شنگھائی کانفرنس ایک اہم بریک تھرو
مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے مجھے تشویش ہے،وزیراعظم نوازشریف
پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی سربراہان مملکت کونسل کے 17 ویں اجلاس کے دوران ایس سی او کا باضابطہ طور پر مستقل رکن بن گیا۔ قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بایوف نے آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہان مملکت کونسل کے 17 ویں اجلاس کے اختتام پر بانی ارکان کی طرف سے پاکستان کو تنظیم کی مستقل رکنیت دینے کی دستاویز پر دستخط کے بعد اس ضمن میں باقاعدہ اعلان کیا۔
قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف، چین کے صدرشی جن پنگ، کرغزستان کے صدر الماس بیگ اتام بائیوف، روس کے صدر ولادی میرپیوٹن، تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف، ازبکستان کے صدر شوکت مرزوف، افغانستان کے صدر اشرف غنی، بیلارس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو، منگولیا کے صدر تاخیاجن البگدورج نے وزیراعظم کو مستقل رکنیت ملنے پر مبارکباد دی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پیداشدہ عالمی صورتحال کے تناظر میں خوش آئند ہے ۔ شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کا قیام 15 جون2002 میں چین کے شہر شنگھائی میں عمل میں آیا، یہ خطے میں سیاسی ،اقتصادی، سماجی اور سلامتی کے اہم میثاق کے تحت عالمی امن سے جڑے ہوئے چارٹر سے وابستہ ہے۔
آستانہ کانفرنس ایک شورش زدہ دنیا میں باہمی تعاون کا قابل تقلید نمونہ ہے اور وسط ایشیائی ممالک سمیت دیگر یوریشین ملکوں کو اس میں جذب کرنے کے راستے بھی وا رکھے گئے ہیں، اب تک ایس سی او کے سربراہی اجلاس الماتے، بشکیک اور دوشنبے میں ہوچکے ہیں، تنظیم کو اقوام متحدہ میں مبصر کے علاوہ عالمی ادارے کے بیشتر ترقیاتی اور خدمتی فنڈز اور کمیشنوں میں اشتراک عمل کی سہولتیں حاصل ہیں۔
اس اعتبار سے پاکستان اور بھارت کی اس میں رکنیت خطے کے لیے ایک پیش رفت ہے تاہم بین الاقوامی یکجہتی اور پر امن بقائے باہمی کے مقصد کے حصول کے لیے چین ، قازقستان اور دیگر ممبر ملکوں کو جنگ سے نفرت اور امن سے لازوال محبت کے کاز سے وابستگی کو بھی اپنا عالمی ایجنڈہ بنانا چاہیے تاکہ دنیا جنگوں کے شعلوں اور پناہ گزینوں کے مصائب و آلام سے نجات حاصل کرے۔
وزیراعظم نواز شریف نے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے مکمل رکن کی حیثیت سے علاقائی امن، رابطوں اور اقتصادی خوشحالی کے لیے تنظیم کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مزیدکوششیں بروئے کار لائے گا، پاکستان پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پرکاربند ہے۔
کانفرنس میں چینی صدر شی جن پنگ نے تجویزدی کہ ایس سی او ارکان کے مابین پانچ سال کے لیے اچھی ہمسائیگی کے طویل المدتی معاہدہ کی ضرورت ہے، وزیراعظم نوازشریف نے چینی صدر شی جن پنگ کی تجویز کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے کہا پاکستان دہشتگردی اور انتہاء پسندی کی جڑواں برائیوں سے نمٹنے کے لیے ایس سی او کے عزم کی بھرپور تائید کرتا ہے،پاکستان نے خود بھی بین الاقوامی دہشتگردی اور پرتشدد انتہاء پسندی کے خلاف سخت جنگ لڑی ہے۔
وزیراعظم نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ ایس سی اوکا مکمل رکن بننے پر مبارکباد دی جب کہ تنظیم کا مکمل رکن بننے کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت اور معاونت کرنے پر چین، روس سمیت بانی ارکان اور ایس سی او کے سیکریٹری جنرل و دیگر کا شکریہ اداکیا۔
کانفرنس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی موجود تھے، وزیراعظم نواز شریف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم سے علیک سلیک اچھے ماحول میں ہوئی ہے، افغان صدرکے ساتھ بھی مثبت ملاقات ہوئی، اشرف غنی کے ساتھ کراس بارڈر دہشتگردی اور مشترکہ میکنزم پر بھی بات ہوئی، جلد مثبت پیشرفت نظر آئے گی، افغانستان سے تجارت، معیشت اور دفاع پر جلد معاہدے سامنے آ جائیں گے، تمام رہنماؤں سے کشمیر اور ایل او سی کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے مجھے تشویش ہے، عمرعبدللہ اور سابق ''را'' چیف کے بیانات بھی صورتحال کی غمازی کرتے ہیں جن رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں میں نے مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کو اجاگر کیا، وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر سے بھی اچھی ملاقات ہوئی، یو این سیکریٹری جنرل سے بھی کشمیر میں مظالم پر بات ہوئی۔ انھوں نے ابتر صورتحال کو مانا بھی ہے، سیکریٹری جنرل کو ماننا بھی چاہیے کہ اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا بھارت کے ساتھ تنازعات پر امن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں ہیں، بھارت پاکستان کے امن اقدامات کا مثبت جواب دے اور بھارت کو دینا بھی چاہیے، قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان تنازعے میں پاکستان کے مثبت کردارادا کرنے کی یقین دہانی صائب ہے۔
