کارروائی چلانے کے خود تقریر کرنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر دوسری بدنظمی یہ ہوتی ہے کہ پروگرام شروع ہوچکا ہے اور کوئی شخصیت آگئی ہے تو اسے اسٹیج پر بٹھانے کے لیے ایک زلزلہ آجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ کمپیئر کو چٹ آتی ہے کہ نیچے جو لوگ آئے بیٹھے ہیں ان میں سے فلاں آدمی کو تقریر کے لیے بلائیں، جب کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے تقریر کا سلسلہ جاری ہے۔
اس عالم کو دیکھ کر سننے والوں کی دلچسپی کم ہوتی جاتی ہے، کیونکہ پہلے ہی سے جو بھی تقریر کرنے کے لیے آتا ہے اس کے ہاتھ میں 15 سے 20 صفحے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ کئی تقریر کرنے والوں کو پرچی لکھ کر، کان میں اترنے کو کہنے پر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کئی مقرر کہتے ہیں ہم لکھ کر آئے ہیں، تمہیں مجھے سننا پڑے گا اور وہ اسٹیج سے نہیں اترتے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ سننے والے ایک ایک کرکے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مقرر اپنے آپ کو دانشور اور مدبر سمجھتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ مقالہ لکھنے میں لمبا ہوتا ہے مگر اسے وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر کرکے پڑھنا پڑتا ہے۔ وہ سننے والوں کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے بجائے اپنی تقریر کو جاری رکھتے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگ آپس میں باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں یا پھر موبائل کا استعمال عام ہوجاتا ہے۔
تقریر کرنے والوں میں بڑے بڑے نام اور نیچے حاضرین میں اچھی اچھی شخصیات موبائل پر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار میں نے کمپیئر کو کہا ہے کہ وہ یہ اعلان کریں کہ حاضرین اور اسٹیج پر مہمان اپنے موبائل بند کریں یا پھر Silent پر رکھیں، مگر وہ شعر پڑھنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ایک بات جو میرے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ مہمان خاص کبھی کبھی تو دو گھنٹے سے بھی اوپر دیر سے پہنچتے ہیں جس کی وجہ سے پروگرام کو شروع نہیں کیا جاتا ہے۔ پھر جب پروگرام اختتام پذیر ہوتا ہے تو اسٹیج پر بیٹھے مہمانوں کو اسٹیج پر ہی پینے کا پانی اور ریفریشمنٹ ادب کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں اور باقی آئے مہمانوں کو کہا جاتا ہے کہ سائیڈ میں پڑی ہوئی ایک ٹیبل پر جائیں، جہاں پر بیٹھے ہوئے مہمانوں سے 50 فیصد کم بسکٹ پڑے ہوتے ہیں جس پر پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دوست حملہ کردیتے ہیں اور آگے بیٹھے ہوئے مہمان صرف اسٹیج والوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ کیسی بدنظمی ہے کہ آنے والوں کی اتنی بے عزتی کی جاتی ہے کہ انھیں کوئی چائے بسکٹ نہیں ملتے۔ وہاں پر موجود کئی بڑی اہم شخصیات ہوتی ہیں۔
کچھ لوگ نیچے کینٹین میں جاکر چائے یا ٹھنڈا پانی پی آتے ہیں۔جب کوئی میوزک کا پروگرام ہوتا ہے تو لوگوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے، وہ اپنی فیملی کو بھی لے آتے ہیں۔ وہاں پر پھر کھانے کی ٹیبل پر کشتی کا سماں ہوتا ہے، لوگ گانے پر موسیقی کی دھن پر کرسی سے اٹھ کر ناچنے لگتے ہیں۔ حال ہی میں ایک پروگرام تھا جس میں ایک سیاسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا۔ آگے سیٹ پر بیٹھی ہوئی نامور شخصیت ساتھ بیٹھے ہوئے دوست کے ساتھ گپ شپ لگانے میں مصروف تھی اور اہم تقریر کو نہیں سن رہی تھی۔
وہ میرے ہی آگے بیٹھے تھے ۔ پروگرام ختم ہوتے ہی لوگوں نے سیلفی بنوانا شروع کردیں۔ ایک مشاعرہ کے پروگرام میں جانا ہوا جہاں پر شاعر سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے اور اس کا دھواں میری سانس کو روک رہا تھا، مگر کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ انھیں روکتا، جب کہ کافی خواتین بھی موجود تھیں۔ میرے اعتراض کرنے پر وہ اٹھ کر چلے گئے، مگر منہ میں کچھ بڑبڑا رہے تھے۔ پروگرام کے آخر میں جب پکوڑے رکھے گئے تو ایک صاحب پوری پلیٹ اپنی طرف کرکے منہ میں 5 سے 6 پکوڑے ٹھونستے گئے اور باقی دیکھتے رہ گئے۔ پروگراموں میں مہمان اپنے ساتھ بچے بھی لاتے ہیں جو اچھل کود کرتے رہتے ہیں، کئی شرکت کرنے والوں کے موبائل بجتے رہتے ہیں، کئی زور زور سے موبائل فون پر باتیں کرتے ہیں۔
