شہباز شریف نے کہا کہ آپ کے پاس علم تو ہے لیکن پیسہ نہیں سینیٹر ایس ایم ظفر

قراردادِ مقاصد قدامت پسندوں اور جدت پسندوں کے درمیان کمپرومائز کا نتیجہ تھی، سینیٹر

بھارتی مداخلت کے بغیر بنگلہ دیش کبھی نہ بنتا، ممتاز قانون دان، سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر ایس ایم ظفر سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

ممتاز قانون دان، سینئر سیاست دان، مصنف اوردانشور ایس ایم ظفر ملکی تاریخ کے کئی اہم گوشوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ 35 برس کی عمر میں ایوب کابینہ میں قانون و پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر بنے۔ کئی اہم ملکی اور بین الاقوامی مقدموں میں کامیابی حاصل کی۔ 2003ء سے 2012ء تک سینٹ کے ممبر رہے۔2004ء سے 2012ء تک ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلر کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ 2011ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ایک نشست میں مختلف موضوعات پر ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ ایوب خان کی حکومت میں وفاقی وزیر قانون بنے اور پھر مشرف دور میں سینیٹر رہے۔ فوجی حکومتوں میں آپ جیسے قانون دان کے موجود ہونے سے کیا ان کو تقویت نہیں ملتی؟

ایس ایم ظفر: میں نے مارشل لاء اور ایسی حکومت جس میں سے مارشل لاء اٹھ چکا ہو، اس میں تفریق رکھی ہے۔ اپنی ساری زندگی کسی مارشل لاء حکومت میں شامل نہیں رہا۔کسی مارشل لاء حکومت میں سینٹ کا ممبر بھی نہیں رہا۔ جب مارشل لاء اٹھ جاتے رہے اور جمہوریت کی جانب سچا یا جھوٹا قدم اٹھایا جاتا تھا تو نظام کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لیے ہمیشہ میں نے کوشش کی۔ پہلے ایوب صاحب کے دور کی بات کر لوں۔ ایوب صاحب کے آئین کے دو حصے ہیں۔ 1962ء کے آئین میں بنیادی حقوق تھے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی اجازت تھی۔

1965ء میں یہ دنوں چیزیں آ گئیں اور میں پاکستان مسلم لیگ کے کنونشن کا ممبر بن گیا اور منسٹر بھی ہو گیا۔ وزارت کے دوران جمہوریت کو مضبوط کرنے والے تمام معاملات تیزی سے آگے بڑھائے۔ الیکٹرل کالج جو پہلے 180 ممبران کی تھی، اس کو زور لگا کے تین لاکھ کے قریب بڑھا دیا اور کوشش کی کہ یہ مزید آگے بڑھتی چلی جائے۔ پہلے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے لیے وزیر انٹرویو کرتا تھا، میں نے اس غیر جمہوری طریقے کو ختم کرا دیا جو عدلیہ کی آزادی کے خلاف تھا۔ بارکونسل ایکٹ نافذ کرایا۔ وہ تمام اقدامات جو میری استطاعت میں تھے، میں نے کیے۔ بہت سے غیر جمہوری اقدامات کو ہونے سے روکا، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
جب

میں مشرف دور میں سینیٹر بنا تو پہلے مسلم لیگ قائداعظم کا ممبرتھا۔ انہوں نے مجھے ٹکٹ دیا۔ انہوں نے کس کے کہنے پر مجھے ٹکٹ دیا اس سے میرا کوئی تعلق نہیں، کیونکہ میں اپنے ضمیر کے مطابق آیا تھا کسی کا غلام بن کے نہیں۔ یہاں ذکر کرتا چلوں کہ ایوب صاحب کے دور میں 1962ء سے 1965ء کے دوران کتنے لوگوں نے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا۔ جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی، مولوی تمیز الدین اس کے سپیکر تھے۔

انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔ جب ایوب خان نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات رکھے جو سیاست اور جمہوریت کے بالکل خلاف بات تھی، انہوں نے حصہ بھی لیا اور اس قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے۔ ہمارے بہت ہی محترم نوابزادہ نصراللہ صاحب نے بھی الیکشن لڑا۔ بہت سے سیاستدان جو مشہور ہوئے، مغربی پاکستان سے بھی اور مشرقی پاکستان سے تو میرے پاس ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے، انہوں نے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا۔ تو الیکشن میں حصہ لے کر آنا سیاسی کمزوری نہیں بلکہ وہ آپ کی طاقت کی ابتدا ہوتی ہے۔ میں بھی اسی لحاظ سے اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتے ہوئے آیا اور جتنی طاقت تھی اس کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً کیا۔

ایکسپریس: آپ نے نچلی سطح سے وکالت شروع کی اور بڑی جدوجہد سے اپنا نام بنایا، اپنے وکالت کے سفر کے بارے میں بتائیں؟

