پاکستان انصاف مانگتا ہے
شہباز شریف صاحب بڑے بھولے ہیں ان پر چونکہ ہر وقت کام کا بوجھ اور بھوت سوار رہتا ہے
اس ملک میں جب بھی احتساب کی بات ہوئی تو ہر طرف سے ہاہاکار مچ جاتی ہے اور ہر کوئی اسے اپنے خلاف سازش قرار دینا شروع کر دیتا ہے اور اس ہاہاکار میں پیش پیش ہمارے ملک کے سیاستدان سب سے زیادہ ہوتے ہیں چونکہ وہ اپنے اقتدار کے دوران اپنے آپ کو دنیا کی آلائشوں سے پاک نہیں رکھ پاتے اور جب احتساب کا نام آتا ہے تو پہلا شور بھی ان ہی کی جناب سے اٹھتا ہے اور معاملہ چور کی داڑھی میں تنکا والا ہوتا ہے۔
ہمارے انتھک خادم اعلیٰ جو کہ بلحاظ عہدہ وزیر اعظم کو جواب دہ ہیں لیکن ان کے حقیقی برادر خورد ہونے کے باوجود بعض دفعہ ایسی حقیقت پسند باتیں کر جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس موجودہ دور کے ماحول سے انتہائی تنگ ہیں جس کا اظہار وہ اکثر برملاء کرتے نظر آتے ہیں اور کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر موجودہ گلے سڑے نظام کے بارے میں انتہائی تلخ باتیں ان کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتی ہیں۔
ان کی اسی شرافت اور دیانتداری کا میں گرویدہ بھی ہوں اور ان سے شاکی بھی رہتا ہوں کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ اسی نظام کا حصہ ہیں اور پچھلے کئی برس سے حکمرانی کرنے کے باوجود اس میں بہتری تو کجا اس کی درست سمت بھی متعین نہیں کر سکے۔ ان کے بارے میں ان کے بڑے بھائی اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ میں شہباز شریف سے کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جذبات سے کام نہ لیا کریں لیکن وہ اپنی مرضی کرتے ہیں اور کسی کی نہیں سنتے۔
شہباز شریف بھی اپنے بھائی کے خاندان کے بارے میں پاناما پیپرز کی سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والی ٹیم کی تفتیش و تحقیقات کے بارے میں میدان میں آئے ہیں اور گھن گرج کے ساتھ بولتے ہوئے انھوں نے سپریم کورٹ سے ہاتھ جوڑ کر کہا ہے کہ ایک خاندان کے خلاف بندوق تان لینا کوئی احتساب نہیں اور احتساب سب کا ہونا چاہیے صرف وزیر اعظم کو نشانہ نہ بنایا جائے اور وزیر اعظم کے بچے کو ایسے بٹھایا گیا جیسے اس نے کوئی کرپشن کی ہو حالانکہ اس نے تو اس ملک کا دھیلہ نہیں لوٹا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر دور میں ہمیں ہی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اور دوسروں کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر سب کا احتساب نہ ہوا تو خدانخواستہ ملک آگے نہیں چل سکتا۔
شہباز شریف صاحب بڑے بھولے ہیں ان پر چونکہ ہر وقت کام کا بوجھ اور بھوت سوار رہتا ہے اور وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت بھی شاید کم ہی کرتے ہیں کہ ان کو معلوم نہیں کہ وزیر اعظم کے بچے پاکستان سے باہر کیسے کاروبار کر رہے ہیں اور وہ جو ہر ملک میں جا کر وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کے سرمایہ کاری کے حالات بتا کر پاکستان میں کاروبار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک خطیر رقم بیرون ملک سے پاکستان کاروبار کے لیے منتقل ہو رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں یہ تو وہ خوش کن باتیں ہیں جو کہ ہم اپنے وزیر خزانہ کے منہ سے سنتے اور سر دھنتے رہتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے حکمرانوں کو بھی یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ جو اربوں پاؤنڈ کا کاربار برطانیہ میں کر رہے ہیں وہ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تا کہ ان کی حکمرانی میں ہی یہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔
ہم من حیث القوم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں یا یوں کہیں کہ زندہ ہیں جہاں پر کوئی اخلاقی معیار و اقدار کی پاسداری نہیں کرتا اور ہر ایک اپنے مفادات میں ہی مگن ہے اس کو کوئی پروا ہ نہیں کہ ملک میں یا ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ان سب کو صرف اپنا مفاد ہی عزیز ہے اور وہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
