امریکا سعودی فوجی اتحاد اور پاکستان

افسوس کہ ہماری خارجہ پالیسی حد درجہ غیر متوازن ہے

چشم حیرت کو یہ بھی دیکھنا مقصود تھا کہ امریکا اور سعودی عرب مل کر مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اتحاد بنائیں گے، سعودی دارالحکومت ریاض میں اربوں کی لاگت سے انسداد انتہا پسندی کا مرکز قائم کیا جائے گا، جس کا افتتاح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔

سعودی شاہ سلمان امریکی صدر کو جو تحفے ذاتی حیثیت میں دیں گے، یہ تحائف سعودیہ کی تاریخ کے سب سے مہنگے تحائف کہلائیں گے، سعودی شاہ شہر ریاض کی ایک سڑک کو ڈونلڈ ٹرمپ کے نام سے منسوب کر دیا جائے گا بلکہ سب سے بڑی شاہراہ پر امریکی صدر کا مجسمہ بھی بنا کر رکھ دیا جائے گا، اور امریکی صدر سعودی عرب کے ساتھ 400 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی ڈیل کریں گے اور یہ ڈیل دنیا میں طے پانے والی ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی سب سے بڑی ڈیل بن جائے گی۔

سعودی شہر ریاض میں منعقد ہونے والی امریکا عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ دورہ اس لحاظ سے بڑا کامیاب رہا کہ وہ اپنے ملک کے عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ عالم اسلام کی قیادت آج بھی امریکا کی مٹھی میں بند ہے جب کہ سعودی حکمرانوں کے لیے اس لحاظ سے بڑی کامیابی ہے کہ اس نے امریکا اور مغرب کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ آج بھی عالم اسلام کا لیڈر ہے جب کہ ایران جیسے اپنے مخالفین کو بھی پیغام دیدیا کہ امریکا آج بھی اس کی پشت پر ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ریاض میں امریکا سعودیہ فوجی معاہدے کو خود امریکی میڈیا نے بھی قبول نہیں کیا اور وہ اس کے خلاف سخت تبصرے کر رہا ہے اور ہماری دانست میں بھی اس عسکری اتحاد کے نتیجے میں فرقہ واریت میں اضافہ ہوگا، پاکستان کو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے عسکری حل منتخب کیا۔ کون نہیں جانتا کہ جب ایران عراق کے درمیان جنگ ہوئی تو اس دوران صرف ہتھیاروں کی خریداری پر 240 ارب ڈالر خرچ ہوئے اور یہ سارا اسلحہ مغرب سے آیا تھا، اس کے علاوہ دونوں ممالک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہونے کی وجہ سے 400 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس جنگ کا آغاز عراق نے کیا تھا۔

امریکا نے اپنے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اسی مقصد کے لیے تیار کیے ہیں اور امریکا کی یہ تاریخ بہت پرانی ہے کہ وہ ممالک کے درمیان جنگیں کرواتا ہے اور پھر انھیں اپنے ہتھیار فروخت کرتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی لیکن جب کانفرنس میں ایران کو ہدف تنقید بنایا گیا تو اس پر بھی پاکستان نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔

عقل و دانش کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کو واشنگٹن اور بیجنگ (چین) کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ہے کیونکہ یہ دونوں اہمیت رکھتے ہیں، اسی طرح پاکستان کو ایران اور سعودی عرب کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں ایک توازن برقرار رکھنا ہے۔ بہرحال سچائی یہی ہے کہ یہ کانفرنس ہماری خارجہ پالیسی کا بہت بڑا امتحان ہے اور وزیراعظم پاکستان کو ایران کا دورہ بھی کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے جانب دار ہونے کا تاثر ختم ہوجائے۔

ملکی اور بین الاقوامی افق پر گہری نگاہ رکھنے والے صاف طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا نے جو اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کیا ہے یہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال ہوگا یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے ہم نے جب بھی دوسروں کی جنگ میں مداخلت کی تو جنگ کی آگ کو اپنے وطن کا راستہ دکھایا۔ امریکی صدر کا پورے کا پورا ڈیٹا نیٹ اور میڈیا پر موجود ہے، وہ خود ایک نسل پرست مذہبی جنونی ہے، جو مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مروانا چاہتا ہے۔


اس برہنہ سچائی سے سبھی واقف ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا نشانہ بن گیا، اب ایک دفعہ پھر پاکستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے یہ جنگ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کی آگ بھڑکا سکتی ہے اور اس آگ کو بھڑکانے میں ہمارے پڑوسی ممالک بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں گے، پاکستان کو اگرچہ امریکا سمیت تمام مغربی ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں لیکن ان تعلقات کی قیمت پاکستان کی سالمیت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔

افسوس کہ ہماری خارجہ پالیسی حد درجہ غیر متوازن ہے۔ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا لیجیے اور دیکھیے کیا تصویر بنتی ہے ہمارے ملک اور معاشرے کی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عرب دنیا اور چین سے ہمارے رشتے کتنے ہی گہرے، ضروری اور سود مند کیوں نہ ہوں ہمیں پہلے اپنی جنوبی ایشیائی شناخت سے نباہ کرنا ہے اور اس تناظر میں اپنے دوسرے تمام رشتے استوار کرنے ہیں۔ تاریخ سے چھپنا یا اگر ہم میں ہمت ہو تو تاریخ کو بدلنا تو ممکن ہے لیکن جغرافیہ کو بدل دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔

ہمارا جینا مرنا تو جنوبی ایشیا کے آنگن میں ہے اور پھر ہم جس مٹی سے اُگے ہیں اس کی اپنی چند خصوصیات بھی تو ہیں۔ لیکن وائے افسوس ہمارا سب سے بڑا ملکی المیہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنے کسی بھی بڑے قومی المیے کی وجوہات کو تلاش کرنے اور اسے سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ہم بار بار غلطیاں کرتے ہیں بار بار ٹھوکریں کھا کر منہ کے بل گرتے ہیں لیکن قومی نوعیت کی کسی غلطی سے کبھی کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے دوبارہ پرانی غلطیوں کا ارتکاب شروع کردیتے ہیں اور پھر ان غلطیوں سے نئے المیے جنم لیتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جو کچھ اب تک ہوا اور آگے ہونے جا رہا ہے اس کا فائدہ اسرائیل کو اور نقصان صرف مسلمانوں کا ہی ہوگا۔ ایران اور سعودی عرب ماضی میں بھی مخالف تھے لیکن کم ازکم اسرائیل کے دونوں یکساں مخالف تھے۔ اب دونوں کی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف ہی صرف ہوں گی۔ پہلے صرف خطے میں فلسطین کا بحران تھا تمام عالم عرب اور ایران اپنے اپنے طریقے سے اسرائیل کے خلاف متحرک تھے لیکن اب فلسطین سے زیادہ شام اور یمن علاقائی اور عالمی افق پر چھا گئے ہیں جہاں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ظہیر کاشمیری نے کئی عشرے قبل یہ شعرکہا تھا،

عجم میں شعلہ بہ کف پھر رہے ہیں دیوانے
بھڑک اٹھے نہ کہیں دامن ِ عرب دیکھو

سوال یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان اپنے کردار کا تعین کیسے کرے گا کیونکہ ایک طرف سعودی عرب اور اس کے دیگر عرب اتحادی ہیں اور صرف پاکستانی حکمراں طبقہ اور فوج کے ان ممالک کے ساتھ قریبی روابط ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت بڑی حد تک ان ممالک سے جڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف ایران ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بھی ہے۔ تاہم کڑوا سچ یہی ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بیتے ہوئے ان برسوں کے دوران وہ گرم جوشی اب دیکھنے میں نہیں آتی جو کبھی ہوا کرتی تھی اور اس کی واحد وجہ عرب ممالک کے خراب حالات اور سعودی عرب و ایران تنازعات ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان جن کا سعودی عرب سے ذاتی طور پر انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلق ہے لیکن وہ سعودی حکومت کی خواہشات کے مطابق ان کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں جس کی بڑی وجہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات ہیں۔

سعودی عرب اور ہمارے دیگر برادر اسلامی ممالک کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ پاکستان جوکہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے اس کی مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے مسائل کو سمجھتے ہوئے اتنا ہی تعاون طلب کیا جائے جو اس کے لیے کرنا ممکن ہے اور آفاقی سچائی یہی ہے کہ پاکستان روز اول سے پورے عالم اسلام کے اتحاد کا داعی ہے۔ اور پاکستان کو اپنی یہ پوزیشن برقرار رکھنی چاہیے اور انتہا پسندی کے خلاف بننے والے اتحاد میں اسی وقت شامل ہونا چاہیے جب اس امر کی قابل اطمینان ضمانت مل جائے کہ یہ اتحاد کسی مسلم ملک یا علاقے کے نہیں بلکہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہے خواہ وہ کہیں بھی ہو۔
Load Next Story