ایس ایم ظفر: 1950ء میں وکالت شروع کر دی تھی۔ آپ نے درست فرمایا بالکل نچلی سطح سے شروع کی۔ سائیکل پر وکالت بھی شروع کی اور سائیکل پر ہی تھے جب لاء کالج میں لیکچرشپ مل گئی۔ مقدمات آہستہ آہستہ بڑھتے گئے، بالآخر شہرت اتنی بڑھی کہ 1965ء میں وزارت بھی مل گئی۔ وزارت کے بعد جب لاہور آیا پھر وکالت شروع کر دی۔ پہلے سے زیادہ کامیابی ملی۔

اللہ کے فضل سے بہت سارے بڑے مقدمات لیے۔ کچھ قومی بھی اور کچھ بین الاقوامی بھی۔ ان میں سے لوگ اکثر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مقدمے کا ذکر کرتے ہیں، جب ہالینڈ کی ایک عدالت نے خفیہ معلومات کے حصول کی کوشش کے الزام میں ان کو سزا سنائی۔ اس مقدمے میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔ میرے نزدیک دو اورمقدمات بھی اتنے ہی اہم ہیں، ایک کشمیری رہنما امان اللہ خان کا جنہیں برسلز میں بھارت کے ریڈوارنٹ کے ذریعے گرفتار کر لیا گیا تھا اور انہیں ہندوستان بھیجنا اس وارنٹ کی وجہ سے لازمی تھا، ان کو وہاں سے چھڑا کر لانا۔ دوسرے ارشد پرویز جن کو امریکہ میں اس الزام میں پکڑا گیا کہ وہ پاکستان میں خاص قسم کا فولاد برآمد کر رہے ہیں جو نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں استعمال ہو گا، ان کی آزادی کی کوشش میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ مجھے تینوں مقدمات کی کامیابی پر بڑا فخر ہے۔

ایکسپریس: نوجوان وکیل اور قانون دان آپ کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، ان کے لیے آپ کیا تجویز کریںگے کہ کامیاب وکیل بننے کے لیے کون سی صفات ضروری ہیں؟

ایس ایم ظفر: ''میرے مشہور مقدمے'' میری کتاب ہے اور میں امید کرتا ہوںکہ ہماری وکلا برادری کے لوگ اس کو پڑھیں گے۔ ہر مقدمے میں کیسے سوال اٹھتے رہے، ان کو ہم نے کیسے جیتا، یہ سب وہ اس میں جان سکیں گے۔ میں نے وکالت سے تین سال پہلے ازخود ریٹائرمنٹ لے لی ہے، ویسے ہمارے پیشے میں ریٹائرمنٹ نہیں ہوا کرتی۔ میں نے اللہ کے فضل سے یہ فیصلہ بروقت کیا اور تین سال پہلے وکالت چھوڑ دی۔ اس وقت میں نے سوچا مجھے چھوٹی موٹی رہنما کتاب لکھنی چاہیے۔

تو میں نے انگریزی میں کتاب لکھی ہے، "Be a Competent Lawyer" (قابل وکیل بنو)۔ اس میں دو اصول میں نے بڑی سختی سے بیان کیے ہیں، پہلا محنت، محنت اور محنت۔ اس کے بغیر خوش قسمتی بھی آپ کو نہیں چھوئے گی۔ دوسرے میں نے یہ کہا کہ صرف قانون کا علم کافی نہیں، دوسرے علوم پر بھی کچھ نہ کچھ دسترس حاصل کرنی چاہیے۔ فلسفہ، تاریخ کا علم اور اچھی زبان دانی ایک وکیل کے لیے لازم ہیں۔ جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے، میں نے تاکید کی ہے کبھی عدالت کے سامنے غلط بیانی نہ کریں، جو شہادت ہے اس کی بنیاد پر بات کریں، اپنے موکل کے حق کو امانت سمجھیں، کوئی چیز چھپائیں اور نہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔

ایکسپریس: 1990ء میں آپ اسلامی اتحاد سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے امیدوار تھے، جو آپ کو نہ مل سکا۔ غلام مصطفی جتوئی نے آپ کو کہا کہ اچھا ہی ہوا کہ ٹکٹ نہیں ملا، ورنہ آپ کے کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ ہو جاتے۔ ہمارے ہاں سیاست میں کرپشن اور پیسے کا چلن کب عام ہوا؟ آپ ایوب کابینہ کا حصہ رہے، کیا اُس وقت بھی یہی حالات تھے؟