احتساب کی بات کرتے کرتے شہباز شریف اس حد تک سچ بول گئے کہ اگلے ہی دن انھوں نے اس ملک کے تمام بااثر طبقات کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ سیاستدانوں سمیت ججوں، جرنیلوں، افسروں اور اشرافیہ نے پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اس ملک کا ہم پر بہت قرض ہے ہم اپنے بچوں کو وہ پاکستان نہیں دے پا رہے جو ان کا حق ہے وطن کی مٹی ہم سے آج بھی سوال کر رہی ہے کہ ستر برس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہماری ناکامیاں زیادہ اور کامیابیاں کم ہیں۔ سیاسی اور فوجی حکومتیں کوئی بھی اس ملک کے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتری ہیں اور ہم آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ شہباز شریف ایک نیک نیّت انسان ہیں لیکن اسی معاشرے اور اشرافیہ کا حصہ ہیں ان کی انقلابی باتیں ہمیں بہت بھلی لگتی ہیں لیکن ان باتوں کا ہم کیا کریں کہ ہمیں تو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہمیں تو ان سوالوں کے جواب چاہئیں جو کہ ہمارے حکمران ہی دے سکتے ہیں لیکن جب وہی اس طرح کے سوال اور مایوسی کی باتیں کریں گے تو عوام کہاں جائیں گے اور کس کے در پر دہائی دیں گے۔
محترم شہباز شریف کو پاکستان کو انصاف دلانے میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کرنے کے لیے اس موجودہ فرسودہ نظام کا حصہ بنے کے بجائے اس کو خیر باد کہنا ہو گا اور نئی شروعات کرنا ہوں گی کیونکہ قوم اب اس طرح کی باتوں سے تنگ آ چکی ہے اور وہ یہ جان چکی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو برسہا برس سے ان پر حکمرانی کر رہے ہیں اور اب اقتدار کے آخری دنوں میں ان کو انصاف اور ٹھنڈے کمروں سے نکل کر عوامی مسائل کو حل کرنے کی یاد آگئی ہے جسے دیر آید درست آید بھی نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان کو انصاف سیاستدانوں کی موجودہ نسل سے تو نہیں مل سکتا، اس کے لیے اس زر خیز مٹی کو نئے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو کہ پاکستان کے عوام کو انصاف دلا سکیں اور پھر کسی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
ہمارے انتھک خادم اعلیٰ جو کہ بلحاظ عہدہ وزیر اعظم کو جواب دہ ہیں لیکن ان کے حقیقی برادر خورد ہونے کے باوجود بعض دفعہ ایسی حقیقت پسند باتیں کر جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس موجودہ دور کے ماحول سے انتہائی تنگ ہیں جس کا اظہار وہ اکثر برملاء کرتے نظر آتے ہیں اور کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر موجودہ گلے سڑے نظام کے بارے میں انتہائی تلخ باتیں ان کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتی ہیں۔
ان کی اسی شرافت اور دیانتداری کا میں گرویدہ بھی ہوں اور ان سے شاکی بھی رہتا ہوں کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ اسی نظام کا حصہ ہیں اور پچھلے کئی برس سے حکمرانی کرنے کے باوجود اس میں بہتری تو کجا اس کی درست سمت بھی متعین نہیں کر سکے۔ ان کے بارے میں ان کے بڑے بھائی اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ میں شہباز شریف سے کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ جذبات سے کام نہ لیا کریں لیکن وہ اپنی مرضی کرتے ہیں اور کسی کی نہیں سنتے۔
شہباز شریف بھی اپنے بھائی کے خاندان کے بارے میں پاناما پیپرز کی سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والی ٹیم کی تفتیش و تحقیقات کے بارے میں میدان میں آئے ہیں اور گھن گرج کے ساتھ بولتے ہوئے انھوں نے سپریم کورٹ سے ہاتھ جوڑ کر کہا ہے کہ ایک خاندان کے خلاف بندوق تان لینا کوئی احتساب نہیں اور احتساب سب کا ہونا چاہیے صرف وزیر اعظم کو نشانہ نہ بنایا جائے اور وزیر اعظم کے بچے کو ایسے بٹھایا گیا جیسے اس نے کوئی کرپشن کی ہو حالانکہ اس نے تو اس ملک کا دھیلہ نہیں لوٹا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر دور میں ہمیں ہی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اور دوسروں کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر سب کا احتساب نہ ہوا تو خدانخواستہ ملک آگے نہیں چل سکتا۔
