اغوا کی وارداتیں
سی پی ایل سی ایک عوامی فلاحی سماجی تنظیم ہے اس کی ضرورت بھی ہے
پاکستان کو وجود میں آئے تقریباً 70 سال ہوگئے، 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ 1970 سے 1977 تک ملک ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں نئے پاکستان کے طور پر چلایا گیا۔ اسی دوران پاک فوج کو بھی مضبوط کیا اور بہترین خارجہ پالیسی بنائی گئی۔ اسلامی ملکوں سے برادری کی بنیاد پر، باقی ممالک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات بنائے گئے، خاص طور پر چین کے ساتھ دوستی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اسی اثناء میں پاکستان کو جوہری ملک بنادیا گیا۔ اگر پاکستان کی بنیاد پرست، قوم پرست اور لسانیت پرست جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے انھیں سیاست سے علیحدہ کرنے پر زور نہ دیتیں تو شاید ملک میں آج بجلی، پانی، گیس اور انفرااسٹرکچر اتنا بدحال نہ ہوتا، جتنا ہے۔
مگر یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء لگا۔ 9 ماہ میں انتخابات کا دعویٰ قسم کھا کر کرنے والے آمر نے 11 سال میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، خاص طور پر روس اور افغانستان کی جنگ میں امریکا کے کہنے پر جو جہاد کیا، جس میں مذہبی جماعتوں نے بڑا اہم رول ادا کیا اور اس کے بعد کے اثرات نے ہماری ریاست کو کمزور کیا، ادارے غیر مستحکم ہونے لگے۔ کراچی جیسے پرامن اور روشنیوں کے شہر میں افغان مہاجرین کی آبادی بڑھی، پھر یہاں بجلی، پانی، گیس اور خوراک میں شدید قلت پیدا ہونے لگی ۔ اور سب سے خطرناک کام کلاشنکوف جیسے مہلک ہتھیار اور ہیروئن جیسی نشہ آور چیزوں نے ہمارے پرامن معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ریاست کا وہ نقصان تھا جس کا خمیازہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ریاست کی کوئی گرفت نہ ہونے سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں نے وہاں قدم جمالیے اور انھوں نے اندرونی نام نہاد مذہبی فرقہ وارانہ تنظیموں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردوں کے نیٹ ورک میں شامل کرلیا اور ہمارے سیاستدان اپنے حصول اقتدار کی خاطر آنکھ اور کان بند کیے رہے۔ طالبان نے عفریت کی شکل اختیار کر لی۔ یہ دہشت گرد وطن کے بڑے بڑے شہروں میں اپنا مسلح نیٹ ورک مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے خلاف شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن ہوا وہ بہت تاخیر سے ہوا۔ اور یہ جزوی آپریشن تھا، اس لیے وہاں کے دہشت گردوں نے شہروں کا رخ کرلیا، خاص طور پر کراچی شہر میں ان کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہوگیا۔ نہ صوبائی سرحدوں، نہ شہری سرحدوں پر کوئی جانچ پڑتال کا موثر انتظام تھا، نہ ہی دہشت گردوں پر خفیہ نظر تھی۔ اس لیے انھیں خوب آزادی سے اپنا نیٹ ورک پھیلانے کا موقع ملا۔ اسی غفلت میں بعض سیاسی جماعتوں نے بھی مسلح گروپ بنا لیے، وہ بھی دہشت گردی کرنے لگے۔
