ناسمجھی کے دکھ میں مبتلا مخلوق
جہالت، دہشت گردی نے جینا حرام کردیا ہے
محل میں رہنے والے اور جھونپڑی میں رہنے والے کبھی ایک جیسا سوچ سکتے ہیں نہ ہی محسوس کرسکتے ہیں، دونوں کے احساسات، جذبات اورتجربات الگ الگ ہوتے ہیں، دونوں ہی کے سچ مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے اصل سچائیوں سے ہماری اشرافیہ اورہمارے حکمرانوں کی سچائیاں مختلف ہیں کیونکہ وہ محلوں میں رہنے والے ہیں اور ہم بیس کروڑ جھونپڑیوں میں بسنے والے ہیں جب ہم چیخ چیخ کرکہتے ہیں کہ ہمیں ایک وقت کی بھی روٹی نصیب نہیں ہورہی ہے، بیماریوں کے ہاتھوں ہلاک پہ ہلاک ہوئے جارہے ہیں۔
جہالت، دہشت گردی نے جینا حرام کردیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ ، پانی اور گیس کی قلت اب برداشت سے باہر ہوگئی ہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں لاکھوں انسان وقت سے پہلے قبروں میں جا لیٹے ہیں، بے اختیاری ، ذلت اورگالیوں نے بھرکس نکال دیا ہے تو ہماری اشرافیہ اور حکمران غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں اصل سچ سن کر انہیں بدہضمی ہوجاتی ہے کیونکہ انہیں یا ان کے پیاروں کو کبھی ان ذلتوں یا عذابوں سے پالا ہی نہیں پڑا ہے ۔ اس لیے آپ لاکھ چیخ لو، چلا لو ان پر آپ کے چیخنے چلانے کا کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ جو چیز آپ پر بیت رہی ہے اس کی تکلیف اور اذیت کو آپ ہی محسوس کرسکتے ہیں یا وہ کرسکتے ہیں جو انہیں بھگت چکے ہیں۔
یاد رکھیں الفاظ زندہ ہوتے ہیں اور مردہ بھی ہوتے ہیں لفظوں کے زندہ یا مردہ ہونے کا سارا تعلق احساس سے ہے، احساس کا سارا تعلق جذبات سے ہے اور جذبات کا تعلق تجربے سے ہے اگر آپ ان تجربات سے گذر چکے ہیں جو چیخنے اور چلائے والا بیان کررہا ہے تو پھر اس کے الفاظ آپ کے سامنے زندہ کھڑے ہوجائیں گے اور اگر آپ کو اس کے تجربات کا کبھی کوئی تجربہ نہیں ہوا ہے تو پھر اس کے سارے الفاظ اد اہوتے ہی آپ کے سامنے مردہ ہونا شروع ہوجائیں گے ۔ آپ سے یہ کہا جائے کہ آئیں ہم ان تمام لوگوں کو معاف کردیں جو ہم پر ظلم کررہے ہیں تو ہوسکتا ہے آپ یہ بات سن کر لال پیلے ہوجائیں اورکہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے غصہ مت ہوں۔
آئیں! حضرت عیسیٰ کا آخری واقعہ یاد کرتے ہیں جب حضرت عیسیٰ کو صلیب دی جارہی تھی تو اس وقت انھوں نے ایک ایسی بات کہی تھی جو تاریخ انسانی میں دکھ برداشت کرنے والوں کی جانب سے کہی جانے والی پختہ ترین باتوں میں سے ایک ہے۔ جب انہیں ایذا دینے والے، ظلم در ظلم کرتے ہوئے انہیں ضرورت سے زیادہ تکلیف دینے کی کو شش کررہے تھے اس وقت حضرت عیسیٰ نے دعا کی تھی '' اے خدا انہیں معا ف کردے ، یہ نہیں جانتے یہ کیا کررہے ہیں '' حضرت عیسیٰ انہیں برے لوگوں کے طور پر نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ان کے نزدیک لوگ اس حد تک نا سمجھ تھے کہ انہیں یہ شعور بھی نہیں تھا کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں ظلم ہے۔
ہماری اشرافیہ اور ہمارے حکمران بھی ناسمجھ لوگوں میں شامل ہیں انہیں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں ظلم ہے اس لیے ان پر غصہ کرنا یا انہیں برا بھلا کہنے کے کیا معنی ہیں ۔ یاد رکھو یہ برے نہیں ہیں بلکہ انتہائی ناسمجھ ہیں جب انہیں سمجھ میں آجائے گا اور ان کو شعور آجائے گا تو پھر وہ بہت روئیں گے بہت آہ و گریہ کریں گے بہت چیخے اور چلائیں گے آپ سے بہت معافیاں مانگیں گے۔ یاد رکھیں یہ سب ناسمجھی کے دکھ میں مبتلا ہیں جو خود دکھ میں مبتلا ہوں وہ دوسروں کو سکھ کیسے دے سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جو چیز ان کے پاس ہوگی وہ ہی تو وہ آگے دیں گے۔ رینے ڈیکارٹ نے کہا تھا ''میں سوچتاہوں اس لیے میں ہوں'' جو سوچتے ہی نہیں ہیں پھر وہ کیسے ہیں اگر وہ سوچتے ہوتے تو پھر وہ لازماً ہوتے اور اگر ہوتے تو پھر ہرگز یہ ظلم نہ کرتے جب وہ ہیں ہی نہیں تو پھر ان پر غصہ ہونا کس لیے، اس لیے آئیں مل کر ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ جس عذاب میں مبتلا ہیں خدا ان پر سے وہ عذاب ختم کردے اور انہیں سکون عطا کر دے تاکہ انہیں چین نصیب ہو سکے ۔ ان سب باتوں کے باوجود ایک بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر انسان ہمیشہ انجام کے بعد ہی کیوں سمجھتا ہے انجام سے پہلے اسے سچائیاں کیوں سمجھ میں نہیں آتی ہیں یہ ہی بات امریکی شاعر Edwin A.Robinson نے کہی ہے ''ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے سامنے سچائیاں ہزاروں بار بیان کی جاچکی ہیں ، لیکن ہم گوش نصیحت نیوش سے محروم ، ہم تک سچائی کے کچھ ذرے ہی پہنچ پائے ، یا اس سے بڑھ کر، کبھی کبھی کوئی سرگوشی ، یاکہیں کہیں کوئی گونج ۔ یہ ہی وہ صورت حال ہے جو ہم میں سے بہت سوں کو پریشان کرتی ہے کہ ہم انسانی رویوں اور انسانی تعلقات کے بارے میں عظیم ترین سچائیوں سے بہت عرصے قبل آگاہ ہوچکے تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آج تک ان سچائیوں کو عملی صورت نہیں دے پائے ؟
جدید نفسیاتی علوم کی روشنی میں اس سوال کا جواب بہت آسان اور واضح ہے ایک پختہ سچائی جب ناپختہ اذہان تک پہنچتی ہے تو وہ پختہ سچائی نہیں رہتی نا پختہ ذہن اس سچائی میں سے وہی کچھ قبول کرتا ہے جو کچھ وہ ہضم کر سکتا ہے بالآخر ہوتا یہ ہی ہے کہ زبانی تعریف و توصیف تو ہوتی ہے بلکہ پورے پورے ادارے بنا لیے جاتے ہیں لیکن اس سچائی کو عملاً نا پختگی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی زوال ہماری جملہ عظیم ترین سچائیوں کا نصیب رہا ہے ۔آئیں اب ہم واپس اپنی طرف لوٹتے ہیں۔ ہسپانوی فلسفی، ناول نگار اور شاعرمیگوئیل ڈی او نامنو کہتا ہے ''ہمیں جو چیز انسان بناتی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ہم مصائب جھیلتے ہیں'' وہ اصرار کرتا ہے کہ '' ہم اپنے دکھ کو تسلیم کریں کیوں کہ جب ہم خود مصیبت سے گذرتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی مصیبتوں کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسرے مصبیت کے ماروں سے محبت کرتے ہیں اور ان پر حقیقی توجہ دیتے ہیں یہ ہمیں ایک متضاد متبادل مہیا کرتی ہے ایک طرف ہم مسرت کا انتخاب کرسکتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ دکھ سے دور بھاگیں دوسری طرف ہم دکھ اور محبت کا انتخاب کرسکتے ہیں ۔ پہلا انتخاب آسان ہوتا ہے لیکن یہ ایک ایسا انتخاب ہے جو انجام کار ہمیں محدود کرتا ہے ۔ درحقیقت ہمیں اپنی ذات کے ضروری حصے سے کاٹ دیتا ہے دوسرا انتخاب بہت مشکل ہے لیکن یہ ایسا انتخاب ہے جوگہرائی اوراہمیت کی زندگی کے راستہ کا امکان کھو لتا ہے۔''
1957 میں اپنی طویل زندگی کے اختتام کے قریب امریکی علمی ، سیاسی انقلابی اور شہری حقوق کے علمبردار ولیم ڈو بوئیس نے جو کچھ لکھا اس کو دنیا کے لیے اسی کا آخری پیغام سمجھا گیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اب زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس زیادہ وقت نہیں اس نے قلم اٹھایا اور ایک مختصر سی تحریر اپنی تدفین کے وقت پڑھے جانے کے لیے رقم کی اس پیغام میں بوئس نے امید ظاہر کی کہ '' اگر اس نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ طویل عرصہ تک زندہ رہے گا اوراس کی زندگی کا جواز مہیا کرے گا اور جوکام وہ ادھورے چھوڑ کر جارہا ہے یا جن کو اس نے بری طرح کیا ہے ان کو دوسرے لوگ اپنے ذمے لیں گے اور انہیں مکمل یابہتر بنائیں گے ''ہمیشہ'' ڈو بوئس لکھتا ہے انسان رہیں گے اور ایک عظیم تر، وسیع تر اور بھرپور زندگی کی طرف ترقی کرتے رہیں گے۔''
