اردو اور قومی سالمیت
ہمارے یہاں نوآبادتی عہد سے آج تک انگریزی مقتدرہ اشرافیہ کی زبان سمجھی ہی نہیں جاتی۔
ISLAMABAD/KABUL:
چند دن پہلے بعض اخبارات میں خبر شائع ہوئی تھی کہ ایوانِ بالا (سینیٹ) کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی نے آئین میں ترمیم کے ایک بل کی منظوری دی ہے۔ یہ بل سینیٹ کے اراکین سسی پلیجو اور مختار احمد دھامرا نے جمع کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، ہندکو اور سرائیکی کو بھی اردو کے ساتھ قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔
قائمہ کمیٹی نے ترمیم کرکے چار زبانوں پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو اردو کے ساتھ قومی زبانوں کا درجہ دیتے ہوئے یہ بل منظور کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس بل کی منظوری کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ آئین میں مذکور سب زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے، اور پاکستان کے سب شہریوں کی قبولیت کی مثال قائم کی جائے خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور ملک کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس سے ملک کے شہریوں کے مابین مساوی حیثیت کا تأثر مستحکم ہوگا۔
اس بل کی منظوری سے ہم بھی گویا دُنیا کی اُن اقوام میں شامل ہونے جارہے ہیں جن کے یہاں ایک سے زیادہ قومی زبانیں رائج ہیں، مثلاً بیلجیم جہاں ڈچ، فرانسیسی اور جرمن کو، لکسمبرگ جہاں لکسمبرگی، فرانسیسی اور جرمن کو یا سوئزرلینڈ جہاں جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ لکسمبرگ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں کثیر لسانی ملک ہے۔
اس لیے کہ وہاں بچہ پہلے چار سال لکسمبرگی میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کے بعد جرمن میں اور اعلیٰ سطح پر فرانسیسی میں۔ یہی نہیں بلکہ اس ملک میں بچے تعلیم و تدریس کے زمانے میں اپنے ملک میں رائج زبانوں کے علاوہ انگریزی یا اور کوئی یورپی زبان، مثلاً ہسپانوی یا اطالوی بھی سیکھتے ہیں۔
لکسمبرگ میں پارلیمانی امور پر بحث لکسمبرگی میں ہوتی ہے جب کہ قانون سازی کا کام جرمن میں ہوتا ہے اور عمل درآمد یا نفاذ کا نظام فرانسیسی میں ہے۔ اسی طرح سوئزرلینڈ میں بھی چار قومی زبانیں ہیں، یعنی جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش۔ یہ تو یورپ کی مثالیں ہیں۔ خود ایشیا میں بھی کئی ممالک ہیں جن کی ایک سے زائد قومی زبانیں ہیں جیسے افغانستان میں پشتو اور دری، سری لنکا میں سنہالی اور تامل جب کہ مکاؤ میں چینی اور پرتگالی وغیرہ۔
یہ کثیر لسانی ممالک دراصل کثیر ثقافتی سماج کے حامل ہیں۔ اپنی ثقافتی رنگارنگی کو برقرار رکھتے ہوئے قومی یک جہتی یا ہم آہنگی اور مرکزی دھارے کی وسعت کے لیے انھوں نے ایک سے زیادہ قومی زبانوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان بھی ایک کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے یہاں بھی ایک سے زائد زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جاسکتا ہے، بشرطے کہ اس سے قومی سطح پر یک جہتی اور ہم آہنگی کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہوں۔ اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ہمارے یہاں ایسا ممکن ہے؟
افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن اس سوال کا حقیقی اور درست جواب نفی میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر ثقافتی گروہ اور ہر لسانی شناخت کے عقب میں سیاسی محرکات اور عزائم نے اس طرح اپنی جگہ بنالی ہے کہ اب ہر ثقافتی اور لسانی گروہ سیاسی قوت کے بغیر اپنی بقا کو معرضِ خطر میں محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ سیاست کا آلۂ کار بننے کے سوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمارے یہاں حالیہ تناظر میں ناصر عباس نیر نے غور طلب نکات سے بحث کی ہے۔ اُن کا یہ کہنا غلط نہیں کہ ہمارے یہاں زبانیں، طاقت کی سیاسی و سماجی حرکیات کی اسیر ہیں۔ اس حقیقت کا ثبوت ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے تجربات سے لے کر بڑے بڑے سیاسی و سماجی مظاہر تک قدم قدم پر ملتا ہے۔
اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے یہاں مقتدرہ یا اشرافیہ کی زبان کسی بھی ثقافتی، لسانی یا گروہی استثنیٰ کے بغیر آج، یعنی آزادی کے لگ بھگ ستر برس بعد بھی انگریزی ہے۔ واقعاتی لحاظ سے اس رویے کی جڑیں یقینی طور پر نوآبادیاتی عہد ہی میں پیوست ہیں، لیکن آج اس مسئلے کو محض نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل قرار دے کر بیٹھ رہنا کافی نہیں ہے۔
