عوامی دفاتر بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوسکتے ہیں چیف جسٹس

ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن قانون سادہ اکثریت کے لئے نہیں بنایا جا سکتا ہے۔جسٹس جیلانی

ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن قانون سادہ اکثریت کے لئے نہیں بنایا جا سکتا ہے۔جسٹس جیلانی . فائل فوٹو

KARACHI:
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اگر عوامی دفاتر توہین عدالت کے مرتکب ہوئے تو ان پر بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

سماعت کی دوبارہ شروعات پر وفاقی وکیل عبد شکور پراچہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق توہین عدالت کی کارروائی کا انعقاد عدلیہ کے لئے ایک معاملہ تھا.

انھوں نے اپنے دلائل موجودہ قانون کی بنیاد پر دیئےہیں۔

پراچہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کسی کو بھی استثنی دے سکتا ہے۔ جس کی بنیاد پرعدالت کی پارلیمینٹ کی کاروائی سے انکار نہیں کرسکتی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے، لیکن ان قوانین کی تشریح کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔


ادرخواست گزار کے وکیل نے پوچھا کہ آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے کس طرح مسائل نپٹا جائے گا، جس کے جواب میں جسٹس جیلانی سے کہا کہ یہ قانون کو آئین کے خلاصہ کی عکاسی کرتا ہے۔

جسٹس جیلانی نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن قانون سادہ اکثریت کے لئے نہیں بنایا جا سکتا ہے۔

وفاقی وکیل کے مطابق پارلیمینٹ کی قانونی اختیار کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

گذشتہ سماعت کے دوران وفاقی وکیل نے سپریم کورٹ سامنے کے اعتراف کیا تھا کہ توہین عدالت قانون 2012 نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بچانے کے مقصد کے تحت بنایا ہے.

 

Recommended Stories

Load Next Story