جہالت، دہشت گردی نے جینا حرام کردیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ ، پانی اور گیس کی قلت اب برداشت سے باہر ہوگئی ہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں لاکھوں انسان وقت سے پہلے قبروں میں جا لیٹے ہیں، بے اختیاری ، ذلت اورگالیوں نے بھرکس نکال دیا ہے تو ہماری اشرافیہ اور حکمران غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں اصل سچ سن کر انہیں بدہضمی ہوجاتی ہے کیونکہ انہیں یا ان کے پیاروں کو کبھی ان ذلتوں یا عذابوں سے پالا ہی نہیں پڑا ہے ۔ اس لیے آپ لاکھ چیخ لو، چلا لو ان پر آپ کے چیخنے چلانے کا کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ جو چیز آپ پر بیت رہی ہے اس کی تکلیف اور اذیت کو آپ ہی محسوس کرسکتے ہیں یا وہ کرسکتے ہیں جو انہیں بھگت چکے ہیں۔
یاد رکھیں الفاظ زندہ ہوتے ہیں اور مردہ بھی ہوتے ہیں لفظوں کے زندہ یا مردہ ہونے کا سارا تعلق احساس سے ہے، احساس کا سارا تعلق جذبات سے ہے اور جذبات کا تعلق تجربے سے ہے اگر آپ ان تجربات سے گذر چکے ہیں جو چیخنے اور چلائے والا بیان کررہا ہے تو پھر اس کے الفاظ آپ کے سامنے زندہ کھڑے ہوجائیں گے اور اگر آپ کو اس کے تجربات کا کبھی کوئی تجربہ نہیں ہوا ہے تو پھر اس کے سارے الفاظ اد اہوتے ہی آپ کے سامنے مردہ ہونا شروع ہوجائیں گے ۔ آپ سے یہ کہا جائے کہ آئیں ہم ان تمام لوگوں کو معاف کردیں جو ہم پر ظلم کررہے ہیں تو ہوسکتا ہے آپ یہ بات سن کر لال پیلے ہوجائیں اورکہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے غصہ مت ہوں۔
آئیں! حضرت عیسیٰ کا آخری واقعہ یاد کرتے ہیں جب حضرت عیسیٰ کو صلیب دی جارہی تھی تو اس وقت انھوں نے ایک ایسی بات کہی تھی جو تاریخ انسانی میں دکھ برداشت کرنے والوں کی جانب سے کہی جانے والی پختہ ترین باتوں میں سے ایک ہے۔ جب انہیں ایذا دینے والے، ظلم در ظلم کرتے ہوئے انہیں ضرورت سے زیادہ تکلیف دینے کی کو شش کررہے تھے اس وقت حضرت عیسیٰ نے دعا کی تھی '' اے خدا انہیں معا ف کردے ، یہ نہیں جانتے یہ کیا کررہے ہیں '' حضرت عیسیٰ انہیں برے لوگوں کے طور پر نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ ان کے نزدیک لوگ اس حد تک نا سمجھ تھے کہ انہیں یہ شعور بھی نہیں تھا کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں ظلم ہے۔
ہماری اشرافیہ اور ہمارے حکمران بھی ناسمجھ لوگوں میں شامل ہیں انہیں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں ظلم ہے اس لیے ان پر غصہ کرنا یا انہیں برا بھلا کہنے کے کیا معنی ہیں ۔ یاد رکھو یہ برے نہیں ہیں بلکہ انتہائی ناسمجھ ہیں جب انہیں سمجھ میں آجائے گا اور ان کو شعور آجائے گا تو پھر وہ بہت روئیں گے بہت آہ و گریہ کریں گے بہت چیخے اور چلائیں گے آپ سے بہت معافیاں مانگیں گے۔ یاد رکھیں یہ سب ناسمجھی کے دکھ میں مبتلا ہیں جو خود دکھ میں مبتلا ہوں وہ دوسروں کو سکھ کیسے دے سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جو چیز ان کے پاس ہوگی وہ ہی تو وہ آگے دیں گے۔ رینے ڈیکارٹ نے کہا تھا ''میں سوچتاہوں اس لیے میں ہوں'' جو سوچتے ہی نہیں ہیں پھر وہ کیسے ہیں اگر وہ سوچتے ہوتے تو پھر وہ لازماً ہوتے اور اگر ہوتے تو پھر ہرگز یہ ظلم نہ کرتے جب وہ ہیں ہی نہیں تو پھر ان پر غصہ ہونا کس لیے، اس لیے آئیں مل کر ان کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ جس عذاب میں مبتلا ہیں خدا ان پر سے وہ عذاب ختم کردے اور انہیں سکون عطا کر دے تاکہ انہیں چین نصیب ہو سکے ۔ ان سب باتوں کے باوجود ایک بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر انسان ہمیشہ انجام کے بعد ہی کیوں سمجھتا ہے انجام سے پہلے اسے سچائیاں کیوں سمجھ میں نہیں آتی ہیں یہ ہی بات امریکی شاعر Edwin A.Robinson نے کہی ہے ''ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے سامنے سچائیاں ہزاروں بار بیان کی جاچکی ہیں ، لیکن ہم گوش نصیحت نیوش سے محروم ، ہم تک سچائی کے کچھ ذرے ہی پہنچ پائے ، یا اس سے بڑھ کر، کبھی کبھی کوئی سرگوشی ، یاکہیں کہیں کوئی گونج ۔ یہ ہی وہ صورت حال ہے جو ہم میں سے بہت سوں کو پریشان کرتی ہے کہ ہم انسانی رویوں اور انسانی تعلقات کے بارے میں عظیم ترین سچائیوں سے بہت عرصے قبل آگاہ ہوچکے تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آج تک ان سچائیوں کو عملی صورت نہیں دے پائے ؟
جدید نفسیاتی علوم کی روشنی میں اس سوال کا جواب بہت آسان اور واضح ہے ایک پختہ سچائی جب ناپختہ اذہان تک پہنچتی ہے تو وہ پختہ سچائی نہیں رہتی نا پختہ ذہن اس سچائی میں سے وہی کچھ قبول کرتا ہے جو کچھ وہ ہضم کر سکتا ہے بالآخر ہوتا یہ ہی ہے کہ زبانی تعریف و توصیف تو ہوتی ہے بلکہ پورے پورے ادارے بنا لیے جاتے ہیں لیکن اس سچائی کو عملاً نا پختگی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی زوال ہماری جملہ عظیم ترین سچائیوں کا نصیب رہا ہے ۔آئیں اب ہم واپس اپنی طرف لوٹتے ہیں۔ ہسپانوی فلسفی، ناول نگار اور شاعرمیگوئیل ڈی او نامنو کہتا ہے ''ہمیں جو چیز انسان بناتی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ہم مصائب جھیلتے ہیں'' وہ اصرار کرتا ہے کہ '' ہم اپنے دکھ کو تسلیم کریں کیوں کہ جب ہم خود مصیبت سے گذرتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی مصیبتوں کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسرے مصبیت کے ماروں سے محبت کرتے ہیں اور ان پر حقیقی توجہ دیتے ہیں یہ ہمیں ایک متضاد متبادل مہیا کرتی ہے ایک طرف ہم مسرت کا انتخاب کرسکتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ دکھ سے دور بھاگیں دوسری طرف ہم دکھ اور محبت کا انتخاب کرسکتے ہیں ۔ پہلا انتخاب آسان ہوتا ہے لیکن یہ ایک ایسا انتخاب ہے جو انجام کار ہمیں محدود کرتا ہے ۔ درحقیقت ہمیں اپنی ذات کے ضروری حصے سے کاٹ دیتا ہے دوسرا انتخاب بہت مشکل ہے لیکن یہ ایسا انتخاب ہے جوگہرائی اوراہمیت کی زندگی کے راستہ کا امکان کھو لتا ہے۔''
1957 میں اپنی طویل زندگی کے اختتام کے قریب امریکی علمی ، سیاسی انقلابی اور شہری حقوق کے علمبردار ولیم ڈو بوئیس نے جو کچھ لکھا اس کو دنیا کے لیے اسی کا آخری پیغام سمجھا گیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اب زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس زیادہ وقت نہیں اس نے قلم اٹھایا اور ایک مختصر سی تحریر اپنی تدفین کے وقت پڑھے جانے کے لیے رقم کی اس پیغام میں بوئس نے امید ظاہر کی کہ '' اگر اس نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ طویل عرصہ تک زندہ رہے گا اوراس کی زندگی کا جواز مہیا کرے گا اور جوکام وہ ادھورے چھوڑ کر جارہا ہے یا جن کو اس نے بری طرح کیا ہے ان کو دوسرے لوگ اپنے ذمے لیں گے اور انہیں مکمل یابہتر بنائیں گے ''ہمیشہ'' ڈو بوئس لکھتا ہے انسان رہیں گے اور ایک عظیم تر، وسیع تر اور بھرپور زندگی کی طرف ترقی کرتے رہیں گے۔''