اگرچہ کراچی میں رینجرز گزشتہ کئی دہائی سے موجود تھی مگر اسے پولیس کے اور خصوصی اختیارات بہت دیر میں ملے۔ ان اختیارات سے رینجرز نے کم از کم کر اچی میں مافیا کو بہت کمزور کیا ، موثر کریک ڈاؤن کیا اور سر کش سیاسی تنظیموں کی دہشت گردی کی کمر توڑ دی، لیکن اس دہشت گردی کے پیچھے بلیک منی، کرپشن، بھتے کا سایہ موجود تھا، اور آج بھی ہے، اس لیے رینجرز خصوصی اختیارات مانگتی ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ رینجرز جس کو اب خصوصی اختیارات مل گئے ہیں، وہ انفرادی جرائم کے بجائے اجتماعی جرائم میں ملوث گروہوں کو تلاش کریں۔ اور جس شہری کو بھی شک کی بنیاد پر شامل تفتیش کرنا چاہتے ہیں ضرورکریں، لیکن اسے خفیہ طور پر نہ اٹھائیں۔ بلکہ رینجرز کو چاہیے ایک قابل رسائی کمپلین سینٹر بنائیں، جہاں عوام اگر یہ معلومات چاہیں کہ ان کے پیارے رینجرز کی کسٹڈی میں ہیں یا نہیں تو انہین جواب مل سکے، کیونکہ آج کل شہر قائد میں اغوا کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ معصوم نوزائیدہ بچے تک اغوا ہورہے ہیں،اس میں بعض تو ہائی پروفائل اغوا برائے تاوان ہیں، بعض اغوا ہوئے کسی دشمنی کی بنا پر اور بعض کو دہشت گرد تنظیمیں اٹھا کر لے جاتی ہیِں۔
خاص طور پر آئی ٹی اور سافٹ ویر کے جاننے والے ماہرین کو اغوا کرتے ہیں تاکہ ان سے انٹرنیٹ پر غیر قانونی کام کروائیں اور بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ بعض کو ادارے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ جنھیں پورا اختیار ہے کہ ملک دشمن لوگوں کو شک کی بنیاد پر شامل تفتیش کریں۔ اور اکثر یہ بھی ہوا ہے جن کو خفیہ طور پر اٹھایا گیا ان سے تفتیش مکمل کرکے چھوڑ دیا۔ ان میں کوئی دس دن تو کوئی چالیس دن، کوئی 90 دن میں، بعض چھ چھ ماہ بعد چھوڑ دیے گئے۔ مگر اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ جب کسی کو خفیہ طور پر اٹھایا جاتا ہے تو اس کے لواحقین جب کسی تھا نے یا سی پی ایل سی میں ایف آئی آر درج کراتے ہیں یا شکایت درج کراتے ہیں تو وہ شک کی بنا پر اغوا کنندہ کے لواحقین، ان کے قریبی ساتھیوں کو تفتیش کے لیے اٹھاتی ہے، جن کو سیل میں رکھ کر حقیقت اگلوائی جاتی ہے اور ان شامل تفتیش لوگوں کے اہل خانہ ایک شدید الم و کرب کے حالات میں گزرتے ہیں، وہ ناقابل بیان ہے۔
ایک غریب متوسطہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ جب شامل تفتیش ہوتے ہیں تو ان کے نہ ذرائع، نہ اتنے تعلقات ہوتے ہیںکہ وہ اپنے پیاروں کے بارے یہ بھی معلو م نہیں کرپاتے کہ کس بنا پر انہیں شامل تفتیش کیا گیا ۔ فرض کیجیے ایک مغوی کوئی دہشت گرد گروپ لے گیا ہے یا وہ کسی ادارے کے پاس ہے تو یہ علم تو مغوی کے وارثین کو نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ قیاس کی بنا پر بتاتے ہیں جس میں فلاں پر شک ہے، اس طرح وہ لوگ شدید تکلیف اور ذہنی، جسمانی تکلیف کے مراحل سے گزرتے ہیں، جو صرف شک اور قیاس کی بنا پر شامل تفتیش ہوتے ہیں۔