قومی تناظر میں دیکھا جائے تو اس سچائی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نوآبادیاتی تجربات نے ہی ہمارے یہاں ثقافتی گروہ کی سیاسی وابستگی والی سائیکی تشکیل دی تھی جس نے آگے چل کر برِصغیر میں کالے انگریز پیدا کیے تھے۔ تاہم یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ آج ہم عالمی سطح پر اپنی جو پہچان اور تہذیبی تشخص رکھتے ہیں، ستر سال پہلے دراصل وہی ہندوستان کی تقسیم اور ہماری آزادی کا بنیادی محرک بنا تھا۔ یہ تشخص مذہب، ثقافت اور زبان کے تین مضبوط ستونوں پر استوار تھا۔
تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ آزادی حاصل کرنے اور قومی زندگی کی سات دہائیاں گزارنے کے باوجود نوآبادتی سائیکی ہمارے یہاں نہ صرف زندہ ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ مستحکم بھی۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اقتدار چاہے پہلے وہ بادشاہت کی صورت میں تھا یا اس عہدِ جدید میں جمہوریت کی قبا میں ہے، اس نے ہمیشہ عوام سے اپنے نوعی فرق کو قائم رکھا ہے۔ زبان بھی اس فرق کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں نوآبادتی عہد سے آج تک انگریزی مقتدرہ اشرافیہ کی زبان سمجھی ہی نہیں جاتی، بلکہ عملاً اختیار بھی کی جاتی ہے۔ گویا انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ان کی زبان ہمارے سماج میں اقتدار اور اشرافیہ کی علامت کے طور پر اُسی طرح رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ اشرافیہ جو ہمارے قومی بطن سے پیدا ہوئی ہے، اس کی سائیکی بھی وہی ہے جو انگریز سامراج کی تھی۔ اس سائیکی کا سب سے نمایاں اظہار آج بھی اشرافیہ کی زبان، یعنی انگریزی ہے۔
اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ ہمارے یہاں اقتدار اور اشرافیہ دونوں ہی کے لیے زبان ہر مرحلے پر ایک قوت کا مظہر اور اُس کا آلۂ کار ہے۔ چناںچہ اس کے استعمال کا مقصد ابلاغ سے کہیں زیادہ ذاتی، سماجی یا گروہی طاقت کا اظہار اور سیاسی اہداف کا حصول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار و اختیار کی غلام گردشوں یا بااثر حلقوں میں زبان کو تہذیبی مظہر تو کیا درست معنوں میں رابطے کا ذریعہ بھی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے صرف مخصوص ضرورتوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہر زبان اور ثقافت کی نمائندگی کرنے والے کچھ افراد اقتدار کے ایوان میں ہوتے ہیں جو اپنے اپنے دائرے اور اپنی اپنی سطح پر سیاست کو زبان اور زبان کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ذاتی، نجی اور گروہی مقاصد کی تکمیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ خود ایسے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں زبان سیاسی تناؤ اور گروہی تفریق کی علامت ہوگئی ہے۔ یوں ہر زبان بلااستثنیٰ دوسری زبان کے لیے عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ قومی یک جہتی کا جذبہ ابھارنے کے بجائے سماج کے افراد میں تفریق کی بنیاد بنتی ہے۔ لسانی زاویے سے دیکھیے تو کسی زبان کا کردار فی نفسہٖ منفی نہیں ہوتا۔ وہ تو خود سے بزبانِ حال کہتی ہے:
تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی
اس لیے کہ وہ افراد یا سماجی گروہوں کے مابین مغائرت کی خلیج پاٹنے کے لیے وجود میں آتی ہے، لیکن سیاسی قوت سے جڑنے کی وجہ سے وہ اس کے برعکس کام میں مصروف ہوجاتی ہے۔
تہذیب خواہ کوئی بھی ہو، اس کی شناخت کا دائرہ کسی خاص مذہبی رجحان کے ساتھ بھی مکمل ہوسکتا ہے اور اس کے بغیر بھی۔ دنیا کے نقشے پر دونوں طرح کی نظریاتی ریاستیں ہیں، وہ جو مذہب کو بالالتزام شناخت کا حوالہ بناتی ہیں اور وہ بھی جو مذہب کے بغیر نظریاتی شناخت رکھتی ہیں۔ البتہ ایسی کوئی ریاست نہیں جس کے سارے سماجی گروہوں کے مابین ابلاغ یا ہم آہنگی کا رشتہ قائم کرنے والی کوئی زبان نہ ہو۔ گویا کوئی تہذیب یا کوئی ریاست شناخت کا مرحلہ طے ہی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنی زبان نہ رکھتی ہو۔ اب جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو وہ ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس کا قیام ایک خاص تہذیبی (مذہبی) شناخت کے اصرار (یعنی دو قومی نظریے) پر عمل میں آیا تھا۔