چین کے صدر شی چن پنگ نے پاکستان اور بھارت کے شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بننے کا بجا طور پر خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم پیش رفت ہے، انھوں نے اچھی طویل المدت ہمسائیگی ، دہشتگردی و انتہاء پسندی کے خاتمے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پانچ سالہ معاہدہ کی تجویز دیدی اور کہا کہ ایس سی او رکن ممالک معلومات کے تبادلے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متحد ہو جائیں، سلامتی ترقی کی شرط اول ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ خطے میں قیام امن اور خوشحالی کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے، آئیں ملکر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، پاکستان پر الزامات کے بجائے ٹھوس ثبوت فراہم کیے جائیں، بھر پورکارروائی کریں گے، وزیراعظم نے بطور خاص کہا کہ ملا فضل اﷲ اور اس جیسے لوگ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ان خیالات کا اظہارانھوں نے قازقستان کے شہر آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران کیا۔
وزیراعظم سے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ملاقات کی جس میں خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ پیوٹن نے نوازشریف کو شنگھائی تعاون کونسل کا مستقل رکن بننے کی مبارکباد پیش کی اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس سے بھی ملاقات کی اور انھیں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم، پاکستان میں براہ راست اور افغانستان کے ذریعے بالواسطہ بھارتی مداخلت اور دہشتگردی سے متعلق تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔اب ضرورت امن عالم کی طرف بریک تھرو کی ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں اپنے ثالثی کے اہم کردار کی تاریخی ناگزیریت کا ادراک کرے، ہوشمندانہ اور دانشمندانہ اقدامات کے لیے وقت سر پر آپہنچا ہے ۔ دیر کی گنجائش نہیں۔
قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف، چین کے صدرشی جن پنگ، کرغزستان کے صدر الماس بیگ اتام بائیوف، روس کے صدر ولادی میرپیوٹن، تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف، ازبکستان کے صدر شوکت مرزوف، افغانستان کے صدر اشرف غنی، بیلارس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو، منگولیا کے صدر تاخیاجن البگدورج نے وزیراعظم کو مستقل رکنیت ملنے پر مبارکباد دی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پیداشدہ عالمی صورتحال کے تناظر میں خوش آئند ہے ۔ شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کا قیام 15 جون2002 میں چین کے شہر شنگھائی میں عمل میں آیا، یہ خطے میں سیاسی ،اقتصادی، سماجی اور سلامتی کے اہم میثاق کے تحت عالمی امن سے جڑے ہوئے چارٹر سے وابستہ ہے۔
آستانہ کانفرنس ایک شورش زدہ دنیا میں باہمی تعاون کا قابل تقلید نمونہ ہے اور وسط ایشیائی ممالک سمیت دیگر یوریشین ملکوں کو اس میں جذب کرنے کے راستے بھی وا رکھے گئے ہیں، اب تک ایس سی او کے سربراہی اجلاس الماتے، بشکیک اور دوشنبے میں ہوچکے ہیں، تنظیم کو اقوام متحدہ میں مبصر کے علاوہ عالمی ادارے کے بیشتر ترقیاتی اور خدمتی فنڈز اور کمیشنوں میں اشتراک عمل کی سہولتیں حاصل ہیں۔
اس اعتبار سے پاکستان اور بھارت کی اس میں رکنیت خطے کے لیے ایک پیش رفت ہے تاہم بین الاقوامی یکجہتی اور پر امن بقائے باہمی کے مقصد کے حصول کے لیے چین ، قازقستان اور دیگر ممبر ملکوں کو جنگ سے نفرت اور امن سے لازوال محبت کے کاز سے وابستگی کو بھی اپنا عالمی ایجنڈہ بنانا چاہیے تاکہ دنیا جنگوں کے شعلوں اور پناہ گزینوں کے مصائب و آلام سے نجات حاصل کرے۔
وزیراعظم نواز شریف نے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے مکمل رکن کی حیثیت سے علاقائی امن، رابطوں اور اقتصادی خوشحالی کے لیے تنظیم کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مزیدکوششیں بروئے کار لائے گا، پاکستان پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پرکاربند ہے۔