اس لیے حکومت کو چاہیے ایک ایسا لائحہ عمل بنائے، جس میں عوام الناس کو بے جا تکلیف، ذہنی، جسمانی تشدد سے بچایا جائے۔ میں نے دیکھا ہے ادارے اغوا کی واردات میں مغوی کے اہل خانہ سے رابطے میں رہتے ہیں، مگر انھیں مغوی کے لواحقین اور جن پر شک و شبہ ظاہر ہو، اس میں کوئی گارجین میٹنگ نہیں کرواتے، کیونکہ اس طرح کی ملاقات سے کچھ غلط فہمیاں بھی دور ہوسکتی ہیں اور صرف شک کی بنیاد پر کسی کو اینٹی وائلنس سیل میں رکھنا، اس سے جبرو تشدد کے ذریعے اگلوانا انتہائی غیر انسانی اور غیر اسلامی عمل ہے۔ جن کے پیارے اس بنا پر اس سیل میں رکھے جاتے ہیں، ان کو چند دن نہیں بلکہ کئی ہفتوں رکھ کر آزاد کیا جاتا ہے۔ اس سے بے گناہ لوگ تشدد سے ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرتے ہیں، ان کے اہل خانہ کی نارمل زندگی عذاب ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر سی پی ایل سی جیسا ادارہ گارجین کی میٹنگ بلا کر کونسلنگ کے ذریعے تبادلہ خیال کرکے مغوی کے سراغ تک پہنچتے میں جو مدد حاصل کرسکتے ہیں، وہ حاصل نہیں ہوتی۔
سی پی ایل سی ایک عوامی فلاحی سماجی تنظیم ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہے، تاہم اسے متاثرین کی معاونت کرنی چاہیے۔ اسی طرح پولیس کا ایک شعبہ اینٹی وائلنس سیل بھی مغوی کی برآمدگی میں بہت مددگار ہے۔ انھیں بھی جب کسی سے تفتیش کرنی ہو تو مغوی اور دوسرے متعلقین کے گارجین کو ضرور بلانا چاہیے، تاکہ مغوی کی تلاش کی صحیح سمت معلوم ہوسکے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغوی کی پروفائل ضرور دیکھیں، اس کے پاسپورٹ اور اس کی روز مرہ کی مصروفیات، اس کے دوست احباب، اس کے خاندان سے روابط ضرور دیکھنا چاہیے۔ اور ساری تفتیش کی بنیا د یہ ہو کہ ہم کسی بے گناہ کو اس میں کسی طور ملوث نہ کریں۔ چاہے مجرم شک کی بنیاد پر بری ہوجائے۔ کیونکہ کسی بے گناہ پر کیا جانے والا تشدد اس کی آہ، اس کے لواحقین کی آہ، اللہ کی بارگاہ میں فوری قبول ہوتی ہے۔ ہر صاحب اختیار کو اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔
مگر یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء لگا۔ 9 ماہ میں انتخابات کا دعویٰ قسم کھا کر کرنے والے آمر نے 11 سال میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، خاص طور پر روس اور افغانستان کی جنگ میں امریکا کے کہنے پر جو جہاد کیا، جس میں مذہبی جماعتوں نے بڑا اہم رول ادا کیا اور اس کے بعد کے اثرات نے ہماری ریاست کو کمزور کیا، ادارے غیر مستحکم ہونے لگے۔ کراچی جیسے پرامن اور روشنیوں کے شہر میں افغان مہاجرین کی آبادی بڑھی، پھر یہاں بجلی، پانی، گیس اور خوراک میں شدید قلت پیدا ہونے لگی ۔ اور سب سے خطرناک کام کلاشنکوف جیسے مہلک ہتھیار اور ہیروئن جیسی نشہ آور چیزوں نے ہمارے پرامن معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ریاست کا وہ نقصان تھا جس کا خمیازہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ریاست کی کوئی گرفت نہ ہونے سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں نے وہاں قدم جمالیے اور انھوں نے اندرونی نام نہاد مذہبی فرقہ وارانہ تنظیموں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردوں کے نیٹ ورک میں شامل کرلیا اور ہمارے سیاستدان اپنے حصول اقتدار کی خاطر آنکھ اور کان بند کیے رہے۔ طالبان نے عفریت کی شکل اختیار کر لی۔ یہ دہشت گرد وطن کے بڑے بڑے شہروں میں اپنا مسلح نیٹ ورک مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے خلاف شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن ہوا وہ بہت تاخیر سے ہوا۔ اور یہ جزوی آپریشن تھا، اس لیے وہاں کے دہشت گردوں نے شہروں کا رخ کرلیا، خاص طور پر کراچی شہر میں ان کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہوگیا۔ نہ صوبائی سرحدوں، نہ شہری سرحدوں پر کوئی جانچ پڑتال کا موثر انتظام تھا، نہ ہی دہشت گردوں پر خفیہ نظر تھی۔ اس لیے انھیں خوب آزادی سے اپنا نیٹ ورک پھیلانے کا موقع ملا۔ اسی غفلت میں بعض سیاسی جماعتوں نے بھی مسلح گروپ بنا لیے، وہ بھی دہشت گردی کرنے لگے۔
اگرچہ کراچی میں رینجرز گزشتہ کئی دہائی سے موجود تھی مگر اسے پولیس کے اور خصوصی اختیارات بہت دیر میں ملے۔ ان اختیارات سے رینجرز نے کم از کم کر اچی میں مافیا کو بہت کمزور کیا ، موثر کریک ڈاؤن کیا اور سر کش سیاسی تنظیموں کی دہشت گردی کی کمر توڑ دی، لیکن اس دہشت گردی کے پیچھے بلیک منی، کرپشن، بھتے کا سایہ موجود تھا، اور آج بھی ہے، اس لیے رینجرز خصوصی اختیارات مانگتی ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ رینجرز جس کو اب خصوصی اختیارات مل گئے ہیں، وہ انفرادی جرائم کے بجائے اجتماعی جرائم میں ملوث گروہوں کو تلاش کریں۔ اور جس شہری کو بھی شک کی بنیاد پر شامل تفتیش کرنا چاہتے ہیں ضرورکریں، لیکن اسے خفیہ طور پر نہ اٹھائیں۔ بلکہ رینجرز کو چاہیے ایک قابل رسائی کمپلین سینٹر بنائیں، جہاں عوام اگر یہ معلومات چاہیں کہ ان کے پیارے رینجرز کی کسٹڈی میں ہیں یا نہیں تو انہین جواب مل سکے، کیونکہ آج کل شہر قائد میں اغوا کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ معصوم نوزائیدہ بچے تک اغوا ہورہے ہیں،اس میں بعض تو ہائی پروفائل اغوا برائے تاوان ہیں، بعض اغوا ہوئے کسی دشمنی کی بنا پر اور بعض کو دہشت گرد تنظیمیں اٹھا کر لے جاتی ہیِں۔
خاص طور پر آئی ٹی اور سافٹ ویر کے جاننے والے ماہرین کو اغوا کرتے ہیں تاکہ ان سے انٹرنیٹ پر غیر قانونی کام کروائیں اور بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ بعض کو ادارے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ جنھیں پورا اختیار ہے کہ ملک دشمن لوگوں کو شک کی بنیاد پر شامل تفتیش کریں۔ اور اکثر یہ بھی ہوا ہے جن کو خفیہ طور پر اٹھایا گیا ان سے تفتیش مکمل کرکے چھوڑ دیا۔ ان میں کوئی دس دن تو کوئی چالیس دن، کوئی 90 دن میں، بعض چھ چھ ماہ بعد چھوڑ دیے گئے۔ مگر اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ جب کسی کو خفیہ طور پر اٹھایا جاتا ہے تو اس کے لواحقین جب کسی تھا نے یا سی پی ایل سی میں ایف آئی آر درج کراتے ہیں یا شکایت درج کراتے ہیں تو وہ شک کی بنا پر اغوا کنندہ کے لواحقین، ان کے قریبی ساتھیوں کو تفتیش کے لیے اٹھاتی ہے، جن کو سیل میں رکھ کر حقیقت اگلوائی جاتی ہے اور ان شامل تفتیش لوگوں کے اہل خانہ ایک شدید الم و کرب کے حالات میں گزرتے ہیں، وہ ناقابل بیان ہے۔