شہباز شریف صاحب بڑے بھولے ہیں ان پر چونکہ ہر وقت کام کا بوجھ اور بھوت سوار رہتا ہے اور وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت بھی شاید کم ہی کرتے ہیں کہ ان کو معلوم نہیں کہ وزیر اعظم کے بچے پاکستان سے باہر کیسے کاروبار کر رہے ہیں اور وہ جو ہر ملک میں جا کر وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کے سرمایہ کاری کے حالات بتا کر پاکستان میں کاروبار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک خطیر رقم بیرون ملک سے پاکستان کاروبار کے لیے منتقل ہو رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں یہ تو وہ خوش کن باتیں ہیں جو کہ ہم اپنے وزیر خزانہ کے منہ سے سنتے اور سر دھنتے رہتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے حکمرانوں کو بھی یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ جو اربوں پاؤنڈ کا کاربار برطانیہ میں کر رہے ہیں وہ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تا کہ ان کی حکمرانی میں ہی یہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔
ہم من حیث القوم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں یا یوں کہیں کہ زندہ ہیں جہاں پر کوئی اخلاقی معیار و اقدار کی پاسداری نہیں کرتا اور ہر ایک اپنے مفادات میں ہی مگن ہے اس کو کوئی پروا ہ نہیں کہ ملک میں یا ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ان سب کو صرف اپنا مفاد ہی عزیز ہے اور وہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
احتساب کی بات کرتے کرتے شہباز شریف اس حد تک سچ بول گئے کہ اگلے ہی دن انھوں نے اس ملک کے تمام بااثر طبقات کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ سیاستدانوں سمیت ججوں، جرنیلوں، افسروں اور اشرافیہ نے پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور اس ملک کا ہم پر بہت قرض ہے ہم اپنے بچوں کو وہ پاکستان نہیں دے پا رہے جو ان کا حق ہے وطن کی مٹی ہم سے آج بھی سوال کر رہی ہے کہ ستر برس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہماری ناکامیاں زیادہ اور کامیابیاں کم ہیں۔ سیاسی اور فوجی حکومتیں کوئی بھی اس ملک کے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتری ہیں اور ہم آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ شہباز شریف ایک نیک نیّت انسان ہیں لیکن اسی معاشرے اور اشرافیہ کا حصہ ہیں ان کی انقلابی باتیں ہمیں بہت بھلی لگتی ہیں لیکن ان باتوں کا ہم کیا کریں کہ ہمیں تو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہمیں تو ان سوالوں کے جواب چاہئیں جو کہ ہمارے حکمران ہی دے سکتے ہیں لیکن جب وہی اس طرح کے سوال اور مایوسی کی باتیں کریں گے تو عوام کہاں جائیں گے اور کس کے در پر دہائی دیں گے۔
محترم شہباز شریف کو پاکستان کو انصاف دلانے میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کرنے کے لیے اس موجودہ فرسودہ نظام کا حصہ بنے کے بجائے اس کو خیر باد کہنا ہو گا اور نئی شروعات کرنا ہوں گی کیونکہ قوم اب اس طرح کی باتوں سے تنگ آ چکی ہے اور وہ یہ جان چکی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو برسہا برس سے ان پر حکمرانی کر رہے ہیں اور اب اقتدار کے آخری دنوں میں ان کو انصاف اور ٹھنڈے کمروں سے نکل کر عوامی مسائل کو حل کرنے کی یاد آگئی ہے جسے دیر آید درست آید بھی نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان کو انصاف سیاستدانوں کی موجودہ نسل سے تو نہیں مل سکتا، اس کے لیے اس زر خیز مٹی کو نئے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو کہ پاکستان کے عوام کو انصاف دلا سکیں اور پھر کسی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