ظاہر ہے، اس تہذیبی شناخت میں لسانی فیکٹر بھی نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ یہ درست ہے کہ ریاست کے قیام کے تھوڑے عرصے بعد ہی ہمارے یہاں قومی زبان کا مسئلہ اُس وقت اٹھ کھڑا ہوا تھا جب مشرقی پاکستان کی آبادی نے اپنی عددی برتری کی بنیاد پر بنگلہ کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم قائدِاعظم کی تقاریر سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے 1973ء کے بنائے ہوئے آئین تک، یہ بات ہر شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر رہی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اشرافیہ کے نزدیک اس کے عملی نفاذ کی صورت اب تک نہیں بن پائی۔
مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور رئیس امروہوی سے لے کر پروفیسر فتح محمد ملک اور افتخار عارف تک اور ان کے بھی بعد کے لوگوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ تک ملک کی لسانی صورتِ حال اور سیاسی حقائق سے آگاہ لوگ اس امر پر اصرار کرتے ہیں کہ نہ صرف اردو آج قومی سرکاری زبان کی حیثیت سے جملہ ذمے داریاں اٹھانے کی پوری طرح اہل ہے، بلکہ اس کے نفاذ کے لیے انتظامی سطح پر جس modus operandi کی ضرورت ہے، وہ بھی تمام تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مکمل طور سے تیار ہے۔
اس تناظر میں ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی نے پانچ قومی زبانوں کا جو بل منظور کیا ہے، وہ کیا معنی رکھتا ہے اور ملکی سالمیت اور ہم آہنگی کے حوالے سے اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ بلاشبہ ہر زبان ایک ثقافتی اثاثہ رکھتی اور ایک تہذیبی پیراڈائم بناتی ہے۔ اس لیے ریاستی دائرے میں اپنے اثر و نفوذ اور عددی تناسب سے قطعِ نظر اُس کی بقا کا ہر ممکن سامان کیا جانا چاہیے۔ اس بنیاد پر پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانیں اہم ہیں اور ان کے حقوق کا اعتراف کھلے بندوں کیا جانا چاہیے۔
تاہم قومی اور سرکاری زبان کا معاملہ کچھ اور حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ ان میں اساسی نکتہ زبان کا ابلاغیاتی اسکوپ ہوتا ہے۔ گلوبل ولیج کے عالمی امور ہوں یا پاکستان کا قومی تناظر، سیاست کے شطرنجی کھیل کے باوجود کراچی سے خیبر تک اردو ہی واحد زبان ہے جو طبقاتی تقسیم سے قطعِ نظر اور ثقافتی رنگارنگی کے باوجود ابلاغ کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک لنگوا فرانکا کا کردار جس خوبی اور کامیابی سے اردو ادا کرتی ہے، کوئی دوسری زبان نہیں کرتی۔ اس کے خلاف ہونے والی ساری مہم جوئی کے باوجود اگر آج بھی ہمارے ملکی سیاق میں اردو کی یہ حیثیت برقرار ہے تو آخر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے کہ اردو ہماری قومی شناخت کے بعد قومی سالمیت کا بھی اہم ترین حوالہ ہے۔
بحث یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی ایک سے زیادہ قومی زبانیں نہ ہوں، مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ اردو کی جگہ کسی دوسری زبان کو قومی زبان بنا کے ملکی سطح پر ابلاغ کی صورتِ حال کو بہتر بنانا تو دور کی بات ہے، اس حد پر برقرار بھی نہیں رکھا جاسکتا، جس پر وہ اِس وقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو زبان فی الاصل ہماری قومی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو ہمیں سیاسی قوتوں کی چال بازی کے اثر میں آکر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اردو ہماری قومی وحدت کا نشان اور سماجی اکائی کی علامت ہے۔ ملک میں بولی جانے والی کسی بھی دوسری زبان سے اسے ٹکرا کر اردو کا کوئی نقصان ہو یا نہ ہو، یہ بہرطور طے ہے کہ ہماری قومی وحدت اور ہماری سماجی اکائی کو ضرور ناقابلِ تلافی گزند پہنچے گی۔
اب جہاں تک بات ہے، دوسری زبانوں کے قومی زبان کا درجہ پانے کی تو یہ سمجھنا کہ اس اقدام کے نتیجے میں پاکستان کے شہریوں کے مابین مساوی حیثیت کا تأثر مستحکم ہوگا، یہ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ واقعاتی سطح پر دیکھیے تو اس کے معکوس اثرات ہوں گے۔ پہلی بات یہ کہ اس طرح ملک میں بولی جانے والی زبانیں ایک دوسرے کے لیے تقویت اور تعمیر کا ذریعہ بننے کے بجائے تخفیف اور تخریب کے حالات پیدا کریں گی۔ دوسری بات یہ کہ جو زبانیں قومی زبان کی حیثیت حاصل کرلیں گی، ان کے اور اس حیثیت کو نہ پانے والی زبانوں کے درمیان مسابقت اور مخاصمت کا محاذ کھل جائے گا اور قوم نفاق کا شکار ہوگی۔ اس لیے کہ ہر زبان کا بولنے والا گروہ ایک جذباتی رویہ رکھتا اور اپنی زبان کو آئیڈیل باور کرتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں عموماً زمینی حقائق فراموش کردیے جاتے ہیں اور محض جذباتی تناظر میں مطالبات اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ اردو پاکستان کے کسی ایک صوبے کی زبان نہیں ہے، اس لیے کسی صوبائی زبان سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، لیکن جن چار زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جارہا ہے وہ چاروں اپنے اپنے صوبے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے قومی زبان قرار پانے کے بعد دوسری زبانیں بولنے والوں میں اس احساس کو پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا کہ اگر اُن کے پاس بھی اپنا ایک صوبہ ہوتا، یعنی جس میں ان کو صوبائی حیثیت میسر ہوتی تو وہ بھی قومی زبان کا درجہ حاصل کرسکتی تھیں۔ یہ احساس آگے چل کر نئے صوبوں کی تشکیل کا سوال اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