ہم ادب کی دنیا کے لوگ ضرور ہیں مگر ہم میں شعور اور تربیت کی بڑی کمی ہے۔ ہم Mannerism نام کی چیز سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ڈسپلن اور Punctuality کے بالکل پابند نہیں ہیں۔ اکثر سندھ کلچر محکمہ کے پروگراموں میں یا تو کھانا اور ریفرشمنٹ پوری نہیں ہوتی اور اگر انتظام کرتے ہیں تو اس کا معیار نہیں ہوتا، سوائے چند پروگراموں کے پروگرام دیر سے ختم ہوتا ہے، سواری نہیں ملتی، رکشے والے چار گنا زیادہ رقم بتاتے ہیں۔ منتظمین وی آئی پی کی خدمت اور چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم پھر بھی ادبی پروگرام خاص طور پر اٹینڈ کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ شاید بہتری آجائے، کیونکہ اس گھٹن والے ماحول میں کہاں جائیں۔
اب پروگرام کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر پروگرام میں شرکت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک بات جو اہم واقع ہوئی ہے وہ ہے سندھی کتابوں کا اجرا، ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ شام منانا اور ان شخصیات کی یاد میں پروگرام منعقد کروانا جو اس دنیا کو چھوڑ گئے ہیں مگر اپنی سیاسی، سماجی، ثقافتی، تاریخی اور ادبی خدمات چھوڑ گئے ہیں، جس نے انھیں یاد کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ان پروگراموں میں شرکت کرنے کے لیے گلشن حدید سے بھی دوست آتے ہیں جن کا آنا اور پھر واپس جانا بڑا مسئلہ ہے۔ ہر آنے والے کے پاس گاڑی نہیں ہوتی، اس لیے اسے پبلک ٹرانسپورٹ ہی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ایک پروگرام کے لیے پورا ایک دن خرچ ہوجاتا ہے مگر اس کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ پروگراموں میں جو بدنظمی ہے وہ آنے والوں کو پریشان کردیتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی پروگرام بالکل پورے وقت پر شروع ہوا ہو اور وقت پر ختم ہوگیا ہو۔ دعوت نامے پر لکھا ہوتا ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ مہمان آجاتے ہیں اور میزبان کا انتظار ہوتا ہے اور پھر ہم جیسے وقت کے پابند تو بڑی پریشانی اور انتظار کی کوفت میں کڑھتے رہتے ہیں۔ تقریباً ہر تقریب ایک سے دو گھنٹے دیر سے شروع ہوتی ہے۔ لوگ آرام سے ایک ایک کرکے آتے ہیں۔
کبھی تو پروگرام میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور کبھی کبھی آدھے سے زیادہ کرسیاں خالی پڑی رہتی ہیں۔ نیشنل میوزیم اور آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں اکثر یہ حال دیکھنے میں آتا ہے، مگر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب ادیب اور شاعر کا پروگرام ہوتا ہے تو اس میں آنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے یا پھر کوئی کانفرنس یا سیمینار ہو ۔ اس کی وجہ یہ دیکھنے میں آئی کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تقریر کرنے والوں کی بڑی لائن لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جب کمپیئر آتا ہے تو وہ بجائے پروگرام کی کارروائی چلانے کے خود تقریر کرنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر دوسری بدنظمی یہ ہوتی ہے کہ پروگرام شروع ہوچکا ہے اور کوئی شخصیت آگئی ہے تو اسے اسٹیج پر بٹھانے کے لیے ایک زلزلہ آجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ کمپیئر کو چٹ آتی ہے کہ نیچے جو لوگ آئے بیٹھے ہیں ان میں سے فلاں آدمی کو تقریر کے لیے بلائیں، جب کہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے تقریر کا سلسلہ جاری ہے۔