ایس ایم ظفر: مجھے یہ بات صرف جتوئی صاحب نے نہیں کہی تھی کہ آپ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے کیوں کہ آپ کے پاس اتنی دولت نہیں ہے۔ جب نواز شریف صاحب کے دوسرے دور حکومت میں ان پر توہین عدالت کا کیس چلا، میں ان کا وکیل تھا۔ بعدازاں سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کی وجہ سے توہین عدالت کی کاروائی شروع ہوئی، تب بھی میں ان کا وکیل تھا۔ جب ہم کامیابی کے قریب پہنچ گئے اور بالآخر وہ اس مقدمے میں بری ہو گئے، تو اس وقت یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مجھے الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن مجھے شہباز شریف نے کہا، ''آپ کے پاس علم تو ہے دولت نہیں ہے، الیکشن لڑنا آسان کام نہیں۔'' یہ بات تو شروع ہو گئی تھی بہت پہلے سے کہ الیکشن پہ لوگوں نے خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن عمومی کرپشن ایوب صاحب کے زمانے میں بڑی کم تھی۔ ایک آدھ ہی کوئی کرپشن کی بات سننے میں آتی تھی۔ ایک انڈسٹری کے سیکرٹری صاحب تھے ان کے متعلق بات آئی کہ ان کی بیٹی کی شادی پر بڑے تحفے آئے اور انہوں نے وہ سارے تحفے اپنے پاس رکھ لیے۔ اس قسم کی کرپشن کی باتیں تو آتی تھیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس دور تک کرپشن سیاست میں نہیں پہنچی تھی۔ اب تو سیاست تجارت ہو گئی ہے۔ اب الیکشن لڑتے ہیں تاکہ جتنا الیکشن پہ خرچ ہوا ہے وہ پورا کر لیا جائے۔

ایکسپریس: یہ سب کیسے ٹھیک ہوگا؟

ایس ایم ظفر: سیاسی جماعتیں اگر مضبوط ہوں، ان میں جمہوریت ہو اور وہ الیکشن اپنی طاقت پر جیتیں اور الیکشن کے لیے اخراجات سیاسی جماعت کرے تو پھر بڑا فرق پڑ جائے گا۔ آپ کو پتا ہے کئی ممالک میں سیاسی جماعتوں کو فنڈ جمع کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اور وہ فنڈ جب جمع کرتے ہیں تو اس کا مکمل حساب رکھا جاتا ہے۔ یہاں تو ابھی اس طرح مکمل حساب رکھنے والی بات نہیں پہنچی پوری طرح سے۔ تو ابھی راستہ طویل ہے، لیکن الیکشن کا یہ معاملہ درست کیا جا سکتا ہے۔ اتفاق سے جتنا خرچ ہمارے ہاں کیا جاتا ہے اس سے کم خرچ ہندوستان میں بھی نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی کچھ لوگ جو اتنے امیر نہیں ہوتے وہ اپنی سیاسی جماعت کے بل بوتے پر منتخب ہو کر اسمبلی میں آ جاتے ہیں۔

ایکسپریس: اگر متناسب نمائندگی کو پاکستان میں متعارف کرایا جائے تو کیا صورتحال بہتر نہیں ہو جائے گی؟
ایس ایم ظفر: متناسب نمائندگی کا مسئلہ اٹھا تھا ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں۔ انہوں نے شاید ایک قانون بھی بنا دیا تھا، ہمارے سیاسی لوگوں نے تقریباً متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی اور ان کو یہ واپس لینا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی ہمارے ہاں حکومت برطانیہ کے وقت سے جب ہم کلونائز تھے، ہمارا ایک ہی تجربہ ہے پارلیمانی طرز کے انتخابات کا۔ اس نظام میں یہی ہے کہ جو جتنے ووٹ لے جائے چاہے وہ 30 فیصد ہوں یا 20 فیصد، لیکن اگر وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں تو وہ جیت جائے گا۔ ''فرسٹ پاس دا پوسٹ'' کہتے ہیں اس کو کہ جو پہلے رسی کراس کر گیا وہی کامیاب ہے ۔ اسی کے ہم عادی ہو چکے ہوئے ہیں۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ اس سے مختلف ہے۔ متناسب نمائندگی سے چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی اسمبلی میں آ جاتی ہیں اور بڑی منقسم سی اسمبلی بن جاتی ہے۔ اس کا بھی علاج تو ہے اس نظام میں، کچھ پرسنٹیج ایسی مقرر کر دی جاتی ہے کہ اس پرسنٹیج سے کم جو پارٹیاں ووٹ لیں گی وہ اسمبلی میں نہیں آ سکیں گی۔ اس میں پھر ہمارے ملک میں دقت ہوتی ہے کہ بلوچستان کے علاقے میں جس کی آبادی کم ہے، وہ پرسنٹیج کوئی پارٹی حاصل نہیں کر سکے گی۔ اس کا کیا علاج کیا جائے؟ یہ سارے سوالات اٹھتے رہے اور سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ پھر جس کو پارٹی منتخب کرے گی وہ لوگوں کی نمائندگی نہیں کر سکے گا۔ وہ تو پارٹی کی نمائندگی کرے گا اپنے علاقے کی نہیں کرے گا۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہ بہت اچھی ایجاد تھی اور ارتقا تھا بہتر الیکشن کرانے کا۔ یورپ کے کچھ ممالک میں یہی نظام رائج ہے۔