نئے صوبے بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن اُس وقت جب یہ کام سیاسی دباؤ کے تحت نہیں، بلکہ انتظامی صورتِ حال کی بہتری اور عوامی فلاح کے لیے کیا جائے۔ اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، ان میں اس نوع کے تجربات سے بعض ایسے مسائل پیدا ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جو یک جہتی اور قومی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔
دوسرے کچھ اور حقائق کے ساتھ ہمارے یہاں اس وقت قومی زبان کا یہ مسئلہ بھی دراصل بڑھی ہوئی سیاسی حسیت کا مظہر ہے۔ کثیر ثقافتی کثیر لسانی ممالک میں قومی زبان کا تعین، جیسا کہ عرض کیا گیا، ابلاغیاتی تناظر میں کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد مرکزی دھارے کی وسعت اور قومی ہم آہنگی کا فروغ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ملک میں بولی جانے والی کسی اور زبان کی ثقافتی برتری یا کمتری سے بحث کی جاتی ہے اور نہ ہی عددی تناسبات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہر ثقافتی گروہ کے لیے ہی نہیں، بلکہ ہر شخص کے لیے اُس کی مادری زبان کا رشتہ اپنی ایک کشش اور اہمیت رکھتا ہے۔
تاہم نئے لسانی نظریات اور جدید نفسیات دونوں کے ماہرین اب اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں فرسٹ لینگویج کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اسی زبان میں سب سے پہلے اسما اور افعال سے نہ صرف واقف ہوتا ہے، بلکہ اُن کے بارے میں سوچنے، سمجھنے، پوچھنے اور بتانے کی صلاحیت بھی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح فرسٹ لینگویج اُس کی شخصیت کی تعمیر اور سائیکی کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی کے توسط سے انسان سب سے پہلے اپنے تہذیبی، سماجی، جغرافیائی اور قومی رشتوں کو شناخت کرتا ہے اور اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ان کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اب مادری زبان کی تمام تر محبت کے باوجود ہر فرد کی زندگی میں فرسٹ لینگویج کا کردار واضح طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
اپنے موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں قومی زبان کے اس مسئلے کے بارے میں سوچنا اور ذمے داری کے ساتھ اس کے لیے لائحۂ عمل بنانا اور عملاً اختیار کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سیاسی مقتدرہ اور اشرافیہ کا کردار بھی یقینا اہم ہوگا۔ تاہم اس سچائی کو یاد رکھنا چاہیے کہ جن حالات سے ہم قومی اور ملکی سطح پر دوچار ہیں، ان میں اہلِ سیاست کی اپنی مجبوریاں ہوا کرتی ہیں۔ اگر وہ مخلصانہ مساعی کا دعویٰ کریں تو بھی اُن کا بیانیہ حتمی طور پر تہذیبی اور قومی بیانیے کا درجہ نہیں پاسکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ سیاسی مقتدرہ کے کام کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے، مثلاً کسی مسئلے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنادی جائے، سفارشات کے لیے بورڈ تشکیل دیا جائے یا کسی بڑے معاملے کے لیے ایک علاحدہ وزارت قائم کردی جائے۔
ٹھیک ہے، اس اندازِکار کے تقاضے اپنی جگہ، تاہم پاکستان جیسے ملک میں جہاں زبان کا مسئلہ تہذیبی و قومی تناظر اور زمینی حقائق سے زیادہ جذباتی ردِعمل کے تحت دیکھا اور پیش کیا جارہا ہو، وہاں صرف مقتدرہ، اشرافیہ اور عدلیہ کے اقدامات کے ذریعے ایسے مسائل کو فیصلہ کن طور پر حل نہیں کیا جاسکتا، جیسے مشرقی پاکستان میں نہیں کیا جاسکا تھا۔ اس کے لیے غیر سرکاری تہذیبی اداروں، ذرائعِ ابلاغ، اہلِ زبان و ادب، اہلِ نظر اور سماجی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اپنی ملکی سلامتی، سماجی ہم آہنگی اور قومی سالمیت سے ہمیں سروکار ہے اور ہم اُس کی بقا کے آرزومند ہیں تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اس وقت اپنے کردار کو سمجھنا اور عملی طور پر نبھانا ہوگا۔ آج ہمارے یہاں قومی زبان کا یہ مسئلہ اسی نوعیت کا ہے جو ہم سے سنجیدہ اور بردبار رویے کا تقاضا کرتا ہے۔