اس عالم کو دیکھ کر سننے والوں کی دلچسپی کم ہوتی جاتی ہے، کیونکہ پہلے ہی سے جو بھی تقریر کرنے کے لیے آتا ہے اس کے ہاتھ میں 15 سے 20 صفحے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ کئی تقریر کرنے والوں کو پرچی لکھ کر، کان میں اترنے کو کہنے پر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کئی مقرر کہتے ہیں ہم لکھ کر آئے ہیں، تمہیں مجھے سننا پڑے گا اور وہ اسٹیج سے نہیں اترتے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ سننے والے ایک ایک کرکے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مقرر اپنے آپ کو دانشور اور مدبر سمجھتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ مقالہ لکھنے میں لمبا ہوتا ہے مگر اسے وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر کرکے پڑھنا پڑتا ہے۔ وہ سننے والوں کے چہرے کے تاثرات دیکھنے کے بجائے اپنی تقریر کو جاری رکھتے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگ آپس میں باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں یا پھر موبائل کا استعمال عام ہوجاتا ہے۔
تقریر کرنے والوں میں بڑے بڑے نام اور نیچے حاضرین میں اچھی اچھی شخصیات موبائل پر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار میں نے کمپیئر کو کہا ہے کہ وہ یہ اعلان کریں کہ حاضرین اور اسٹیج پر مہمان اپنے موبائل بند کریں یا پھر Silent پر رکھیں، مگر وہ شعر پڑھنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ایک بات جو میرے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ مہمان خاص کبھی کبھی تو دو گھنٹے سے بھی اوپر دیر سے پہنچتے ہیں جس کی وجہ سے پروگرام کو شروع نہیں کیا جاتا ہے۔ پھر جب پروگرام اختتام پذیر ہوتا ہے تو اسٹیج پر بیٹھے مہمانوں کو اسٹیج پر ہی پینے کا پانی اور ریفریشمنٹ ادب کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں اور باقی آئے مہمانوں کو کہا جاتا ہے کہ سائیڈ میں پڑی ہوئی ایک ٹیبل پر جائیں، جہاں پر بیٹھے ہوئے مہمانوں سے 50 فیصد کم بسکٹ پڑے ہوتے ہیں جس پر پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دوست حملہ کردیتے ہیں اور آگے بیٹھے ہوئے مہمان صرف اسٹیج والوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ کیسی بدنظمی ہے کہ آنے والوں کی اتنی بے عزتی کی جاتی ہے کہ انھیں کوئی چائے بسکٹ نہیں ملتے۔ وہاں پر موجود کئی بڑی اہم شخصیات ہوتی ہیں۔
کچھ لوگ نیچے کینٹین میں جاکر چائے یا ٹھنڈا پانی پی آتے ہیں۔جب کوئی میوزک کا پروگرام ہوتا ہے تو لوگوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے، وہ اپنی فیملی کو بھی لے آتے ہیں۔ وہاں پر پھر کھانے کی ٹیبل پر کشتی کا سماں ہوتا ہے، لوگ گانے پر موسیقی کی دھن پر کرسی سے اٹھ کر ناچنے لگتے ہیں۔ حال ہی میں ایک پروگرام تھا جس میں ایک سیاسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا۔ آگے سیٹ پر بیٹھی ہوئی نامور شخصیت ساتھ بیٹھے ہوئے دوست کے ساتھ گپ شپ لگانے میں مصروف تھی اور اہم تقریر کو نہیں سن رہی تھی۔
وہ میرے ہی آگے بیٹھے تھے ۔ پروگرام ختم ہوتے ہی لوگوں نے سیلفی بنوانا شروع کردیں۔ ایک مشاعرہ کے پروگرام میں جانا ہوا جہاں پر شاعر سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے اور اس کا دھواں میری سانس کو روک رہا تھا، مگر کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ انھیں روکتا، جب کہ کافی خواتین بھی موجود تھیں۔ میرے اعتراض کرنے پر وہ اٹھ کر چلے گئے، مگر منہ میں کچھ بڑبڑا رہے تھے۔ پروگرام کے آخر میں جب پکوڑے رکھے گئے تو ایک صاحب پوری پلیٹ اپنی طرف کرکے منہ میں 5 سے 6 پکوڑے ٹھونستے گئے اور باقی دیکھتے رہ گئے۔ پروگراموں میں مہمان اپنے ساتھ بچے بھی لاتے ہیں جو اچھل کود کرتے رہتے ہیں، کئی شرکت کرنے والوں کے موبائل بجتے رہتے ہیں، کئی زور زور سے موبائل فون پر باتیں کرتے ہیں۔
ہم ادب کی دنیا کے لوگ ضرور ہیں مگر ہم میں شعور اور تربیت کی بڑی کمی ہے۔ ہم Mannerism نام کی چیز سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ڈسپلن اور Punctuality کے بالکل پابند نہیں ہیں۔ اکثر سندھ کلچر محکمہ کے پروگراموں میں یا تو کھانا اور ریفرشمنٹ پوری نہیں ہوتی اور اگر انتظام کرتے ہیں تو اس کا معیار نہیں ہوتا، سوائے چند پروگراموں کے پروگرام دیر سے ختم ہوتا ہے، سواری نہیں ملتی، رکشے والے چار گنا زیادہ رقم بتاتے ہیں۔ منتظمین وی آئی پی کی خدمت اور چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم پھر بھی ادبی پروگرام خاص طور پر اٹینڈ کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ شاید بہتری آجائے، کیونکہ اس گھٹن والے ماحول میں کہاں جائیں۔