ایکسپریس: کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت پاناما کیس اپنی نوعیت میں قانونی سے زیادہ سیاسی مقدمہ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ایس ایم ظفر: پاناما کیس میری نظر میں بھی اور بادی النظر میں سیاسی کیس ہے اور سیاسی مقدمات کو عام طور پر عدالتیں قابل پیش رفت نہیں سمجھتیں۔ لیکن پاناما کیس میں ایک عنصر ایسا آ گیا جس کو اب آئین میں گنجائش مل گئی ہے کہ اس پہ شنوائی ہو سکے۔ وہ یہ ہے کہ جو پارلیمنٹ کا ممبر ہو اگر اس کا بیان ثابت ہو کہ جھوٹا ہے کسی معاملے میں تو پھر اسے صادق یا امین نہ مان کر اس کے متعلق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ تو اب پاناما سے نکل کر یہ آئین کے اس دائرے میں مقدمہ داخل ہوا ہے۔ اگر محض پاناما کا مقدمہ رہتا تو میرے خیال میں اس پر فیصلہ نہ ہو سکتا، لیکن اب جو تفتیش ہو رہی ہے جس پہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنی ہے، اس کا مقصد یہی دیکھنا ہے کہ میاں نوازشریف صادق و امین رہے ہیں یا نہیں۔


ایکسپریس: کہا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے پھانسی کی جو سزا ہوئی اس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

ایس ایم ظفر: ذوالفقار علی بھٹو کو جو سزا دی گئی اس میں دو چار عناصر ایسے ہیں کہ جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے انہیں انصاف نہیں ملا ۔ ایک تو یہ کہ جب ہائی کورٹ میں مقدمہ چلا، جج صاحبان کا تعصب واضح ہو رہا تھا، مولوی مشتاق حسین کا خاص طور پر۔ وہ اس بینچ کے سربراہ تھے، ان کے تعصب میں تو کوئی شک و شبہہ نہیں۔ دوسرے یہ مقدمہ جو کہ پہلے بند کر دیا گیا تھا اسے دوبارہ کھولا گیا اور اس میں جن لوگوں نے اعتراف گناہ کیا وہی مقدمے کے دوبارہ آغاز کی بنیاد بنا۔ اس وقت تک کا قانون تشریحی لحاظ سے یہ تھا کہ اس قسم کے لوگ جو خود شامل ہوتے ہیں جرم میں، ان کی گواہی پر سزا نہیں ہو سکتی، جب تک مکمل طورپر ان کی گواہی کی تصدیق باقی گواہیوں سے نہ ہوتی ہو۔ اس مقدمے میں وہ پوری تصدیق موجود نہیں تھی لیکن ایک نئی تشریح کر کے اس وقت کے چیف جسٹس نے اور فل بنچ نے جو انوار الحق کی سربراہی میں چل رہا تھا، نیا عدالتی قانون بنا دیا کہ جنہوں نے اعتراف کیا ہے وہ اگر خود بھی اس گناہ میں شامل ہیں تو ان کی گواہی پر بھی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ اس وقت تک کے رائج قانون میں بہت بڑی تبدیلی تھی، جس کا نتیجہ ہے کہ آج تک کسی نے اس فیصلے کو نہیں مانا حالانکہ وہ فل بنچ کا فیصلہ تھا۔ صدر زرداری کے دور میں اس کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست سپریم کورٹ میں دی گئی اور عدالت نے قانونی معاونت کے لیے مجھے طلب کیا۔ وہاں میرا موقف تھا کہ یہ صحیح ہے اس فیصلے میں ناانصافی ہوئی، لیکن اگر عدالت صرف اس فیصلے کو غلط قرار دیتی ہے تو یہ ان بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی جن کو بھی غلط سزا دی گئی اور انہیں بھی سزائے موت ہوئی۔ میں نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے ملکوں میں بھی بہت دفعہ ناانصافیوں کا پتا لگ جاتا ہے خاص طور پر جب سے ڈی این اے کا ٹیسٹ آیا ہے۔ تو اس میں دیکھا گیا کہ جو ملزم تھا، سزا بھی ہو گئی تھی، بعض قید میں بیس بیس سال بھی گزار چکے تھے، کچھ کو سزائے موت بھی ہو گئی تھی مگر وہ دراصل مجرم نہیں، معصوم تھے۔ تو انہوں نے ایک قانون بنا دیا جس کی مدد سے ایسے تمام فیصلوں پر نظرثانی ہو سکے۔ میں نے عدالت کو کہا کہ قانون بنا دیا جائے جس میں صرف ایک نہیں بلکہ تمام ایسے متاثرہ افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کی جائے اور قانون کی مثال بھی عدالت میں پیش کر دی تھی لیکن اس مقدمے کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔

ایکسپریس: ہمارے عدالتی نظام میں کیا خرابی ہے کہ عام آدمی کو انصاف نہیں ملتا اور کئی برسوں تک مقدمے لٹکے رہتے ہیں۔ فوری اور سستا انصاف کیسے مل سکتا ہے؟
ایس ایم ظفر: ہر ریاست کے نظام عدل میں دو حصے ہوتے ہیںایک فوجداری اور دوسرا دیوانی۔ دونوں کے علیحدہ علیحدہ تقاضے ہیں۔ فوجداری مقدمے میں انصاف نہ ملنے کی دو خوفناک جڑیں ہیں: ایک تو یہ کہ تفتیشی افسران یعنی پولیس کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے مکمل تفتیش نہیں کرتی اور خرابی کی دوسری جڑ یہ ہے کہ عوام بھی سچ نہیں بولتے۔ پھر چشم دید گواہ بھی بعض اوقات آگے نہیں آتے۔ یہ تمام چیزیں اس سے پہلے کہ عدالت کو انصاف کا موقع ملے، انصاف کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمے بہت زیادہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہوتی رہتی ہے۔ یہ طوالت وکلا صاحبان کی بھی کمزوری ہے، وہ اپنے کلائنٹ کی بات مان لیتے ہیں۔مقدمہ میں طوالت سے سائل کا جوش و خروش ماند پڑ جاتا ہے، گواہان بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور یوں صرف تاخیر کی وجہ سے انصاف کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے وکلا بھی اب جرح کے اتنے ماہر نہیں رہ گئے اور ان کی کمزوری کی وجہ سے کئی دفعہ نقص رہ جاتے ہیں۔ تو جج جنہوں نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اگر وہ نیک نیتی سے درست فیصلہ دینا چاہیں تو بھی قانون ان کو وہ سزا دینے کی گنجائش پیدا نہیں کرتا جو ہونی چاہیے۔

دیوانی مقدمات تو واقعی لوگوں کو دیوانہ بنا دیتے ہیں اور ان میں اتنے زیادہ رخنے موجود ہیں جن کا استعمال وکلاء صاحبان اچھی طرح سے کر لیتے ہیں۔ اب تو لوگ کچھ مقدمہ باز بھی زیادہ ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ علیحدہ قسم کی عدالتیں ہوں جن کو ہم کسی زمانے میں پنچایت کہتے تھے، پنچایت دیہاتوں میں ہوتی ہے، یہاں تو پنچایت نہیں ہو سکتی، یہاں کچھ اور عدالتیں بنائی جا سکتی ہیں لوکل عدالتیں۔ججز کی تعداد بڑھائی جائے، ان کو اچھا عملہ دیا جائے اور ایسی ریفارمز کی جائیں جن میں جج صاحبان خود ایشو بنا سکیں۔ وہاں ولایت میں دس بارہ سال پہلے اس طرح کی اصلاحات ہوئی ہیں۔ جس میں جج صاحبان خود تحقیق کر کے ایشو بناتے ہیں اور وکلا ء کو بلا کر کہتے ہیں کہ یہ قانون جس کو آپ ایشو بنا رہے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں، یہ ایشو یوں بن سکتا ہے وغیرہ۔ تو اسی وقت فیصلہ کر کے وہاں سے اٹھ جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے مقدمے کی تفصیلات کو پڑھا ہوتا ہے۔ اسے کہتے ہیں ایشو کے لیے ثالثی کر لیتے ہیں۔ اگر اس طرف پیش رفت ہو اور اس کا پھل ملنا شروع ہو تب ہی معاملہ آگے بڑھ سکے گا اور آپ جانتے ہیں کہ پرانے نظام پر اڑنا آسان ہوتا ہے جبکہ نئے نظام کی طرف بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ جہاںتک سستے انصاف کاتعلق ہے، اگر ماتحت عدالتوں میں ہی درست انصاف ہو جائے تو اس کی زیادہ اپیل نہیں ہو گی۔ معاملہ لوئر کورٹ اور سیشن کورٹ تک ہی رہتا ہے جو عام طور پر غریب لوگ بھی افورڈ کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز مفت قانونی مدد کے لیے تنظیمیں بھی بناتی ہیں۔

ایکسپریس: آپ پاکستان کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
ایس ایم ظفر: پاکستان ابھی کرائسز میں رہے گا لیکن چوں کہ نوجوانوں کی تعداد اب زیادہ ہونے والی ہے اور وہ ماضی کا پرانا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہوں گے، ان میں سے کچھ بہت زیادہ باصلاحیت لوگ بھی نکلتے چلے آ رہے ہیں، جنہوں نے بہت دنیا دیکھ لی اور سمجھ بھی لی ہے۔ مجھے اب کچھ عرصے بعد جو مستقبل دکھائی دے رہا ہے وہ پچھلے تمام ماضی سے بہتر ہے۔ کچھ ہماری مدد جیو پولیٹیکل صورتحال بھی کر رہی ہے، کچھ صورتحال ہم خود بھی تبدیل کرنے کو تیار ہو رہے ہیں۔ تو جب لوگ خود اپنی تبدیلی کے لیے تیار ہو جائیں تو یقیناً منزل آسان ہو جاتی ہے لیکن اس میں بھی کچھ وقت لگے گا۔ اگرچہ لوگ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں، لیکن ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