چند دن پہلے بعض اخبارات میں خبر شائع ہوئی تھی کہ ایوانِ بالا (سینیٹ) کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی نے آئین میں ترمیم کے ایک بل کی منظوری دی ہے۔ یہ بل سینیٹ کے اراکین سسی پلیجو اور مختار احمد دھامرا نے جمع کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، ہندکو اور سرائیکی کو بھی اردو کے ساتھ قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔
قائمہ کمیٹی نے ترمیم کرکے چار زبانوں پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو اردو کے ساتھ قومی زبانوں کا درجہ دیتے ہوئے یہ بل منظور کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس بل کی منظوری کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ آئین میں مذکور سب زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے، اور پاکستان کے سب شہریوں کی قبولیت کی مثال قائم کی جائے خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور ملک کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس سے ملک کے شہریوں کے مابین مساوی حیثیت کا تأثر مستحکم ہوگا۔
اس بل کی منظوری سے ہم بھی گویا دُنیا کی اُن اقوام میں شامل ہونے جارہے ہیں جن کے یہاں ایک سے زیادہ قومی زبانیں رائج ہیں، مثلاً بیلجیم جہاں ڈچ، فرانسیسی اور جرمن کو، لکسمبرگ جہاں لکسمبرگی، فرانسیسی اور جرمن کو یا سوئزرلینڈ جہاں جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ لکسمبرگ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں کثیر لسانی ملک ہے۔
اس لیے کہ وہاں بچہ پہلے چار سال لکسمبرگی میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کے بعد جرمن میں اور اعلیٰ سطح پر فرانسیسی میں۔ یہی نہیں بلکہ اس ملک میں بچے تعلیم و تدریس کے زمانے میں اپنے ملک میں رائج زبانوں کے علاوہ انگریزی یا اور کوئی یورپی زبان، مثلاً ہسپانوی یا اطالوی بھی سیکھتے ہیں۔
لکسمبرگ میں پارلیمانی امور پر بحث لکسمبرگی میں ہوتی ہے جب کہ قانون سازی کا کام جرمن میں ہوتا ہے اور عمل درآمد یا نفاذ کا نظام فرانسیسی میں ہے۔ اسی طرح سوئزرلینڈ میں بھی چار قومی زبانیں ہیں، یعنی جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش۔ یہ تو یورپ کی مثالیں ہیں۔ خود ایشیا میں بھی کئی ممالک ہیں جن کی ایک سے زائد قومی زبانیں ہیں جیسے افغانستان میں پشتو اور دری، سری لنکا میں سنہالی اور تامل جب کہ مکاؤ میں چینی اور پرتگالی وغیرہ۔
یہ کثیر لسانی ممالک دراصل کثیر ثقافتی سماج کے حامل ہیں۔ اپنی ثقافتی رنگارنگی کو برقرار رکھتے ہوئے قومی یک جہتی یا ہم آہنگی اور مرکزی دھارے کی وسعت کے لیے انھوں نے ایک سے زیادہ قومی زبانوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان بھی ایک کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی ملک ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے یہاں بھی ایک سے زائد زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جاسکتا ہے، بشرطے کہ اس سے قومی سطح پر یک جہتی اور ہم آہنگی کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہوں۔ اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ہمارے یہاں ایسا ممکن ہے؟
افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن اس سوال کا حقیقی اور درست جواب نفی میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر ثقافتی گروہ اور ہر لسانی شناخت کے عقب میں سیاسی محرکات اور عزائم نے اس طرح اپنی جگہ بنالی ہے کہ اب ہر ثقافتی اور لسانی گروہ سیاسی قوت کے بغیر اپنی بقا کو معرضِ خطر میں محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ سیاست کا آلۂ کار بننے کے سوا اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمارے یہاں حالیہ تناظر میں ناصر عباس نیر نے غور طلب نکات سے بحث کی ہے۔ اُن کا یہ کہنا غلط نہیں کہ ہمارے یہاں زبانیں، طاقت کی سیاسی و سماجی حرکیات کی اسیر ہیں۔ اس حقیقت کا ثبوت ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے تجربات سے لے کر بڑے بڑے سیاسی و سماجی مظاہر تک قدم قدم پر ملتا ہے۔
اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے یہاں مقتدرہ یا اشرافیہ کی زبان کسی بھی ثقافتی، لسانی یا گروہی استثنیٰ کے بغیر آج، یعنی آزادی کے لگ بھگ ستر برس بعد بھی انگریزی ہے۔ واقعاتی لحاظ سے اس رویے کی جڑیں یقینی طور پر نوآبادیاتی عہد ہی میں پیوست ہیں، لیکن آج اس مسئلے کو محض نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل قرار دے کر بیٹھ رہنا کافی نہیں ہے۔