ایک غریب متوسطہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ جب شامل تفتیش ہوتے ہیں تو ان کے نہ ذرائع، نہ اتنے تعلقات ہوتے ہیںکہ وہ اپنے پیاروں کے بارے یہ بھی معلو م نہیں کرپاتے کہ کس بنا پر انہیں شامل تفتیش کیا گیا ۔ فرض کیجیے ایک مغوی کوئی دہشت گرد گروپ لے گیا ہے یا وہ کسی ادارے کے پاس ہے تو یہ علم تو مغوی کے وارثین کو نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ قیاس کی بنا پر بتاتے ہیں جس میں فلاں پر شک ہے، اس طرح وہ لوگ شدید تکلیف اور ذہنی، جسمانی تکلیف کے مراحل سے گزرتے ہیں، جو صرف شک اور قیاس کی بنا پر شامل تفتیش ہوتے ہیں۔
اس لیے حکومت کو چاہیے ایک ایسا لائحہ عمل بنائے، جس میں عوام الناس کو بے جا تکلیف، ذہنی، جسمانی تشدد سے بچایا جائے۔ میں نے دیکھا ہے ادارے اغوا کی واردات میں مغوی کے اہل خانہ سے رابطے میں رہتے ہیں، مگر انھیں مغوی کے لواحقین اور جن پر شک و شبہ ظاہر ہو، اس میں کوئی گارجین میٹنگ نہیں کرواتے، کیونکہ اس طرح کی ملاقات سے کچھ غلط فہمیاں بھی دور ہوسکتی ہیں اور صرف شک کی بنیاد پر کسی کو اینٹی وائلنس سیل میں رکھنا، اس سے جبرو تشدد کے ذریعے اگلوانا انتہائی غیر انسانی اور غیر اسلامی عمل ہے۔ جن کے پیارے اس بنا پر اس سیل میں رکھے جاتے ہیں، ان کو چند دن نہیں بلکہ کئی ہفتوں رکھ کر آزاد کیا جاتا ہے۔ اس سے بے گناہ لوگ تشدد سے ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرتے ہیں، ان کے اہل خانہ کی نارمل زندگی عذاب ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر سی پی ایل سی جیسا ادارہ گارجین کی میٹنگ بلا کر کونسلنگ کے ذریعے تبادلہ خیال کرکے مغوی کے سراغ تک پہنچتے میں جو مدد حاصل کرسکتے ہیں، وہ حاصل نہیں ہوتی۔
سی پی ایل سی ایک عوامی فلاحی سماجی تنظیم ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہے، تاہم اسے متاثرین کی معاونت کرنی چاہیے۔ اسی طرح پولیس کا ایک شعبہ اینٹی وائلنس سیل بھی مغوی کی برآمدگی میں بہت مددگار ہے۔ انھیں بھی جب کسی سے تفتیش کرنی ہو تو مغوی اور دوسرے متعلقین کے گارجین کو ضرور بلانا چاہیے، تاکہ مغوی کی تلاش کی صحیح سمت معلوم ہوسکے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغوی کی پروفائل ضرور دیکھیں، اس کے پاسپورٹ اور اس کی روز مرہ کی مصروفیات، اس کے دوست احباب، اس کے خاندان سے روابط ضرور دیکھنا چاہیے۔ اور ساری تفتیش کی بنیا د یہ ہو کہ ہم کسی بے گناہ کو اس میں کسی طور ملوث نہ کریں۔ چاہے مجرم شک کی بنیاد پر بری ہوجائے۔ کیونکہ کسی بے گناہ پر کیا جانے والا تشدد اس کی آہ، اس کے لواحقین کی آہ، اللہ کی بارگاہ میں فوری قبول ہوتی ہے۔ ہر صاحب اختیار کو اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