کشمیر میں بھارت کو بالآخر ڪہتھیار ڈالنا پڑیں گے
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں آخری قرارداد 20 ستمبر 1965ء کو پیش ہوئی، جسے حاصل کرنے میں اس وقت کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کا بہت اہم کردار تھا۔ انہوں نے کشمیری رہنما امان اللہ خان کا مقدمہ بھی لڑا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا: ''پاکستان نے لڑائیاں بھی لڑیں اور کچھ بڑھ چڑھ کر مداخلتیں بھی کیں پھر بھی بات نہیں بنی۔ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا گیا وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ انصاف کی عدالتوں کی جانب بھی دیکھا گیا، انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے۔ سکیورٹی کونسل معلوم ہوا سیاسی جگہ رہ گئی ہے اور اس کی قراردادیں بے کار قسم کی دستاویز ہیں۔ ان تمام چیزوں کو دیکھ کر کشمیری باہر کی دنیا سے مایوس ہو گئے ہیں اور اب انہوں نے درست فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے اب اپنی آزادی کا علم اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور جتنا تشدد بھارت کرے گا اتنی آزادی کی لہر تیز ہو گی، اتنا انتقامی جذبہ بڑھے گا اور نتیجہ انشاء اللہ یہی ہو گا کہ بھارت کو بالآخر ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ وہاں سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں اور اگر ہم نے باہر کی دنیا میں اس مسئلے کو صحیح طرح سے اجاگر کیا تو پھر بھارت کے لیے یقیناً مشکل ہو جائے گا کہ وہ کشمیر پر تسلط قائم رکھ سکے۔''

جسٹس منیر، پسندیدہ ترین جج
میرا پسندیدہ جج کون رہا، اس ضمن میں میری پسند کی دو وجوہات ہیں۔ ایک جس کے فیصلے کا معیار بڑا اونچا ہو اور دوسرے جس کا اپنا تصور قانون بہت مضبوط ہو، ان دو چیزوں میں مجھے جسٹس منیر کا نمبر ایک دکھائی دیا ہے۔ اس وجہ سے کسی کو انکار ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہر ایک کی اپنی رائے ہوتی ہے اور ہر ایک میں کوئی نہ کوئی صفت تو ہوا کرتی ہے۔ ایک فقیہہ (Jurist) کی حیثیت سے ان کے مقام سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں؟
فوجی عدالتیں مجھے تو نا پسند ہیں اور ہر جمہوری شخص کو ناپسند ہوں گی۔ لیکن دہشت گردی ہمارے ملک میں بہت بڑھ گئی تھی اور ان کے ڈر سے گواہی نہیں ملتی تھی۔ اگر مقدمہ چل بھی پڑے تو عدالتیں اپنے جان مال اور اولاد کی وجہ سے گھبرا کے فیصلے نہیں کرتی تھیں اور بریت کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ حکومت کی مجبوری کی وجہ سے آئین میں ترمیم کی گئی کہ دوسال کے لیے ملٹری کورٹس کام کریں گی اگرچہ اس میں بھی سپریم کورٹ کو دخل دینے کا اختیار دیا گیا۔ دو سال کا عرصہ اس لیے رکھا گیا کہ سول حکومت اپنے آپ کو اس دوران تیار کر لے اور وہ سول انتظامیہ سے فیصلے کرا سکے، جو کہ نہیں ہو سکا اور پھر فوجی عدالتوں کو توسیع مل گئی۔ تو اس میں ہماری اپنی سیاسی کمزوری بھی ہے۔تاہم فوجی عدالتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا، اس لیے ان سے وہ دیرپا نتیجہ نہیںنکل سکتا جو سول عدالتوں کے فوری اور صحیح انصاف مہیا کرنے سے نکلتا ہے۔

کاروان علم فاؤنڈیشن:
ایس ایم ظفر کاروان علم فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے غریب گھرانوں کے باصلاحیت طالب علموں کو وظائف جاری کیے جاتے ہیں۔ یہاں سے اب تک ملک بھر کے ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹر، انجینئر، کامرس اور دیگر شعبوں میں زیر تعلیم طالب علموں کی مالی اعانت کی جا چکی ہے۔ فاؤنڈیشن کے لیے رقم زکوٰۃ و عطیات سے اکٹھی کی جاتی ہے۔ اس وقت فاؤنڈیشن کے تحت 282 زیر کفالت طلبہ کے علاوہ تقریباً 190 مزید طلبہ کی درخواستیں زیر غور ہیں۔ جس کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے چار کروڑ روپے درکار ہیں۔ مزید معلومات ویب سائٹ www.kif.com سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

حالات زیست:ایس ایم ظفر نے، جن کا پورا نام سید محمد ظفر ہے، 6 دسمبر 1930ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد رنگون کی ایک کنٹرکٹ فرم سے منسلک تھے۔ وہ وہاں کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے سنگاپور پر قبضہ کرنے کے بعد برما کا رخ کر لیا۔ غیریقینی حالات کی وجہ سے ان کا خاندان بھی دوسرے خاندانوں کے ساتھ ہندوستان واپس آ گیا اور یہ شکر گڑھ کے قریب واقع اپنے آبائی گاؤں میں رہائش پذیر ہو گئے۔ ایس ایم ظفر بتاتے ہیں، ''اس زمانے میں پہلی بار لفظ مہاجر سنا اور ہمارے اوپر اس کا اطلاق ہوا۔ حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ جو برما کے مہاجرین سکول میں داخلہ لینا چاہیں، ان کے پاس اپنی کلاس کا سرٹیفیکیٹ یا ثبوت نہ ہو تو پھر سکول کے ہیڈماسٹر متعلقہ ٹیچرز کے ذریعے انٹرویوز لے کر فیصلہ کریںکہ ان کو اہلیت کے مطابق کس کلاس میں داخلہ دیا جائے۔'' رنگون انگریزوں کی قائم کی ہوئی بندرگاہ کی وجہ سے اہم شہر تھا، چنانچہ سکولوں میں انگریزی بھی اچھی پڑھائی جاتی تھی۔ انہوں نے دوجماعتیں اوپر بتا دیں اور اساتذہ نے بھی ان کی انگریزی سے متاثر ہو کر انہیں بخوشی اس جماعت میں داخلہ دے دیا۔یوں وہ اپنے بڑے بھائی سید محمد اقبال کے ہم جماعت بن گئے۔انہوں نے 1945ء میں غلام الدین ہائی سکول مینگڑی (شکر گڑھ) سے میڑک کیا، سکول میں اول آئے اور پنجاب یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کی۔