قومی تناظر میں دیکھا جائے تو اس سچائی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نوآبادیاتی تجربات نے ہی ہمارے یہاں ثقافتی گروہ کی سیاسی وابستگی والی سائیکی تشکیل دی تھی جس نے آگے چل کر برِصغیر میں کالے انگریز پیدا کیے تھے۔ تاہم یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ آج ہم عالمی سطح پر اپنی جو پہچان اور تہذیبی تشخص رکھتے ہیں، ستر سال پہلے دراصل وہی ہندوستان کی تقسیم اور ہماری آزادی کا بنیادی محرک بنا تھا۔ یہ تشخص مذہب، ثقافت اور زبان کے تین مضبوط ستونوں پر استوار تھا۔
تو پھر کیا وجہ ہوئی کہ آزادی حاصل کرنے اور قومی زندگی کی سات دہائیاں گزارنے کے باوجود نوآبادتی سائیکی ہمارے یہاں نہ صرف زندہ ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ مستحکم بھی۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اقتدار چاہے پہلے وہ بادشاہت کی صورت میں تھا یا اس عہدِ جدید میں جمہوریت کی قبا میں ہے، اس نے ہمیشہ عوام سے اپنے نوعی فرق کو قائم رکھا ہے۔ زبان بھی اس فرق کے اظہار کا اہم ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں نوآبادتی عہد سے آج تک انگریزی مقتدرہ اشرافیہ کی زبان سمجھی ہی نہیں جاتی، بلکہ عملاً اختیار بھی کی جاتی ہے۔ گویا انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ان کی زبان ہمارے سماج میں اقتدار اور اشرافیہ کی علامت کے طور پر اُسی طرح رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ اشرافیہ جو ہمارے قومی بطن سے پیدا ہوئی ہے، اس کی سائیکی بھی وہی ہے جو انگریز سامراج کی تھی۔ اس سائیکی کا سب سے نمایاں اظہار آج بھی اشرافیہ کی زبان، یعنی انگریزی ہے۔
اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ ہمارے یہاں اقتدار اور اشرافیہ دونوں ہی کے لیے زبان ہر مرحلے پر ایک قوت کا مظہر اور اُس کا آلۂ کار ہے۔ چناںچہ اس کے استعمال کا مقصد ابلاغ سے کہیں زیادہ ذاتی، سماجی یا گروہی طاقت کا اظہار اور سیاسی اہداف کا حصول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار و اختیار کی غلام گردشوں یا بااثر حلقوں میں زبان کو تہذیبی مظہر تو کیا درست معنوں میں رابطے کا ذریعہ بھی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے صرف مخصوص ضرورتوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہر زبان اور ثقافت کی نمائندگی کرنے والے کچھ افراد اقتدار کے ایوان میں ہوتے ہیں جو اپنے اپنے دائرے اور اپنی اپنی سطح پر سیاست کو زبان اور زبان کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ذاتی، نجی اور گروہی مقاصد کی تکمیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ خود ایسے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں زبان سیاسی تناؤ اور گروہی تفریق کی علامت ہوگئی ہے۔ یوں ہر زبان بلااستثنیٰ دوسری زبان کے لیے عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ قومی یک جہتی کا جذبہ ابھارنے کے بجائے سماج کے افراد میں تفریق کی بنیاد بنتی ہے۔ لسانی زاویے سے دیکھیے تو کسی زبان کا کردار فی نفسہٖ منفی نہیں ہوتا۔ وہ تو خود سے بزبانِ حال کہتی ہے:
تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی
اس لیے کہ وہ افراد یا سماجی گروہوں کے مابین مغائرت کی خلیج پاٹنے کے لیے وجود میں آتی ہے، لیکن سیاسی قوت سے جڑنے کی وجہ سے وہ اس کے برعکس کام میں مصروف ہوجاتی ہے۔
تہذیب خواہ کوئی بھی ہو، اس کی شناخت کا دائرہ کسی خاص مذہبی رجحان کے ساتھ بھی مکمل ہوسکتا ہے اور اس کے بغیر بھی۔ دنیا کے نقشے پر دونوں طرح کی نظریاتی ریاستیں ہیں، وہ جو مذہب کو بالالتزام شناخت کا حوالہ بناتی ہیں اور وہ بھی جو مذہب کے بغیر نظریاتی شناخت رکھتی ہیں۔ البتہ ایسی کوئی ریاست نہیں جس کے سارے سماجی گروہوں کے مابین ابلاغ یا ہم آہنگی کا رشتہ قائم کرنے والی کوئی زبان نہ ہو۔ گویا کوئی تہذیب یا کوئی ریاست شناخت کا مرحلہ طے ہی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنی زبان نہ رکھتی ہو۔ اب جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو وہ ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس کا قیام ایک خاص تہذیبی (مذہبی) شناخت کے اصرار (یعنی دو قومی نظریے) پر عمل میں آیا تھا۔
ظاہر ہے، اس تہذیبی شناخت میں لسانی فیکٹر بھی نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ یہ درست ہے کہ ریاست کے قیام کے تھوڑے عرصے بعد ہی ہمارے یہاں قومی زبان کا مسئلہ اُس وقت اٹھ کھڑا ہوا تھا جب مشرقی پاکستان کی آبادی نے اپنی عددی برتری کی بنیاد پر بنگلہ کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم قائدِاعظم کی تقاریر سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے 1973ء کے بنائے ہوئے آئین تک، یہ بات ہر شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر رہی ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اشرافیہ کے نزدیک اس کے عملی نفاذ کی صورت اب تک نہیں بن پائی۔
مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سیّد عبداللہ اور رئیس امروہوی سے لے کر پروفیسر فتح محمد ملک اور افتخار عارف تک اور ان کے بھی بعد کے لوگوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ تک ملک کی لسانی صورتِ حال اور سیاسی حقائق سے آگاہ لوگ اس امر پر اصرار کرتے ہیں کہ نہ صرف اردو آج قومی سرکاری زبان کی حیثیت سے جملہ ذمے داریاں اٹھانے کی پوری طرح اہل ہے، بلکہ اس کے نفاذ کے لیے انتظامی سطح پر جس modus operandi کی ضرورت ہے، وہ بھی تمام تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مکمل طور سے تیار ہے۔
اس تناظر میں ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی نے پانچ قومی زبانوں کا جو بل منظور کیا ہے، وہ کیا معنی رکھتا ہے اور ملکی سالمیت اور ہم آہنگی کے حوالے سے اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ بلاشبہ ہر زبان ایک ثقافتی اثاثہ رکھتی اور ایک تہذیبی پیراڈائم بناتی ہے۔ اس لیے ریاستی دائرے میں اپنے اثر و نفوذ اور عددی تناسب سے قطعِ نظر اُس کی بقا کا ہر ممکن سامان کیا جانا چاہیے۔ اس بنیاد پر پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانیں اہم ہیں اور ان کے حقوق کا اعتراف کھلے بندوں کیا جانا چاہیے۔
تاہم قومی اور سرکاری زبان کا معاملہ کچھ اور حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ ان میں اساسی نکتہ زبان کا ابلاغیاتی اسکوپ ہوتا ہے۔ گلوبل ولیج کے عالمی امور ہوں یا پاکستان کا قومی تناظر، سیاست کے شطرنجی کھیل کے باوجود کراچی سے خیبر تک اردو ہی واحد زبان ہے جو طبقاتی تقسیم سے قطعِ نظر اور ثقافتی رنگارنگی کے باوجود ابلاغ کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک لنگوا فرانکا کا کردار جس خوبی اور کامیابی سے اردو ادا کرتی ہے، کوئی دوسری زبان نہیں کرتی۔ اس کے خلاف ہونے والی ساری مہم جوئی کے باوجود اگر آج بھی ہمارے ملکی سیاق میں اردو کی یہ حیثیت برقرار ہے تو آخر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے کہ اردو ہماری قومی شناخت کے بعد قومی سالمیت کا بھی اہم ترین حوالہ ہے۔
بحث یہ نہیں ہے کہ پاکستان کی ایک سے زیادہ قومی زبانیں نہ ہوں، مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ اردو کی جگہ کسی دوسری زبان کو قومی زبان بنا کے ملکی سطح پر ابلاغ کی صورتِ حال کو بہتر بنانا تو دور کی بات ہے، اس حد پر برقرار بھی نہیں رکھا جاسکتا، جس پر وہ اِس وقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو زبان فی الاصل ہماری قومی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو ہمیں سیاسی قوتوں کی چال بازی کے اثر میں آکر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اردو ہماری قومی وحدت کا نشان اور سماجی اکائی کی علامت ہے۔ ملک میں بولی جانے والی کسی بھی دوسری زبان سے اسے ٹکرا کر اردو کا کوئی نقصان ہو یا نہ ہو، یہ بہرطور طے ہے کہ ہماری قومی وحدت اور ہماری سماجی اکائی کو ضرور ناقابلِ تلافی گزند پہنچے گی۔
اب جہاں تک بات ہے، دوسری زبانوں کے قومی زبان کا درجہ پانے کی تو یہ سمجھنا کہ اس اقدام کے نتیجے میں پاکستان کے شہریوں کے مابین مساوی حیثیت کا تأثر مستحکم ہوگا، یہ محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ واقعاتی سطح پر دیکھیے تو اس کے معکوس اثرات ہوں گے۔ پہلی بات یہ کہ اس طرح ملک میں بولی جانے والی زبانیں ایک دوسرے کے لیے تقویت اور تعمیر کا ذریعہ بننے کے بجائے تخفیف اور تخریب کے حالات پیدا کریں گی۔ دوسری بات یہ کہ جو زبانیں قومی زبان کی حیثیت حاصل کرلیں گی، ان کے اور اس حیثیت کو نہ پانے والی زبانوں کے درمیان مسابقت اور مخاصمت کا محاذ کھل جائے گا اور قوم نفاق کا شکار ہوگی۔ اس لیے کہ ہر زبان کا بولنے والا گروہ ایک جذباتی رویہ رکھتا اور اپنی زبان کو آئیڈیل باور کرتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں عموماً زمینی حقائق فراموش کردیے جاتے ہیں اور محض جذباتی تناظر میں مطالبات اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ اردو پاکستان کے کسی ایک صوبے کی زبان نہیں ہے، اس لیے کسی صوبائی زبان سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، لیکن جن چار زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جارہا ہے وہ چاروں اپنے اپنے صوبے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے قومی زبان قرار پانے کے بعد دوسری زبانیں بولنے والوں میں اس احساس کو پھیلنے سے نہیں روکا جاسکتا کہ اگر اُن کے پاس بھی اپنا ایک صوبہ ہوتا، یعنی جس میں ان کو صوبائی حیثیت میسر ہوتی تو وہ بھی قومی زبان کا درجہ حاصل کرسکتی تھیں۔ یہ احساس آگے چل کر نئے صوبوں کی تشکیل کا سوال اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