کانفرنس میں چینی صدر شی جن پنگ نے تجویزدی کہ ایس سی او ارکان کے مابین پانچ سال کے لیے اچھی ہمسائیگی کے طویل المدتی معاہدہ کی ضرورت ہے، وزیراعظم نوازشریف نے چینی صدر شی جن پنگ کی تجویز کا خیرمقدم کیا۔ انھوں نے کہا پاکستان دہشتگردی اور انتہاء پسندی کی جڑواں برائیوں سے نمٹنے کے لیے ایس سی او کے عزم کی بھرپور تائید کرتا ہے،پاکستان نے خود بھی بین الاقوامی دہشتگردی اور پرتشدد انتہاء پسندی کے خلاف سخت جنگ لڑی ہے۔
وزیراعظم نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ ایس سی اوکا مکمل رکن بننے پر مبارکباد دی جب کہ تنظیم کا مکمل رکن بننے کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت اور معاونت کرنے پر چین، روس سمیت بانی ارکان اور ایس سی او کے سیکریٹری جنرل و دیگر کا شکریہ اداکیا۔
کانفرنس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی موجود تھے، وزیراعظم نواز شریف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم سے علیک سلیک اچھے ماحول میں ہوئی ہے، افغان صدرکے ساتھ بھی مثبت ملاقات ہوئی، اشرف غنی کے ساتھ کراس بارڈر دہشتگردی اور مشترکہ میکنزم پر بھی بات ہوئی، جلد مثبت پیشرفت نظر آئے گی، افغانستان سے تجارت، معیشت اور دفاع پر جلد معاہدے سامنے آ جائیں گے، تمام رہنماؤں سے کشمیر اور ایل او سی کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے مجھے تشویش ہے، عمرعبدللہ اور سابق ''را'' چیف کے بیانات بھی صورتحال کی غمازی کرتے ہیں جن رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں میں نے مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کو اجاگر کیا، وزیر اعظم نے مزید بتایا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر سے بھی اچھی ملاقات ہوئی، یو این سیکریٹری جنرل سے بھی کشمیر میں مظالم پر بات ہوئی۔ انھوں نے ابتر صورتحال کو مانا بھی ہے، سیکریٹری جنرل کو ماننا بھی چاہیے کہ اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا بھارت کے ساتھ تنازعات پر امن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں ہیں، بھارت پاکستان کے امن اقدامات کا مثبت جواب دے اور بھارت کو دینا بھی چاہیے، قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان تنازعے میں پاکستان کے مثبت کردارادا کرنے کی یقین دہانی صائب ہے۔
چین کے صدر شی چن پنگ نے پاکستان اور بھارت کے شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بننے کا بجا طور پر خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم پیش رفت ہے، انھوں نے اچھی طویل المدت ہمسائیگی ، دہشتگردی و انتہاء پسندی کے خاتمے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پانچ سالہ معاہدہ کی تجویز دیدی اور کہا کہ ایس سی او رکن ممالک معلومات کے تبادلے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متحد ہو جائیں، سلامتی ترقی کی شرط اول ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ خطے میں قیام امن اور خوشحالی کے لیے پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے، آئیں ملکر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، پاکستان پر الزامات کے بجائے ٹھوس ثبوت فراہم کیے جائیں، بھر پورکارروائی کریں گے، وزیراعظم نے بطور خاص کہا کہ ملا فضل اﷲ اور اس جیسے لوگ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ان خیالات کا اظہارانھوں نے قازقستان کے شہر آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران کیا۔
وزیراعظم سے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ملاقات کی جس میں خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ پیوٹن نے نوازشریف کو شنگھائی تعاون کونسل کا مستقل رکن بننے کی مبارکباد پیش کی اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس سے بھی ملاقات کی اور انھیں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم، پاکستان میں براہ راست اور افغانستان کے ذریعے بالواسطہ بھارتی مداخلت اور دہشتگردی سے متعلق تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔اب ضرورت امن عالم کی طرف بریک تھرو کی ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں اپنے ثالثی کے اہم کردار کی تاریخی ناگزیریت کا ادراک کرے، ہوشمندانہ اور دانشمندانہ اقدامات کے لیے وقت سر پر آپہنچا ہے ۔ دیر کی گنجائش نہیں۔