مزید تعلیم کے لیے بڑے بھائی نے علی گڑھ کا انتخاب کیا، جبکہ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بقول، ''چار پانچ سال گاؤں میں رہنے کی وجہ سے ہم شہری نہیں رہے تھے اور کپڑوں کی حیثیت بھی زیادہ شہریوں والی نہیں تھی۔ گورنمنٹ کالج میں بڑے اچھے گھرانوں کے لوگ اچھے کپڑے پہن کے مستعد دکھائی دیتے تھے اور ہم ڈھیلے ڈھالے۔ ہمیں پہلے ناں کر دی گئی، پھر بحث کرنے کے بعد داخلہ مل گیا۔ اگر میں پرانے وقتوں میں جاؤں تو مقدمات لینے کا سلسلہ شاید یہیں سے شروع ہوا کہ ہم نے پہلے اپنا مقدمہ جیتا۔'' والد ان کو انجینئر بنانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ خود کنٹریکٹر تھے۔ لیکن انہوں نے ایف ایس سی کے بعد والد کو بتائے بغیر انجینئرنگ کالج کے بجائے دوبارہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا کیوں کہ انہوں نے وکیل بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کالج یونین کے جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑا اور اسی زمانے میں ان کا نام سید محمد ظفر سے ایس ایم ظفر ہو گیا۔ بعد ازاں وہ لاء کالج پنجاب یونیورسٹی آ گئے۔ وہ بتاتے ہیں، ''جب والد کو پتا چلا کہ میں نے انجینئرنگ کے بجائے وکالت میں داخلہ لیا ہے، تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ بیٹے بتا دیتے تو اچھا تھا، اور اس زمانے کے اعتبار سے ان کا اتنا کہنا ہی میرے لیے بہت تھا۔''

ان کے والد سید محمد اشرف کیفی شاہ نظامی، صاحب کشف بزرگ اور اورخواجہ حسن نظامی دہلوی کے مرید تھے۔ ''کیفی شاہ نظامی'' کا لقب بھی انہیں مرشد نے دیا تھا، کیوں کہ انہیں مستقبل میں ہونے والے کچھ واقعات کا کشف ہوجاتا تھا۔ ایس ایم ظفر کے بقول، ''مہاتما گاندھی کے قتل سے بیس سال پہلے والد صاحب کے ایک کشف کا بیان اخباروں میں چھپا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مہاتما گاندھی کو ایک ہندو گولی سے مار دے گا۔ وہ تجزیہ تھا یا کچھ اور، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ میں اس دنیا کا آدمی نہیں ہوں۔'' وہ تین بیٹوں طارق ظفر، علی ظفر، عاصم ظفر اور ایک بیٹی روشانے ظفر کے مشفق والد ہیں۔ اپنی ساس معروف گلوکارہ ملکہ پکھراج کے بارے میں کہتے ہیں، ''انہیں اللہ پر بڑا یقین تھا، کوئی بھی پریشانی آ جائے وہ کہتی تھیں سب ٹھیک ہو جائے گا، فکر کرنے کی بات نہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی بڑے اچھے طریقے سے پرورش کی۔'' جب زیادہ فرصت میسر ہو وہ موسیقی سننا پسند کرتے ہیں، جس میں خاص طور پر مہدی حسن انہیں زیادہ پسند ہیں۔ان کی تصانیف یہ ہیں: ''میرے مشہور مقدمے'' ، ''عدالت میں سیاست'' ، ''عوام، پارلیمنٹ اور اسلام'' ، ''سینیٹر ایس ایم ظفرکی کہانی'' ، ''ڈکٹیٹر کون؟'' ، ''تذکرے اور جائزے'' ، ''پاکستان بنام کرپشن۔۔۔۔ عوام کی عدالت میں'' ، ''غیب سے مضامین''

"Be a Competent Lawyer" ' "Through the Crisis (1971)"' "Haj- AJourney in Obedience" ' "Understanding Statues(1997) " "Dialouge on the political chess Board"