نئے صوبے بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن اُس وقت جب یہ کام سیاسی دباؤ کے تحت نہیں، بلکہ انتظامی صورتِ حال کی بہتری اور عوامی فلاح کے لیے کیا جائے۔ اس وقت ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، ان میں اس نوع کے تجربات سے بعض ایسے مسائل پیدا ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جو یک جہتی اور قومی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کرسکتے ہیں۔
دوسرے کچھ اور حقائق کے ساتھ ہمارے یہاں اس وقت قومی زبان کا یہ مسئلہ بھی دراصل بڑھی ہوئی سیاسی حسیت کا مظہر ہے۔ کثیر ثقافتی کثیر لسانی ممالک میں قومی زبان کا تعین، جیسا کہ عرض کیا گیا، ابلاغیاتی تناظر میں کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد مرکزی دھارے کی وسعت اور قومی ہم آہنگی کا فروغ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ملک میں بولی جانے والی کسی اور زبان کی ثقافتی برتری یا کمتری سے بحث کی جاتی ہے اور نہ ہی عددی تناسبات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہر ثقافتی گروہ کے لیے ہی نہیں، بلکہ ہر شخص کے لیے اُس کی مادری زبان کا رشتہ اپنی ایک کشش اور اہمیت رکھتا ہے۔
تاہم نئے لسانی نظریات اور جدید نفسیات دونوں کے ماہرین اب اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں فرسٹ لینگویج کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اسی زبان میں سب سے پہلے اسما اور افعال سے نہ صرف واقف ہوتا ہے، بلکہ اُن کے بارے میں سوچنے، سمجھنے، پوچھنے اور بتانے کی صلاحیت بھی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح فرسٹ لینگویج اُس کی شخصیت کی تعمیر اور سائیکی کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی کے توسط سے انسان سب سے پہلے اپنے تہذیبی، سماجی، جغرافیائی اور قومی رشتوں کو شناخت کرتا ہے اور اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ان کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اب مادری زبان کی تمام تر محبت کے باوجود ہر فرد کی زندگی میں فرسٹ لینگویج کا کردار واضح طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
اپنے موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں قومی زبان کے اس مسئلے کے بارے میں سوچنا اور ذمے داری کے ساتھ اس کے لیے لائحۂ عمل بنانا اور عملاً اختیار کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں سیاسی مقتدرہ اور اشرافیہ کا کردار بھی یقینا اہم ہوگا۔ تاہم اس سچائی کو یاد رکھنا چاہیے کہ جن حالات سے ہم قومی اور ملکی سطح پر دوچار ہیں، ان میں اہلِ سیاست کی اپنی مجبوریاں ہوا کرتی ہیں۔ اگر وہ مخلصانہ مساعی کا دعویٰ کریں تو بھی اُن کا بیانیہ حتمی طور پر تہذیبی اور قومی بیانیے کا درجہ نہیں پاسکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ سیاسی مقتدرہ کے کام کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے، مثلاً کسی مسئلے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنادی جائے، سفارشات کے لیے بورڈ تشکیل دیا جائے یا کسی بڑے معاملے کے لیے ایک علاحدہ وزارت قائم کردی جائے۔
ٹھیک ہے، اس اندازِکار کے تقاضے اپنی جگہ، تاہم پاکستان جیسے ملک میں جہاں زبان کا مسئلہ تہذیبی و قومی تناظر اور زمینی حقائق سے زیادہ جذباتی ردِعمل کے تحت دیکھا اور پیش کیا جارہا ہو، وہاں صرف مقتدرہ، اشرافیہ اور عدلیہ کے اقدامات کے ذریعے ایسے مسائل کو فیصلہ کن طور پر حل نہیں کیا جاسکتا، جیسے مشرقی پاکستان میں نہیں کیا جاسکا تھا۔ اس کے لیے غیر سرکاری تہذیبی اداروں، ذرائعِ ابلاغ، اہلِ زبان و ادب، اہلِ نظر اور سماجی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اپنی ملکی سلامتی، سماجی ہم آہنگی اور قومی سالمیت سے ہمیں سروکار ہے اور ہم اُس کی بقا کے آرزومند ہیں تو ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اس وقت اپنے کردار کو سمجھنا اور عملی طور پر نبھانا ہوگا۔ آج ہمارے یہاں قومی زبان کا یہ مسئلہ اسی نوعیت کا ہے جو ہم سے سنجیدہ اور بردبار رویے کا تقاضا کرتا ہے۔