گیارہ اگست کی تقریر:قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ وہ تقریر کہاں کی گئی اور کب کی گئی تھی۔ یہ تاریخ کے اس موڑ پہ ہے جب ہم نے ایک دستور ساز اسمبلی میں آئندہ کا قانون اور آئین بنانا ہے۔پھر یہ تقریر قائداعظم نے کی جو بانی پاکستان تھے۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تقریر کی بہت زیادہ اہمیت ہو جاتی ہے۔ قائد کی دوررس نگاہیں دیکھ سکتی تھیں کہ اب کیا ہو سکتا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ انہیں یہ خطرات ضرور پیش نظر تھے کہ ہمارے لوگ ابھی تک شعور کی اس سطح تک نہیں پہنچے کہ وہ ایک تحریک کے ایجنڈے کو ایک ملک کے ایجنڈے سے مختلف سمجھ سکیں۔ اس فرق کو بیان کرنے کی انہوں نے بڑی فصاحت کے ساتھ کوشش کی۔ یہ دوسری بات کہ ہم بعد میں آنے والوں نے اس کی الگ الگ تشریح کی۔ لیکن ان تمام تنازعات سے ہٹ کر کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا ذہن اس کو دیکھے گا تو اسے یہ تمام باتیں نظر آ جائیں گی۔ اس وقت کچھ بیورو کریٹس نے اس میں سے کچھ فقرے نکالنے کی کوشش کی جو شاید ان کے نظریات کے خلاف تھے، لیکن اللہ بھلا کرے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین صاحب کا، انہیں پتا لگا تو انہوں نے بڑی سختی سے ان الفاظ کو دوبارہ سے شائع کرنے کا حکم دیا۔

قرارداد مقاصد:یہ قرارداد اس وقت منظور ہوئی جب لیاقت علی خان صاحب وزیراعظم تھے اور ان کو پارلیمنٹ کا سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ قرارداد مقاصد ایک کمپرومائز ڈاکومنٹ ہے، جسے قدامت پسندوں اور جدت پسندوں دونوں نے اپنی جیت سمجھا۔ قدامت پسند سمجھتے تھے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے سے ان کا مقصد پورا ہو گیا، جدت پسند یہ سمجھے کہ اسمبلی اور منتخب نمائندگان پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ آئین بنائیں گے اس لیے ان کا مقصد پورا ہو گیا۔ باقی معاملات کو بھی آپ جب پڑھتے جائیں گے آپ کو ہر پیراگراف میں یہ کمپرومائز نظر آتا جائے گا، جس میں دونوں فریق سمجھتے رہے کہ ان کو کامیابی ملی۔ بالآخر کون جیتتا ہے، یہ فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیں۔ اس کے متعلق مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت کنفیوزبھی کیا ہے۔ قائداعظم سیاسی کمپرومائز تو کرتے تھے لیکن جس کے دوررس اثرات ہوں، وہاں سمجھوتہ کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ قائداعظم اگر دستور ساز اسمبلی میں موجود ہوتے اور وہاں یہ معاملہ آتا، مجھے شک ہے بہت سارے الفاظ اس میں نہ ہوتے جو اس میں شامل ہوئے۔

سانحہ مشرقی پاکستان:پاکستان کا دولخت ہونا ایک المیہ ہے لیکن شاید یہ نہ ہوتا باوجود بہت ساری خرابیوں کے اگر بھارت جارحیت نہ کرتا۔ ابھی ایسٹ پاکستان سے بہت سارے لوگ جو اکثریت میں تھے، مدافعت کر سکتے تھے ان لوگوں کے خلاف جو تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ وہ حقوق مانگتے تھے لیکن تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ لیکن تقسیم چاہنے والوں نے سازش کر کے ہندوستانی افواج کی مدد لے کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا۔ اس سے لوگوں کو کہنے کا موقع ملا کہ دو قومی نظریہ ہمیں اکٹھا نہ رکھ سکا۔ میرا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ دو قومی نظریہ تحریک آزادی کا ایک فارمولا تھا جس نے تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اور فارمولے مسلسل ہر مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتے۔ جیسا مسئلہ ہو ویسا حل ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

آج یہ دوقومی نظریہ آپ کو کئی ممالک میں نظر آ جائے گا، چیکوسلواکیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے، یوگو سلاویہ چھ حصوں میں تقسیم ہوا، وہاں تو پھر چھ قومی نظریہ ہو گیا۔ یہ کثیر القومی نظریہ وہاں کامیاب ہوتا ہے جہاں کسی قوم کو کسی خاص علاقے میں اکثریت حاصل ہو۔ اگر ہندوستان کے مسلمان برصغیر کے مختلف حصوں میں بٹے ہوتے اور بے شک اتنی تعداد بھی مسلمانوں کی ہوتی جتنی ہندوستان کی تقسیم کے وقت تھی، لیکن ان کی کسی حصے میں اکثریت نہ ہوتی تو ان کو آزادی نہ ملتی اور پاکستان نہ بنتا۔ اب نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے باوجود افغانستان اور ایران سے ہمارے تعلقات اچھے کیوں نہیں ہیں، اس لیے میں کہتا ہوں کہ فارمولوں کو بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔
Load Next Story